Main Menu

رياست جموں کشمير کا مسئلہ ، تحريک ، جہاد و مستقبل بارے کامريڈ حبيب الرحمن کا بے لاگ انٹرويو

Spread the love

انٹرويو: سابق مرکزی ترجمان و ممبر انٹر نیشنل کمیٹی جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کامريڈ حبیب الرحمان

انٹرویو کنندہ : ساحل ایاز

رياست جموں کشمیر کی سر زمین میں ایک عجیب الجھی ہوئی سر زمین ہے جس کے چاروں جانب محبت ہی محبت نظر آتی ہے یعنی محبتوں کی امین سر زمین اور ساتھ ہی خون سے بھری اس کی تاریخ بھی ہے۔ کشمیر کی سر زمین پر ایک طویل اور تاریک جنگ جاری ہے اور کئی نسلوں نے گولیوں اور بارود کے ڈھیر پر بیٹھے زندگی گذاری ہے یعنی ان نسلوں نے اپنے خوابوں کو انسانی خون کے دریاوٗں میں ڈوبتے دیکھا ہے۔
کشمیر کے مسئلے کے حل نہ ہونے کے یوں تو بے شمار اسباب ہیں جو اندرونی ،علاقائی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی بھی ہیں جن کے باعث یہ سوال حل ہونے کی طرف نہیں جا رہا۔

بدلتی دنیا میں خونی تبدیلیوں کے باوجود جموں  کشمیر کے حالات جوں کے توں ہیں ا س ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنے اور جارحانہ رویہ رکھنے کی شہرت پانے والے جموں کے رہنما راجہ حبیب الرحمن سے ملاقات کا اہتمام کیا اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو آپ کی نظر کر رہے ہیں۔

انٹرویو کے دوران ہمیں ریکارڈنگ سے روک دیا گیا بحرحال ایک انتہائی خوبصورت نشت ہوئی۔

راجہ حبیب الرحمن کشمیر کی بائیں بازو کی ایک پارٹی جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے انٹرینشنل کمیٹی کے ممبر کے ساتھ ساتھ مرکزی کمیٹی کے ممبر اور زونل سیکریٹری جنرل بھی ہیں واضح رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کو واحد ترقی پسند پارٹی سمجھا جاتا ہے جو کمیونسٹ نظریات پر یقین رکھتی ہے جو ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کو قابض قرار دیتی ہے۔

سوال: کشمیر کی سیاست میں آ پ بہت متحرک رہتے ہیں اور بر صغیر کی مجموعی سیاست اور کشمیر کی صورتحال کوآپ کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: یہ بہت وسیع سوال ہے اور اتنے وسیع سوال کے تناظر میں بر صغیر کی سیاست کے ہر اقدام پر نہیں بولا جا سکتا اگر آ پ راضی ہوں تو میں صرف یہاں کے لوگوں کے متعلق بولوں کہ یہاں غلامانہ طرز کی سوچ حاوی رہی ہے اور حکمرانی کرنے والی قوتیں خواہ وہ وسط ایشائی حملہ آور تھے انگریز یا ان کے جانے کے بعد ان کے فرمانبردار سبھی نے بر صغیر میں غلامانہ سوچ کی جڑوں کو بڑا گہرا پیوست کیا ہے اور بر صغیر کا یہ حصہ جسے پاکستان کہتے ہیں نے تو غلامانہ زندگی گذارنے کا تو ایک منظم اصول و ضح کر لیا ہے کہ عوام پر سختیاں اورجبر مسلط رکھو اور بدیشی حکمرانوں کو لوٹ مار کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ کسی قوم کو ا س کی شناخت دینے ان کی تاریخی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری یہ طبقہ عربوں کی تہذیب ثقافت اور عرب قبائل کی مگر وہ روایات کو یہاں کے عوام پر مسلط کر کے ان کو بے بس کردیا ہے اور یہ سب وہ تقدس کے تمام پہلووٗں کی روشنی میں کرتے ہیں بحرحال غلامی کا طرز فکر اور اس کے اسباب یہاں زیادہ رہے ہیں جس نے اس سب کو تسلیم کرنے سے انکار کیا وہ مجرم ٹھرا ، تاریخی سچائیوں کی کوئی گنجائش نہیں یا تو جبر کو فلک کا لکھا تسلیم کرو ورنہ برباد ہو جاوٗ۔

سوال: تو پھر آپ گاندھی اور قائد اعظم کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: ” مسکراتے ہوئے” آپ کو اندازہ نہیں کہ یہ دونوں کیا تھے بڑی سادہ سی بات ہے کہ گاندھی انسانوں کے آدمی ہونے کا کہتا تھا جبکہ جناح تو انگریزوں کا اپنا آدمی تھا اس کا اس خطے کے انسانوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

سوال: جموں کشمیر کی آزادی کی تحریک پر آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: جموں کشمیر میں ایک سچی اور حقیقی ٓزادی کی تحریک کا آغاز ہوا نہیں تو اس کو دیکھا کیسے جائے؟ یہاں تو آزادی کی تحریک کے نام پر مذاہب کو باہم لڑایا گیا ۔ دونوں ملکوں کے حکمران طبقات نے اپنے تنخواہ دار لوگوں کے ذریعے کشمیر کے حسن اور خوبصورت لوگوں کی آپسی محبت کا قتل عام کیا ہے، مذاہب قوموں کی آزادی کی تحریکوں کی رہنمائی نہیں کر سکتے۔

سوال: مذہب کو آزادی کی تحریک میں کون لایا؟

جواب: یہ بہت گہرا، باریک اور الجھا ہوا سوال ہے، اب میں کیا کہوں ؟ کہ مذہب کو کون آزادی کی تحریک میں لایا ؟ اس کا جواب تو وہی زیادہ بہتر دے سکتے ہیں جو اس کھیل کے تجربہ کار کارندے ہیں اور انسانی کشت و خون میں ماہر ہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ رياست جموں کشمير کی عوام مذہب کو آزادی کی تحریک میں نہیں لائے اور نہ وہ اس پر یقین رکھتے ہیں ۔ رياستی عوام میں مذہبی رواداری بہت زیادہ ہے ۔ شاید بر صغیر کے سب علاقوں سے زیادہ ، لیکن رياست جموں کشمير کے عوام کی معصومیت نے ان کی مظلومیت میں بے انتہا اضافہ کردیا۔

سوال: 1947 میں ہندوستان اور پاکستان دو ملک مذہبی بنیادوں پر قائم ہوئے تو لامحالہ جموں کشمیر بھی اس سے باہر تو نہیں رہ سکتا تھا ؟

جواب : 1947 میں دنیا بھر میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کے قبضہ گیروں کا جاناٹھر گیا تھا انگریزوں نے جانے سے پہلے اس پر بہت غورکر کے تقسیم کو عملی جامہ پہنایا۔ ہندو مسلم تنازعہ اس لیئے نہیں ہوا کہ وہ کوئی دو الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھتے تھے بلکہ یہ تنازعہ تو نوکریاں اور عہدے نہ ملنے کی مایوسی کا رد عمل تھا جس کا مسلمان زیادہ شکار تھے اور اس مایوسی کو 1906میں مسلمان جاگیرداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر دور کرنے کے دعوے کے ساتھ اس تنازعے کا سیاسی جواز مہیا کیا گیا۔ اس پورے کھیل کا تو عام مسلمانوں کو پتہ بھی نہیں تھا خدا کی مملکت میں ان مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے؟ یہ لمحہ لمحہ نظر آرہا ہے۔ بحرحال بر صغیر کی تقسیم طے شدہ تھی اور انگریز یہاں سے چلا گیا ۔ جانے کے بعد ہندوستان میں اس نے عمل دخل کم رکھا لیکن پاکستان کو غلام بناکے رکھا ہوا ہے اور یہ غلام پاکستان اپنے سے کمزوں کے خون پر پل رہا ہے۔ انسانوں کے خون پیتے پاکستان کو آپ بلوچستان ، پختون خواہ سمیت جموں کشمیرمیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جب اس طرح کی ریاستیں وجود میں آتی ہیں تو ان کا لازمی نتیجہ بربادی ہوتا ہے۔

سوال: آپ جموں کشمیر کو بد قسمت سمجھتے ہیں یا خوش قسمت؟

جواب: تاریخی پراسس میں جموں کشمير کے ساتھ جو کچھ ہوا یا جموں کشمیر کے لوگوں نے جو کچھ کیا اس کو ذہن میں رکھ کر رياستی عوام کو معلوم ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

سوال: جموں کشمیر کا مستقبل آپ کو کیا دکھائی دیتا ہے؟

جواب: جموں کشمیر کے عوام یقیناًاپنے کھوئے ہوئے مرتبے کو ضرور پائیں گے یہ کہنا میرے لیئے مشکل ہے کہ کب آزادی سے ہمکنار ہونگے۔ بہت جلد تو بحرحال نہیں۔ تحریک کو مسخ کر دیا گیا ہے ۔ عوامی شمولیت کوئی تیسرے چوتھے درجے پر چلی گئی ہے فی الحال تو دونوں قابض ملکوں کا طوطی بول رہا ہے ان کی بندوقیں ہیں اور ہمارے نہتے عوام ، ان کے بم ہیں ہماری مظلومیت ان کی چرب زبانی مکاری اور چالاکی ہماری معصومیت ۔ یوں بھی ان دونوں ملکوں کو وفادار فرمانبرداروں کی ایک بڑی تعداد میسر ہے ، جن کے ذریعے وہ ہمارے اوپر جبر کے اندھیرے مسلط کیئے ہوئے ہیں۔ جلد یا بدیر ایک سچی قیادت ابھرے گی جو سارے عوام کو آپس میں جوڑ دے گی اور وہی ایک سچی آزادی کی ضامن بنے گی۔ فی الحال تو صورتحال کوئی زیادہ کامیابی کی طرف جاتی نظر نہیں آتی۔

سوال: جولائی  1988کے بعد کشمیر میں ایک بڑی عوامی تحریک دیکھی جا رہی ہے آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟

جواب: محسوس تو کئی چیزیں کر رہا ہوں اور نہیں جانتا کہ اس محسوسات کو کہاں تک محدود رکھوں جو ہم یعنی عوام چاہتے ہیں یہ دونوں ملک دینا نہیں چاہتے۔ ہر دو طرف سے وہ مارنے اور برباد کرنے پر یقین رکھتے ہیں ان دونوں ملکوں کو یہ ماننا پڑ رہا ہے کہ کشمیری عوام کے اندر آزادی کی شدید خواہش ہے۔ جب یہ اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں اس کی حدت بڑھتی ہے تو کشمیریوں کی گرمائش میں اضافہ ہوتا ہے تو ان کا جبر بھی بڑھ جاتا ہے۔ سازش مکاری چالاکی کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ جب عوام آپس میں جڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ دونوں ملک مذہبی نفرتوں کو ہوا دیتے ہیں اپنے کارندوں کے ذریعے فسادات کروا دیتے ہیں۔ مندروں اور مسجدوں میں مورچے لگوا دیتے ہیں جبکہ اس طرف یعنی آزاد کشمیر اور گلگت (ہنستے ہوئے اگر یہ آزاد ہیں تو)میں ایک شخص کے طور پر بھی عزت نفس نہیں۔ قبا خانہ کی سطح کا وقار اور مرتبہ نہیں کہ اس طرح کے اڈے چلانے والوں کے بھی کچھ قواعد و ضوابط اور اصول ہوتے ہیں (باوجود اس کے کہ وہ آپ کو پسند نہیں ہیں) لیکن ان ٹوڈی پروردوں کا دلال سے بھی کم رتبہ ہے۔ یوں سمجھئے کہ جانور کو بھی اگر کسی جگہ جانے سے روکا جائے تو ایک دو بار کے تجربے سے وہ بھی سیکھ جاتا ہے پھر اس طرف نہیں جاتا لیکن گلگت اور مظفرآبادکے دربان ان درباروں سے بارہا رسوا ہوکر آئے ہیں اور آئے روز ہوتے ہیں لیکن مجال ان کو کوئی شرمندگی ہوتی ہو۔ یہ کوتا قامت تو اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے مالکوں سے بخششیں ہی لے لیں ان کا سب زور اس بات پہ ہے کہ عوام کو الجھا کے رکھا جائے، ظاہر ہے اس الجھی ہوئی کیفیت میں یہ اپنے آقاوٗں کی خدمت زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔

رہا سوال 1988 سے شروع ہوئے ابھار کا تو پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ آیا یہ کوئی تحریک تھی کہ نہیں اور اگر تھی تو اس کے خدوخال کیا تھے ا س میں جموں اور لداخ کے عوام کی شرکت کس سطح کی تھی یا یہ کہ یہ صرف مسلمانوں کا غیر مسلموں کے خلاف کوئی عمل تھا۔
اس عمل کو شروع کرنے والے تو باقاعدگی سے یہ مان چکے ہیں کہ آئی ایس آئی کے ساتھ ساز باز کرکے اس کی شروعات کی گئی تھی ، یہاں تک کہ وہ ان کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں بھی بیٹھنا چاہتے تھے۔

بحرحال یہ جموں کشمیر کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے تھے ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ کشمیری مسلمانوں کی کافروں کے خلاف ایک مہم تھی جس میں بے شمار انسانی جانوں کا جانا بچوں کے یتیم ہونے اور خواتین کی بے آبروئی کا سبب تو بنا لیکن ایک لاکھ کے قریب زندگی ہار جانے کے باوجود اس کو کوئی اس سے زیادہ تسلیم نہیں کر سکا کہ یہ ایک مذہب کے ماننے ولاوں کی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے خلاف لڑائی ہے۔ اب حال ہی میں جموں، سرنیگر اور لداخ میں ہونے والے انتخابات کے نتائج نے تو کھلے عام یہ ثابت کر دیا کہ ریاست کے ہندوستانی حصے میں عوامی سطح پر کتنی مذہبی نفرت ہے ۔ ایسی کیفیت میں آپ کیا پشن گوئی کر سکتے ہیں بس یہی کہ یہ ذہنی تقسیم کہیں جغرافیہ تقسیم نہ بن جائے۔ جبکہ اس طرف یعنی پاکستانی حصے میں تو پاکستان کی پارٹیوں نے براہ راست کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے ، سونے پہ سہاگہ یہ کہ فوج کی چھوٹی بڑی چھاونیاں دہرا کنٹرول رکھتی ہیں۔ بلکہ اس طرف کے عوام کو غلامی میں زندگی گذارنے کے فیوض و برکات سے بھی روشناس کروایا جاتا ہے ، جبکہ قوم پرست گروپوں کے مسائل ہی دوسرے ہیں جن کی زندگی مسلسل خطرات سے دو چار ہے وہ یہاں سے بھاگ بھاگ کر یورپ کے ملکوں میں پناہ گیر بن جاتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ بعد مالی استحکام حاصل ہو جانے پر وہ بھی پاکستان کے ارباب اختیار کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں سو ایسی صورتحال میں کونسی تحریک اور کون سا مستقبل ہاں کچھ گروپ ایک یادو چھوٹی چھوٹی جماعتیں بہتر سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے حجم اور سکہ بند صورتحال کی وجہ سے آگے بڑھ نہیں پا رہے ہیں جو اس خلاٗ کو پر کر سکیں قومی تحریکیں وسیع تر عوامی تحریکیں ہوتی ہیں عوام صرف مسلمان نہیں ہوتے۔

سوال: آپ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے حال میں کسی تبدیلی کو دیکھتے ہیں؟

جواب: ہاں ایک بڑا ذہنی ابھار ہے نوجوانوں کے اندر اپنی سر زمین سے محبت کے جذبات زیادہ ابھرے ہیں۔ ماضی میں خود مختیار کشمیر کا نام لینا نہ صرف غداری بلکہ کفر تھا لیکن آج صورتحال بہت تبدیل ہو چکی ہے آج عوام خود مختیاری سے ہت آگے انقلاب کی بات بھی کر رہے ہیں اور طبقاتی تفریق اور جدوجہد پر بھی بحث ہو رہی ہے ایک بڑا خام مال د ستیاب ہے یہ تو پھر ان تنظیموں ی صلاحیت پر منحصر ہے کہ س ٹھوس انداز میں اس سب کو جوڑ کر ایک مزاحمتی تحریک کی شکل دے سکتے ہیں کہ نہیں َ ؟ یہ ان کی محنت اور شعور کا امتحان ہے۔ ابھی شاید ان میں اتنی تنظیمی قوت نہیں ہے کہ سب کو جوڑ سکیں یا جذب کر سکیں لیکن کبھی کسی کو تو یہ کرنا پڑے گا۔ اگر یہ اسی طرح فرقے اور قبلیوں برادریوں تعصبات میں ا لجھے رہے تو مٹ جائیں گے۔

سوال: تو اس کا مطلب ہے کہ آپ قیادت کا کسی حد تک خلا محسوس کرتے ہیں اس صورتحال میں آپ کشمیر میں کوئی حقیقی عوامی تحریک بنتی دیکھ رہے ہیں؟

جواب: پہلے کے مقابلے میں بہت فرق ہے چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں عوام کے ذہنوں میں سوالات اور انتشار ہے عوام اس غلامانہ زندگی سے نفرت کرتے ہیں جس طرح 1947 میں ریاستی جبر سے نفرت کر کے سیاسی نظام بدلنے کے لیئے باہر نکلے لیکن اس کی حاصلات میں دھرتی کی تقسیم خاندانوں کا عمر بھر کے لیئے بچھڑ جانا دربدری اور دوسروں کی چاکری جیسی ذلت آمیز زبندگی ملی اور آج اس تجربہ کو سامنے رکھ کر وہ فوری طور پر کسی بڑی تحریک کا شاید جلد حصہ نہ بنیں لیکن وہ یہ صورتحال نہیں چاہتے جس میں وہ رہ رہے ہیں اس کو وہ بدلنہ چاہتے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف طاقت ہے وسائل ہیں فوج ہے چاہے وہ اس طرف کی ہے یا اس طرف کی جبکہ ہمارے پاس آزادی کی سوچ شعور تدبر اور فراست ہے اور عوام کی ہمدردیاں جو شاید ابھی میٹریل شکل میں اپنا اظہار نہیں کر رہی۔ ہم کشمیر کے تینوں حصوں میں پا بندیوں میں رہ رہے ہیں اذیت ناک جبر ہے قابضین کے پاس قید کرنے اٹھالے جانے اور قتل کرنے کا اختیار بھی ہے اور طاقت بھی جس کا وہ سیاسی معاشی، معاشرتی اور تعلیمی ہر سطح پر بے دریغ استعمال کرتے ہیں بچوں کو جماعت اسلامی طرز کی تنظمیوں کی سرپرستی میں دے کر حب الوطنی سر زمین سے فطری محبت اور اپنے عوام سے وفاداری کے قدرتی رویوں اور جذبوں کو چھین رہے ہیں عرب اور وسط ایشیائی حملہ آوروں کی مدائی سرائی کے گیت یاد کروائے جاتے ہیں ان کو آزادی سے نفرت اور غلامی کو قبول کروانے کے لیئے زہر میں گڑھ ملا کر کھلا رہے ہیں جس سے ذہنی انتشار بڑھ رہا ہے لیکن ان کی یہی طاقت ان کی کمزوری ہے ۔ ان کی یہ خونخواری ان کی موت ہوگی ۔ وہ وقت آئے گا کہ ہم زیادہ طاقت میں ہونگے۔ اس طاقت کی بہت سخت ضرورت ہے اس طاقت کو اگر جلد حاصل نہ کیا گیا یعنی عوام لڑنے کے لیئے نہ نکلے یا بہت دیر کی تو ہمیں بحیثیت مجموعی بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہم اقلیت میں چلے جائیں گے کرسیوں پر نئے آقا بیٹھے ہونگے اور ہم خدمت پر مامور ان کے چوبدار۔ ہمیں سوچنا پڑے گا ایک ہوجانے کا، مل کر چلنے کا، دو مختلف کیفیت اور نوعیت کے قابض دشمنوں کی طاقت کا تجزیہ کر کے اس کو سمجھ کر کے آزادی کے لیئے مرنا پڑے گا بصورت دیگر نہ شناخت اور نہ وقار ۔ کشمیر کے تینوں حصے کی قیادت کو جو کم از کم اپنی آزادی، وقار اور معاشرتی انصاف تسلیم کرتے ہیں کو تفکر کر کے متحرک ہونا ہوگا۔ ایک بڑا محاذ یا اتحاد بنانا ہوگا قابضین بحرحال مضبوط ہیں ان کے پاس موٗثر پراپیگینڈہ کرنے کے وسائل بھی ہیں اور آلات بھی۔ کم تعلیم یافتہ کشمیری شاید ریاضی اورکمیسٹری پر عبور نہیں رکھتا لیکن اپنی تاریخ جانتا ہے اپنی شناخت پر فخر بھی کرتا ہے۔ ابدالی، محمد بن قاسم ، بابر جناح اور کرم چند گاندھی ہماری شناخت نہیں ہیں یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی ہماری شناخت نہیں۔ ہم سب سے پہلے اس سر زمین کے فرزند ہیں اور مفلوک الحال عوام کے بیٹے اس کے بعد آپ مسلمان ہیں ، ہندو، بدھ یا عیسا ئی ، ہاں ہمارا نام کشمیر ہے لیکن کسی کشمیری کے اختیار میں نہیں ۔ ہمیں اختیار نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی تاریخ اپنی زبانوں تمدن تہذیب و ثقافت کی تعلیم دے سکیں اپنے وسائل کو خود استعمال میں لا سکیں ۔ ہر طرح کے معاشی جبر سے چھٹکارا حاصل کر سکیں جو لوگ اس سب و سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں یقیناً ایک دن ضرور کامیاب ہونگے ہم اپنا کردار ضرور ادا کریں گے کہ تمام دست سمجھنے اور سوچنے والے مل کر چلیں عوام کو متحرک کریں یہی طریقہ اور سلیقہ ایک بڑی عوامی تحریک کو جنم دے سکتا ہے جس کے امکانات بہت ہیں لیکن شاید وقت زیادہ لگ جائے۔ اگر کوئی سلجھی ہوئی قیادت اور پارٹی آگے بڑھ جاتی ہے تو وہ سب کو اپنے اندر سمیٹ لے گی جذب کر لے گی وقت کو زیادہ برباد ہونے سے بچا لے گی تحریک کو نکتہ عروج پہ لے جائے گی ورنہ اندھیرا ہے۔

سوال: ایک آزاد جموں کشمیر ریاست میں آپ کیسا نظام چاہتے ہیں؟

جواب: غریب عوام کا کشمیر وسائل تعلیم اور مواقع پر سب کا برابر حق ہے۔ حقیقتا اور عملا سب برابر ہوں۔ سب کا حق یکساں ہو۔ بربریت نفرت اور جارحیت کے بغیر ایک صاف ستھرا اعلیٰ انسانی اوصاف والا ملک اور معاشرہ جہاں تمام قومیتوں زبانوں ور مذاہب کے لوگ مل کر رہنا سیکھ گئے ہوں۔

سوال: جہادی تنظیموں کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: دسویں صدی کی تاریخ کے اوراق سے گرد جھاڑ کر جہاد کا احیاء اس وقت کیا گیا جب افغانستان میں تر کئی کی قیادت میں ثور انقلاب برپا ہوا بس کیا تھا جیسے قیامت برپاء ہو گئی ہر سو صف ماتم بچھ گئی امریکہ اور اس کے حلیفیوں کی خوفزدہ بے چینی ہی بنیادی طور پر جہاد کو منظر شعود پر لائی۔ جس نے افغان عوام کو برباد تو کیا ہی لیکن اس کے اثرات ارد گرد ہر جگہ پر پڑے۔ معاشی تنگدستی ، غریبی، لاچاری، ور بے یقینی کا شکار نوجوان اس جہاد کے لئے بڑا مفید ایدھن ثابت ہوئے جس نے ہر چیز کو بھسم کر کے رکھ دیا۔
افغان جہاد میں جب شدت کم ہوگئی تو اس اتنی بڑی سپاہ کو کشمیر کی طرف دھکیل دیا گیا تاکہ یہ وہاں مصروف رہیں اور پاکستانی ریاست کو کسی مشکل سے دو چار نہ کریں ان کی وہاں تعیناتی سے پہلے کشمیر میں دائیں بازو کے ایک نیم قوم پرست دھڑے کو منظم کیا گیا اس کو تربیت اسلحہ دیکر منصوبہ بندی سے میدان میں اتارا گیا حالانکہ اس دھڑے کی اس وقت کی قیادت کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن تحریکوں سے کی باریکیوں سے نا واقف نہ مانے سو اس کے نتائج آج وہ بھی بھگت رہے ہیں اور عوام بھی۔
مقبول بٹ کی شہادت نے بہت غصے کے ساتھ معاشرے کی نچلی سطحوں تک سوالات کو جنم دے دیا تھا پاکستانی اداروں نے ان جذبات کو میمیز دینے کے لیئے لوگوں کو استعمال کرنا شروع کر دیااور ساتھ ہی اپنے خاص کارندے بھی میدان میں اتارے جنہوں نے نرسری کی طرح جہادی تنظیموں کا ایک جنگل اگا دیا شاید ہی کوئی اسلامی فاتح اور سپہ سلار بچا ہو جس کے نام پر ایک رجمنٹ قائم نہ کی ہو۔ ان اللہ سپاہیوں نے وہ گل کھلائے کہ ایک اچھا بھلا بڑھتا عوامی ابھار جس نے سب کو سمیٹ کر آزادی کا سفر شروع کرنا تھا کو برباد کر کے رکھ دیا چند ہی سالوں میں کشمیر کے عام لوگوں نے ان مجاہدوں سے علحیدگی اختیار کر لی اور اب یہ چھپ چھپا کر اکا دکا کاروائی کرتے ہیں اور وہ گروپ جو اس سب کا آغازبنا تھا نے مسلح جدوجہد ترک کر کے سیاسی راستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا۔
بحرحال ان جہادی تنظیموں کے نظم و نسق طریقہ کار اور طر زعمل میں لوگوں کی زندگی کو محدود کرنا اپنے اور اپنے ہم خیالوں کے علاوہ باقی کوئی بھی قابل قبول نہیں۔

یہ تنظیمں اس طرح کی درجہ بندی میں ہیں ۔
حزب المجاہدین یہ جماعت اسلامی ا مسلح ونگ ہے اور کشمیر بيسڈ ہونے کا دعوہٰ کرتی ہے جو شاید صلاح الدین کی سر پرستی میں کام کرتی ہے اس کے وسائل کبھی کم نہیں ہوتے ہاں البتہ اگر کبھی نادیدہ قوتیں تعاون سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ تھوڑی سست ہو جاتی ہے۔ اسی تنظیم نے اسلامی چھاترو کے نام سے آزادی کی جنگ لڑنے والے بنگالی عوام کا قتل عام کیا تھا پاک فوج کا دستہ بن کر لوٹ مار اور عصمت دری کے واقعات میں بری طرح ملوث رہی اس کے ان رہنماوٗں کو آج حسینہ واجد پھانسیاں دے رہی ہے ان جرائم کے الزامات میں۔

حرکت الانصار ، حرکت الجہاد ، جیش محمد، لشکرطیبہ، حرکت المجاہدین اور اسی طرز کے کئی اور گروپ بھی سرگرم ہیں جو صورتحال کو مکمل طور پر برباد کر رہے ہیں ظاہر ہے ان گروپوں کو کشمیر کے عوام کی حمایت تو حاصل نہیں ہے باہر سے گئے ہوئے یہ لوگ کشمیر کے اصلی اور قدیمی باشندوں کو قتل کر رہے ہیں یا ان کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا ہے یہ گروہ اپنے مرکز کے ساتھ مکمل جڑے ہوئے ہیں جب رسد زیادہ مل جائے تو ان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو جاتاہے نہیں تو اپنے کیمپوں میں آرام فرماتے ہیں اور کچھ تبلیغ کے لیئے نکل جاتے ہیں۔

زیادہ واضح بات یہ ہے کہ افغانستان سے سیکھے ہوئے ہنر کو بڑی اچھی طرح استعمال کرتے ہیں ۔بظاہر تو یہ اللہ کے مجاہد ہیں لیکن حقیقت میں یہ پاکستانی فوج کے پرائیوٹ دستے ہیں جن کے ذریعے یہ سول آبادی کو کنٹرول کرتے ہیں۔

سوال: یعنی آپ ان کو آزادی کی پسند نہیں سمجھتے؟

جواب: یہ آزادی کے مفہوم سے واقف ہی نہیں ہیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے یہ تو عقیدے کی بنیاد پر دوسرے عقیدے والوں کو قتل کر رہے ہیں۔

سوال: جے کے ايل ايف کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: یہ دائیں بازو کے ایک مبہم قوم پرست خیالات کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے جو نسبتا کم فرقہ واریت کا شکار ہے لیکن زیادہ نمائندگی اسلام کے ماننے والوں کی ہی کرتے ہیں جیسے کوئی د و سال پہلے ان کے چیئرمین یٰسین ملک نے تمام ہندوٗں کو انڈیا کا ایجنڈا قرار چکے ہیں راولپنڈی کی کسی محفل میں۔
سوال: جموں کشمير پيپلز نيشنل پارٹی کیا کر رہی ہے؟
جواب: جموں کشمير پيپلز نيشنل پارٹی نے اور کچھ بھی نہ کیا ہو لیکن یہ ضرور کیا ہے کہ معاشرے کی نچلی سطح تک ایک سچی آزادی اور حقیقی انقلاب کی بحث کو لیکر گئی ہے ۔ جدید نظریات، قومی آزادی اور اس میں عوام کی شرکت کے سوال کو شدت سے اٹھایا ہے کہ جو جس کا غلام ہے وہ اس کے خلاف جدوجہد کرے اسے پہلے صرف سرنیگر میں پاکستان کے جھنڈے لہرانے کے اعلانات ہی ہوتے تھے۔
پارٹی اپنا پروگرام اور منشور دے چکی ہے جلد یا بدیر سب کو اسی راستے کو اختیار کرنا پڑے گا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے بھی نہیں۔

سوال: آزادی کی تحریک کو درست راستے پر چلانے کے لئے آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟

جواب: اپنے عوام پر پختہ یقین فرقہ واریت اور مذہبی نفرت کو تحریک سے مکمل طور پر الگ کیا جائے قابض ملکوں کی بلا واسطہ جنگ لڑنے سے مکمل انکار کیا جائے۔ ایک جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنا بہترین ہے یا کم از کم ایک یونائیٹیڈ فرنٹ تشکیل دیا جائے۔

سوال: قوم پرستوں کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: قوم پرست تاریخی تناظر کو سمجھنے سے عاری ہیں وہ بہت پیچھے کھڑے ہیں ابھی ان میں چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت کی کمی ہے بے سر و پا بھاگ رہے ہیں ان کو زیادہ گہرائی ہے سوچنے کی ضرورت ہے۔

يہ انٹرويو 15 اگست 2015 کو ليا گيا تھا۔ پونچھ ٹائمز نے ويب آرکيو سے حاصل کيا ہے۔






Related News

ردانقلابی قوتون کو ہمیشہ عالمی سامراج کی مدد و حمایت حاصل رہی ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا انٹرویو

Spread the loveسوال: بحیثیت بلوچ قومی اور مزاحمتی رہنما آپ بلوچستان کی موجودہ سیاسی، سماجیRead More

پاکستان کی جبری قبضہ کا خاتمہ حتمی مقصد ہے، بی ایل ایف ترجمان گہرام بلوچ کا خصوصی انٹرویو

Spread the loveمنیش رائے کے ساتھ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان میجرRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *