ماوراۓ عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں ؛ تحریر: کامریڈ محمد الیاس
راولاکوٹ کے مقام پر جبری طور پر ایک شخص کو اغوا کرنے کی کوشش کو راولاکوٹ کے بہادر عوام نے ناکام کیا اور قابض ریاست کے تحقیقاتی ادارۓ کے اہلکاروں کو پکڑ کر حوالہ پولیس کیا،راولاکوٹ کے بہادر عوام سلام و مبارکباد کے مستحق ہیں،قابض ریاست کے تحقیقاتی و سیکورٹی ادارٶں کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،بلکہ یہ نامعلوم جو سب کو معلوم ہیں تاریخی طور پر ماوراۓ عدالت قتل،جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے والے مجرم ہیں،یہ ایسے مجرم ہیں جن کو راولاکوٹ کے اندر عوام گھسیٹ کر تھانے تک لے جا سکتی ہے۔ بلوچستان میں آزادی پسند سرمچار ان کو عوامی عدالتوں میں نشانہ عبرت بنا سکتے ہیں اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی ایم ان کے خلاف آواز حق و احتجاج بلند کر سکتی ہے۔
ہم نے بہت عرصہ پہلے اس طرف توجہ مبزول کروائی تھی کہ قابض ریاست کے تاریخی طور پر دہشت گردانہ کردار کو سامنے رکھا جاۓ یہ غیر فطری اور مظلوم اقوام پر جبر کی بنیاد پر قائم ریاست اپنے مقبوضہ علاقوں کے عوام کے قتلِ عام میں کسی بین الاقوامی و انسانی اصول و ضابطے کو خاطر میں نہیں لاتی۔
اس ریاست کا بنگلہ دیش،سندھ،بلوچستان سے وزیرستان تک ایسا ہی دہشت گردانہ کردار رہا ہے جس کی بنیادی وجہ نا معلوم کا طاقتور اور وحشی ہونا ہے،اور یہ نا معلوم ملکی آئین و قانون کو بھی بڑے بوٹوں تلے روندنے والے ہیں۔
راولاکوٹ کے آج کے واقع کو لیکر ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ نام نہاد آزاد کشمیر کے دس اضلاع کے کسی بھی شہر میں چاروں اطراف داخلہ پوائنٹ پر قابض فوج کے بریگیڈ اور فوجی چھاونیاں ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ہر شہر کو اتنے سخت محاصرۓ میں کیوں لیا گیا ہے،اس لیے کہ اگر آزادی نجات اور عوامی حقوق کی منظم آواز اٹھتی ہے تو اسے بازور طاقت دبایا جا سکے،جب بھی کبھی ریاستی وحدت کے فلسفے پر عوام منظم ہوں گے تحریک بننا شروع ہوئی لوگوں نے نا جائز قبضے کو چیلنج کرنا شروع کیا تو یہ شکاری داغ لگاۓ بیٹھے ہیں کہ بلوچستان جیسے حالات پیدا کیے جائیں گے ۔ جوں جوں تحریک منظم ہو گی ان کے جبر میں شدت پیدا ہو گی،یہ ماوراۓ عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع کر دیں گے۔
آج ہمارۓ پاس وقت ہے کہ ہم فوج کی طرف سے تمام شہروں کے شدید محاصرۓ کے خاتمے کی مانگ کریں،فوجی چھاونیوں اور بریگیڈز کے فوری خاتمے کی مانگ کریں،حفاظت کے نام پر ہمیں بری طرح محاصرۓ میں جکڑ لیا گیا ہے۔ يہ جو ہمیں لگ رہا ہے کہ یہاں امن ہے یہ امن نہیں ہے بلکہ یہاں غلامی کو آزادی ماننے کی کے نتیجے میں پرامن محاصرہ ہے جو غلامی کو غلامی کہنے اور آزادی کی مانگ کرنے پر پر تشدد اور دہشت گردانہ روپ دھار لے گا۔ چونکہ ان نا معلوم محافظوں کی تاریخ ظلم،جبر، تشدد اور انسانی قتل و غارت سے بھری پڑی ہے۔
انہی نا معلوم وحشیوں نے عارف شاھد کی لاش اسلام آباد میں ہمیں دی۔سرفراز کو کراچی میں دن دھاڑۓ گولیوں کا نشانہ بنایا اور درجن بھر باصلاحیت اور ہونہار نوجوان طالب علموں کی لاشیں ہم ان کے شہروں سے وصول کر چکے ہیں۔
راولاکوٹ کے واقعہ کو لیکر کچھ لوگ یہ کہہ رہے کہ ان نا معلوم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنا مجرم کی پشت پناہی ہے جو کہ سرا سر غلط ہے ۔ اگر ہمارۓ کسی شہری نے کوئی جرم کیا ہے تو متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ مجرم کو مقامی پولیس گرفتار کر سکتی ہے اور عدالت اسے سزا دۓ سکتی ہے۔ بڑۓ بوٹوں اور خاکی وردی والوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ جب جسے جہاں سے چائیں اٹھا کر غائب کر لیں۔
اس سلسلے کو ہم بلوچستان میں گزشتہ تین دھائیوں سے دیکھ رہے ہیں میسنگ پرسنز کے لواحقین بے یارومددگار مسلسل احتجاج پر ہیں ۔ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے کیونکہ یہ درندہ صفت فوج کسی قاعدہ، قانون اور آئین کی پابند نہیں ہے۔ ایسی بے لگام طاقت کو ایک ہی عدالت ایک ہی طاقت پابند بنا سکتی ہے اور وہ ہے عوام کی طاقت۔
عوام چاہے بلوچ ہوں، پختون ہوں ، سندھی ہوں یا پھر راولاکوٹی ہوں،منظم عوام ہی ان کا محاسبہ کر سکتے ہیں اور کریں گے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More