جموں کشمیر میں غاصبانہ پالیسیوں کی نمائندہ قوم پرستی و ترقی پسندی؛ تحرير: آفتاب احمد
جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان کی قوم پرستی کا جائزہ لیا جاے تو اس کے حاوی رحجانات ہندوستان ا ور پاکستان کے حکمران طبقات کی پالیسی اور بیانیہ کی نمائندگی کررہے ہیں۔جب تک ریاست جموں کشمیر کی قوم پرستی غاصب ممالک جب پاکستان کی جرنیل شاہی کو ضرورت ہوتی ہے تو قوم پرست بیرون ملک ہندوستان کے سفارتخانوں کے سامنے احتجاج کررہے ہوتے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف اسی کا کچھ حصہ ہندوستان کے لابسٹ کے طور پر کام کررہا ہوتا ہے اور ہندوستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوتا ہے ۔
یہی صورتحال مقامی گماشتہ حکمران طبقات کی بھی ہے ۔سری نگر کا حکمران طبقہ ہندوستان کے،پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کا حکمران طبقہ پاکستان کے تلوئے چاٹ رہا ہے ۔
یعنی جموں کشمیر میں قوم پرستی پاکستانی فوج،اس کے خفیہ اداروں اور متعصب حکمرانوں کے مرتب کردہ بیانیہ اور پالیسیوں کا سیاسی اظہار ہے ۔ آج تک کسی شکل میں بھی ر یاست جموں کشمیر اور اس کے اندربسنے والی قوم اور قومیتوں کا نمائندہ نہیں بن سکی ہے ۔جس کے پاس اپنی ریاست ،قوم اور قومیتوں کی آزادی کے لیے کوئی آزادانہ اور شفاف راستہ تجزیہ یا حکمت عملی ہو ۔اہم اگر 1946کی کشمیر چھوڑ دو تحریک کا بھی درست بنیادوں پر تجزیہ کریں تو وہ ایسی ہی صورتحال سے دوچار تھی ۔1989کی تحریک میں بھی ایسی ہی تھی غاصبانہ مفادات کے لیے ہزاروں انسانوں کو قربان کیا گیا ۔
لیکن ہم آج بھی کے ماضی سے سیکھنے کی بجائے اسے درست ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی ریاست اس میں بسنے والی قوم اور قومیتوں کے تاریخی تجربات کا درست تجزیہ نہیں کر پارہے ہیں،ہم ابھی تک یہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ ہمارے وطن کے عوام جس جگہ کھڑے ہیں ،وہ کونسے راستوں اور طریقوں سے گزر کر یہاں پہنچے ہیں۔وہ راستے اور طریقے درست تھے یا غلط یہ تجزیہ نہیں ہے ۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کار ہمارے عوام کی برسہابرس کی جدوجہد ابھی تک کوئی عوامی شکل کیوں اختیار نہیں کر سکی ہے ؟ہم اپنی لاعلمی اور ادھوری معلومات کی وجہ سے سیاست براے سیاست کے رحجان کا شکار ہیں ۔سیاست براے سیاست کے رحجان کا شکار لوگوں کے کوئی اصول یا مقاصد نہیں ہوتے ہیں ۔اس رحجان کا مقصد صرف طاقت وربننااور سماج میں نمایاں حثیت حاصل کرنا ہوتا ہے ۔اس کے لیے سب کچھ جائز ہے ۔اس رحجان کے کوئی قومی ،اجتماعی مفادات یا تصورات نہیں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ رحجان ضد ،اناء ،قبائلیت ، فرقہ واریت اور من پسند حاشیے منوانا چاہتاہے ۔مکمل، درست اور جاری عمل کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ ہے بلکہ درست عمل کو مشکوک اور پیچیدہ بنانے کے لیے وہ بندر کے ہاتھ میں استرا کی مثال کے تحت کبھی کبھی اپنی گردن بھی لہولہان کردیتا ہے ،تاکہ من پسندی مسلط کی جاسکے ۔ایسے لوگ شعور سے لیس نہیں ہوتے بلکہ غاصبانہ پروپیگنڈے کے زیر اثر ہوتے ہیں ۔اور غاصبانہ مفادات کے لیے ہتھیار کے طور استعمال ہوتے ہیںعوامی سیاست میں ,عوامی جدوجہد میں ایسے رحجانات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے ،اس میں مقاصد اور اس سے جڑے مفادات کے تابع رہتے ہوے جدوجہد کا رخ متعین کرنا پڑتا ہے ۔اس میں ہر ایک کے لیے نظم و ضبط ہوتا ہے ۔شتر بے مہار کی طرح کسی چیز کو قبول نہیں کیا جاتا ہے ۔
شعور ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے انسان سچ اور ر جھوٹ،درست اور غلط،دشمن اور دوست ،ظالم و مظلوم کی تمیز کرتا ہے ۔اسی کے تحت انسان اپنی زندگی سے لیکر عظیم جدوجہد کا حصہ بننے کا فیصلہ کرتا ہے ۔لیکن ہمارے ہاں غاصبوں نے مکمل منصبوبہ بندی سے ہمیں ذہنی و نفسیاتی غلام بنا رکھا ہے ۔تعلیمی اداروں سے لیکر سماجی اداروں تک کو غاصبانہ مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ان کے ذریعے گمراہی،تابعداری،بے یقینی ،لالچ،خود غرضی کوفروغ دیا جاتا ہے ۔سکول،کالج،یونیورسٹی سے لیکر مندر ،امام بارگاہ ،مدارس ومساجد تک غلامی کو فروٖغ دیتے ہیں۔یہ سب ادارے غاصبانہ مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔
سائمن دی بوائر کہتا ہے ؛؛ جتنازیادہ مظلوں کو صورتحال کے مطابق ڈھالا جا سکے گا اتنی آسانی سے سے ہی ان پر تسلط قائم کیا جاسکے گا؛؛ایسی صورتحال میں بغاوت کیسے ممکن ہے ؟افغانستان کی جنگ میں امریکہ اور پاکستانی جرنیلوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ملائیت نے مساجد و مدارس کو کیسے استعمال کیا یہ اب بہت واضح ہوچکا ہے ۔اور جس نے بھی ملائیت کے اس کردار کو چیلنج کیا وہ کفر کا شکار ہوجاتا ہے ۔آج بھی ملائیت مساجد اور مدارس کو کیا پاکستانی جرنیلوں کے مفادات کے لیے استعمال نہیں کررہی ہے ۔سری نگر سے لیکر گلگت بلتستان تک ۔کیا تعلیمی نصاب غلامی کا درس نہیں دے رہا ہے۔کیا ہمارے معاشرے کے استاد اورطالبعلم سمیت ہر کوئی غاصبانہ مفادات کو تحفظ نہیں دے رہا ہے ۔کیا غاصبوں کے تلوے چاٹنے والے ہمارے معاشرے کے رہبر و رہنماء اور قومی ہیروز نہیں ہیں؟ایسے حالات میں بغاوت کیسے ممکن ہے ؟آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والا کوئی قوم پرست ہو یا ترقی پسند اسے تو اپنے آپ میں رہبر ہونا چاہیے ۔اس کا ہر عمل غاصبانہ مفادات اور عزائم کوخاک میں ملانے والا ہونا چاہیے ۔لیکن کیا ہمارے ہاں ایسا ہے ؟ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے ۔ہمارا ہر عمل غاصبانہ مفادات کو تقویت دیتا ہے ۔ جس معاشرے میں غاصبوں کے تلوے چاٹنے اور ان کی دلالی کرنے والے معتبر رہبر و رہنماء اور قومی ہیروز ہوں ۔کیا تلوے چاٹنے اور دلالی سے قومی غیرت و حمیت اورآزادیاں حاصل کی جاسکتی ہیں تو ایسا ممکن نہیں ۔آزدای کی درست راہ کا تعین ضروری ہے ۔اس کے لیے ذہنوں سے زنگ اتارنا پڑے گا ۔اور شعور کا راستہ اپنانا پڑے گا ۔ہمیں فطرت کے بنیادی قوانین کو سمجھ کر اپنے راستے متعین کرنے ہوں گئے ۔جب بھی ہم ان قوانین کے خلاف چلیں گئے تو ناکامی ہی ہوگی ۔کیونکہ سماج کا ارتقاء اور اس کی نشوونماء فطری قوانین کی پابندہے ۔ہمیں سماجی تاریخ کی سائنس کو بھی سمجھنا ہو گا اور اس کی روشنی میں میں اپنی سماج تجزیہ کرنا ہوگا کہ سماج کن قوانین کے مطابق کن مراحل اور منزلوں سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے ۔اس کا مستقبل کا رخ کیا ہے ،رحجانات کیا ہیں کونے راستے نظر آرہے ہیں ۔جب تک ایسا نہیں ہوگا ہم تاریخ کی عقیدت مندی میں لگے رہیں گئے ۔
کیونکہ آج تک ہم آزادی اورغلامی میں تمیز نہیں کرپائے ہیں ۔22اکتوبر 1947ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کاایک اور سیاہ دن ہے ۔جس دن پاکستان کی فاشسٹ ریاست نے ریاست جموں کشمیر پر حملہ کیا ۔اور اپنی مقامی کٹھ پتلی تلوے چاٹ رہنماؤں کو استعمال کرکے اسے تقسیم کیا۔داخلی طور پر بحران کا شکار ریاست جموں کشمیراس حملے کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ عوام حکمران طبقہ کے ظلم و جبر سے تنگ تھے ۔جب عوام ریاست کا دفاع نہ کرے تو دشمنوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔پاکستان ریاست کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ دوسرے کے گھر کو جلا کر اپنے گھر محفوظ رکھو ۔یہی پالیسی پاکستان نے افغانستان میں بھی اپنائی بلکہ اسی طرح جس طرح جموں کشمیر میں حملہ کرکے نہ صرف ریاست کو تقسیم کیا بلکہ سیاسی طور پر عوام منتشر رکھنے کے لیے ابھی تک اس کے آلہ کار متحرک ہیں ۔بالکل اسی طرح پاکستان فوج اور اس کے خٖفیہ اداروں نے افغان معاشرے بربریت کا بازار گرم کیا اور دنیا بھر دہشت گردوں کو استعمال کیا ۔
جموں کشمیر میں جب سیاسی عمل شروع ہوتا ہے تو پاکستان اپنی گماشتہ سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کو مالی اور ہر طرح کے وسائل مہیا کرکے سبوتاژ کرتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ آج بھی لائن آف کنٹرول سے مسلح دہشت گردوں کو بھارتی مقبوضہ میں داخل کرکے عوام کے قتل عام کا جواز مہیا کرتا ہے ۔اسی طرح کا عمل بھارت بھی دوہراتا ہے ۔
ایسی صورتحال میں کیا وہ قوم پرستی و ترقی پسندی جو روہنگیا کے مسلمانوں کے ایشوز پر بڑی شدت سے احتجاج کر سکتی ہے اور انسانی حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے دنیا سے مطالبات کرتی۔یہ بات درست ہے کہ انسانیت کا قتل قابل مذمت ہے ،اور اور قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کو یہی مطالبہ کرنا چاہیے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے قوم پرستوں اور ترقی پسندوں نے پاکستان میں عیسائیوں،احمدیوں ،ہندؤوں اور اہل تشیع ،بلوچ ،پشتون اور سندھی عوام کے قتل عام پر کبھی پاکستانی سفارتخانے کے سامنے احتجاج نہیں کیا ۔اسی طرح وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف تو ہندوستانی سفارتخانوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ،ہونا چاہیے ۔ لیکن پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں قابض پاکستانی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،جنگلات،معدنیات اور پانی کے وسائل کی لوٹ مار کے خلاف پاکستانی سفارتخانے کے سامنے احتجاج نہیں کرتے ۔اسی طرح بعض بھارت کے قبضے اور اس کے مظالم کے خلاف بات کرنے سے گریزاں ہیں ۔اس لیے ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ قوم پرستی و ترقی پسندی ہے یا فرقہ پرستی ہے ۔
یعنی کسی نہ کسی شکل میں جموں کشمیر کی قوم پرستی اور ترقی پسندی دراصل پاکستان فوج اس کے خفیہ ادروں اور حکمرانوں کی پالیسیوں کی نمائندگی کرتی ہے ۔ریاست جموں کشمیر کے عوام کی نہیں۔
اس لیے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو جس کی غلامی میں ہے اس کو اسی کے خلاف لڑنا ہے کی پالیسی اپنانا ہوگی ۔جس کے تحت یہ جدوجہد جموں کشمیر کے عوام کی نمائندہ بن سکے گی۔
يہ مضمون جموں کشمير پيپلز نيشنل پارٹی کے سابق مرکزی جنرل سيکرٹری کامريڈ آفتاب کا لکھا ہوا ہے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More