Main Menu

پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں قابض ریاست کے جرائم کا تسلسل ؛تحریر: جنید کمال

Spread the love

تنویر احمد اور سفیر کشمیری کی پاکستانی پرچم اتارنے پر گرفتاری کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی آخری ہے بلکہ قابض ریاست کے یہ حربے سات دھاہیوں سے جاری ہیں اور جب تک قابض کے قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کے عزائم باقی ہیں، آزادی پسندوں کی جدوجہد بھی جاری رہے گی اور قابض کا گرفتار کرنے،تشدد کرنے قتل و اغوا کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔قبضہ گیری کا بد ترین معروف اصول یہ ہے کہ جب زیرِ قبضہ علاقوں کے لوگ خاموشی سے غلامی کو سہتے رہیں تو قبضہ گیر خاموش حکمت عملی کے تحت وسائل کو لوٹتا رہتا ہے اس لوٹ کھسوٹ اور قبضہ گیری کے خلاف جب آواز بلند ہونا شروع ہو تو قابض اس آواز کو بازور طاقت دباتا ہے۔
پاکستان جیسی سفاک اور قاتل ریاست نہ صرف ریاست جموں کشمیر کے اپنے زیرِ قبضہ حصے سے وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھے ہوۓ ہے بلکہ غلامی اور آزادی میں فرق سمجھنے اور یہ فرق عوام کو سمجھانے والوں کی آواز کو مختلف حربوں سے دبا رہی ہے۔تنویر احمد اور سفیر کشمیری کی گرفتاری اس ریاستی جبر وتشدد اور دہشتگردی کا تسلسل ہے۔
سن دو ہزار کے بعد پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان میں آزادی اور نجات کی آواز بلند کرنے والے اور پاکستان میں زیرِ تعلیم نوجوان طلباء کے سفاکانہ قتل کے علاوہ سیاسی اسیران کو 70 ۔70 سال قید اور پرامن احتجاجی مظاہرین پر وحشیانہ ریاستی تشدد جیسے جراٸم کی مرتکب قابض ریاست کے عزاٸم کو عوام جاننا شروع ہو چکے ہیں کہ جب بھی آزادی اور نجات کی جدوجہد منظم ہو گی تب تب قابض ریاست کے جبر و تشدد میں شدت آۓ گی۔

آزادی پسند رہنما نیشنل لبریشن کانفرنس کے صدر عارف شاھد کو راولپنڈی کے مقام پر قابض فوج کے اہلکاروں نے سلینسر اسلحہ استعمال کرتے ہوۓ گردن میں دو گولیاں اتار کر شہید کیا۔ سرفراز احمد کو کراچی کلفٹن چوک میں رینجرز کے اہلکاروں نے سرِ عام دن دھاڑۓ گولیوں کا نشانہ بنایا جس کی ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے ان اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا لیکن 14 اگست کو صدر پاکستان نے ان اہلکاروں کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا ۔حالانکہ کیس عدالت میں موجود تھا معوذ علی کی لاش لاھور سے ملی ، عاشق حسین کو حیدر آباد میں قتل کر دیا گیا۔حصول تعلیم کے لیے اسلام آباد جانے والے درجنوں طلباء کی یا تو لاشیں ملی یا انھیں سر عام قتل کر دیا گیا۔گزشتہ سال حمزہ امتیاز کو ایک جنرل کے بیٹے نے اجرتی قاتلوں سے قتل کروایا یہ سب واقعات قبضہ گیری کے عزائم کو دوام بخشنے کی کڑی ہے کہ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے طلباء ریاست کی درخشاں تاریخ سے واقفیت حاصل کر کے عوام کو اس تاریخ کے تناظر میں منظم کر کہ نا جائز قبضہ کو کاری ضرب لگائیں گے۔

آزادی پسند رہنما عارف شاہد کو راولپنڈی ميں گولی مار دی گئ۔

قابض ریاست نے سیز فائر لائن کے ملحقہ علاقوں نیلم اور کھوئی رٹہ میں کچھ نوجوانوں کو جبری طور پر اغوا کیا لیکن عوام کے احتجاج کی وجہ سے انھیں نا معلوم مقام پر چھوڑ گئے۔ ان واقعات سے سفاک ریاست کے وہ عزائم کھل کر سامنے آتے ہیں کہ اگر قومی آزادی کی تحریک منظم ہونا شروع ہو تو جبری گمشدگیوں کا سلسہ مقبوضہ بلوچستان کی طرح یہاں بھی شروع ہو جاۓ گا۔
سیز فائر لائن کے قریب علاقوں میں خواتین کو جنسی حوس کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے لیکن میڈیا کی اپروچ نہ ہونے کی وجہ سے اور وہاں کے لوگوں کو فوجی دباو میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات منظرِ عام پر نہیں آتے۔گزشتہ سال ہولاڑ کوٹلی کے مقام پر ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ فوجیوں نے ریپ کیا بہادر نوجوان لڑکی نے اس پر آواز بلند کی عوام کے بھرپور احتجاج کے نتیجے میں ہولاڑ سے فوجی چوکی کو ختم کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں گزشتہ 5 سال سے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے غلامی کے خلاف اور بنیادی عوامی جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے عوام اور سیاسی تنظیموں کے خلاف جبر و تشدد میں خاصی تیزی آٸی ہے جو اس کی غمازی کرتی ہے کہ قابض کے قبضہ کے خلاف جوں جوں تحریک منظم و مضبوط ہو گی قابض ریاست کے جبر و تشدد میں شدت آۓ گی۔
سال دو ہزار اٹھارہ -اُنيس میں طلباء حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے طلباء پر مظفرآباد ،راولاکوٹ،میرپور میں ریاستی تشدد کا ہولناک مظاہرہ کیا گیا۔طلباء پر لاٹھی چارج آنسو گیس اور شیلنگ کی گئی جس سے درجنوں طلباء زخمی ہوۓ طلباء کو پابند سلاسل کر کے ان پر بیمانہ تشدد کیا گیا۔
جے کے ایل ایف کے پر امن مارچ پر راولاکوٹ میں لاٹھی چارج کے علاوہ گولیاں برسائی گئيں جس کے نتیجے میں درجنوں پر امن مظاہرین شدید زخمی ہوۓ اور جے کے ایل ایف کے دیرینہ کارکن نعیم بٹ شہید ہوۓ۔

مزید براں اکتوبر 2019 پیپلز نیشنل الائنس کی کال پر ہزاروں لوگ مظفرآباد میں جمع ہوۓ یونیورسٹی سے اسمبلی کی طرف پرامن مارچ کو روکتے ہوۓ لاٹھی چارج کیا گیا پورا دن مظاہرین اور سیکورٹی اداروں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔مظاہرین پر بے دردی سے تشدد کیا گیا گولیاں اور شل برساۓ گئے جس سے درجنوں لوگ شدید زخمی ہوۓ اور ایک شہری شہید ہوا۔تین درجن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا،پولیس کی وردیوں میں ملبوس 80 فیصد قابض فوج کے سپاہی کمانڈو جبروتشدد کے لیے ڈیوٹی پر موجود پاۓ گئے۔

مظفرآباد: پی اين اے کے چيئرمين کامريڈ ذوالفقار احمد ايڈووکيٹ پوليس تشدد کے بعد کارکنوں سے خطاب کر رہے ہيں۔

رات کی تاریکی میں جب پی این اے کی قیادت پریس کانفرنس کر رہی تھی تو فوجی کمانڈوز کے قاتلانہ حملہ کیا بہادر صحافی ڈٹ گئے اور قیادت کی ڈھال بن گئے ورنہ اس دن وہاں موجود ساری قیادت کو قتل کر دیا جاتا۔
پاکستانی قابض فوج نے پاکستان کے مقبوضہ دس اضلاع کے ہر شہر کو چاروں اطراف سے محاصرۓ میں لیکر رکھا ہے ہر شہر کے شروع اور آخر کی گزر گاہ پر فوجی برگیڈ اور چھانیاں ہیں جو شدید قبضے کی غمازی کرتی ہیں جن کا مقصد کسی بھی شہر میں قابض کے خلاف اٹھنے والی آواز کا دبانا ہے۔
علاوہ ازیں گلگت بلتستان میں آج بھی ایجنسی راج ہے حقوق مانگنے والوں پر جبر و تشدد معمول ہے افتخار کربلائی ، بابا جان اور ان کے درجن بھر ساتھیوں کو عوامی حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں گرفتار کر کے ان پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قائم کر کے انھیں ستر ستر سال کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ہسپتال میں علاج تک رسائی نہیں دی جاتی۔
دیگر آزادی پسند رائنماوں اور کارکنوں پر شیڈیول فورتھ جیسے کالے قوانین کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے اور وہ ڈی سی کی اجازت کے بغیر اپنے ضلع سے باہر نہیں جا سکتے۔
پاکستانی سفاک ریاست انسانوں کے قتل عام،جبری گمشدگیوں،مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے جرائم میں کوئی ثانی نہیں رکھتی،لیکن ابھی ریاست کے اندر اس طرح کی مزحمتی تحریک موجود نہیں جو آواز اٹھتی ہے اسے آسانی سے دبا دیا جاتا ہے۔ جوں جوں تحریک منظم ہو گی قابض کی قبضہ گیری کو چوٹ پہنچے گی تو قابض جبر و تشدد کی شدت میں اضافہ کرۓ گا اور یہ قابض اتنا غلیظ سفاک بے درد اور بے ہودہ ہے کہ کسی عالمی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا،ماضی میں بنگلہ دیش اور حال میں بلوچستان وزیرستان اس کی واضح مثالیں ہمارۓ سامنے موجود ہیں،جن سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
ریاست جموں کشمیر کے عوام کو بلوچ تحریک سے سیکھتے ہوۓ منظم ہونا ہو گا،کیونکہ عارف شاھد کے قتل سے لیکر صحافی تنویر تک قابض ریاست کی ریاستی دہشت گردی کا ایک تسلسل ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جاۓ گا جس کے خلاف منظم عوام ہی بند باندھیں گے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *