پاکستان پیپلز پارٹی کا ماضی؛ تحریر: جاوید احمد
روزنامہ دنیا 28 اگست 2013 ء کو ڈاکٹر یثرب تنویر المعروف ڈاکٹر لال خان کے کالم بہ عنوان پیپلز پارٹی کا مستقبل” کے جواب میں چند سطریں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
” یہ افلاس فلسفہ ہے کہ فلسفے کا افلاس”
حالیہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شرم ناک شکست کے بعد ہمارا خیال تھا کہ شاید ڈاکٹر صاحب ایک مارکسسٹ دانش ور ہوتے ہوئےایک بہترین تجزیے کے بعد اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کا “مکوٹھا” اتار دیں گے مگر شاید وہ ابھی تک بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سحر سے نکل نہیں سکے۔
چند مستثنیات کو چھوڑ کر کسی بھی خطے میں ہونے والی تبدیلیاں کسی عالمی ابھار کا ہی حصہ ہوتی ہیں اور سامراجی طاقتیں ان تحریکوں کا رخ موڑنے کے لیے ایک مقبول سیاسی شخصیت کے ذریعے ہی حالات کا دھارا تبدیل کرتی ہیں تاکہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں محنت کشوں کا اقتدار قائم نہ ہو سکے۔گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے آخر میں آنے والے عوامی ابھار کا رخ موڑنے کے لیے مغربی پاکستان میں بھٹو، مشرقی پاکستان میں مجیب، انڈیا میں اندرا گاندھی اور سری لنکا میں بندرا نائیکے کو لایا گیا۔مغربی پاکستان میں بھٹو نے سوشلزم، مشرقی پاکستان میں ایک تنگ نظر قوم پرستی، انڈیا میں “غریبی ہٹاؤ” اور سری لنکا میں روہن وجے ویرا (چے گویرا کے پرستار) کو کچلنے کے نام پر ان شخصیات کو ابھارا گیا۔
مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے ہی راولپنڈی پولی ٹیکنیکل کالج کے طالب علم عبدالحمید (آج کے تیونس کے عزیزی) اپنی جان کا نذرانہ دے کر ایوبی آمریت کے خلاف طلبا تحریک کی جدوجہد کی علامت بن چکے تھے۔ (ادھر یورپ میں ممتاز پاکستانی طالب علم رہ نما طارق علی کی قیادت میں عالمی سامراج کو للکار رہے تھے۔)طلبا تحریک میں بعد میں محنت کش عوام بھی شامل ہو گئے اور انھوں نے ہڑتالوں کے ذریعے ایوبی آمریت میں شگاف ڈالنا شروع کیا۔
کوئی بھی سیاسی تحریک کسی”خودروی” کے نتیجے میں جنم نہیں لیتی۔اس کے پیچھے سیاسی کارکنوں کی بے مثال قربانیاں موجود ہوتی ہیں۔ پاکستان میں صرف کمیونسٹ پارٹی (جسے 1954ء میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا) آزاد پاکستان پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور شاید ایک دو ایسی اور پارٹیاں تھیں جو کسی ”ریاستی ادارے” کی مدد یا ضرورت کے تحت نہ بنائی گئیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے ایوبی آمریت کا دیوانہ وار مقابلہ کیا اور حسن ناصر نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر تحریک کو پروان چڑھایا۔ اس کے بعد ضیائی دور میں نذیر عباسی نے بھی دار و رسم کا راستہ چنا۔ بائیں بازو کی تحریک اور کام کے نتیجے میں ہی ادبی اور صحافتی محاذ پر فیض احمد فیض، حبیب جالب، منیر نیازی،ظہیر کاشمیری، عبداللہ ملک، آئی اے رحمان، مظہر علی خان، سیاست میں میاں افتخار الدین، غوث بخش بزنجو، رسول بخش پلیجو، جام ساقی، سوبھو گیان چندانی، فیروز الدین، دادا امیر حیدر، سی آر اسلم، عابد حسن منٹو، عطاء اللہ جہانیاں اور مرزا ابراہیم جیسے جید رہ نما پیدا ہوئے، جنھوں نے طویل قیدوبند کے باوجود بھی سرخ سویرے کے لیے اپنے عزم کو برقرار رکھا۔
اس پس منظر میں پاکستان میں طویل آمریتوں اور معاشی بدحالیوں کے شکار عوام نے راولپنڈی سے اپنی تحریک کا آغاز کیا جو کہ ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے ہی لاہور میں ڈاکٹر مبشر کے گھر پر ترقی پسند سیاسی رہ نماایک عوامی منشور تیار کر چکے تھے، جسے بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کا نام دیا گیا۔ جب کہ ”روٹی، کپڑا اور مکان” کا نعرہ قصور کے کۓنوجوان وکیل احمد رضا قصوری نے بلھے شاہ کے شعر کے ترجمے کی صورت میں دیا، جس میں “گلی، کلی تے جُلی” کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس منشور کے چند اہم نکات میں :
سوشلزم ہماری معیشت ہے۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں،جمہوریت ہماری سیاست ہے اور اسلام ہمارا دین ہے، شامل تھے۔
اس عوامی ابھار کی ترجمانی کے لیےاس طرح کے نعرے دیے گئے تاکہ تحریک کا رخ شخصیت کے سحر کے ذریعے اپنے طبقاتی مفاد کے تحت جوڑا جا سکے۔ ہالہ کانفرنس میں معراج محمد خان انتخابات کے بجائے انقلاب کے لیے چیختے رہ گئے۔ پنجاب اور سندھ میں الیکشن کے بعد بھٹو نے اکثریت حاصل کرتے ہوئے شیخ مجیب کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا اور وہ یہ سب کچھ فوجی حکمران یحییٰ خان کی شہ پر کر رہے تھے۔یہ اس انقلابی رہ نما کا اصلی چہرہ تھا اور انھوں نے اسی وقت یحییٰ خان کا نمایندہ بن کر چین کا دورہ بھی کیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اقتدار بھٹو کے قبضے میں آگیا۔ اب میں اپنے مارکسسٹ (پاکستان پیپلز پارٹی والے) دوستوں سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مارکسزم کے کون سے پیمانے پر ان نکات کا جواب دیں گے، جس کے تحت وہ اپنے میگزین کی پیشانی پر لکھتے ہیں:
”پاکستان پیپلز پارٹی اور مزدور تحریک میں سوشلزم کی آواز”
1۔ زرعی اصلاحات، جن میں جاگیر داری کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔
2-بھاری صنعتیں قومی تحویل میں: یہ ایک ریاستی سرمایہ کاری تھی۔ حتیٰ کہ اپنے اپنے مخالف رہ نماؤں کی آٹے کی ملیں بھی قومیا لی گئیں۔
3- تعلیم: مشنری سکولوں کوکیوں قومی تحویل میں لیا گیا اور تعلیم کے اتنے بڑے بجٹ سے تعلیم میں کیا بہتری آئی؟
4۔ صحت : صحت کے شعبے میں جنرک نظام متعارف کروایا گیا، جسے بعد میں واپس لے لیا گیا۔
5- خارجہ پالیسی : خارجہ پالیسی میں اسلامی کانفرنس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا،جوکہ سامراجی مفادات کے لیے بنائی گئی تھی۔
شاہ ایران سے گٹھ جوڑ کر کے بلوچستان کی حکومت ختم کی اور وہاں پر فوج کشی کی۔
6- بھارت کے ساتھ ہزار سال جنگ لڑنے کا لگا کر جنگی جنونیت پیدا کی۔
7- محنت کشوں کے ساتھ سلوک: جون 1972ء میں لانڈھی اور کراچی سائیٹ کے علاقوں میں مزدوروں کا قتل عام کیا۔
لاہور میں مزدور رہ نما عبدالرحمٰن کو شہید کیا۔
راولپنڈی کے ممتاز ترقی پسند اور مزدور رہ نما رفعت بابا کو شاہی قلعہ میں تشدد کا نشانہ بنوایا۔
کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی، جہلم کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں کو جیل میں ڈالا۔
8- اپوزیشن رہ نما: ساڑھے تین ہزار سیاسی قیدیوں کو جیلوں میں ڈالا۔
9- تشدد: اپنے قائم مقام معراج محمد خان اور مصطفیٰ کھر پر تشدد کروایا۔ڈاکٹر نذیر کو قتل کروایا۔ حتیٰ کہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم جیسے 80سالہ بزرگ کو اسلام آباد کے تھانے میں شرم ناک اور ذلت آمیز تشدد کا نشانہ بنایا۔دلائی کیمپ ابھی تک یاد ہے۔
10- آئین: 1973ء کے آئین کو ان کا کارنامہ کہتے ہیں۔بھٹو کے اسی آئین نے شدت پسندی اور بنیاد پرستی کی راہیں ہموار کیں۔قرارداد مقاصد کو آئین کے دیباچے میں شامل کیا۔اسلامی نظریاتی کونسل، بروز جمعہ کی تعطیل،ریاست کا شہریوں کے بارے میں مذہب کے فیصلے کرنے کا اختیار، شریعت کورٹ کا قیام شامل ہیں۔
11- فیڈرل سیکورٹی فورس: اپنی فاشسٹ طرز حکومت کے لیے فیڈرل سیکورٹی کونسل قائم کی، جس کے ذریعے نواب محمد احمد خان کا قتل کروایا۔
12- سوشلزم ہماری معیشت ہے: کو اسلامی سوشلزم اور بعد میں مساوات محمدی میں تبدیل کیا۔
13- بھٹو کے دور میں ہی پارٹی سے ممتاز ترقی پسند رہ نماؤں کو نکال کر جاگیر داروں کو ٹکٹ دیے گئے تھے۔
14- لیبر پالیسی: بھٹو نے لیبر پالیسی کے تحت قومی صنعتی تعلقاتی کمیشن اور لیبر کورٹس کے قیام کا اعلان کیا۔کمیشن اور لیبر کورٹس نے لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر صنعت کاروں کو سزائیں دینے کی بجائے محنت کشوں کو سزائیں دیں۔ جس کے خلاف ملک بھر کے محنت کشوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور اس طرح کے ایک مظاہرے کے بعد راولپنڈی میں متحدہ مزدور محاذ کے رہ نماؤں اور کارکنوں پر متعدد مقدمات بنائے گئے اور راولپنڈی جیل میں ان پر تشدد کیا اور ڈنڈا بیڑی لگائے رکھا۔ان مقدمات کو بعد میں ڈی-پی-آر 69 سے تبدیل کر دیا گیا اور تقریباً 9 ماہ کے بعد جنرل ضیاء کے برسراقتدار آنے کے بعد ان مزدور رہ نماؤں اور ان کے ساتھیوں کو رہائی ملی۔
15- طرز سیاست: بھٹو نے سیاسی کارکنوں کو سزا دینے کے لیے 65 کی جنگ کا قانون ڈیفنس آف پاکستان رولزDPR 69 کا استعمال کر کے سزا دلوائیں (جسے ریاست کے خلاف بغاوت کہا جاتا ہے۔را قم بھی اس کالے قانون کا شکار ہوا تھا) چاروں صوبوں میں ٹریبونل قائم کیے۔ دنیا کی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ یہ ہوا تھا کہ پاکستانی تاریخ کی واحد اور بڑی قوم پرست اور سامراج دشمن جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر مقدمہ قائم کیا اور سندھ میں قائم کردہ حیدرآباد ٹریبونل کے ذریعے پاکستان کی واحد روشن خیال اور ملک گیر جماعت کو کالعدم قرار دیا۔
ردِ انقلاب قوتوں کے ترجمان ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے طبقاتی کردار،سامراجی مفادات کی حفاظت، عوامی ابھار کو طبقاتی مصلحت میں تبدیل کرنے کی واضح مثال اس فقرے میں موجود ہے:
“میں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر کمیونزم کے راستے میں دیوار حائل کر دی۔” (شاید ہمارے انقلابیوں کو یہ بیان یاد نہیں۔)
اس طرح سے ردِ انقلاب قوتوں کے ترجمان کی حیثیت سے انھوں نے سوشلزم اور ترقی پسند تحریک کو جتنا نقصان پہنچایا، شاید کسی اور نے نہیں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ سامراجی کس طرح ہمارے خطے میں تبدیلیاں لائے، ہندوستان میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی یاد ہوگی، جس کی آڑ میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، اور شیخ مجیب کا بیان:
“انھیں معلوم نہیں کہ میں سرمایہ داری نظام کی کس طرح حفاظت کر سکتا ہوں”
نیز بندرا نائیکے نے چے گویرا تحریک روہن وجے ویرا کے کارکنوں کا کس طرح قتل عام کیا۔اسی طرح کی ایک روایت ہٹلر کی بھی ہے جو کہ نیشل سوشلزم کا نعرہ لگا کر عوامی مقبولیت کے ذریعے حکمران بنا۔(بھٹو کے بارے میں کیا خیال ہے؟)
ڈاکٹر صاحب کے کالم میں آخری پیغام کا بھی ذکر ہے، بقول شاعر:
“سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا”
اسی طرح اے آر وائی چینل کے وسیم بادامی کے پروگرام میں راولپنڈی جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کہتے ہیں کہ آخری دن بھٹو نے کہا تھا :
“میں نے پاکستان کا وزیر اعظم بن کر غلطی کی۔سندھو دیش کا صدر بنتا تو ساری زندگی حکمرانی کرتا۔”
یہ تھی ان کی اصل صورت، اور پھر انجام کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد لیاقت باغ میں صرف 13 افراد غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ اگر عوام کے لیے کام کرتے تو لوگ شاویز کی طرح جیل سے چھڑا کر لے آتے۔
ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں سے گذارش ہے کہ اگر وہ واقعی مارکسی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو “بھٹو!تیرا وعدہ کون نباہے گا؟”، ”پیپلز پارٹی! تُو کہاں ہے؟”جیسے پرفریب نعروں سے نکلیں۔اب وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنےہنی مون پر نظرثانی کریں، کیوں کہ ایک ایسی بس جس کا سٹیرنگ کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہو،انقلاب نہیں لاتی۔ اپنے میگزین اور پروگرام سے پیپلز پارٹی جیسی کثیر الطبقاتی پارٹی کا “مکوٹھا” اتاریں اور حقیقی انقلابی مارکسی پارٹی کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔
بقول ڈاکٹر مبارک علی:
”پارٹیاں ایک خاص سماجی،معاشی اور انقلابی ابھار کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔ کسی بھی سرمایہ دارانہ پارٹی پر حقیقی محنت کش طبقے کی قیادت کی براجمانی ایک ”یوٹوپیا” ہے۔”
”پس ماندہ معاشروں میں تخلیقی ذہن اور بااثر شخصیات کم پیدا ہوتی ہیں۔اس لیے وہ کسی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کے کردار کو لافانی بنا دیتے ہیں اور ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ جس میں اس کے خیالات اور شخصیت کے مقابلے میں کوئی اور نہ اُبھرے۔”
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More