سماج ہر لمحہ بدلتا ہے؛ تحریر : رضوان کرامت
انسان اس وقت مایوس ہوتا ہے جب وہ متعلقہ مسئلہ کا پورا ادراک نہ رکھتا ہو ہمیں یقین محکم ہے کہ انسانی سماج ارتقاء میں ہے اور اگر ہم ارتقاء پر نظر ڈالیں تو شکاریات کے عہد میں انسان فطرت کا غلام تھا فطرت کے رحم و کرم پر تھا اس کا اجتماعی شعور بہت پست تھا اسے آگ جلانے کا علم نہ تھا نارمل بارش میں کئی انسان زندگی کی بازی ہار جاتے تھے لیکن انسان نے زراعت کا علم حاصل کیا اور بارش سے بچنے کے لیے مٹی کے مکانات بنائے اور وہ ایک نئے عہد میں داخل ہو ا. جس کو سماجی علماء قبائلی سماج کا نام دیتے ہیں انسان فطرت کے خلاف لڑتا رہا اس نے جنگلی جانوروں کو پالتو بنایا اس نے دوسروں کی محنت کا استحصال شروع کر دیا یعنی انسان نے انسان کو غلام بنا لیا انسانی سماج میں لفظ میرا میری کا. اضافہ ہوا اس سے پہلے سب چیزوں پر سب کی مشترکہ ملکیت تھی انفرادی مالکیت کا ظہور ہوا. انسان آقا اور غلام میں بٹ کیا پیداواری رشتوں کا جنم ہوا. لیکن سماج یہاں رکا نہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھتا رہا انسان نے زراعت میں جانوروں سے کام لینا شروع کردیا. جنگل کاٹ کر ہزاروں ایکڑ زمین ہموار کی جن انسانوں نے یہ علم سیکھ لیا کہ جانور سے کام لیا جا سکتا ہے انھوں نے غلاموں کی بغاوتیں کروائی انھیں کہا کہ انھیں شادی کا حق دیا جائے گا ان کا بھی اپنا گھر اور خاندان ہو گا انھیں مالکیت بھی دی جائے گی بے شک یہ اس عہد کی انقلابی باتیں تھیں. انسان نے غلامداری کے تقریباً پچاس ہزار سالہ عہد کا خاتمہ کیا اور جاگیرداری عہد میں داخل ہوا. گو غلام داری عہد کے مقابلے میں یہ عہد جدید عہد تھا یہ اس عہد کا انقلاب تھا.انسان کا جدت کی طرف سفر جاری رہا. اس عہد میں اس نےاپنی خوراک کا مسئلہ کافی حد تک حل کر لیا. جس کی وجہ سے فنون لطیفہ نے ترقی کی نئے علوم متعارف ہوئے دستکار کا جنم ہوا اسی عہد کے آخر میں ہاتھ سے چلانے والی مشین, پیہ کی ایجاد, پھر بھاپ کا انجن انسانی سماج کا بہت بڑا انقلاب تھا تاجر طبقہ پیدا ہو چکا تھا اور دن بدن منظم ہو رہا تھا جاگیرداروں اور بادشاہوں سے اس کے مفادات ٹکرا رہے تھے. تجارت کی وجہ سے اس کی دولت دن بدن بڑھ رہی تھی.یہ بھی اقتدار میں حصہ چاہتا تھا. اس نے تقسیم محنت اور مشترکہ محنت کے ثمرات کا علم حاصل کر لیا تھا. تاجروں نے دستکاروں محنت کشوں,مزاروں اور مزدوروں کو منظم کیا.انھیں اقتدار میں شمولیت کا جھانسہ دیااور 1789 کو فرانس میں سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کر کے جاگیردارانہ سماج کے 10ہزار سالہ عہد کا خاتمہ کیا. بے شک سکول کالج ہسپتال پختہ سڑکیں, ہوائی جہاز تیز ترین ٹرینیں اسی عہد کی عطا کردا ہیں.انسانی حقوق, آزادی اظہار رائے. پارلیمنٹ. حقوق نسواں یہ سب الفاظ جاگیردارانہ نظام میں کوئی نہیں جانتا تھا. بے شک اس انقلاب نے پوری دنیا کو بدل دیا. اسی عہد نے نوآبادیوں کے حصول کے لیے دو عظیم جنگیں دیکھیں. چھ کروڑ انسان سرمایہ داروں کی ہوس کا شکار ہوئے. لیکن سماج جدت کی طرف بڑھتا رہا. پچھلی صدی نے 1917 میں اس نظام کا خاتمہ ہوتا ہوا دیکھا. انسانی سماج مسلسل ارتقاء میں ہے کبھی انسان انسان کا غلام, انسان مزارع اور پھر اجرتی غلام
ہم تاریخ کے جس عہد میں زندہ ہے اس میں جو درست سمت بنتی ہے ہماری جو تاریخی ذمہ داری بنتی ہے اس کو نبائے .آج سب سے پہلے ہماری تاریخی ذمہ داری ہے کہ ہم ریاست جموں کشمیر جو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی نوآبادی ہے اس کی آزادی کے لیے جدوجہد کرے اور پاکستان اور بھارت کے ایک ارب پچاس کروڑ انسان جو بد ترین اجرتی غلامی کا شکار ہے ان سے اپنی جدوجہد کو جوڑے اور خود کو اپنی ذات سے باہر نکال کر تاریخی جدوجہد کریں ہم پر امید ہے اس سماج نے ہر حال میں بدلنا ہے کیونکہ یہی سماجی قانون ہے.جو ہماری خواہشات کا غلام نہیں۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More