Main Menu

تحریک آزادی کشمیر کيا ہے؟ تحریر: اسدنواز

Spread the love


یہ تحریک آزادی کشمیر ،مسلہ کشمیر اجاگر کرنا،وغیرہ یہ سب کیا ہے، گزشتہ بہتر سالوں سے بالعموم اورکم وبیش پینتیس سالوں کے تجربے سے بالخصوص یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ یہ سب ایک فراڈ کا کاروبار ہے جسکے ساتھ اعلی١ سطح کے درجنوں افراد،درمیانی سطح کے سینکڑوں اور نچلی سطح کے ہزاروں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے، جرنیلوں کے دفاعی بجٹ سے شروع کریں،سیاستدانوں کے مسلہ کشمیر اجاگر کرنے کے نام پر بیرون ممالک کے دوروں ،سیر سپاٹوں، وزارت امور کشمیر،کشمیر لبریشن سیل،کل جماعتی حریت کانفرنس، متحدہ جہاد کونسل ،پرائیویٹ چندہ خوری سے ہوتے ہوۓ سیاسی پناہ کے کاروبار تک سارے کے سارے دھندے “تحریک آزادی کشمیر” کے مرہون منت ہیں اور شاید یہی بنیادی وجہ ہے کہ یہ مسلسل جاری وساری رہا۔ لاشیں گریں ،لوگ مریں ،اجڑیں، لٹیں ،پٹیں اس کاروبار کو تقویت ہی ملتی رہی،یاد رکھیں ہم بار بار کہہ رہے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ ” تحریک آزادی کشمیر” اور” ریاست جموں کشمیر” 85806 مربع میل کی وحدت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اول الذکر کا مقصد (کاروبار کے علاوہ ) مسلم اکثریتی بنیاد پر ایک ریاستی اکائی کا ہندوستان سے الگ ہو کر پاکستان میں شامل ہونا ہے(تھا) جبکہ دوسری کا مقصد انیس سو سنتالیس کے غدر اور لوٹ مار کے نتیجہ میں تقسیم ہونے والی پوری ریاست کو پھر سے متحد کر کے اسکی وحدت کو بحال کرنا ہے، اور حقیقی معنوں میں اگر دیکھا جاۓ تو اس سے قبل یہ تحریک بھی اسی میں گڈ مڈ رہی، لوگوں کی اکثریت بظاہرتو ریاستی وحدت کے ساتھ تھی یا ہے لیکن دانستہ یا نا دانستہ طور پر اسی کاروبار کے لیے استمعال ہوتی رہی یا ہو رہی ہے ۔اگر یوں کہا جاۓ تو زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کاروبار کے بند ہونے کے بعد اب نئے انداز سے جس تحریک کا آغاز ہونے جا رہا ہے اسکے بارے میں امید کی جا سکتی ہے کہ یہ ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی تحریک بن سکتی ہے، گذشتہ سارے دورانیے میں “کشمیر” (وادی) والوں نے کسی بھی دوسری اکائی کے ساتھ نہ تو قربت پیدا کی اور نہ ہی کسی کو اپنے قریب آنے دیا (برحال ہم پہاڑی زبردستی کشمیری بن کر کسی نہ کسی صورت انکے ساتھ چمٹے رہے) نہ ہی کسی اکائی کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کیا بلکہ انکا نعرہ اور بیانیہ بالکل واضع رہا ” ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے” یہ کوئی الزام نہیں بلکہ تلخ سچائی ہے ۔پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد انکو یہ تو پتہ چل گیا کہ نہ تو ہم پاکستانی ہیں اور نہ ہی پاکستان ہمارا ہے، البتہ انکے اس روئیے کے باوجود غیر متوقع طور پر جموں اور لداخ سے ریاستی وحدت کے حق میں آوازیں پہلے کی نسبت زیادہ طاقت کے ساتھ اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور آنے والے وقت میں مزید توانا ہو سکتی ہیں، وادی والوں نے اکیلے پرواز کر کے دیکھ لیا، جموں اور لداخ کے ساتھ نفرت کا انجام بھی دیکھ لیا، آزاد کشمیر جو کہ نام ہی فراڈ ہے یہ نہ ہی آزاد ہے اور نہ ہی کشمیر ہے انہوں نے بھی تحریک آزادی کشمیر خوب چلا لی،گلگت بلتستان والوں کو بھی سنتالیس کی آزادی کے کافی ثمرات مل چکے ہیں، اب سب کو چاہیے کہ اپنی اپنی اکائیوں کے اندر منظم ہو کر با اختیار ہونے کی جدوجہد کریں اور اسی جدوجہد کو ایک نقطے پر جمع کرنے کی طرف لے کر جائیں اور وہ نقطہ ریاست کی چودہ اگست والی پوزیشن پر بحالی ہونا چاہیے، چونکہ جیسے تیسے بھی ہوا راجواڑوں کو ختم کر کے ریاست بنانے اور پھر اسکو ایک سو ایک سال تک قائم رکھنے کا کریڈٹ جموں والوں کو ہی جاتا ہے جبکہ اسکو توڑنے والوں میں باقی ساروں نے حصہ بقدر جسہ ڈالا لہذا اب اگر واقعی اسکو پھر سے متحد کرنا مقصود ہے تو جموں والوں کو ساتھ ملایا جاۓ اگر ہو سکے تو ان سے معافی بھی مانگی جاۓ لیکن یہ چونکہ ایک مشکل معاملہ ہے ابھی تک تو ہم اس تقسیم کو بھی آزادی اور انقلاب کا نام دے رہے ہیں،آگے چل کر یقیناً یہ مرحلہ بھی آسکتا ہے، جو صورتحال آج ہے وہ پندرہ سال پہلے نہیں تھی اور نہ آنے والے وقت میں بھی ایسی ہی رہے گی،راستے دوہی ہیں ریاست کی بحالی یعنی اپنے وجود کی بحالی یا پھر وجود کا مکمل خاتمہ اور صفحہ ہستی سے مٹنا، قوموں اور نسلوں کی تاریخ میں ایسے مواقعے فیصلہ کن ہوا کرتے ہیں، درست فیصلے بقا کی ضمانت اور معمولی غلطی تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *