مودودی صاحب اور عورت۔۔؟ – تحریر: سعید ابراہیم
عورتوں کی حیثیت کو کمتر ثابت کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کے تصورات بالکل روائتی مُلاؤں جیسے ہیں جبکہ انشاء پردازی میں ملفوف دلائل ان سے بھی کہیں زیادہ خطرناک۔ ان کی تحریروں میں پائے جانے والے تضادات اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنی تصنیف ’پردہ‘ میں دعوے کے انداز میں یوں رقم طراز ہیں:
’’۔۔۔ اسلام نے عورت کو جیسے وسیع تمدنی و معاشی حقوق دئیے ہیں، اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کئے ہیں، اور ان حقوق و مراتب کی حفاظت کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ہدایات میں جیسی پائیدار ضمانتیں مہیا کی ہیں، ان کی نظیر دنیا کے کسی قدیم و جدید نظامِ معاشرت میں نہیں ملتی۔‘‘
یہ وسیع تمدنی و معاشی حقوق اور انکی پائیدار ضمانت کی صورت کتنی ’دل کشا‘ اور ستم ظریفانہ ہے، اسے جاننے کے لئے بھی ہم مولانا کی اسی کتاب ’پردہ‘ سے ایک اقتباس پیش کئے دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ
’’غرض ہر طریقہ سے عورت کے گھر سے باہر نکلنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور اس کے لیے قانونِ اسلامی کی پسندیدہ صورت یہی ہے کہ وہ گھر میں رہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ
’’جس طرح شادی شدہ عورت اپنے شوہر کی تابع ہے اسی طرح غیر شادی شدہ عورت اپنے خاندان کے ذمہ دار مردوں کی تابع ہے۔۔۔ نظامِ معاشرت کو اختلال و برہمی سے محفوظ رکھنے اور خاندان کے اخلاق و معاملات کو اندرونی و بیرونی فتنوں سے بچانے کی ذمہ داری مرد پر ہے، (یہ بات لکھتے وقت وہ عربی سماج میں ریاست کے حکم کے مطابق بے پردہ پھرنے والی لونڈیوں کو بالکل بھول جاتے ہیں، گویا وہ عورتیں نہیں بلکہ پلاسٹک کی بے جان گڑیاں تھیں جن سے نظامِ معاشرت میں اختلال و برہمی کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ مصنف) اور اس نظم کی خاطر عورت پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ جو شخص اس نظم کا ذمہ دار ہو اس کی اطاعت کرے، خواہ وہ اس کا شوہر ہو،یا باپ یا بھائی۔‘‘
یعنی عورت کی آزادی کی انتہا یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت مرد کی اطاعت گزار اور اس کی مرضی کی غلام ہو۔ مولانا کے بقول اسلام نے عورت کو جو وسیع تمدنی و معاشی حقوق دئیے ہیں، اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کئے ہیں، وہ سب کے سب گھر کی ’’وسیع و عریض‘‘ چار دیواری تک ہی محدود ہیں۔ ان کے خیال میں اگر عورت اس حد سے باہر قدم دھرے گی تو سماج میں ایسا بھونچال آئے گا کہ سماج اختلال (یعنی جنون) اور برہمی کا شکار ہو جائے گا۔
اب ظاہر ہے کہ یہ جنون اور برہمی مردوں میں ہی پیدا ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا اس ذکی الحس مرد کو ہی شوہر، باپ اور بھائی کی شکل میں عورت کی عزت و عفت کی گارنٹی اور نگرانی کا ذمہ دار بھی قرار دیتے ہیں۔ گویا ہر مرد کو چاہئے کہ وہ دوسرے تمام مردوں کو ایسا بھیڑیا سمجھے جو اس کی خواتین کو گھر سے باہر دیکھتے ہی جنسی جنونی میں بدل جائے گا اور ان کی عزت سرِ بازار تار تار کردے گا۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More