Main Menu

Chief Editor

 

حاکم اور محکوم کی جنگ اور پی این پی ذوالفقار احمد ایڈووکیٹ۔

سماجی۔ معاشی۔ سیاسی۔ ثقافتی تبدیلی کے متمنی اور ان عظیم تر مقاصد و آدرشوں کے حصول کیلئے مصروف جدوجہد باشعور۔ باضمیر۔ باغیرت سیاسی و انقلابی لوگو۔ دنیا بھر میں تمام مذاھب و ان گنت فرقوں کا تعلق تو محض انسانوں کی عقیدت مندی سے ہی ہے جبکہ معاشی۔ و ساہو کاری نظام میں دنیا بھر میں دو طبقات ہی پائے جاتے ہیں۔ ظالم و مظلوم۔ سرمایہ دار و مزدور۔ جاگیردار و ہاری۔ بالادست و زیردست۔ استحصالی ٹولہ و استحصال کا شکار طبقہ۔ بلکل ایسے ہی دنیا بھی دو طبقات میںRead More


کمیونزم اور فیمنزم : دو سوال از، شاداب مرتضٰی

سوال 1: کیا مارکس ازم اور فیمنزم ایک دوسرے سے موافقت رکھتے ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں؟یہ بات درست نہیں کہ مارکس ازم اور فیمنزم ایک دوسرے کے موافق و مددگار ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تضاد نہیں۔ مارکس ازم کے مطابق عورت کے استحصال کا سبب نجی ملکیت سے جنم لینے والا طبقاتی نظام ہے۔ اس لیے طبقاتی نظام کے خاتمے کے بغیر عورت کے استحصال کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے عہد میں عورت کی نجات کا تعلق سرمایہ دارانہ نجی ملکیتی طبقاتی نظامRead More


ھاری کانفرنس سانگھڑ تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

بارہ فروری کو سندھ دھرتی کے انتہائی پسماندہ، اور جاگیرداری کی شکنجے میں جکڑے ہوئے شہر سانگھڑ میں حسن عسکری ھاری مزدور کانفرنس کے انعقاد نے ملک بھر کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کی سیاست کرنے والے سیاسی کارکنوں کے لیے یہ اُمید پیدا کر دی ہے، کہ ملک میں کسانوں، کھیت مزدوروں، ہاریوں اور صنعتی مزدوروں کو منظم کر کے ایک بار پھر ترقی پسند سیاست کو مضبوط بنادیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یہ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہوئی ہے، جب بائیں بازوRead More


سورج کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اعجاز منگی

ایک غیور بلوچ جب بچہ ہوتا ہےتب وہ اپنی ماں کے بادل جیسے آنچل میں کوندتی بجلی کی طرح نظر آتا ہےایک غیور بلوچ جب جوان ہوتا ہےتب وہ پتھروں پر رقص کرتے ہوئےآبشار کی مانند دکھائی دیتا ہےایک غیور بلوچ جب بوڑھا ہوجاتا ہےتب وہ اپنی سنگریز سرزمیں پر سربلندپہاڑ کی صورت اپنا لیتا ہےمیں نے کامریڈ یوسف مستی خان کابچپن نہیں دیکھا مگر جب وہ جوان تھاتب وہ مجھے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجوکے پہلو میں اس طرح دیکھا تھا نظر آیا تھاجس طرح کسی پہاڑ کےRead More


میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ مہر جان

ریاستی دانشور جس طرح قومی بالادستی کے تناظر میں تاریخ سے منہ موڑ لیتا ہے وہ اپنی تئیں حاکم و محکوم کے تضاد کو محدودے چند اختلافات کا نام نہ دےکر بھی قابض ریاست کی سالمیت و اجارہ داری (سپر اسٹرکچر /پاکستانیت) کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔اب تاریخ میں بلوچ قومی مزاحمت کار نے جس طرح ریاستی اجارہ داری کے مقابلے میں اپنی قومیت (سپر اسٹرکچر/ بلوچیت) کی دفاع کے لیے ہتھیار اٹھایا۔اسی طرح بلوچ قومی دانشوروں نے بھی تاریخی عمل کے ساتھ کندھا ملا کرRead More


میں نیشنلزم پہ کاربند کیوں ہوں؟ مہرجان

سن اڑتالیس سے ‎ریاستی دانشوروں کا کردار ہمیشہ ان تمام افعال کیلئے جواز مہیا کرنا رہا ہے جو محکوم و مفتوح قوموں پر مسلط کردیئے جاتے ہیں۔یہاں بھی اگر ان کا کردار دیکھنا مقصود ہو تو پہلی بات ہمیں یہ سمجھ لینی چاہیے کہ ریاست پاکستان نے ریاست قلات پہ بزور شمشیر جب قبضہ کیا تو اب ان دو ریاستوں کے درمیان محض “اختلاف” نہیں بلکہ “تضاد”موجود ہے یہ تضاد بقول ماؤزے تنگ پرولتاریہ اور بورژوا طبقے کے درمیان والا تضاد نہیں کہ جس کا حل سوشلسٹ انقلاب ہو ،Read More


میں ایک غلام ہوں (ناول: اسپارٹیکس۔ مصنف: ہاورڈ فاسٹ۔ مترجم: شاہ محمدمری)

’میں ایک غلام ہوں, میرا خیال ہے کہ یا تو غلام کا دِل پتھر کا ہونا چاہیے یا پھر ہونا ہی نہیں چاہیے۔‘‘ سپارٹیکس’’پتھر روتے ہیں!‘‘ سیاہ فام نے کہا۔ ’’اور جس ریت پر ہم چلتے ہیں وہ ریت ماتمی گریہ کرتی ہے، مگر ہم نہیں روتے‘‘۔’’ہم گلیڈئیٹر ہیں‘‘۔ سپارٹیکس نے جواب دیا۔’’کیا تمھارا دِل پتھر کا بنا ہوا ہے؟‘‘’’میں ایک غلام ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یا تو غلام کا دِل پتھر کا ہونا چاہیے یا پھر ہونا ہی نہیں چاہیے۔ تمھارے پاس یاد کرنے کو سہانی یادیں ہیں،Read More


آزادی پسند افراد اور جماعتیں اے جے کے اور گلگت بلتستان میں متحد ہو کر پاکستان کی قبضہ گیریت کا مقابلہ کریں اور اپنی چھنی گی آزادی اور وقار کے لیے مزاحمت کو جدید خطوط پر استوار کریں .مقبول بٹ کی برسی پر مقررین کا خطاب

(کنیڈا (پونچھ ٹائیمجموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کینیڈا برانچ کے زیر اہتمام آج کیلگیری کینیڈا میں شہید ریاست جموں کشمیر مقبول احمد بٹ اور شدا چکوٹھی کی برسی انتہائی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ جماعتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والی مختلف ترقی پسند جماعتوں کے کارکنان، وکلاء ، صحافیوں، انسانی حقوق کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مقررین نے مقبول بٹ اور شہداء چکوٹھی کو بھرپور اندازRead More


گیارہ فروری : مقبول بٹ کی یاد میں کیا کیا جائے ؟ بیرسٹر حمید باشانی خان

مقبول بٹ کے بارے میں کالم لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ ۔کالم کی تنگ دامانی آڑے آتی ہے۔ جو کچھ میں مقبول بٹ کے بارے میں لکھ سکتا ہوں۔ یا لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے ایک ضغیم کتاب بھی کم پڑھ سکتی ہے۔ خیالات کا ایک ریلہ ہے، جس کے سامنے انسان اپنے اپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ مقبول بٹ ان محدودے چند افراد میں سے ہیں، جن کے دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ جو کچھ ان کے خلاف ان کی زندگی میں ان کےRead More


میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ مہر جان

‏‎سماجی شعور میں بھی شناخت کی اہمیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ، سماج میں انسان اپنی شناخت و خودمختاری کے لیے مسلسل جہد کے ساتھ برسر پیکار ہے یہ شناخت کی وہی جنگ ہے جس کی وضاحت ھیگل نے آقا و غلام کی جدلیات میں کی ہے کہ کیسے ایک انسان اپنی شناخت کے لئے موت تک کا خطرہ مول لیتا ہے ، اوراس شناخت کو ھیگل آذادی وخودمختاری کہتا ہے کہ کس طرح کوئی انسان اپنی شناخت و خود مختاری کو دوسرے (ادر) سےمنوا لیتا ہےRead More