غلام دستگیر محبوب ایک بہادر اور سچے انقلابی تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
آزادی کے 77 برس گزر جانے کے باوجود پاکستان آج بھی اقتصادی غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا ہے۔ برصغیر پر
انگریز سامراج کے تسلط کے دوران ایک طرف اس دھرتی اور اس کی مٹی کے غداروں، مخبروں اور وطن دشمنوں کو
نوازنے کے لیے وسیع تر جاگیریں الاٹ کی گئیں، تو دوسری طرف سامراجی استحصالی نظام کو دوام بخشنے، آزادی کے
متوالوں کو سبق سکھانے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے بیروکریسی کا وسیع تو جال بچھایا گیا۔ انہی دو قوتوں نےقیام
پاکستان کے بعد ملک پر قبضہ جما لیا، جو اب تک جاری و ساری ہے۔ اپنے تمام تر ریاستی جبرو استبداد کے باوجود ہماری
دھرتی نے ایسے ہونہار سپوت پیدا کیے، جو اپنی ساری زندگی اپنے وطن اور اس کی مٹی سے محبت کرنے اور دھرتی کے
مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے دکھوں کا مداوا کرنے، انہیں سیاسی شعور دینے اور
استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے اپنا تن، من اور زندگیاں قربان کرتے رہے۔ ایسے ہی ایک انتھک، بےباک،
انڈر اور جدوجہد کا مینارا غلام دستگیر محبوب تھے، جو جمعہ 29 نومبر 2024ء کو مختصر علالت کے بعد لاہور کے نواح
میں واقع صنعتی علاقہ ‘مرید کے’ میں انتقال کر گئے۔ وہ اپنی ساری زندگی سماجی انصاف پر مبنی خوشحال معاشرے کی بنیادیں استوار کرنے کے لیے کوشاں رہے، وہ بھی ایک ایسی سماج، جس میں بالا دست طبقات و اشرافیہ نہیں بلکہ
خلق خدا
راج کرے۔ جہاں کے عوام امن، محبت اور آزادی کے نغمے گائیں اور ہر کسی کو آگے بڑھنے کے برابر مواقع می
غلام دستگیر محبوب کا شمار پاکستان کے نامور ترقی پسند سیاسی رہنماؤں، مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں کے
سالاروں میں ہوتا ہے۔ وہ 9 ستمبر 1940ء کو جہلم کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں ‘پیپلی’ تحصیل پنڈ دادن خان کے ایک
محنت کش گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فتح محمد ایک چھوٹے کسان تھے اور اپنی محدود زرعی زمین پر کاشتکاری
کرتے تھے۔ غلام دستگیر 6 بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، جو محدود وسائل کی وجہ سے میٹرک کے بعد تعلیم کو جاری نہ
رکھ سکے۔ انہوں نے اپنے گاؤں سے چند میل کے فاصلے پر واقع غریبوال سیمنٹ فیکٹری کے شعبہ مکینکل میں ملازمت
اختیار کر لی۔ یہ خطرناک کام تھا، کیونکہ سب کارکنوں کو اونچے ٹاورز پر چڑھ کر کام کرنا پڑتا تھا۔ سب گھر والوں کو
اس پر تشویش رہتی تھی اور وہ متبادل روز گار تلاش کرنے پر زور دیتے تھے۔ بالآخر انہیں 1964ء میں مرید کے میں
واقع کوہ نور ‘راوی ریان’ میں بطور سٹور کلرک ملازمت مل گئی اور وہ اپنے گاؤں کو خیرباد کہہ کر مرید کے منتقل ہو
گئے۔ انہوں نے بعد ازاں 1970ء میں شادی کر لی۔ ان کے 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں، لیکن بد قسمتی سے ایک بیٹی 2009ء
میں اپنی چھوٹی عمر میں ہی ایک حادثے کا شکار ہو کر انتقال کر گئی۔
راوی ریان میں ملازمت کے دوران انہوں نے فیکٹری مالکان اور انتظامیہ کی جانب سے مزدوروں کے ساتھ روا رکھا جانے
والے ناروا سلوک، کام کے اوقات کار، چھٹیوں، شفٹ الاؤنس، چھٹیوں کی تنخواہ، مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں
اضافے کے فقدان جیسے مسائل اور مزدوروں کے بے دریغ استحصال کو برداشت نہ کر پائے، اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں
میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ جلد ہی وہ علاقہ کے انتہائی انڈر، محنتی اور بے باک مزدور رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے
آئے۔ انہوں نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کے ورکرز آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی اور راوی ریان کی سی بی اے یونین
کے انتخابات جیت کر پاکستان کے مستند مزدور رہنما کے طور پر اپنا لوہا منوا لیا۔ مرید کے آنے کے بعد انہوں نے اپنی
تعلیم و تربیت کا نیا سلسلہ شروع کیا، بالخصوص انگریزی اور ریاضی میں مہارت حاصل کر لی اور تحریر و تقریر پر
عبور حاصل کر لیا۔ انہیں پہلے مکینکل اسٹور کیپر اور بعد ازاں ورکس اسٹور کیپر کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ بعد ازاں
انہوں نے 1985ء میں کینال پارک، مرید کے (ضلع شیخوپورہ) میں گھر بنا لیا اور ہمیشہ کے لیے وہیں کے ہو کر رہ گئے۔
کامریڈ غلام دستگیر محبوب سے راقم کا رشتہ نظریاتی بھی ہے، سیاسی بھی اور ہم سب مل کر پاکستان میں آزادی
کی تکمیل
اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ کامریڈ سے راقم کی پہلی ملاقات 1986ء میں مرید کے م
نامور ترقی پسند رہنما ملک انور کے گھر پر ہوئی تھی۔ ان دنوں راقم انجنئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھا، پاکستان
سوشلسٹ پارٹی سے وابستہ، اور سوشلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے طلبا سیاست میں سرگرم تھا۔ پھر گاہے
بگاہے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور ہم نے انقلابی سیاست کے خدوخال اور جدوجہد کی راہوں کو نئے سرے سے استوار
کرنے پر بحث و تمحیض کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ کچھ عرصہ پاکستان قومی محاذ آزادی میں بھی سرگرم رہے، جس
بارے
سٹوک آن ٹرینٹ میں مقیم ہمارے نظریاتی ساتھی وقاص بٹ جی نے بھی کامریڈ غلام دستگیر محبوب کی انتقال کی خبر سن
کر شیئر کیا تھا۔ بعد ازاں ہم نے بائیں بازو کی جماعتوں کے باہمی انضمام سے ایک متحدہ، منظم اور با عمل انقلابی جماعت
کی تشکیل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 1990ء کی دہائی میں قومی محاذ آزادی کے ساتھ انضمام کیا اور عوامی
جمہوری
پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ باقاعدہ طور پر ہمارا حصہ بن گئے۔ پھر 1998ء میں اچانک پارٹی رہنما معراج محمد خان نے
بائیں بازو کی سیاست کو خیرباد کہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور عمران خان کے وفادار
سپاہی کے طور پر پارٹی کے جنرل سیکریٹری بن گئے۔ لیکن بائیں بازو کے رہنماؤں کے لیے رولنگ الیٹ کی جماعتوں میں
عزت اور رتبہ پانا اور اسے قائم رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے دل برداشتہ ہو کر
2003ء میں تحریک انصاف سے مستعفی ہو نے اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟
کیونکہ ایک باشعور سچے انقلابی کے لیے ریاستی ظلم و استحصال تلے پستی اور بلکتی عوام کو دیکھ کر انہیں نظر انداز
کر کے گھر بیٹھنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ راقم 23 مارچ 2005ء کو اپنے آبائی شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہونے والے
کسان کانفرنس کے انتظامات میں مدد کے لیے گیا تو معراج محمد خان اپنے پرانے ساتھی روزی خان کے ساتھ ایک روز قبل
ہی وہاں تشریف لے آئے تھے، اور ان کے ساتھ ان کے پی ٹی آئی کے تجربے سمیت بہت سے پہلوؤں پر دلچسپ گفتگو رہی۔
کامریڈ غلام دستگیر محبوب جی سے میری ملاقات تقریباً بارہ برس بعد اسی کانفرنس میں ہوئی تھی۔ ان دنوں ان کے بیٹے
ندیم دستگیر برطانیہ آ چکے تھے، اور انہوں نے مجھے ندیم کے ساتھ رابطہ رکھنے کی تاکید بھی کی تھی۔ وہ دو روز ٹوبہ
ٹیک سنگھ ہی رہے کیونکہ کانفرنس کے بعد پاکستان بھر سے آنے والے بائیں بازو کے رہنماؤں کے اجلاس جاری تھے، جن
میں معراج محمد خان، عابد حسن منٹو، یوسف مستی خان، رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، چوہدری فتح محمد، اختر
حسین، کنیز فاطمہ، افضل خاموش، شوکت چوہدری، میاں بشیر ظفر، فاروق طارق، راؤ طارق لطیف، نصرت بشیر ظفر
نمایاں تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا وہی اجلاس بعد میں عوامی جمہوری تحریک کے نام سے بائیں بازو کے اتحاد کی بنیاد بنا تھا۔
اس کسان کانفرنس اور بعد ازاں بننے والے بائیں بازو کے اتحاد نے پاکستان بھر کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں میں ایک
نئی امید اور جذبہ پیدا کیا اور بحث مباحثے اور سیاسی کارکنوں کے دباؤ کے نتیجے میں مرجرز کے ذریعے متحدہ پارٹی
بنانے کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعد ازاں باہمی انضمام سے 2010ء میں ورکرز پارٹی پاکستان اور 2012ء میں عوامی
ورکرز پارٹی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اس سارے عرصہ میں ہمارے ساتھی کامریڈ غلام دستگیر محبوب نے اپنی جدوجہد کو بھرپُور انداز میں جاری رکھا اور
وہ
مرزا محمد ابراہیم، راؤ طارق لطیف، گلزار چوہدری، میاں بشیر ظفر، محمد اکبر، محمد یعقوب، اور صفدر حسین سندھو
جیسے ہونہار مزدور رہنماؤں کے ہم سفر اور ہم عصر بن گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریلوے میں مرزا محمد ابراہیم اور
منظور احمد رضی، لاہور کے کوٹ لکھپت صنعتی ایریا میں میاں بشیر ظفر، راؤ طارق لطیف اور گلزار چوہدری کا طوطی
بولتا تھا تو مرید کے صنعتی ایریا میں غلام دستگیر محبوب، ملک حیات اور محمد یعقوب کا راج چلتا تھا۔ کبھی غلام دستگیر
محبوب کی ورکرز آرگنائزنگ کمیٹی اور کبھی محمد یعقوب کی ٹریڈ یونین راوی ریان کی سی بی اے یونین کے انتخابات
میں میدان مار لیتی تھی۔ ان کی ٹریڈ یونین سرگرمیاں راوی ریان تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ وہ ملکی سطح کے بہادر،
بےباک اور مستقل مجاز مزدور رہنما اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ مقامی
اور ملکی سطح پر ٹریڈ یونینز کی ترویج و ترقی، تعاون اور شراکت داری میں مہارت اور لگن سے اپنا کردار ادا کرتے
رہے۔ انہوں نے کوہ نور گھی ملز فیروز والا، سوات سرامکس، شاہ تاج شوگر ملز، ایم بی دین اور بہت سے دیگر صنعتی
اداروں میں ٹریڈ یونینز بنانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ مرید کے کے علاقہ کی ٹریڈ یونین تحریک میں ان کے ساتھیوں میں
خادم بھٹی، عبداللہ بٹ، ملک حیات، چوہدری مشتاق، ملک انور، میاں پرویز، عابد حسین اور محمد اصغر شامل تھے۔
غلام دستگیر محبوب عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور بڑے ورسٹائل قسم کے سوشلسٹ رہنما تھے۔
انہوں نے کسانوں کو منظم کرنے میں بھی گرانقدر خدمات اور قربانیاں دیں۔ وہ پاکستان کسان کمیٹی میں بھی سرگرم کردار
ادا کرتے رہے اور اسی تحریک میں تقریباً پانچ برس تک جیل کاٹی۔ مرید کے کے نواحی علاقہ ڈیرا سیہگل میں 1977ء
میں بھٹو زرعی اصلاحات کے تحت مزارعوں اور کھیت مزدوروں کو زمینیں الاٹ ہوئی تھیں۔ پھر اچانک 16 مئی 2012ء
کو مرید کے پولیس نے سیہگل خاندان کے ایما پر 150 سے زیادہ کسان خاندانوں کو پانچ مربہ (125 ایکڑ) اراضی سے بے
دخل کرنے کے لیے ان کا محاصرہ کر لیا۔ وہ غریب کسان 1968ء سے ان زمینوں پر کاشتکاری کر رہے تھے، لیکن ڈکٹیٹر
ضیاءالحق کے اقتدار پر قبضے کے بعد سپریم کورٹ کا ایک شرعی پنچ تشکیل دے کر ان زرعی اصلاحات کو غیر شرعی
قرار دے دیا گیا تھا۔ سیہگل خاندان، جو اس علاقہ کے سب سے با اثر خاندانوں میں سے ایک تھا، نے ان کسانوں کو ان کی
زمین سے بے دخل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ انہوں نے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن کسانوں نے بے
دخلی کے اقدام کی بھرپُور مزاحمت کی۔ پھر 16 مئی 2012ء کو پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرتے
ہوئے ریاستی دھشت گردی کا ایسا میدان سجایا کہ اس سے 25 کے قریب کسان شدید زخمی ہو گئے۔ کسانوں نے جی ٹی روڈ
پر مارچ کیا اور زخمیوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال مرید کے لے جانے کی کوشش کی تو پولیس نے شاہراہ بلاک کر دی
اور انہیں ہسپتال لے جانے سے روک دیا۔ پولیس کی بربریت کی خبر علاقہ میں پھیل گئی اور اس تعطل کو حل کرنے لیے
علاقہ کے نامور مزدور رہنما اور عوامی ورکرز پارٹی کے غلام دستگیر محبوب، ملک حیات (مرحوم) اور صفدر حسین
سندھو فوراً اس مقام پر پہنچ گئے۔ اسی دوران ڈی ایس پی شاہد نیاز نے احتجاج کرنے والے کسانوں پر فائرنگ کر دی۔
پولیس کی فائرنگ سے ایک راہ گیر ٹرک ڈرائیور عارف خان کو گولی لگ گئی۔ پولیس نے غلام دستگیر محبوب اور 250
کسانوں کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت قتل کیس میں نامزد کر دیا۔ اس عرصہ میں سیہگل خاندان غریب کسانوں اور
مزارعوں کی خواتین اور بچوں کو بھی چوری اور ڈکیتی کے مقدمات بنا کر ہراساں کرتے رہے، لیکن ڈیرا سیہگل کے
غریب کسانوں اور ان کے اہل خانہ نے ہمت نہ ہاری، اور ڈٹے رہے۔ پاکستان کسان کمیٹی اور عوامی ورکرز پارٹی نے بھی
ان کا بھرپُور ساتھ دیا۔
اس واقع کے بعد 25 اکتوبر 2012ء کو پولیس نے غلام دستگیر محبوب اور 4 کسان کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں 17
جولائی 2013ء کو عارف خان کے بھائیوں نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کے جرم میں ڈی ایس پی کے خلاف عدالت میں
شکایت درج کروا دی، تاہم پولیس نے مقتول عارف کے بھائیوں میں سے ایک کو غلام دستگیر محبوب پر الزام لگانے پر
مجبور کیا۔ اس سے دو ماہ قبل پولیس نے مقتول کے دوسرے بھائی پر اپنی شکایت واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا، لیکن
عدالت نے اس کی اجازت نہیں دی تھی، کیونکہ دونوں اطراف سے دلائل اور جوابی دلائل مکمل ہو چکے تھے۔
غلام دستگیر اور اس کے ساتھی کسان کارکن طویل عرصہ تک جیل کی سلاخوں پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے
رہے۔ اس عرصہ میں ان کے مقدمات کی پیروی نامور مزدور رہنما صفدر حسین سندھو ایڈووکیٹ، چوہدری طارق جاوید
ایڈووکیٹ، لیاقت نصیر ایڈووکیٹ، پرویز عنایت ملک ایڈووکیٹ اور دیگر نے کی اور ان کی معاونت عابد حسن منٹو کرتے
رہے۔ اس بربریت کے خلاف سیاسی پریشر کو بھی استعمال کیا گیا اور 23 مئی 2017ء کو ملک بھر میں عوامی ورکرز
پارٹی نے اور لندن میں عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ نے غلام دستگیر، ان کے ساتھیوں اور گلگت بلتستان کے انقلابی رہنما
بابا جان کی رہائی اور جھوٹے مقدمات کی واپسی کے لیے مظاہرے کئے۔ بعد ازاں 7 جولائی 2017ء کو ان کے وکلا نے
سات گھنٹے تک عدالت میں اپنے حتمی دلائل دئیے اور 8 جولائی کو استغاثہ نے جوابی دلائل دئیے۔ بالآخر 9 جولائی
2017ء کو اے ٹی سی جج نے کامریڈ غلام دستگیر محبوب سمیت تمام ملزمان کو ان پر لگائے گئے تمام الزامات سے بری
کرتے ہوئے فیصلہ سنایا اور پولیس اور جیل حکام کو انہیں با عزت بری کرنے کا حکم دیا۔ ان کے وکلا نے استفسار کیا کہ
77 سالہ غلام دستگیر کو جو تقریباً 5 برس جیل میں گزارنے پڑے اور ان سالوں میں جیل میں جس ذہنی اذیت اور مشکلات
سے گزرے، ان کی تلافی کون کرے گا؟ انہوں نے استغاثہ، تفتیش اور عدالتی نظام کی خامیوں کو مورد الزام ٹھہرایا، جس
کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ غریب لوگوں کو جیلوں میں پابند سلاسل رکھا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ قیدی امید اور زندگی
سے محروم ہو جاتے ہیں، جبکہ عدالتی کاروائی برسوں تک جاری رہتی ہے۔ انہوں نے حالیہ مقدمات کی مثالوں کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا، جن میں سپریم کورٹ نے دو مجرموں کو ان کی موت کے بعد بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کر دیا تھا۔
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بی تعداد نے جیل کے دروازے پر اپنے اسیر ساتھیوں کا استقبال کیا اور
ایک بڑے جلوس کی صورت میں ان کے گھر تک لے کر گئے۔
کامریڈ غلام دستگیر جی کو تارخ، ادب اور ثقافت سے بھی گہرہ لگاؤ تھا اور انہوں نے گھر کے ایک کونے میں منتخب کتب
کی لائبریری سجا رکھی ہے۔ ان میں چینی انقلاب کے عظیم رہنما ماؤ زے تنگ، کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، ولادیمیر لینن
کی تنصیبات، چین کی سماجی ترقی کے طریقوں پر لٹریچر کے علاوہ انقلابی شاعر فیض احمد فیض، حبیب جالب اور ترقی
پسند مصنفین، بالخصوص سبطِ حسن، احمد سلیم، ڈاکٹر مبارک علی، سی آر اسلم، عابد حسن منٹو اور ذوالفقار علی بھٹو
جیسے ادیبوں اور تخلیق کاروں کی تنصیبات شامل ہیں۔ انہیں متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، جن میں 1994ء میں پاکستان
پیپلز پارٹی کی جانب سے جدوجہد کے کارواں میں سب سے آگے رہنے کا گولڈ میڈل، 1999-ء میں روزنامہ پاکستان ‘آزادی
صحافت ایوارڈ’ اور 2023ء میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے لائف لانگ جدوجہد کرنے پر ‘راؤ طارق لطیف ایوارڈ آف
آنر’ سے نوازا گیا۔
غلام دستگیر جی خاندانی تعلقات، باہمی بھائی چارے اور محبت کا اعلیٰ امتزاج تھے۔ وہ خاندان کے پڑھے لکھے نوجوانوں
اور بزرگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور ان کے درمیان کمیونیکیشن کے پل کا کردار ادا کرتے تھے۔ وہ زندگی بھر خاندانی
انضمام اور باہمی تنازعات کو حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ انہوں نے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں
معاونت اور ان کی دلچسپیوں کے پیش نظر کیریر بنانے میں مدد فراہم کرتے رہے۔ ان کا اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتے
تھے اور اپنی شریک حیات کے ساتھ 54 سالہ طویل محبت کا رشتہ تھا۔ انہیں اپنے انتقال سے ایک ماہ قبل سانس کی تکلیف
شروع ہوئی، جو بڑھتی ہی چلی گئی اور ایک دل انہیں اپنے اہلِ خانہ، ساتھیوں اور کامریڈوں سے چھین کر لے گئی۔ ان کی
جدوجہد ان کے ساتھیوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گی اور سماجی تبدیلی کی اس انقلابی جدوجہد میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ہم اپنے محترم کامریڈ غلام دستگیر محبوب اور ان کے ساتھیوں کے عزم و قربانیوں اور پاکستان کے مظلوم، محکوم اور
پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے عمر بھر جدوجہد کرنے اور ریاستی جبر کا وقار کے ساتھ
سامنا کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ الوداع کامریڈ غلام دستگیر، آپ جدوجہد کے ہر قدم پہ یاد آئیں گے۔
Related News
غلام دستگیر محبوب ایک بہادر اور سچے انقلابی تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveتحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ آزادی کے 77 برس گزر جانے کےRead More
ہم کینڈین پوسٹل ورکرز کی ہڑتال کے ساتھ مکمل کھڑے ہیں، کمیونسٹ پارٹی آف کینیڈا
Spread the loveکینیڈا کی کمیونسٹ پارٹی نے ہڑتال پر 55,000 پوسٹل ورکرز کے ساتھ اپنیRead More