Main Menu

منٹو کی تربیت! تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the love

دوسری عالمی جنگ، تحریکِ آزادی اور قیام پاکستان کے زمانے میں ہوش سنبھالنے والے عابد حسن منٹو کے بچپن اور جوانی کے اُن واقعات و مشاہدات پر مبنی راقم کا یہ مضمون گذشتہ دنوں اُن کی شائع ہونے والی خود نوشت سوانح سے لیے گئے واقعات پر مشتمل ہے، جنہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اثرات ان کی زندگی پر مرتب ہوئے ہیں۔ ساڑے چار دہائیوں پر مستمل ان کے ساتھ راقم کا رشتہ نظریاتی بھی ہے، سیاسی بھی اور ایک استاد شاگرد کا بھی ہے، بلکہ یوں سمجھیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے عابد حسن منٹو، سید مطلبی فرید آبادی، سی آر اسلم، سردار شوکت علی، مرزا ابراہیم کے نام سنتا اور گاہے بگاھے انہیں دیکھتا چلا آ رہا تھا۔

مجھے آج بھی سوموار 23 مارچ 1970ء یاد آتا ہے، جب میری عمر نو برس سے بھی کم تھی اور میں لال ٹوپی پہنے، ہل کے نشان والا لال پرچم تھامے، امریکی سامراج مردہ باد، کسان مزدور اتحاد زندہ باد، مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگاتا اپنے گاؤں سے بیل گاڑی میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تاریخی کسان کانفرنس میں آیا تھا۔ اُس کانفرنس کے سٹیج پر مولانا عبدالحمید بھاشانی، سی آر اسلم، فیض احمد فیض، کنیز فاطمہ چوہدری فتح محمد اور دیگر راہنما بیٹھے تھے اور ایک خوبصورت پھرتیلے انداز کا نوجوان عابد حسن منٹو اُس کانفرنس کی نظامت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ کالج پہنچا تو سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شامل ہو گیا اور لاہور اجلاسوں میں شرکت کے لیے جاتا تو ان کا اختتام منٹو جی کے خطاب سے ہی ہوتا تھا۔ جب 83-1982ء میں میرٹ کے باوجود مجھے انجنئرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ نہ ملا تو انہوں نے ہی لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر کے مجھے یونیورسٹی پہنچنے میں مدد دی۔ وہ ان دنوں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے

صدر اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے۔

تین فروری 1932ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والے عابد حسن منٹو کا خاندان مَنٹُو کہلاتا ہے، جس کے ساتھ جڑا ہوا خاندان کِچلوُ ہے، دونوں کشمیریوں کی گوت ہیں۔ اُن کی والدہ اور دادی کِچلوُ خاندان سے تھیں، وہی کِچلوُ خاندان جِس کی ایک سرکردہ سیاسی شخصیت اور تحریک آزادی کے ہیرو ڈاکٹر سیف الدین کِچلوُ تھے۔ عابد حسن منٹو کی والدہ ڈاکٹر سیف الدین کِچلوُ کے بڑے بھائی کی بیٹی تھیں۔ ڈاکٹر سیف الدین کِچلوُ کی وجہ شہرت جلیانولہ باغ کا سانحہ تھا۔ اُس باغ میں 13 اپریل 1919ء کو انگریز حکومت کے بنائے ہوئے ایک ظالمانہ قانون ‘رولٹ ایکٹ’ کے خلاف عوامی طاقت کا بھرپوُر مظاہرہ اور احتجاج کرنے کے لیے جلسہٗ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ رولٹ ایکٹ در اصل ھندوستان کی جدوجہدِ آزادی کو روکنے کے لیے انگریز حکومت کی ایک قانونی پیش قدمی تھی۔ اس قانون کے ذریعے کسی بھی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے لمبے عرصہ کے لیے نظر بند کیا جا سکتا تھا۔ جلیانوالہ باغ میں جلسے کی صدارت دو راہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کِچلوُ اور ڈاکٹر ستیہ پال نے کرنی تھی۔ جلسے سے ایک دن پہلے یہ دونوں قائدین حفاظتی تحویل کے نام پر دھوکے سے گرفتار کر لیے گئے تھے، جِس پر عوام بہت سیخ پا تھی۔ اس کے بعد جلیانوالہ کا وہ سانحہ ہوا جِس میں انگریز حکومت کے حکم پر باغ کے دروازے بند کر کے وہاں پر جمع مخلوقِ خدا پر اندھا دھند فائرنگ کر کے بے دریغ قتلِ عام کیا گیا۔


اُن کا گھرانا ایک طرف قانوں کے شعبے میں گراں قدر خدمات سر انجام دے رہا تھا تو دوسری طرف آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور سیاسی جدوجہد میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔ عابد حسن منٹو کے پردادا کے بھائی میاں اسد اللہ پیشے کے لحاذ سے وکیل تھے، جن کی وجہ سے امرتسر میں ان کے علاقہ کا نام کوچہٗ وکیلاں پڑا تھا۔ اُن کے دادا میاں عزیز اللہ منٹونے بیسوی صدی کے ابتدائی زمانہ میں وکالت شروع کی۔ وہ امرتسر سے ہجرت کر کے راولپنڈی اور مری میں آباد ہو گئے۔ اُن کی وکالت اتنی چمکی تو 1930ء میں اُنہوں نے راولپنڈی میں بڑا گھر بنا لیا، جِس میں بعد ازاں منٹو جی کے والد اور ان کے بھائیوں کی فیملیاں دودو کمروں میں رہتے تھے۔ اُن کے والد خواجہ احمد حسن بھی نامور وکیل تھے اور پرانے خلافتی اور کانگریسی تھے، جو 1940ء کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ وہ راولپنڈی اور گردونواح، خصوصاً اٹک سے جہلم تک مسلم لیگ اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو چلانے میں ایم کردار ادا کرتے رہے۔ اُن کے چچا محمود احمد منٹو بھی وکیل تھے اور خاکسار تحریک سے وابستہ تھے اور علامہ عنایت اللہ مشرقی کے بہت قریبی ساتھی تھے۔ اُن کے چھوٹے چچا خورشید احمد منٹو ان دنوں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے، کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر تھے اور پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نامی گرامی لیڈران میں سے تھے۔ اُن کے ساتھیوں میں اندر کمار گجرال، جو بعد ازاں ھندوستان کے وزیرِ اعظم بھی رہے، اور مظہر علی خان تھے۔ عابد حسن مِنٹوُ، اُن کے بھائی خالد حسن مِنٹوُ اور چچا ذاد بھائی شوکت مِنٹوُ، سب کی ذھنی تربیت اور ترقی پسند سیاست سے وابستگی کا سحرہ اُن کے چچا خورشید منٹو کو ہی جاتا ہے۔ مختلف طبعتوں کے مالک خاندان کے یہ سب لوگ اگرچہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے لیکن نہ تو کسی باہمی کشمکش کا شکار تھے اور نہ ہی اُن کی جدا گانا سیاست نے اُن کے رشتوں میں کوئی خلیج حائل کی تھی۔

منٹو جی لکھتے ہیں کہ راولپنڈی کی جِس گلی میں ہمارا گھر تھا اس کی یہ خصوصیت ہمارے لیے بڑی اہمیت رکھتی تھی کہ اُس میں مختلف مذاھب کے لوگ آباد تھے۔ اُس گلی میں بسنے والے لوگوں میں جو ایک طرح کا تنوع تھا، اس نے ہمارے خاندان کے افراد کی تہذیبی نشوونما میں مرکزی کردار ادا کیا۔ کرسمس، نوروز اور مسلمانوں کے اپنے تہواروں کے علاوہ آریہ محلے کی نسبت سے ہندوؤں کے مختلف تہواروں پر ہمارے گھر میں ایک مشترکہ تہذیبی زندگی کی روایات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ ہمارے گھرانے کے لوگ ان سب مذھبی تہواروں میں بھرپُور حصہ لیتے تھے اور مسلمانوں کے تہواروں کے موقع پر اُن تمام مذاھب کو لوگوں کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ کثیرالمذاھب اور تہذیبی رنگا رنگی کی یہ صورتِ حال ہماری ذہنی اور تہذیبی نشوونما میں بڑا کردار ادا کرتی رہی۔ مذھبی اختلافات یا مذھب کی بنیاد پر سماجی رویوں میں تعصبات کو داخل کرنا ہماری پرورش کا حصہ نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اتنی دہائیاں گزرنے کے بعد اور عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر بھی میری سوچ اور میرے شعور کی بہت مضبوط بنیاد اُسی چھوٹی سی گلی کی کثیرالمذہبی تہذیبی رنگا رنگی نے قائم کی۔

تحریکِ آزادی کی جدوجہد میں 1940ء میں ایک نیا عنصر اُس وقت داخل ہو گیا جب لاہور کے منٹو پارک میں منعقد ہونے والی مسلم لیگ کی کانفرنس میں آزادی کے ساتھ ہندوستان کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جِس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ یعنی یہ کہ ھندوستان میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت دو بڑے مذاھب ہندومت اور اسلام میں تقسیم ہے، اِس لیے یہ ایک قوم نہیں ہیں۔ تب سے آزادیِ ھند کی تحریک کا سیکولر کردار ختم ہوا اور سیاست اور آزادی کے بعد ریاست کے معاملات میں مذھب کو، خاص طور پر پاکستان میں بالادستی حاصل ہو گئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ راولپنڈی میں، جہاں وہ رہتے تھے، مسلم لیگی لیڈروں کی قیادت میں شہر بھر میں جلوس نکلتے تھے، جِن میں میرےوالد اور چچا بھی شامل ہوتے تھے۔ میں بھی ایک دن انہی میں سے ایک جلوس میں شامل تھا کہ گرفتاریاں شروع ہوگئیں اور مجھے بھی والد صاحب اور چچا کے ساتھ پولیس اُٹھا کر لے گئی۔ بعد ازاں کم عمری کی وجہ سے مجھے تو چھوڑ دیا گیا لیکن میرے والد کچھ عرصہ جیل میں رہے۔ ایک طرف میرے ذھن پر میرے چچا خورشید منٹو کی سیاست کا اثر تھا اور اُن کیمونسٹ کارکنان کا جو اُنہیں ملنے کے لیے اکثر ہمارے گھر آتے رہتے تھے، تو دوسری طرف ‘لے کے رہیں گے پاکستان’ اور ‘بن کے رہے گا پاکستان’ کے نعرے تھے۔ میں دونوں سے متاثر تھا۔ عین اُس وقت ھندوستان کی کیمونسٹ پارٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان بنانے کا مطالبہ مسلمانوں کے حقِ خود اختیاری کا معاملہ ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ درست تھا یا غلط، اس بات سے قطعِ نظر میرے لیے اس نے بہت سی آسانیاں پیدا کیں۔ اس لیے جو اثر مجھ پر کیمونسٹ لوگوں کا تھا، اُس میں اور پاکستان بنانے کی تحریک میں کوئی تضاد نہ رہا تھا۔
اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 46-1942ء میں اسلامیہ ہائی سکول راولپنڈی میں تعلیم کے دوران وہاں معمول تھا کی دوپہر کی نماز پڑھنے کے لیے سکول کے اکثر بچے سکول کی بڑی جامع مسجد میں اکٹھے ہوتے تھے۔ ایک دِن موذن موجود نہ تھا تو میرے دینیات کے استاد صوفی محمد زمان نے مجھ سے کہا کہ تماری آواز بہت اچھی ہے، تم اذان دو۔ بس، میں نے ایک اذان کیا دی کہ اگلے دو تین برس تک میں ہی اذان دینے پر معمور ہو گیا۔ ہمارے گھر کے سارے افراد اکثر پکنک پر جاتے تھے اور ایسے ہی ایک روز سارے گھر والے پکنک پر گئے تو چچا خورشید منٹو اپنے ساتھ عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کی کہانیاں بھی لائے تھے، جو اُس وقت تک ہمارے گھر میں کھلے عام پڑھنا ممنوع تھیں۔ خورشید منٹو آٹھ دس نوجوانوں کو لے کر ایک بڑی دری پر چلے گئے اور خود ایک طرف بیٹھ گئے۔ باقی سب اُن کے سامنے ایسے بیٹھ گئے جیسے کلاس میں طالب علم استاد کے سامنے بیٹھتے ہوں، گو یہاں سبق کی بجائے کہانی سنائی جانی تھی۔
منٹو جی 48-1946ء تک گورڈن کالج راوالپنڈی میں زیرِ تعلیم رہے اور وہ لکھتے ہیں کہ گورڈن کالج سے میرا رشتہ محبت اور نفرت دونوں کا تھا۔ وہ اس طرح کہ کالج کی فضا، اس کی ‘کو ایجوکیشن’ اور خاص طور پر میرے پسندیدہ کھیل ٹینس کی وجہ سے مجھے کالج جانا اور اس کے ساتھ وابستگی بہت پسند تھی، لیکن وہی زمانہ میری سیاست کے آغاز کا بھی تھا۔ بائیں بازو کی سیاسی وابستگی کے نتیجے میں گورڈن کالج خود میری سیاست کا نشانہ بن گیا۔ یہ کالج امریکن مشن کا کالج تھا اور میری سیاست امریکہ مخالف تھی۔ کالج میں تعلیم تو میں نے کم حاصل کی لیکن اس کے گیٹ پر کھڑے ہو کر طلبہ اور عام شہریوں کو امریکہ کے خلاف تقریریں زیادہ سنائیں۔ چنانچہ امریکن کالج کے سامنے امریکہ ہی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کالج اور اس کی امریکی ساخت خاص طور پر زیرِ تنقید آتی تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنا پہلا مضمون 1949ء میں پاکستان میں زبان کے مسئلے پر ادبی اور تہذیبی انجمن ‘مری لٹریری سوسائیٹی’ مین پڑھا، جِس کے روحِ و روان میرے چچا بشیر احمد منٹو تھے۔ اگرچہ یہ مضمون میں نے پارٹی کے حکم پر لکھا تھا لیکن اس کا محرک قائدِ اعظم کی وہ تقریر تھی جو اُنہوں نے ڈھاکہ میں کی، جِہاں طلبہ کے اجلاس میں کسی کے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہو گی۔ اس وقت اس پر کچھ ہنگامہ بھی ہوا اور بعد میں مشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلے پر بڑی تحریک پیدا ہوئی جو بعد میں بنگالی قومیت کی شناخت کی تحریک بن گئی۔ راولپنڈی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں شرکت اور ‘ادبِ لطیف’ جیسے رسالوں میں میرے تنقیدی مضامین شائع ہونے کی وجہ سے، نیز لاہور میں ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں مضمون پڑھنے کی وجہ سے، میں ان دنوں طالب علم کم لیکن کچھ ادیب، کچھ سیاسی مقرر اور بائیں بازو کے خیالات سے وابسشہ ایک نوجوان کے طور پر زیادہ پہچانا جانے لگا تھا۔
سیاسی معاملات میں مذہب کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ سیکولر کا مطلب لا دین نہیں ہے۔ اگرچہ جو لوگ مذھب کو نہیں مانتے وہ بھی عموماً سیکولر ہی کہلاتے ہیں، لیکن میری مراد سیکولر سے وہ لوگ ہیں جو مذھب کو سیاست اور ریاست کے دائرے سے باہر رکھنا چاہتے ہیں اور مذھب کو ہر انسان کا ذاتی عمل اور اُس کے ذاتی ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انسانی سماج مختلف النوع افراد کا اجتماع ہے اور تاریخِ انسانی جن منازل کو طے کرتے ہوئے جدید زمانے تک پہنچی ہے اس میں ان صدیوں پہلے کا مذھبی ریاستوں کی بنیاد پر حکومتیں چلانے کا معاملہ قِصہٗ پارینہ بن چکا ہے۔ تیسری دُنیا کے بعض حصوں میں جہاں زمین اور اُس کی پیداواری قوتوں پر قبضے اور دیگر معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے جنگیں ہوتی نظر آتی ہیں، اُن میں مذھبی عنصر داخل کر دیا جاتا ہے، تاکہ پسِ پردہ مفادات پر نظر نہ جا سکے اور دیکھنے والے صرف مذھبی کشمکش ہی کو اہمیت دیتے رہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ادیب فاضل اور بی اے کرنے کے بعد 1953ء میں لا کالج لاہور میں داخل ہو گیا۔ ہمارا کالج اُس وقت انارکلی کے برابر میں ضلع کچہری کے برابر والی سڑک پر واقع تھا۔ لا کالج سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن تھا جِس میں میں صدارت کا امیدوار تھا۔ میرے مدِمقابل امیدوار نے میرے خلاف یہ پراپیگنڈہ کیا تھا کہ میں کیمونسٹ ہوں، چنانچہ ملک دشمن بھی ہوں۔ کچھ اس طرز کے بڑے بڑے اشتہار شائع کیے گئے جن میں ایک بڑا درخت تھا اور میں درخت کے نیچے ایک آرا لے کر اُسے کاٹتا ہوا دکھایا گیا تھا اور درخت کے اوپر لکھا تھا ‘شجرِ پاکستان’۔ میرے خلاف یہ ساری کاروائی کرنے والوں میں ہماری مقامی اسلامی جمعت طلبہ، لاہور میں امریکن سینٹر اور اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کا اس زمانے کا عملہ شامل تھا۔ یہ اشتہارات اس اخبار کے پریس سے شائع ہوتے تھے اور اس پر اُٹھنے والے اخراجات امریکن سینٹر والے اُٹھاتے تھے۔ اس سب کے باوجود میں 1954ء میں لا کالج سٹوڈنٹس یونین کا صدر بھی منتخب ہو گیا۔
اُنہوں نے 1955ء کے آخر میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا تو اپنے والد کے ساتھ وکالت کرنے کے لیے واپس راولپنڈی چلے گئے۔ اُن کے والد خواجہ احمد حسن پاکستان بننے سے پہلے سے راولپنڈی کے مشہور وکیل تھے۔ پانچ برس کی وکالت کے بعد وہ ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر رجسٹر ہو گئے تو ہمیشہ کے لیے لاہور منتقل ہو گئے۔ لاہور آتے ہیں اُنہوں نے ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، ملکی آزادی کی تکمیل اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی بھرپور جدوجہد کا آغاز کر دیا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *