Main Menu

انٹرااسٹیٹ ٹریڈ سے خوف زدہ کون ہے اور کیوں ہے ؟ صدر سرو راجیہ انقلابی پارٹی ریاست جموں کشمیر

Spread the love

تحریر: سجاد افضل
صدر سرو راجیہ انقلابی پارٹی ریاست جموں کشمیر

پاکستانی مقبوضہ ریاستی ٹکڑے کی تمام پولٹیکل پارٹیز مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام سے ہمدردی اور تقسیم ریاست کے خلاف زبانی کلامی بات کرتی ہیں لیکن جب طوفانی مہنگائی کے نتیجے میں عام آدمی کی چیخیں نکلیں اور اس مہنگائی سے نجات کے لیے انٹرااسٹیٹ ٹریڈ کی باتیں ہونی شروع ہوئیں تو مظفرآباد اسلام آباد اور راولپنڈی میں بیٹھے سورماؤں کو خدشہ لاحق ہو گیا کہ یہ وہ قابل عمل مطالبہ ہے جس پر عوامی تحریک بن سکتی ہے کیونکہ مہنگائی سے تنگ عوام کسی حد تک جاسکتے ہیں جو ناصرف مقتدرہ کے لیے وبال جان بلکہ اس سے ریاستی عوام کی جڑت اور ریاستی وحدت کی راہیں نکل سکتی ہیں
اس سلسلہ میں اسلام آباد و مظفرآباد کی طرف لگائے رکھنے اور بھول بھلیوں میں ڈالے رہنے کی کوششیں تیز تر ہوتی گئیں
کچھ لوگوں کی محنت سے انٹرااسٹیٹ ٹریڈ کے لیے ماحول بنا اور عوامی سطح پر اسے پذیرائی ملنی تو شروع ہوئی لیکن اس عمل کو تیز کرنے اس کی منصوبہ بندی اور اس پر تحریک پیدا کرنے کی بابت لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے جس سے اوپر والوں کا خوف کھل کر سامنے آتا جارہا ہے
سو اس پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اس سارے عمل کو کنفیوز کیا جارہا ہے
مثال کے طور پر کہا جارہا ہے کہ ہم جس ملک سے وابستہ ہیں اسی سے احتجاج کرنا چاہیئے جو کچھ ملے گا ادھر ہی سے ملے گا
ہمیں ہندوستان سے تجارت سے باز رہنا چاہئیے ہمارے لاکھوں شہداء کا خون ہوا ہے
ٹریڈ ہوگا تو کس طرح ہوگا یہاں تو منڈی نہیں بن سکتی
پاکستانی کرنسی کو ہندوستانی کرنسی میں تبدیل کرکے معاملہ برابر ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ
حالانکہ یہ سب چیزیں ایڈریس کیے جانے کے قابل ہیں یہ کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے لیکن کنفیوژن پھیلانے کے لیے تو یہ باتیں بڑی دانشوری کے طور پر کہی جارہی ہیں
ایک وقت تھا جب آنجہانی چوہدری غلام عباس و سردار عبالقیوم خان سے لے کر قوم پرست و ترقی پسند سب سیز فائر لائن کی طرف بھاگے جاتے تھے کہ پاکستانی ریاست کی یہی منشاء بلکہ اسی کا یہ پلان تھا اور مقصد یہ تھا کہ اس ٹکڑے کو آزاد سمجھا جائے اور بھارتی حصے کو مقبوضہ سمجھ کر لوگوں کو اس طرف لگائے رکھا جائے
اب جبکہ وہ حصہ دسترس میں نہیں رہا اور اب پاکستانی پالیسی سازوں نے عملی طور پر بھی مکمل دستبرداری اختیار کر لی تو اپنے تئیں پاکستان اپنے مقبوضہ حصے کو ہڑپنے پر لگا ہوا ہے تو منصوبہ بدل چکا ہے کہ یہاں کے لوگ ہمیں سے توقعات لگائے رکھیں حالانکہ اب تو یہ اتنے کمزور ہوچکے کہ سوائے موت کے ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تو ایسے میں ہمارے لٹے پٹے عوام کو ریلیف اپنے وطن سے ہی مل سکتا ہے اور نقش اول کے طور پر معاشی رشتہ ہی عملی اور حقیقی رشتہ ہوتا ہے جو قابل ہونے کی صورت میں نقش ثانی کے طور پر ریاستی وحدت کی طرف جانے کا سبب بن سکتا ہے
ایسے میں معاشی مانگیں لے کر سیز فائر لائن کی طرف جانے کے عمل کو ریاستی مشینری ناصرف اپنے لیے سبکی سمجھتی ہے بلکہ اس سے مستقبل کی راہیں متعین ہونے کے خدشات کے پیش نظر اجتناب برتنے میں ہی عافیت سمجھتی ہے
ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ عوامی حقوق اور ریاستی وحدت کے دعووں کو عملی طور پر پریکٹس کیا جائے اور اس سلسلہ میں آپسی تقسیم کو کم سے کم کرتے ہوئے عوامی پرتوں میں مشترکات پر وحدت قائم کی جائے
لیکن چونکہ ریاست ہم سے طاقتور ہے سو وہ اپنے داؤ پیج کھیل رہی ہے
ریاست جب سیز فائر لائن کی طرف بھیج رہی تھی تو اس کے آلہ کار بننے والے اسی طرف دوڑرہے تھے اب جبکہ ریاست روک رہی ہے تو آلہ کاری کرنے والے بھی روک رہے ہیں اور مسلسل ایک ہی کردار نبھا رہے ہیں
پاکستانی ریاست کے ہوائی دعووں کی قلعی کتنی بار بیچ چوراہے کے کھلی کتنے خواب دیکھائے گئے جو کبھی حقیقت نہ بن سکے کتنے جھوٹ بولے گئے جو دن دہاڑےننگے دیکھائی دیتے رہے ہیں لیکن ہمیں عقل نہیں آئی اور ظالم ریاست کی آلہ کاری سے ہم باز نہیں آئے
سو
میرا ماننا ہے کہ اپنے وطن کے دوسرے حصے سے تجارت کی یہ مانگیں اب بڑھیں گی اور لوگ اس طرف متوجہ ہوں گے
اس عمل میں کسی کی محتاجی کی بھی ضرورت نہیں کہ حقیقی راستے خود بن جاتے ہیں اور اس عمل میں کھرے کھوٹے کی تمیز بھی ہو جاتی ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *