Main Menu

۔ سوشلسٹ راہنما یوسف مستی خان انتقال کر گئے۔ یوسف مستی خان اپنی دہرتی کے حقیقی سپوت اور اپنے عوام کے حقیقی راہنما تھے

Spread the love

لیڈز، پریس ریلیز
01 اکتوبر ۔ سوشلسٹ راہنما یوسف مستی خان انتقال کر گئے۔ وہ عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کے مرکزی صدر اور یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے کنوینر ھے۔ وہ میر غوث بخش بزنجو، عابد حسن منٹو، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، چوہدری فتح محمد اور اختر حسین کے دستِ راست تھے۔ ملک بھر سے آنے والے ہزاروں انقلابی کارکنوں نے اُن کی کراچی میں تدفین کر دی۔ اُن کی نمازِ جنازہ پشاور، بونیر، کوئیٹہ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ادا کی گئی۔ برطانیہ کے ترقی پسندوں کا زبردست خراجِ عقیدت۔ بریڈفورڈ کے سابق لارڈ میئر محمد عجیب، راجہ غضنفر خالق، کیمونسٹ پارٹی برطانیہ کے جنرل سیکرٹری رابرٹ گرفتھس، انڈین کیمونسٹ پارٹی مارکسسٹ برطانیہ کے راہنما ھرسیو بینس، انڈین ورکرز ایسوسی ایشن برطانیہ کے صرد دیال سنگھ بھاگڑی، سرون سنگھ، بھگونت سنگھ، بنگلہ دیش ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما شہریار احمد، پریس کلب پاکستان برطانیہ کے صدر پرویز مسیح، غلام رسول شہزاد، عوامی ورکرز پارٹی کے پرویز فتح، ڈاکٹر افتخار محمود، نذہت عباس، نارتھ برطانیہ کے صدر محبوب الہی بٹ، جنرل سیکرٹری لالہ محمد یونس، گلاسگو سے امتیاز علی گوہر، نیوکاسل سے بزرگ سوشلسٹ راہنما عبدالرشید سرابھا، صغیر احمد، نظر حسین، لیڈز سے پروفیسر محسن ذوالفقار، سابق صدر ٹی یو سی محمد تاج، خالد سعید قریشی، رچڈیل سے محمد ضمیر بٹ، محمد سعید، بریڈفورڈ سے پروفیسر نذیر تبسم، پروفیسر فیبی حسین، ظفر ملک، رشید احمد خاطر، مانچسٹر سے ذاکر حسین ایڈووکیٹ، شفیق الزمان، انیس زیدی، سابق کونسلر نصراللہ مغل، برمنگھم سے نامور صحافی عباس ملک، مسعود بٹ، لندن سے منیب انور، ڈاکٹر توحید خان، یحییٰ ہاشمی، تنویر زمان خان، راجہ محبوب، سولسٹر مذمل مختار، اور رضوان کیانی نے پاکستان میں مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے علم بردار اور محنت کش طبقات، کسانوں، مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کے ہونہار راہنما یوسف مستی خان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اُنہیں ذبردست خراجِ عقیدت پیش کیا، جو اپنی ساری زندگی ملکی آزادی کی تکمیل اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے انتھک جدوجہد کرتے رہے اور قیدوبند و استحصالی حکومتوں کا تشدد برداشت کرتے رہے۔ کامریڈ یوسف مستی خان گذشتہ روز کینسر سے لڑتے لڑتے انقال کر گئے تھے۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سے کینسر کے خلاف لڑ رہے تھے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مجھے ملک پر مسلط استحصالی کینسر سے لڑنا ہے اور یہ کینسر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

کراچی کے قدرے خوشحال بلوچ گھرانے میں انکھ کھولنے والے یوسف مستی خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آگاز تو زمانہ طالب علمی سے ہی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے شروع کر دیا تھا۔ تعلیم مکمل کر کے پاکستان برماشل میں مینجر کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان اور سرحد میں حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے ختم کر کے حیدرآباد ٹربیونل بنا کر نیپ کے راہنماوں کو پابند سلاسل کر کے حسب معمول غداری کے مقدمے قائم کر دیئے گئے تو اُنہوں نے ملازمت چھوڑ کر فل ٹائم سیاست شروع کر دی۔ انہوں نے بھٹو دور اور ضیاء کے سیاہ دور میں جیلوں اور ریاستی تشدد کا جوان مردی سے مقابلہ کیس۔ جلد ہی وہ میر غوث بخش بزنجو کے دست راست بن کع ترقی پسند سیاست کے منظر نامے پر ابھرے۔ پھر بزنجو صاحب کی پاکستان نیشنل پارٹی کے سرکردہ راہنما رہے اور اُن کے انتقال کے بعد پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔ بعد ازاں انہوں نے پلک میں بائیں بازو کی جماعتوں کو یکجا کر کے ملک میں سماجی تبدیلی برپا کرنے کے لیے عابد حسن منٹو، سی آر اسلم اور اختر حسین کے ساتھ مل کر بائیں بازو کی جماعتوں عوامی جمہوری پارٹی، پاکستاں سوشلسٹ پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی کے انضمام سے 1999ء میں نیسنل ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی تو عابد حسن منٹو اُس کے صدر اور یوسف

مستی خان جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
وہ ہمیشہ ملک میں ایک وسیع البنیاد ترقی پسند سیاست کی داغ بیل دالنے کے لیے سرگرم رہے اور سمجھتے تھے کہ میں ایک وسیع تر عوامی تحریک کی بنیاد رکھے بغیر سماجی تبدیلی برپا نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اُنہوں نے بائیں بازو کع یکجا کرنے اور متحدہ پارٹی کے قیام کے لیے اپنے بھرپُور کردار کو جاری رکھا اور 2010ء میں نیشنل ورکرز پارٹے، کیمونسٹ مزدور کسان پارٹی اور دیگر گروپوں کے انضمام سے ورکرز پارٹی پاکستان اور 2012ء میں ورکرز پارٹی پاکستان، عوامی پارٹی پاکستان اور لیبر پارٹی پاکستان کے انضمام سے عوامی ورکرز پارٹی قائم کی۔ یوسف مستی خان نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ روشن خیال قوم پرست سیاست کرتے گزارا اور انہوں نے قوم پرست سیاست میں بھی کبھی تنگ نظری نہیں اپنائی ۔لیکن جب سے انہوں نے دیگر ساتھعوں کے ساتھ مل کر نیشنل ورکرز پارٹی قائم کی اور طبقاتی سیاست سے رشتہ جوڑا تو پھر اپنے آخری سانس تک لڑکھڑاے نہیں۔

یوسف مستی خان اپنی دہرتی کے حقیقی سپوت اور اپنے عوام کے حقیقی راہنما تھے جنہوں نے اسائیشوں سے بھری زندگی اور اپنے بہتر مستقل کے خواب اپنے عوام کی زندگی بدلنے اور ملکی عوام کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانے اور ملک کو آمروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بھتہ خوروں سے آزاد کروا کر ملک کو ایک حقیقی عوامی جمہوری ریاست میں ڈہالنے کی جادوجہد کے ہیے قربان کر دئیے۔ ایسے انسان کبھی مرتے ہیں بلکہ تحریک کی شکل میں ہمیشہ زندہ رہتے اور اپنی آنے والی نسلوں کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ ہم اُن کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم کرتی ہیں۔


پرویز فتح






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *