Main Menu

چی گویرا، انقلاب اور نیو لیبرل دانشور تحریر: پرویز فتح (لیڈز، برطانیہ)

Spread the love

فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا “وہ بات سارے فسانے میں جِس کا ذکر نہ تھا”، بالکل ایسے ہی ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک ہیجان برپا ہو گیا۔ بات کہاں کی تھی اور کہاں تک جا پہنچی، اور دوسروں کی سوچ، تحریر، کردار اور وابستگیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ بلا شعبہ ھر انسان کا شعُوری لیول اور سوچ کی ایک منفرد سطح اور مقام ہوتا ہے۔ بات تو ایک ماضی کے فوجی اور حال کے صحافی کی سابق وزیرِ اعظم کی تقریب میں دھوں دار تقریر کرنے اور سابق وزیرِاعظم کے سامنے سوال اٹھانے کی تھی کہ اُنہوں نے اپنے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں ملکی دفاعی اداروں کو اُن کی حدود تک محدود کیوں نہ کیا۔ گویا کہ اُس صحافی نے یہ اخذ کر لیا تھا کہ اُن کی حکومت اپنے بل بوتے اور ایک آزاد ووٹ کے ذریعے آئی تھی اور وہ اپنے فیصلوں میں اس قدر آزاد، باعمل، بااختیار اور طاقتور تھیےکہ منہ زور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے پر مجبور کر سکتی؟ اِس پر بھی متصاد یہ کہ ایک سماجی کارکن نے سوشل میڈیا پر طنزیہ ریمارکس پاس کر دیئے کہ صحافی موصوف اب اپنے آپ میں چی گویرا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ریمارکس سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے، جِس سے بہت سوں کا خون کھولنے لگا۔ ایک طرف نوآبادیاتی تسلط، سامراجی غلامی و استحصال اور نیو لیبرل ایجنڈہ کے اندر رہتے ہوئے محدود جمہوریت کے حمائیتیوں نے قلم تھام لیا تو دوسری طرف سامراجی غلامی و استحصال کے خلاف برسرِپیکار سماجی تبدیلی کے لیے سرگرم انقلابیوں نے سوشل میڈیا پر مورچے

سنبھال لیے اور سب تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے اپنے اپنے دماغ کا غبار نکالنے پر جُت گئے۔
چی گویرا میرا ہیرو ہے اور اُس کے متعلق ایکس۔وائی۔زیڈ کے کیا خیالات ہیں، میرے لیے بالکل غیر اہم ہے، کیونکہ دُنیا بھر کے انقلابی، سماجی تبدیلی اور قومی آزادی کے لیے سرگرم سیاسی کارکن، نوآبادیاتی اور جدید نوآبادیاتی تسلط کے خلاف برسرِ پیکار آزادی کے متوالے اور یورپ و امریکہ سمیت دُنیا بھر میں نوجوانوں کی لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد چی گویرا کو اپنا ہیرو اور آزادی کا استعارہ سمجھتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے میرے جیسے ہزاروں ایشیائی بھگت سنگھ کو اپنی دھرتی کا ہیرو سمجھتے ہیں، اور مجھے، یا پھر بھگت سنگھ شہید کو اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایکس۔وائی۔زیڈ اسے قاتل، جا پھر دھشت گرد سمجھے۔ ریاستی ظلم، جبر اور بربریت کے حالات میں سامراجی غلامی سے آزادی کی تحریکیں بلا شُعبہ کسی نہ کسی مرحلے پر پُر تشدد ہو ہی جاتی ہیں۔ میرے جیسے ایک سادہ لوح سیاسی کارکن کو اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ فاشسٹ جرمنی کے خلاف دوسری عالمی جنگ میں اپنے ملک کا دفاع کرتے اور فاشسٹ جرمنی سے اپنا آدھا ملک دوبارہ چھیننے کے دوران وہاں کتنی اموات ہو ئی تھیں اور کوئی اُسے سٹالن کے قتل عام سے تعبیر کرتا ہے، یا پھر جاپانی ایمپائر کے خلاف قومی آزادی کی جنگ لڑتے چین کے انقلابی راہنما ماؤ زے تنگ نے اپنے ہم وطنوں کی کتنی اموات کا صدمہ سہا تھا، اور اُسے ہمارے نیم غلام ملک کے غلام دانشور ماؤ زے تنگ کا قتل عام گردانتے ہیں، یا پھر سامراج کے گارڈفادر امریکی کی شاہرگ کے قریب شمالی امریکہ کے ایک چھوٹے سے جزیرہ نما ملک کیوبا میں سامراج سے آزادی کی جنگ میں کتنے ہم وطنوں کی قربانی دینا پڑی تھی، اور ہم اُسے بھی فیڈرل کاسترو اور چی گریرا کا قتلِ عام گردانتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ تو یہی ہے کہ ارجنٹائن میں پیدا ہونے والا چی گویرا وہ انقلابی تھا جس نے فیڈل کاسترو کے ساتھ 1959ء کے انقلابِ کیوبا کی قیادت کی تھی۔ ہمیں پاکستان جیسے نوآبادیاتی تسلط اور سامراجی غلامی میں جکڑے ہو ملک میں سامراجی نیو لیبرل ایجنڈہ کے پیروکاروں کی جانب سے اِس قسم کے منفی تصورات اور پراپیگنڈہ سے اتنا بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں البتہ جہاں ضروری ہو اپنا نقطہٗ نظر کھل کر بیان کرنے اور اُسے عام سیاسی و سماجی کارکنوں تک پہنچانے کی یقیناً ضرورت ہے۔

چی گویرا ایک تہلکہ خیز مارکسی انقلابی، مصنف، کوالیفائیڈ ڈاکٹر، نوآبادیاتی نظام کے خلاف بغاوتوں کی قیادت کرنے والے عالمی شہرت یافتہ گوریلا رہنما، سفارت کار، اور فوجی تھیوریسٹ تھے۔ اُنہیں دنیا بھر میں سوشلسٹ مزاحمت، سامراج سے نجات اور نوآبادیاتی تسلط کے خلاف انقلابی جدجہد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چی گویرا کا پورا نام ارنسٹو رافیل گویرا ڈی لا سرنا تھا، البتہ اُن کا قانونی نام ارنسٹو رافیل گویرا تھا، جو اُن کے برتھ سرٹیفکیٹ پر درج تھا۔ وہ 14 جون 1928ء کو لاطینی امریکہ کے ملک ارجنٹائن ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﻗﺼﺒﮯ ﺭﻭﺳﺎﺭﯾﻮ ﮐﮯﺍﯾﮏ ﻣﺘﻮﺳﻂ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ارنسٹو گویرا لنچ آئرش ایک باغیانہ فطرت اور سماجی تقریبات کرنے کے شوقین تھے، جبکہ اُن کی ماں سیلیا ڈی لا سرنا وائی لوسا ایک انقلابی کارکن تھیں، جِن کا اپنے بیٹے چی کی سیاسی و نظریاتی تربیت میں بنیادی کردار تھا۔ چی گریرا ﺑﭽﭙﻦ ﺳﮯ ہی شدید ﺩﻣﮧ کے ﻣﺮﯾﺾ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﯾﺘﮭﻠﯿﭧ تھے اور اُنہوں نے تیراکی، فٹ بال، گولف، شوٹنگ اور سائیکلنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے خاندان میں پرورش پانے والے، چی کو لڑکپن میں ہی سیاسی نقطہ نظر کے وسیع میدان سے متعارف کرایا گیا تھا، جِس سے اُن کے دل میں غریبوں سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﻮﻗﯿﻦ تھا اور اُسﮐﯽ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍُسے اپنے ہی ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ہی 3000 ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ علم کا وسیع ﺫﺧﯿﺮﮦ مل گیا، ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍُس ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺮین ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ۔

ﭼﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﮐﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﺗﮭﺎ، لیکن اپنے ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﮐﯿﺮﺋﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ گیا تھا۔ اُس نے 1950ء ﺳﮯ 1953ء ﺗﮏ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﯽ حیران کن اور سبق آموز ﺳﯿﺎﺣﺖ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔ اپنا پہلا سیاحتی سفر اُس نے 1950ﺀ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺑﺮﺍﻋﻈﻢ ﮐﮯ ﺟﻨﻮﺏ ﺳﮯ ﺷﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ کیا اور ﺗﻨﮩﺎ 4 ھزار 500 سو ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﻃﮯ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ اُس نے 1951ء ﻣﯿﮟ اپنی سائیکل پر ایک موٹر لگا کر اُسے موٹر سائیکل میں تبدیل کر کے ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ، ﺟﻮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 8 ھزار ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺳﻔﺮ ﺍس ﻧﮯ 1953ﺀ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ اور اِس طرح چی گویرا نے اپنی سیاحت کے اُس سفر میں مجموعی طور پر ﻣﺘﻌﺪﺩ ﻣﻤﺎﻟﮏ بالخصوص یوروگوئے، ﭼﻠﯽ، ﭘﯿﺮاگوئے، بولیویا، برازیل، پیرو، ﺍﯾﮑﻮﺍﮈﻭﺭ، ﮐﻮﻟﻤﺒﯿﺎ، ﻭﯾﻨﯿﺰﻭﯾﻼ، نکارا گوا، گوئٹے مالا، میکسیکو ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻮﺑﺎ کی مسافت کرنے اور وہاں کو عوام کے رہنے سہنے، سماجی رشتوں، رسم و رواج، طبقاتی تفریق اور نوآبادیاتی جبر و استحصال میں عوام کی بے بسی کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اپنے ﺁﺧﺮﯼ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ چی نے کئی ہفتے ﭘﯿﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﮔﺬﺍﺭﮮ اور وہ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ اور سامراجی جبر و استبداد کی مختلف شکلوں کو ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﮭﮑﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ وہ باقاعدگی سے اپنے سفر کی ڈائری لکھتا رہا اور اِس نے اپنے سفر نامے اور مشاہدات کو رقم کرنا اپنا محبوب مشغلہ بن لیا۔ ﺍﺱ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﭼﯽ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺍ، ﻭہیں ﺟﺐ ﻭﮦ دور دراز ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺼﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ، ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﺷﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺯﺍﺭ، ﻏﺮﺑﺖ، ﺑﮭﻮﮎ، ننگ، بیکاری، بےروزگاری ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﮟ۔ چی بنیادی طور پر ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺣﺴﺎﺱ ﺩﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ سیاحتی ﻣﺸﺎﮨﺪﮮ ﺳﮯ وہ ﺍﺱ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ سامراجی غلامی اور اُس کے مقامی کارندوں ﮐﮯ ﺯﯾﺮ ﺗﺴﻠﻂ ﮨﮯ۔ اُس نے سامراجی غلامی کی خلاف جنوبی امریکہ کے تمام ممالک میں آزادی کی تحریکیں منظم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ پھر اُس نے ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺁﻑ ﺑﯿﻮﻧﺲ ﺁﺋﺮﺱ ﺳﮯ اپنی میڈیکل کی ڈگری ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺧﯿﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ اُس کی ﻻﺵ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ۔

بیشتر نوجوانوں کی طرح چی کو بھی دنیا دیکھنے کا ایسا جنون تھا کہ اُسے کہیں رکنا یا ٹھہرنا نصیب ہی نہیں ہوتا تھا۔ پڑاؤ اس کے مقدر میں ہی نہیں تھا، جیسا کہ اُس نے ایک مرتبہ خود کہا تھا کہ مجھے اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میں ایک ناقابل یقین مقدر کی گرفت میں ہوں، اور مسلسل مسافرت میرا نصیب بن چکی ہے۔ اس کا رستہ کون سا تھا اس کی سمت کون سی ہو گی، اس کا ادراک اس کو خود بھی نہیں تھا۔ اس نے سفر اختیار کیا تو پلٹنا بھول گیا اور برسوں اپنے آبائی ملک ارجنٹائن واپس نہ جا سکا۔ ایک مرتبہ چی نے لکھا کہ جب میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو اُس کے ذہن کے نہاں خانوں میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو آج ایک انقلابی کے طور پر اُس میں ہے۔ ہر ایک کی طرح اُس کا بھی ایک ہی مقصد ایک ہی جنون تھا ؛ کامیابی۔ وہ خواب دیکھا کرتا تھا کہ وہ ایک مشہور محقق بنے گا۔ وہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ انتھک محنت کر کے کچھ مختلف کر کے دکھائے گا، کچھ ایسا کہ جو نوع انسانی کی عظیم خدمت قرار پائے۔ لیکن اس وقت اُس کا یہ آدرش محض ایک ذاتی کامیابی کا آدرش ہی تھا۔ ہر ایک کی طرح وہ بھی اپنے ماحول کی ہی پیداوار اور اس کا اظہار تھا۔

ﭼﯽ ﮔﻮﯾﺮﺍ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ذھن کا مالک ایسا انسان تھا جو دنیا بھر کی محکوم اقوام کو سامراجی نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد کروانا چاھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ﻭﮦ ﮔﻮﺋﭩﮯ ﻣﺎﻻ ﻣﯿﮟ قیام کے دوران ﻣﺎﻟﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ تو ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ تھا کہ وہ مقامی قوانین کے مطابق ﻣﻘﺎﻣﯽ ﮐﯿﻤﻮﻧﺴﭧ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﻤﺒﺮ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ اور ہمیشہ کے لیے وہیں رہ جائے۔ چی اپنی آنکھوں سے نوآبادیاتی سائے میں پنپنے والی اصلاح پسندی کی بھیانک اور مہلک کمزوری کو دیکھ چکا تھا اور اس کا یہ یقین پختہ ہو چکا تھا کہ اُس زمانے کے حالات اور سامراجی بربریت میں سوشلزم کو مسلح جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ستمبر 1954ء میں میکسیکو پہنچا، جہاں اس کے کیوبا کے ان تارکین الوطن سے رابطے ہوئے جن سے وہ پہلے گوئٹے مالا میں مل چکا تھا۔ جون 1955ء میں وہ پہلے راؤل کاسترو سے ملا، پھر اس کی ملاقات فیڈرل کاسٹرو سے ہوئی، جسے کیوبا میں قید سے رہائی مل چکی تھی، کیونکہ اُسے مونکاڈا بیرکوں پر ناکام حملوں کے بعد قید کر لیا گیا تھا۔ چی نے فوری طور پر کیوبا کی 26 جولائی موومنٹ کو جوائن کر لیا جو صدر بیتیشیا کی آمریت کا تختہ الٹنے اور سماجی انقلاب برپا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ پہلے پہل چی کو بطور ڈاکٹر میڈیکل ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا، کیونکہ اُس مسکین کی طبیعت شروع سے ہی دمہ کے ہاتھوں خراب چلی آرہی تھی، چنانچہ یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کو ایک جنگجو کی ڈیوٹی دینا نامناسب ہو گا۔ تاہم اس کے باوجود بھی چی مسلح تربیت بھی ساتھ ساتھ حاصل کرتا رہا اور اس نے جنگجو کے طور پر بھی اپنی صلاحیت منوا لی۔ ﮐﺎﺳﺘﺮﻭ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺎﺑﻠﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﮈﺳﭙﻠﻦ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﺗﮭﺎ، ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﻋﺮﺻﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺳتِ ﺭﺍﺳﺖ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﭼﯽ ﮔﻮﯾﺮﺍ جو ﺍﺭﺟﻨﭩﺎﺋﻦ ﮐا ﺷﮩﺮﯼ تھا، اُسے ﺍﻧﻘﻼﺑﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﮐﮯ صلحے میں ﺍﻧﻘﻼﺏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﯿﻮﺑﺎ ﮐﯽ ﺷﮩﺮﯾﺖ دے ﺩﯼ ﮔﺌﯽ۔ پہلے اُسے ﺍﻧﻘﻼﺑﯽ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﭘﮭﺮ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﺑﯿﻨﮏ ﺁﻑ ﮐﯿﻮﺑﺎ ﮐﺎ ﺻﺪﺭ ﺑﻨﺎ دﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ کے کیوبا کے ﮐﺮﻧﺴﯽ ﻧﻮﭨﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﯽ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺨﻂ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔ بعد ازاں 1961ء میں چی کو وزارت صنعت کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ ان ذمہ داریوں کے دوران انہوں نے بنیادی تبدیلیوں کی وکالت شروع کر دی، جِس کی بدولت اُسے کیوبا میں شمالی امریکی جاگیرداروں کی جائیدادوں کو قومیانے کے عمل میں بھی گویرا کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔

چی نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا جِس کے بارے میں زیادہ تفصیلات تو نہیں ہیں، کیونکہ یہاں سامراجی اتحادی ڈکٹیٹر ایوب کا دور تھا، مگر یہ ضرور واضح ہے کہ چی گریرا کے اُس دورے کے اغراض و مقاصد کیا تھے۔ یہ فروری 1959ء کی بات ہے جب کیوبا میں فیدل کاسترو کی قیادت میں انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ امریکہ نے کیوبا کی انقلابی حکومت کو تسلیم تو کر لیا تھا مگر اس کے باوجود کاسترو کی سربراہی میں کیوبا کی انقلابی حکومت عالمی تنہائی کا شکار تھی۔ ایسے میں فیصلہ ہوا کہ فیدل کاسترو کے دستِ راست اور سامراج کے خلاف مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے رہنما چی گویرا ایک وفد کے ساتھ اس انقلابی حکومت کا تعارف اور پیغام اقوام عالم تک پہنچانے کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کا دورہ کریں۔ چی گویرا کا یہ دورہ تین ماہ طویل تھا اور انھوں نے ان تین ماہ میں 17 ممالک کا دورہ کیا جن میں برما، سری لنکا، انڈونیشیا، انڈیا، یوگوسلاویہ، مصر، مراکش، شام، یونان اور پاکستان شامل تھے۔ پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر ممالک کے دورے کے بعد آٹھ ستمبر 1959ء کو چی گویرا کیوبا کے دارالحکومت ہوانا واپس پہنچ گیا۔ فیدل کاسترو نے چی کی خدمات سے متاثر ہو کر اسے کئی اور ذمہ داریاں سونپ دیں مگر چی گویرا ایک عملی انقلابی تھا اور دفتری ماحول میں ان کا دم گھٹتا تھا۔ چنانچہ بہت جلد وہ ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر واپس برِ اعظم کے دیگر ممالک کے جنگلوں میں چلا گیا جہاں اس نے اپنی انقلابی جدوجہد جاری رکھی۔

بعد ازاں اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانا چاہتا ہے اور پھر 1965ء میں فیڈرل کاسترو نے اعلان کر دیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے۔ کیوبا چحوڑتے ہوئے فیڈرل کاسترو کے نام اپنے خط میں چی نے لکھا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا تھا۔ سو میں آپ سے، کیوبا کے انقلابی ساتھیوں سے، اور کیوبا کے عوام سے، جو اب میرے اپنے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔ دنیا کے دوسرے ملک میری حقیر کوشش اور میری جدوجہد کو پکار رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح، اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔ چی نے اپنے بچوں کے نام بھی خط لکھا جِس میں اُس نے لکھا کہ تمھارا باپ ایک ایسا آدمی ہے جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا اور رہے گا۔ اگر کوئی چیز اہم ہے تو وہ ہے انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات اور ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

چی نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ اُس نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی، لیکن اس کی کوششیں رائیگاں گئیں اور 1966ء میں وہ خفیہ طور پر واپس کیوبا لوٹ گیا۔ کیوبا سے اُس نے بولیویا جانے کی ٹھان لی تا کہ وہ رینی بارنتوس اورتونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت کر سکے۔ ستمبر کے آخر سے ہی گوریلوں کے قدموں کے نشانات کا سراغ لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ بولیویا کی سپیشل فورسز کو ایک مخبر کی اطلاع پر چی کی جائے موجودگی کی خبر ملی تو امریکی سی۔آئی۔اے کی زیرِ نگرانی بولیویائی فوجی دستے نے 8 اکتوبر کو اس علاقے کا محاصرہ کر لیا اور پھر ایک معمولی جھڑپ کے بعد چی گویرا کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔

چی کے پکڑے جانے کی خبر ملتے ہی صدر برنتوس نے اس کو قتل کردینے کا حکم جاری کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کی۔ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کی تہذیب کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور اُن کا حکم امریکہ کی مکمل آشیرباد سے ہی جاری کیا گیا تھا۔ وہ سب لوگ کسی طور پر بھی چی گویرا پر مقدمہ چلا کر اس کا بیان سننے کا رسک لینے کو تیار نہیں تھے کہ جس میں وہ اپنا دفاع کرتا، اپنی سرکشی کو برحق اور جائز قراردیتا، اور اس ناانصافی اور نابرابری کو ننگاکرتا جس نے اسے سرکش بننے پر مائل کر دیا تھا۔ اس قسم کی آواز کو سننے کی بجائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شہید کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چی گویرا کو گرفتاری کے بعد قریبی گاؤں کے ایک سنسان سکول کی عمارت میں لے جایا گیا اور وہاں رات بھر رکھا گیا۔ اگلے دن دوپہر کے بعد چی کو سکول کی عمارت سے باہر لایا گیا۔ یہ 9 اکتوبر 1967ء کا دن تھا جب چی کو ایک بج کر دس منٹ پر بولیویا فوج کے ایک سارجنٹ ماریوٹیران نے گولی کا نشانہ بنایا۔ اس کی موت کو یقینی بنانے اور اس کے مر جانے کا یقین کرنے کیلئے اس کی ٹانگوں میں بے شمار گولیاں ماری گئیں تاکہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر مر جائے۔

بعض حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ چی نے گرفتاری کے وقت ان سے کہا کہ مجھے مت مارنا، میں تمہارے لئے مردہ سے زیادہ زندہ وارے کھاتا ہوں۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ایک کم ہمت اور بزدل انسان تھا۔یہ درحقیقت انقلاب کے دشمنوں کی اسی بدنیت مہم کا ہی ایک حصہ ہے، جس کے ذریعے چی جیسے عظیم آدرش وادی کے تاثر پر بدنامی کی کالک ملنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ اس کے اثرات کو زائل اور اس کے تشخص کو گھائل کر دیا جائے۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جس نے ہمیشہ جی داری اور جراتمندی سے زندگی بسر کی اور جو کبھی بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کیا کرتا تھا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اس نے مرنے سے قبل اپنے قاتلوں سے کہا کہ میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے کیلئے آئے ہوئے ہو۔ مارو مجھے بزدلو! تم ایک انسان ہی کو تو مار رہے ہو، لیکن قومی آزادیوں کی اِس تحریک کو کبھی ختم نہیں کر پاؤ گے۔ یہی الفاظ ہیں جو ایک سچے چی گویرا کے الفاظ ہو سکتے ہیں۔ فیڈرل کاسترو نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چی لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔ اس کی ایم ٹو رائفل کی نالی ایک گولے سے بالکل بے کار ہو گئی تھی۔ اس کے پستول میں گولیاں نہیں تھیں اس لیے اس بے بسی میں اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا۔ ظالم حکمرانوں اور فوجی افسروں نے اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک سکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔

چی گویرا کی جدوجہد اور اس کی موت دونوں کا اس قدر شہرہ ہوا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ 1968ء میں طلبا کی عالمی تحریک کے دوران چی گویرا کی آٹھ برس پرانی ایک تصویر لاکھوں ٹی شرٹس اور پوسٹروں پر چھپ گئی۔ بعد میں یہی تصویر مختلف تنظیموں کے پرچموں، انقلابی اور عوامی مہمّات میں استعمال ہوئی اور یہ لاطینی امریکا کے مختلف ممالک سے لے کر دنیا بھر میں ٹی شرٹس اور کافی کے مگ پر آج بھی نظر آتی ہیں۔ چی گویرا کی باقیات کو کیوبا میں سانتا کلارا میں ایک مقبرہ تعمیر کرکے پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب کی آخری فیصلہ کن لڑائی ہوئی تھی۔

چی گویرا ایک قابل احترام تاریخی شخصیت کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا، جس کی سوانح حیات، یادداشتوں، مضامین، دستاویزی فلموں، گانوں اور فلموں کی ایک بڑی تعداد میں اجتماعی تخیل میں محفوظ ہے۔ اس کی شہادت، اپنے وقت و حالات میں کاوفرما انقلابی جدوجہد کی بدولت بائیں بازو کی مختلف تحریکوں، بالخصوص قومی آزادی کی تحریکوں میں ایک نمایاں آئیکن کے طور پر مشعلِ راہ رہے گی۔ ان کی میراث پر اختلاف کے باوجود، ٹائم میگزین نے انہیں 20ویں صدی کے 100 سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں سے ایک قرار دیا، جبکہ ان کی ایک البرٹو کورڈا کی تصویر، جس کا عنوان گوریلیرو ہیروکو تھا، جسے 5 مارچ 1960 کو ہوانا، کیوبا میں لا کوبری دھماکے کے متاثرین کے لیے ایک یادگاری سروس مارچ میں لی گئی تھی، میری لینڈ انسٹی ٹیوٹ کالج آف آرٹ نے اس تصویر کو دُنیا کی سب سے زیادہ مشہور تصویر کا اعزاز دیا۔ چی گویرا متعدد فلموں کا موضوع بھی رہا ہے، جن میں دی موٹر سائیکل ڈائریز بھی شامل ہے۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *