Main Menu

زاد کشمیر: کمزور کڑی پر ضرب کا وقت ؟ بیرسٹر حمید باشانی

Spread the love
زاد کشمیر سے جو بری خبریں آ رہی ہیں، وہ آزاد کشمیر کے نام اور اس کے بنیادی تصور سے متصادم ہیں۔ حال ہی میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے آزاد کشمیر میں تہاڑ جیل بنانے کی بات کی۔ یہ ایک ایسا بیان تھا، جس پر خود وزیر اعظم سمیت کسی کے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔ مگر اس بیان میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہ ایک واضح واشگاف اور دو ٹوک بیان تھا، جس کو و ڈیو کیمرے میں محفوظ کر لیا گیا تھا۔ اس و ڈیو میں اس بیان کا سیاق بھی موجود ہے، اور سباق بھی۔ لہذا وزیر اعظم اور ان کے ترجمانوں کی اس وضاحت کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا کہ ان کی بات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی رسمی تعلیم کیا ہے ؟ یہ جاننا ضروری نہیں کہ ہمارے ہاں تعلیم کا کیا معیار ہے۔ نصاب کیسا ہے، اور سکولوں کالجوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے، یہ سب پر عیاں ہے۔ مگر ان کی سیاسی تعلیم کیا ہے، اس کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا ہے، جو کسی مدرسے سے تازہ تازہ فارغ التحصیل کسی نوجوان کی طرح ہوتی ہے، جس نے چند مذہبی اصطلاحیں اور سابقے لاحقے رٹے ہوتے ہیں، اور جوش خطابت میں موقع بے موقع ان کا استعمال کرتا رہتا ہے۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر کی سیاست میں نو وارد ہیں۔ اس خطے کی سیاست کو لے کر ان کا پورٹ فو لیو بالکل خالی ہے۔ اس لیے وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے آزاد کشمیر میں تہاڑ جیل بنانے کا کیا مطلب ہے۔ اور اس بات کا ایک ہی سیاق و سباق ہے، جس سے کوئی اگر کاٹ کر بھی پیش کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ تہاڑ جیل ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کے لیے ظلم، نا انصافی اور دہشت کی علامت ہے۔ کشمیری اس بات کو جانتے ہیں، وہ اس حقیقت کو بھلانا بھی چاہیں تو ایسا نہیں کر سکتے۔ آزاد کشمیر ایک پسماندہ اور غربت زدہ خطہ ہے، جہاں وسائل کا بیشتر حصہ حکمران اشرافیہ کی عیاشیوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ حالیہ بجٹ کا اسی فیصد اس بندوبست کو چلانے کے لیے مختص کیا گیا ہے، جو در اصل حکمران اشرافیہ ان کے خاندانوں اور اقربا کو میسر مراعات برقرار رکھنے کا ایک نظام ہے۔ ہمارے ہاں ایک بیوروکریٹ کو جو مراعات حاصل ہیں، و ہ امریکہ سے لیکر آسٹریلیا تک کسی مہذب ملک میں اس درجے کے کسی ملازم کے خواب و خیال سے بھی باہر ہیں۔ ایک بیرو کریٹ کے لیے ڈرائیور، خانساماں، چوکیدار اور مالی سمیت خدمت گاروں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ سرکاری گاڑیاں، سرکاری افسر کے خاندان اور بچوں کے علاوہ دوست و احباب اور سہیلیوں کے زا تی کاموں کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج طبقے کو آٹے پر سبسڈی دینے کا مطالبہ کرنے پر پولیس تشدد کا نشانہ بناتی ہے، مگر حکمران اشرافیہ کے لیے دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں کے آرڈر دیے جاتے ہیں ۔ گاڑیوں میں پٹرول، اور سفر الاونئس کے نام پر لاکھوں روپے لوٹائے جاتے ہیں۔ جس خطے میں وسائل کو اس بے دردی سے لوٹا جا رہا ہو، وہاں تہاڑ جیل جیسی وسیع و عریض عمارات بنانے کے لیے تو بجٹ نہیں بچے گا، اس لیے وزیر اعظم نے آزاد کشمیر کے تھانوں کو ہی تہاڑ جیل سے بھی بڑھ کر عقو بت خانوں میں بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا آغاز ایسی سیا سی شخصیات سے کیا گیا، جو اس خطے میں انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کر رہے تھے۔ جو لوگ حکمران طبقات کی عیاشیاں بند کرنے، اور بجلی کے بل کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کے ایسے تخلیقی طریقے اختیار کیے گئے کہ ہٹلر جیسے تشدد پسندوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک نوجوان کو بلیڈ سے زخم لگا کر ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے رونکٹے کھڑے کر دینے والے الزامات سامنے آئے۔ تھانوں کے تنگ و تاریک کمروں میں دس دس لوگوں کو مرغیوں کی طرح ٹھونسا گیا، اور ان کو پانی اور ٹوائلٹ جیس بنیادی ضرورت سے محروم رکھ کر عالمی طور پر تسلیم شدہ بنیادی حقوق سے متعلق عالمی مائدوں، پروٹولز اور کنوینشنز کی دھجیاں بکھری گئِں۔ قیدیوں کو اپنے وکلا تک رسائی اور عزیز و اقارب سے ملاقات تک سے محروم رکھا گیا۔ آزادی اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی سمیت انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا بے محابہ استعمال کیا گیا۔
اس نوع کے اقدامات کوئی ایسا شخص ہی کر سکتا ہے، جو اس علاقے کی تاریخ اور یہاں کے لوگوں کی جدوجہد اور عزم و حوصلے کی روایات سے نا بلد ہو۔ جو کسی سیاسی پورٹ فولیو اور جدو جہد کے بغیر پیراشوٹ کے زریعے اترا ہو، جو پیسے کے زور پر عوام پر مسلط کیا گیا ہو، اور زمینی حقائق اور نشیب و فراز سے نا واقف ہو۔ اس دھرتی کے باسیوں کی تاریخ بہت کٹھن ہے، اور انہوں نے آزمائش سے بھر پور وقت دیکھے ہیں۔ خواہ یہ پچاس کی دہائی کا پی سی کا پر تشدد و پر اشوب دور ہو یا جنرل ضیا کا مارشل لائی جبر ہو۔ اس دھرتی کے باسی ہر دور کی آزمائش سے سرخرو ہوئے ہیں۔ اور اس دور سے بھی کامران گزریں گے۔
اس وقت جو ظلم و جبر روا ہے، اس کا عکس جلد ہی عالمی افق پر دکھائی دے گا۔ جب پاکستان کی وزارت خارجہ دنیا کے ایوانوں میں پیشیاں بھگتے گی، اور ان ظالمانہ ریاستی جبر پر مشتمل کاروائیوں کی ایسی بھونڈی وضاحتیں پیش کرے گی ، جن پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لوگ تھانوں اور جیلوں میں بند ہیں۔ عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، اور حکمران اشرافیہ اس حقیقت کو ماننے سے ہی انکار کر ہی ہے۔
اس وقت حکومت کی تمام تر کوشش عوام کے اندر تقسیم پیدا کرنا ہے، تاکہ تحریک کو کچلا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے بے بنیاد الزامات کی بو چھاڑ ہے ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کے الزامات سے انکار کا عمل جاری ہے۔ یہ وقت عوام اور ان کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے والوں کے امتحان کا وقت ہے۔ اگر آزمائیش کی اس گھڑی میں وہ اپنا اتحاد اور نظام ضبط قائم رکھ سکتے ہیں۔ تشدد سے ہر حالت میں اجتناب کرتے ہوئے پر امن تحریک کو جاری رکھ سکتے ہیں، تو حکمران گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے۔
اگر یہ ظلم نہ رکا تو عوام کو بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی طرف سے ایک خط، امریکی صدر، وزیر خارجہ، کانگرس کے ممبران اور آئی ایم ایف کے تمام ڈائریکٹرز کو انفرادی طور پر لکھا جائے۔ اس خط میں آزاد کشمیر کے عوام کی طرف سے ان حضرات کو یاد دھانی کرائی جائے کہ حکمران اشرافیہ کو قرض دینے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ یہ قرض پاکستان کے زیر انتظام زیر انتظام علاقے میں جمہوریت کش اقدامات اور انسانی حقوق کو کچلنے کے لیے تو نہیں استعمال کیا جائے گا۔ حکومت نے اگر فی الفور اپنی روش ترک نہیں کرتی تو وقت آگیا ہے کہ اب ظلم کے اس نظام کی سب سے کمزور کڑی پر ضرب لگائی جائے۔ اب پاکستان کے سفارت خانوں سے آگے بڑھ کر آئی ایم ایف کے دفاتر، وائٹ ہاوس جیسی جگہوں پر مظاہرے اور بھوک ہڑتال کا وقت ہے، جہاں یہ کشکول لیے کھڑے ہیں تاکہ بکتر بند گاڑیاں خرید کر عوام پر تشدد کریں۔ اور وقت آگیا ہے کہ آزاد کشمیر کے مقدمے کو واضح الفاظ میں ان ایوانوں تک پہنچایا جائے، جہاں اس مقدمے کا پہچانا ضروری ہے۔





Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *