Main Menu

درپردہ تحریر ادریس شرر

Spread the love

میرا زیادہ وقت بلکہ پوری زندگی ھی جموں کشمیر کی آزادی خودمختاری کی جدوجہد میں گزری ھے ۔ھاشم قریشی سے لیکر خودمختاری کی حامی تقریبا

ساری لڈر شپ کے قریب رھا ھوں یا ان کی جدوجہد سے واقف رہا ھوں ۔1987سے سے جب سرینگر سے نوجوان لاۓ گۓ ان کو ٹرین کیا گیا اور پراکسی شروع کی گٸ ۔اس کا چشم دید بھی ھوں الحاق پاکستان کی حامی لیڈر شپ سے بھی میرا واسطہ رھا ھے ۔سب کے سب بالواسطہ یا بلاواسطہ ھندستان اور پاکستان کے لیے اور ان کے مفادات اور ان کا قبضہ مضبوط کرنے اور تقسیم ریاست کے لیے راھموار کر رھے ھیں ریاست کے کسی حصہ میں ریاست کی بحالی کی تحریک موجود نہیں ھے چند لوگ ھر جگہ پاۓ جاتے ھیں جو ریاست کو متحد کرنے کی سوچ رکھتے ھیں لیکن یہ کوٸ موثر نہیں ھیں اور نہ ھی ان کی اتنی مضبوط آواز ھے ۔۔۔اب کوٸ معجزہ ھی ریاست بحال کرسکتا ھے ۔ریاست کا بڑا حصہ بھارت لے جاۓ گا چین بھی فریق بن گیا ھے اس طرح جو بیس سے تیس سال کے نوجوانوں کو پراکسی میں مروا کر ان کی قربانیوں سے بہت سارے لوگ پراپرٹی اور دولت کاروبار کے مالک بن چکے ھیں ۔البتہ آزادی پسند جماعتوں کے ورکر آج بھی مخلص ھیں لیکن ان کی تربیت جان بوجھ کر ایسی کی گٸ ھے ھیکہ یہ شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کا شکار ھیں ۔انقلابی تربیت سے ورکرز کو بہت دور رکھا گیا ھے ۔انکا اپنی تاریخ اور انقلابات کی تاریخ سے بھی دور رکھا گیا ھے ۔جس کی وجہ سے یہ ورکرز کوٸ اھم رول ادا نہیں کرسکتے ۔۔۔میں نے ھمیشہ انڈیا پاکستان کے قبضہ کی مخالفت میں جدوجہد کی لیکن قیادتوں کی مصلحت زدہ پالیسز کسی ایک کے قبضہ کو جاٸز سمجھنے کی سوچ نے تحریک آزادی جموں کشمیر کی تحریک کو درست سمت نہیں لگنے دیا ۔تاھم اب بھی وقت ھے کہ ریاست کی متحدہ حثیت کی بحالی کے لیے انڈیا پاکستان چین کے کی افواج کی بیک وقت انخلا کی منظم تحریک شروع کی جاۓ ۔لیکن آثار ایسے لگتے نہیں






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *