Main Menu

ســیف الــملوک دیــومالائی قصــه یا حــقیـقـت ” تحقیق و تحریر : ( شاہد علی صوف ابڑو ) مترجم : ( صادق بابا ابڑو )

Spread the love

پاکستان کے مختلف علاقوں میں بہت ساری داستانیں مشہور ہیں جن کو اُن علاقوں کے شاعروں، ادیبوں ، بزرگوں اور عالموں نے لکھا اور گایا ہے
عمر ماروی، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، سمی راول، نوری جام تماچی، مومل رانا، لیلیٰ چنیسر ، حانی شہ مرید ٫ سیف الملوک وغیرہ بہت زیادہ مشہور ہیں یہ داستانیں سندھی ، پنجابی، سرائیکی ، پشتو ،بلوچی ، اور دیگر زبانوں کے لوک ادب کا حصہ ہیں اور اونچا مقام رکھتے ہیں
یہ کہانیاں اور داستانوں کی شکل میں بھی موجود ہیں اور شاعری کی صورت میں بھی گائے اور بڑھے جاتے ہیں مگر یہ داستانیں آج بھی تحقیق طلب ہیں اِن میں بہت زیادہ مغالطے بھی ہیں کیونکہ یہ داستانیں یا قصے زبانی طور پر سینه با سینه نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں اور بہت بڑے عرصے کے بعد لکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ داستانیں کمی بیشی اور اونچ نیچ کا شکار ہوئی ہیں نسل در نسل زبانی طور پر منتقلی کی وجہ سے اِن کی اصلیت اور کردار متاثر ہوئے ہیں بزرگوں شاعروں اور داستان گویوں نے جس طرح جو کچھ بتایا اور لکھا تھا اِس وقت بھی اُسی طرح جوں کی توں موجود ہیں اِن قصوں اور داستانوں کے کردار پر مزید تحقیق نہیں کی گئی سندھی لوک ادب میں جیسے سسی پنوں ، عمر ماروی ، مومل رانا، اور دیگر قصے مشہور ہیں ایسے ہی آزاد کشمیر ،پنجاب اور سرائیکی وسیب میں سیف الملوک کو بڑی اہمیت حاصل ہے مگر سیف الملوک پر کسی نے بھی، کسی بھی طرح کی مستند تحقیق نہیں کی ہے
سیف الملوک کی داستان سب سے پہلے سلطان محمود غزنوی کے دور میں ظاہر ہوئی یہ داستان عربی زبان میں دمشق شاہی کتب خانے میں ( زبدہ الجواب ) کے نام سے موجود تھی بادشاہ کی اجازت سے سلطان محمود غزنوی کے وزیر حسن میمندی نے اقتباس کیا جو کہ عربی اور فارسی میں تھا جس کے بعد مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتا رہا ( سیفل نامہ ) کے نام سے پہلا ترجمہ سرائیکی زبان میں لطیف علی نے کیا سرائیکی سے اردو میں محمد بشیر نظامی ( مثنوی سیف الملوک ) کے نام سے ترجمہ کیا دمشق کے بادشاہ کے کتب خانے سے نکل کر سندھو تہذیب کی حدود میں پہنچنے والی اِس داستان کو الف لیلیٰ والی داستان بھی کہہ سکتے ہیں جو حقیقت سے بہت دور ہے عربی، فارسی، اردو ، پنجابی اور سرائیکی وغیرہ میں ترجمہ کی ہوئی یہ داستان کچھ اِس طرح ہے
( حضرت سلیمان علیہ السّلام کا دورِ زمانہ تھا جب مصر کے بادشاہ عاصم اولاد کی نعمت سے محروم تھا بوڑھاپے کے دنوں میں اُس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سیف رکھا گیا سیف ابھی بارہ سال کا تھا تو اُس نے پریستان کی شہزادی *بدیع البانو* کی کی تصویر دیکھی تو دل دے بیٹھا بڑی مشکل سے والدین سے اجازت لے کر شہزادی کو تلاش کرنے کے لیے سفر کا آغاز کیا اُس کے قافلے میں نو سو بہری بیڑے شامل تھے سمندر کا سفر کرتے ہوئے ایک بہت تیز رفتار اور بڑے سمندری طوفان کے ساتھ سامنا ہوا طوفان کی تباہی کی وجہ سے اُس کے قافلے میں بیس آدمی زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے جن میں شہزادہ سیف الملوک اور اُس کا قریبی دوست وزیر زادہ سعد بھی شامل تھے مگر یہ دونوں دوست زندہ بچنے کے باجود ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے ایک وقت ایسا بھی آیا جب شہزادہ سیف الملوک اکیلا رہ گیا اور سفر کرتے ہوئے ایسے علاقے میں پہنچا جہاں ( سراندیپ سری لنکا ) کی شہزادی ( ملکـاں ) ایک دیو کی قید میں تھی اُس کو دیو کی قید سے چھڑانے کے بعد پتا چلا کہ یہ شہزادی بدیع البانو کی دوست ہے دونوں سری لنکا کی ریاست سراندیپ پہنچے تو وہاں اُن کی ملاقات سعد سے ہوئی اور یہاں سے ہی شہزادی بدیع البانو تک پہنچے مگر یہاں پر ایک مرتبہ پھر سے سیف الملوک اور سعد الجھنوں اور دشواریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور شہزادہ سیف الملوک ایک دیو کی قید میں بھی رہتا ہے آخر میں سب مسائل حل ہونے کے بعد سیف الملوک کی شادی بدیع البانو کے ساتھ ہو جاتی ہے اور سعد کی شادی سری لنکا کی شہزادی ملکـاں کے ساتھ کروائی جاتی ہے یہ دونوں دوست ہنسی خوشی وطن واپس لوٹتے ہیں اور بادشاہ عاصم اپنی بادشاہی بیٹے کے سپرد کر دیتا ہے )
یہ داستان مختصر پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ الف لیلوی قصے سے زیادہ کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی حقیقت سے بہت دور منگھڑت جھوٹا قصہ ہے
جبکہ سیف الملوک ایک حقیقی کردار ہے جس کا سندھ کی تاریخ میں بھی ذکر موجود ہے سلطان محمود غزنوی کے وزیر حسن میمندی کا دمشق کے بادشاہ کے شاہی کتب خانے میں پڑے ہوئے کتاب ( زبدہ الجواب) سے کیا گیا ترجمہ بھی اصل نہیں کہا جاسکتا،
قصہ پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسی کہانی ہے جو پرانے زمانے میں دادیاں اور نانیاں رات کو بچوں کو سنایا کرتیں تھیں
مذکورہ قصہ ہاتھ سے بنایا گیا ہے اور حقیقتوں سے بہت دور ہے کشمیری ، پنجابی ، سرائیکی ادب اور شاعری میں جگہ بنانے والی داستان سیف الملوک پر تحقیق نہیں کی گئی ہے جبکہ قدیم سندھ موجودہ پاکستان کشمیر، کچ پج گجرات، راجستھان ، مہاراشٹرا وغیرہ میں ( سیف الملوک ) کے نام سے بہت سے نشانات و مقامات اور مواد آج بھی موجود ہے سندھ کی پرانی حدود میں سیف الملوک کا تھلہ ، سیف الملوک کی باڑی ، سیف الملوک کا کنواں وغیرہ اور سیف الملوک کی قبر بھی موجود ہے سیف الملوک کی داستان اور اصل حقائق جاننے کے لیے راقم الحروف نے پنجاب ، آزاد کشمیر ، خیبرپختونخوا ،اور سرائیکی وسیب کا سفر طے کر کے شاعروں ، ادیبوں ، بزرگوں ، اور تاریخ دانوں سے ملاقاتیں کیں اِس دوران سیف الملوک کے سلسلے میں صرف شاعری ، کہانیاں ، قصے پڑھنے اور سننے کو مِلے مگر مزید کوئی بھی ایسا مستند مواد نہیں مِلا جو حقائق سے آگاہ کرتا ہو
میری تحقیق کے مطابق سیف الملوک کا سندھ سے کوئی نہ کوئی تعلق اور کسی حوالے سے رشتہ ضرور ہے، میں سفر کرتے ہوئے ملک کے خوبصورت علاقے ناران پہنچا تو وہاں ہزاروں سال پرانی اور خوبصورت جھیل سیف الملوک کے نام سے موجود تھی مقامی باشندوں کے مطابق اِس جھیل کا نام عراق کے سونے کے تاجر سیف الملوک اور یہاں کی خوبصورت شہزادی بدیع البانو سے عشق اور شادی کی وجہ سے پڑا ہے بدیع البانو جو کہ بعد میں بدیع الجمال کہلانے لگی بدیع اتنی خوبصورت تھی کہ لوگوں کے ذہنوں میں وہ ایک حقیقی پری سمجھی جانے لگی اور مشہور ہوئی ، آزاد کشمیر کے ضلع میرپور کے منگلا ڈیم کے مغربی کنارے ساتھ ساتھ (چری کس) گاؤں سے تقریباً 6 کلومیٹر دُور جنوب میں (کھڑی شریف) گاؤں میں سیف الملوک کو شاعری کے رنگ میں رنگنے والے اور گانے والے صوفی بزرگ میاں محمد بخش کی مزار موجود ہے کھڑی شریف میں موجود مشہور پہاڑی منانہ بھی ہے جس پر بیٹھ کر میاں محمد بخش نے سیف الملوک لکھا اور گایا تھا سیف الملوک پر میاں صاحب کے بہت سے کلام گائے ہوئے ہیں کشمیر و پنجاب میں آج بھی میاں محمد بخش کا سیف الملوک شوق سے گایا اور سنا جاتا ہے اِسی طرح جس طرح سندھ میں شاہ لطیف بھٹائی کا مومل رانو گایا جاتا ہے
سیف الملوک کون تھا

سیف الملوک کون تھا، کہاں کا رہنے والا تھا ، کس ملک یا علاقے کا باشندہ تھا اِس سلسلے میں کوئی بھی مستند حوالہ نہیں مل سکا ، پنجاب ، آزاد کشمیر ، اور سرائیکی وسیب کے عالم سیف الملوک کو مصر کے بادشاہ عاصم کی اولاد کہتے ہیں جبکہ سندھ کے عالم سیف الملوک کو عراق کا سونے کا تاجر اور کچھ لوگ سندھ کا باشندہ کہتے ہیں ، سوات ریاست کے باشندوں کے مطابق سیف الملوک کا اصل نام سیف تھا اور وہ عراق کے شہر موصل کے آس پاس کا رہنے والا اور سونے کا تاجر تھا
نوجوان سیف ذہین اور بہت خوبصورت تھا جس کی وجہ سے اُس کو ملوک یعنٰی خوبصورت یا آب۔ لیک حسین کا لقب دیا گیا اور اُس کو سیف الملوک کے نام سے پکارا جانے لگا
سیف الملوک تجارت کے سلسلے میں مختلف ملکوں کا سفر کرتا رہتا تھا اُس کا بہری بیڑا سمندروں، دریاؤں، اور نہروں میں سفر کرتا رہتا تھا جہاں سمندری یا دریائی راستے نہیں ہوتے تھے وہاں پر گھوڑوں اور اونٹوں کے ذریعے سفر کرتا تھا سیف الملوک نے افغانستان ،ایران اور روس تک گھوڑوں کے ذریعے سفر کیا اور اِسی راستے پر سفر کرتے ہوئے طورخم افغانستان سے ہوتے ہوئے ریاستِ سوات تک پہنچا جہاں سے بعد میں اُس نے دریائے سندھ میں کشتی کے ذریعے سفر کیا جو کہ سندھو سمندر تک تھا اِس نے ھاکڑو اور پُران ندیوں میں بھی سفر کیا جس کے نشانات ھاکڑو اور پُران ندیوں کے کناروں پر ( رن کچ ) تک موجود ہیں
سیف الملوک اور بدیع الجمال کی ملاقات اور شادی
سیف روس اور افغانستان سے ہوتا ہوا تجارت کے سلسلے میں سوات کے راجہ سے ملنے کے لئے پہنچا تو اُس کے قافلے نے ناران کے نزدیک جھیل کے کنارے خیمے گاڑے سوات اُس وقت آزاد ریاست اور راجہ کے ماتحت تھی سیف راجہ سے ملنے اور تجارت کرنے کی اجازت لینے کے لیے وہیں پر رک گیا ناران کی یہ جھیل بہت زیادہ ٹھنڈی اور بے انتہا خوبصورت تھی جہاں پر علاقے کے باشندے نہاتے تھے عورتوں کے لئے الگ جگہ مخصوص تھی جہاں پر عورتیں بھی کپڑے دھوتی اور نہایا کرتیں تھیں
ناران کی ایک خوبصورت لڑکی بدیع اپنی سہیلیوں اور ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ جھیل پر آتی تھی جہاں پر ایک دن سیف اور بدیع کا آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کو دیکھا بدیع کی خوبصورت دیکھ کر سیف اُس پر عاشق ہو گیا اور بدیع بھی عشق کی آگ میں جلنے لگی سیف جو کہ مسلمان تھا اور بدیع کا تعلق بدھ مذہب سے تھا کچھ عرصے بعد دونوں نے عشق کی شادی کر لی بدیع بھی مسلمان ہو گئی سیف اور بدیع کا حسن دیکھ کر سیف کے عربی کارندوں نے بدیع کو “بدیع الجمال” اور سیف کو “سیف الملوک” کہنا شروع کیا ” جمال اور ملوک ” دونوں کا مطلب “خوبصورت یا زیبای ” ہے عربی زبان میں ہر لفظ کے آگے الف اور لام یعنی ” ال ” لگایا جاتا ہے اس وجہ سے “الجمال” اور “الملوک” کہے جاتے ہیں سیف الملوک اور بدیع کے حسن و زیبای کے چرچے عام تھے اُس وقت کے بزرگوں اور شاعروں نے اُن کے حسن سے متاثر ہو کر شعر لکھے اور دونوں کو مختلف القاب سے پکارتے تھے بدیع الجمال کو پَری سے تشبیہ دی گئی جس کی وجہ سے یہ مشہور ہوا کہ بدیع الجمال پری ہے یا ناران جھیل پر پریاں اترتی تھیں وغیرہ مختلف داستانوں اور کہانیوں میں اِس منگھڑت بات کو بڑھایا گیا مگر آج تک پریوں کا کوئی وجود ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی جسمانی شکل میں کبھی کوئی پَری نظر آئی ہے سیف الملوک کے ناران جھیل کے کنارے پر رہنے اور بدیع الجمال سے شادی کی وجہ سے اِس جھیل کا نام سیف الملوک پکارا گیا جو آج تک پکارا جاتا ہے
سیف الملوک کا سندھ میں آنا
سیف الملوک دریائے سندھ میں کشتیوں کے ذریعے سفر کرتا ہوا سندھ میں پہنچا اور مختلف جگہوں پر رک کر خشکی کے راستے سے بھی سندھ کا سفر کر کے مختلف شہروں میں تجارت کرتا رہا سندھو دریا میں سفر کرنے کے بعد اُس نے پُران ندی کے ذریعے ( کچ پج ) کے علاقوں کی طرف بھی سفر کیا سیف الملوک کا آخری سفر بھی سندھ میں تمام ہوا تاریخی واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیف الملوک سندھ میں ( کچ ) سخی سورھیہ داتا سردار لاکھو فولانی کے دور میں آیا تھا
سندھ اور کچ کے تاریخی ماخذات کے مطابق جب سخی سورھیہ لاکھو فولانی کی شادی کے دوران بارات ( رن کچ ) سے سندھ کے تھر کی طرف آ رہی تھی تو موجودہ ( ٹنڈو جان محمد ) شہر کے نزدیک آمری کے تاریخی قبرستان کے قریب ( پتن ) کے نزدیک پُران ندی کو پار کیا تھا وہ جگہ آج بھی ( لاکھو کا پتن )کہلاتی ہے ، لاکھو فولانی کی بارات جس وقت پُران ندی کے پانی سے دوسرے کنارے پہنچی تو اُس وقت شام کا وقت تھا اور جہیز کا سامان پانی میں گیلا ہو گیا تھا لاکھو فولانی کی بارات نے پُران ندی کے کنارے پڑاؤ ڈالا اور پانی میں گیلا ہونے والا سامان اور جہیز کے کپڑوں کے تھان خشک ہونے کے لیے کھول کر درختوں اور پودوں کے اوپر ڈال دیئے رات گزر گئی صبح ہوئی تو بارات میں موجود لوگوں نے خشک کپڑے درختوں اور پودوں سے اتارنے شروع کیے تو سخی سورھیہ سردار لاکھو فولانی نے منع کیا اور کہا درختوں کے اوپر پڑے ہوئے یہ کپڑے نہیں اُتارو کیونکہ ہم سندھی ایک بار کسی کے اوپر کپڑا ، آب لیک چادر ، آب لیک دوپٹہ ، وغیرہ ڈالتے ہیں یا سر کے اوپر اوڑھتے ہیں ڈھانپتے ہیں تو واپس نہیں لیتے اور نہ ہی اتارتے ہیں ہماری طرف سے یہ کپڑے اِن درختوں اور پودوں کو اوڑھنی ہے اُس کے بعد لاکھو فولانی کی بارات درختوں کے اوپر پڑے ہوئے کپڑے چھوڑ کر نئے کپڑے خرید کر اپنی منزل کی طرف چل دیئے سردار لاکھو فولانی کے جانے کے کچھ دِنوں بعد سیف الملوک کا بہری بیڑا بھی پُران ندی میں چلتا ہوا آکر لاکھو فولانی کے پتن پر لنگر انداز ہوا سیف الملوک علاقے کے سب درختوں اور پودوں کے اوپر پڑے ہوئے نئے اور قیمتی کپڑے دیکھ کر حیران ہو گیا
مقامی لوگوں نے اُس کو بتایا کہ ( رن کچ ) کا سخی سورھیہ داتا سردار لاکھو فولانی درختوں اور پودوں کو اوڑھنی دے کر گیا ہے اور سارا قصہ سنایا یہ سن کر سیف الملوک اور بھی زیادہ حیران ہوا اور بعد میں اُس نے سونے کے چھوٹے چھوٹے زیورات بنا کر اُن درختوں اور پودوں کو پہنایا اور کہا کہ اوڑھنی کے ساتھ ساتھ زیور بھی ضروری ہیں زیورات سے حسن بڑھتا اور نکھرتا ہے
کہتے ہیں کہ اِس علاقے کے باشندوں نے بھی کبھی کوئی کپڑا یا زیور نہیں اُٹھایا اِس قصے اور تاریخی حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف الملوک سخی سورھیہ داتا سردار لاکھو فولانی کے دور میں سندھ میں موجود تھا اور اُس کا ہمعصر تھا اور کہنے میں کوئی بڑھاوا نہیں ہے کہ سیف الملوک کا سندھ سے تعلق تھا
سیف الملوک کے نام سے منسوب بہت سے مقامات اور نشانات سندھ میں موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پنجابی ، کشمیری ، سرائیکی لوک ادب میں موجود قصہ من گھڑت اور الف لیلوی داستان کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا
سیف الملوک کا نه ہی مصر سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی حضرت سلیمان علیہ السّلام کے زمانے کا تھا نہ ہی بدیع الجمال پری تھی اور نہ ہی پریستان سے تعلق تھا پنجابی ، کشمیری ، سرائیکی لوک ادب میں شامل داستان جھوٹے قصے کے سوا کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں رکھتا ہر زی شعور جانتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے دور میں ایک بارہ سال کا لڑکا پریستان کی شہزادی کی تصویر دیکھ کر عاشق ہو جاتا ہے اور نو سو بہری بیڑے لے کر نکتا ہے طوفان میں سب تباہ ہو جاتا ہے شہزادہ اور وزیر زادہ بچ جاتے ہیں نام و نہاد دیو سے شہزادی ( ملکاں ) کو چھڑاتا ہے اور پھر پریستان کی شہزادی سے شادی کرتا ہے
کیا اُس وقت پریاں جدید کیمرے استعمال کرتی تھیں ؟ یا مصور کے پاس بیٹھ کر اپنی مصوری بنوایا کرتی تھیں ؟ اور وہ تصویر ملکوں کے بادشاہوں کو بھیجتی تھیں حیرت ہوتی کہ جیتے جاگتے کردار و داستان کو الف لیلوی داستان بنا کر پیش کیا گیا
ترجمہ کرنے والے حضرات بھی عقل و شعور سے خالی تھے کہ جھوٹ اور سچ میں تمیز نہیں کر سکے،
سیف الملوک کے نام سے منسوب نشانات اور مقامات
دنیا میں سونے کے سب سے بڑے اِس تاجر پر کوئی بھی تحقیق نہیں کی گئی ہے صرف مفروضوں پر مبنی سنی ہوئی باتیں پیش کی جاتی رہی ہیں موجودہ خیبرپختونخوا کے سوات ، ناران میں جھیل سیف الملوک کے علاوہ کوئی دوسرا مقام منظر عام پر نہیں لایا گیا نا ہی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی
سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں بھی سیف الملوک کے رہنے قیام کرنے کے مقامات اور نشانات مختلف علاقوں میں آج بھی موجود ہیں میں سیف الملوک پر تحقیق کرتے ہوئے پرانی قدیم ریاست سوات ، ناران ، کاغان، جھیل سیف الملوک اور دیگر علاقوں سے ہوتا ہوا آزاد کشمیر کے ( کھڑی شریف ) شہر میں سیف الملوک کو گانے والے صوفی بزرگ میاں محمد بخش کی مزار کے ساتھ ( منانہ ) پہاڑی ٹکڑے پر اُس جگہ پہنچا جہاں بیٹھ کر میاں محمد بخش نے سیف الملوک لکھا اور گایا تھا اُس کے بعد قدیم سندھ اور موجودہ پنجاب کے شہر ( بہاولپور ) کے مشرق کی طرف سیف الملوک کا ( تھلہ / ٹیلہ ) پر پہنچا جہاں پر مقامی لوگوں سے ( کچی مٹی کے بنے ٹیلے ) جس کو مقامی لوگ سیف الملوک کا تھلہ کہتے ہیں جس پر 9 گز سے زیادہ دو لمبی قبریں بنی ہوئی ہیں
اُس کے متعلق مقامی لوگوں سے پوچھا مگر اس کے متعلق کسی کو کچھ پتا نہیں کہ یہ 15 سے 20 فیٹ لمبی قبریں کس کی ہیں کچھ نے کہا یہ قبریں حضرت آدم علیہ السّلام اور اُس کے بیٹے کی ہیں اور کچھ نے کہا یہ قبریں سیف الملوک اور اُس کی بیوی کی ہیں
اُن کو صرف اتنا معلوم ہے کہ یہ ( تھلہ ) مٹی کا چبوترہ سیف الملوک نے بنوایا تھا
اِس لیے اِس کو سیف الملوک کا ( تھلہ / ٹیلہ ) کہا جاتا ہے
میں سیف الملوک پر مزید تحقیق کے لیے سندھ کے ( لاڑ ) کے علاقے پہنچا جہاں ( بدین ) شہر کے نزدیک ( سیف الملوک کی باڑی ) کے نام سے ایک جگہ ملی
سیف الملوک کے باڑے کے متعلق بھی کسی نے واضح نہیں کیا کہ یہ نام کیسے پڑا کچھ بزرگوں نے اندازے لگاتے ہوئے کہا کہ سیف الملوک کے بہری بیڑے ہوتے تھے اور خشکی پر سفر کرنے کے لیے اُونٹ، گھوڑے ، بکریاں اور دیگر جانور بھی ساتھ ہوتے تھے یہاں پر اُس کے جانوروں کو رکھنے کے لیے ( باڑا ) بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ جگہ ( سیف الملوک کی باڑی ) پکاری جانے لگی تھی ، تھر کے ( مِٹھی ) شہر کے قریب مٹی کے ٹیلے پر ایک کنواں ملا جس کو سیف الملوک کا کنواں کہا جاتا ہے وہاں کے باشندوں کے مطابق یہ کنواں سیف الملوک نام کے آدمی نے کھدائی کروا کر بنوایا تھا اِسلئے اِس کنوے کو سیف الملوک کا کنواں کہا جاتا ہے
اس کے بعد میں ( ٹنڈو جان محمد ) شہر کے شمال کی طرف پُران ندی کے بہنے والے پانی کے قدیم راستے سے ہوتا ہوا قدیمی آمری کے قبرستان کے نزدیک ( لاکھو کے پتن ) پہنچا جہاں پر لاکھو فولانی نے درختوں اور پودوں کو کپڑوں کی اوڑھنی دی تھی اور سیف الملوک نے اِن درختوں کو زیورات پہنائے تھے آمری کے تاریخی قبرستان جس میں عرب، ارغون ، اور دیگر نسلوں کے لوگوں کی قبریں موجود ہیں اور سماں حکمران کے دور میں مشہور بزرگ عالم سات مامو یا فقیرو کی قبریں بھی موجود ہیں اِن فقیروں کی ساری پیشگوئیاں سچی ثابت ہوئیں تھیں آمری کے قبرستان سے 8 یا 9 کلومیٹر آگے ( نوکوٹ ) روڈ کے مغرب کی جانب پُران ندی کے کنارے کے ساتھ موجود ایک تاریخی ٹیلہ ( جسیرل کا ٹیلہ ) پر پہنچا
اِس تاریخی مقام کا آدھا حصہ پُران ندی کے پیٹ میں ہے اور باہر موجود قدیم آثاروں کے بہت سے حصے پر مقامی لوگوں نے قبضے کر کے فصلیں اُگا رہے ہیں اِس قدیم آثار کے شمالی اور جنوبی کونے میں ( جال ) ( جس کو سندھی میں کھبڑ کہتے ہیں ) کے گھنے جنگل میں چار قبریں موجود ہیں جس میں ایک اونچی قبر مشرق کی طرف اور اُس کے مغرب کی طرف دو کچی گلی سڑی اینٹیں لگی قبریں اور ایک جنوبی سمت کی طرف قبر موجود ہے اونچی قبر کے متعلق مقامی تاریخ کے جاننے والے ٹنڈو جان محمد شہر کے میوزیم کے بانی مرحوم خیر محمد اور قریبی علاقوں کے علماء، محقیقن اور تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ بڑی قبر سیف الملوک کی ہے اور مغربی قبریں اُس کی بیوی بدیع الجمال اور اُس کے بیٹے کی ہے جنوب والی قبر اُس کے وزیر ( منشی ) کی ہے قبروں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے وہاں کے مقامی لوگ ہی قبروں کی صفائی ستھرائی کرتے رہتے ہیں
دنیا کے اِس عظیم کردار پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تحقیق کرنے سے سیف الملوک کا حسب نسب اُس کے نام کی نسبت سے موجود مزید مقامات و نشانات مل سکتے ہیں
سیف الملوک اور اُس کی بیوی بدیع الجمال کا سندھ میں دفن ہونا بھی بڑا معنیٰ خیز ہے
سونے کے تاجر شہزادہ سیف الملوک کا تعلق مصر ، عراق یا سندھ سے تھا اِس سے متعلق بھی حقائق سے پردہ اٹھانا ضروری ہے
سیف الملوک اور سوات کے حُسن کی ملکہ بدیع الجمال کی زندگی کی اصل حقیقت اور سندھ سے رشتے کے متعلق بھی تحقیق کی اہم ضرورت ہے تاکہ پنجابی ، سرائیکی لوک ادب میں موجود اِس داستان کو الف لیلوی اور فرضی کہانی اور کرداروں کے بجائے سیف الملوک کے متعلق اصل حقائق پر مبنی تاریخ کو سمیٹ سکیں






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *