Main Menu

انسان اور زمین کی حکومت؛ تحریر: ذکریا ساقی

Spread the love

قسط نمبر 01

اللہ تعالی نے ارضی اور سماوی (زمین و آسمان) مخلوق کو پانچ مختلف قوتوں یعنی
نمبر 1: عقل نمبر 2: وہم نمبر 3: خیال نمبر 4: شہوت نمبر 5: غضب سے ترتیب اور ترکیب دے کر پیدا کیا ہے- اس طرح ترکیب اجزاء اور کیفیت کی نسبت مخلوقات کی چار قسمیں ہیں مخلوقات کی پہلی قسم جس کی عقلی قوت وہم و خیال اور شہوت اور غضب پر بھاری ہوتی ہے- یعنی عقلی قوت کے سامنے ان چیزوں کا حکم بےمعنی اور بےحقیقت ہوتا ہے- بلکل اسی طرح جیسے مردہ غسل دینے والے کے سامنے بےبس اور فرمانبردار ہوتا ہے-اسی طرح یہ چاروں قوتیں عقلی قوت کی مطیع ہوتی ہیں- اس مخلوق کا نام “فرشتہ یا روحانیت” ہے۔
اصلاح شرع میں اس مخلوق کو “ملائکہ” “ارواح” یا “ملکوت” جسے فارسی میں “سروش” کہتے ہیں مخلوقات عالم کی یہ نوع ہر قسم کی خطاوں اور گناہوں سے پاک صاف ہے- یہ مخلوق عورت کی خواہش سے بھی مبرا ہے، کھانے پینے کی چیزوں سے بھی اسے کوئی دلچسپی نہیں- یہ مخلوق قوت عقلیہ کے سبب خود کو کسی بھی صورت میں متشکل کر سکتی ہےدوسری قسم کی مخلوق میں وہ جاندار شامل ہیں جن کی “عقل” شہوت، غضب، اور وہم و خیال کے تابع ہوتی ہے۔

اس مخلوق کی تجسیم ہوا اور آگ سے مرکب ہے- مادہ کی لطافت کے سبب یہ مخلوق بھی ہر صورت میں متشکل ہو سکتی ہے- وہم خیال کی غالب قوت کی وجہ سے یہ مخلوق خود کو خوفناک سے خوفناک شکل میں تبدیل کر سکتی ہے- اس قسم میں سے جو خلق خدا کو ستاتی ہے اسے شیطان اور جو خلق خدا کو تکلیف نہیں دیتی اسے جن کہتے ہیں اور شرعی اعتبار سے یہ احکام الہی کی پابندی کرتی ہیں- اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض جن دیندار اور حکم خداوندی کی پابندی کرتے ہیں کچھ جن شرعی احکام کو قبول نہیں کرتے وہ گمراہ اور کافر کہلاتے ہیں تیسری قسم کی مخلوق میں وہ جاندار ہیں جن کی عقل اور وہم خیال پر غضب اور شہوت حاوی ہوتے ہیں- ان جانداروں میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی- عقل سے بےبہرہ اس مخلوق کی بھی دو قسمیں ہیں اور وہ دونوں حیوان کہلاتے ہیں- ان میں وہ حیوان جن پر شہوت غالب ہوتی ہے انہیں بہائم اور جن پر غضب حاوی ہوتا ہے انہیں سباع یا درندے کے نام سے پکارا جاتا ہےاللہ تعالی نے اپنی قدرت سے ایک آگ پیدا کی جس میں نور بھی تھا اور ظلمت بھی- فرشتے اللہ تعالی نے اپنے نور سے پیدا کئیے- یہ نوری اور معصوم مخلوق اللہ کی اطاعت گزار ہے گویا ہر طرح کی نافرمانی اور خطا سے پاک ہے- ذات کریم نے انہیں آسمان پر رہنے کے لئیے جگہ دی فرشتوں کے بعد اللہ تعالی نے آگ سے جنات کو پیدا کیا- جنات کے مادہ میں آگ کا نور اور ظلمات دونوں چیزیں تھیں- ان میں سے بعض ایمان کے نور سے منور ہوئے اور بعض کفروگمراہی میں مبتلا ہو کر شیطان کہلائے- اللہ تعالی نے سب سے پہلے جس کو تخلیق کیا اس کا نام “مارج” تھا- اللہ تعالی نے فرشتوں اور جنوں کی فطرت میں ایک واضح فرق رکھا- فرشتوں کی عقلی قوت وہم خیال اور شہوت اور غضب پر حاوی ہے- اور چاروں عناصر اس کے محکوم ہیں، اللہ نے انہیں نور سے پیدا کیا لہذا وہ قوت عقلیہ کے باعث جس صورت میں چاہیں متشکل ہو سکتے ہیں۔

مگر جنات کی عقل پر شہوت، غضب اور وہم و خیال کا غلبہ ہے یہ فرشتوں کے برعکس ہیں کیونکہ ان کی تخلیق ہوا اور آگ سے مرکب ہے- مادہ کی لطافت کی وجہ سے یہ کسی بھی شکل و صورت کے تغیر و تبدل پر قادر ہیں- اللہ نے جنات کو بہت سی قوتیں عطا کی ہیں چونکہ ان میں بھی اللہ نے فطری عناصر غضب و قوت، وہم و خیال اور شہوت کا مادہ رکھا ہے لہذا جن کی عقل پر غضب اور بدی حاوی ہو جائے وہ سرکش و نافرمان ہو جاتے ہیں اور شیطان کے قبیلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔کائناتیں اور آسمانوں کی تخلیق کے مدارج طے ہو چکے تھے- فرشتے حکم الہی میں مستغرق رہتے تھے اور ان کی افزائش امر الہی سے ہوتی تھی- لیکن جب مارج (جنات) کو پیدا کیا گیا تو ان کے فطری تقاضے عود کر آئے- اور اللہ تعالی نے اس کے لئیے ایک بیوی تخلیق کی جس کا نام مارجہ (یہ نام روایات میں کہیں نہیں لہذا فرضی سمجھا جائے) تھا- جنات کی افزائش کا حکم یہ تھا کہ ایک حمل سے ایک لڑکا (جن) اور ایک لڑکی (جننی) پیدا ہوتے تھے- اللہ تعالی نے ملائکہ (فرشتوں) کو تو آسمانوں میں رہائش دی اور جنات کو زمین پر اتار دیا- مارج اور مارجہ میں غضب و قہر تھا لیکن وہ اللہ کی اطاعت و عبادت اور فرمانبرداری سے غافل نہیں تھے- وہ آسمان پر فرشتوں کے پاس جاتے اور عبادت الہی کے لئیے حمد و ثنا اور زکر و تسبیحات سیکھ کر آتے اور آکر اپنی اولاد کو ان تعلیمات سے بہرہ مند کرتےجیسے جیسے ان (جنات) کی اولاد بڑھتی گئی ان میں سرکشی کا عنصر بھی بڑھنے لگا اور آپس میں لڑائی جھگڑے اور اختلافات ہونے لگے۔

جنات کی نسل جب لاکھ سے تجاوز کر گئی تو ان میں کئی قبائل بن گئے- جب نسلیں ترقی کرنے لگتی ہیں تو خودسری اور سرکشی بھی جنم لیتی ہے- قہر و غضب سے بھری ہوا اور آگ سے تخلیق ہوئی مخلوق (جنات) نے زمین پر فسادات برپا کرنے شروع کر دئیے- (جیسے ابھی نسل آدم کا معاملہ ہے) جب جنات کی سرکشی بڑھنے لگی اور قریب تھا کہ حکم نازل ہوتا مارج (جنات کے جد امجد) نے اللہ کے حضور قوم کی سرکشی کے خلاف گریہ زاری کی کہ قوم کی سرکشی ختم ہو جائے اور باہمی اتحاد و اتفاق اور نیکی اور اللہ کے احکام کو بجا لانے کی دعا کی- اس کے علاوہ قوم کو بھی ہدایت و تبلیغ کی تلقین کرنے لگا لیکن طاقت اور غضب کے نشے میں سرشار بگڑے ہوئے جنات نے مارج کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسے صاف دھتکار دیا- پھر اللہ نے بنو مارج کو (جو نیک اور رحمدل اور اللہ کے اطاعت گزار اور فرمانروا جنات تھے) کو سرکشوں کے خلاف جنگ کا حکم دے دیا یہ لڑائیاں بہت عرصہ تک چلتی رہیں اور بلآخر حق کی فتح ہوئی بہت سے سرکش اور گمراہ جنات کو قتل (جلا کر راکھ) کر دیا گیا اور بہت سوں کو دور دراز جزیروں اور زیر زمین قید کر دیا گیا اور زمین پر ایک بار پھر سے اللہ کا حکم چلنے لگا اور زمین جو جنات کی سرکشی اور فسادات سے عاجز آئی ہوئی تھی ایک بار حوشحال ہو گئی زمین پر ایک بار پھر نیک اور برگزیدہ و فرمانبردار حکم الہی بجا لانے والے جنات ہی رہ گئے- کچھ عرصہ آرام و سکون سے گزرا لیکن کچھ عرصہ بعد جو سرکش جنات بچ گئے تھے اور پہاڑوں جزیروں اور زمین کی تہوں میں چھپ گئے تھے دوبارہ واپس آئے کچھ عرصہ تک تو انہوں نے (دکھاوے کی) نیکی اور فرمانبرداری کی زندگی گزاری لیکن کفر گمراہی اور سرکشی ان کی رگ رگ میں بھری تھی لہذا انہوں نے دوبارہ وہی کام کرنا شروع کر دیا- اب کی بار انہوں نے طاقتور اور غیض و غضب سے بھرے قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف کرنا اور بھڑکانا شروع کر دیالاشک کے وہ (جنات) بڑے متقی اور پرہیز گار تھے، لیکن ہوا اور آگ سے بنی یہ مخلوق بہت جلد بھڑک اٹھنے والوں میں سے تھی- اب کی بار زمین پر فسادات نے ایک نیا روپ دھار لیا اور بڑے بڑے قبائل آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے اور کشت و خون کرنے لگے- زمین ایک بار پھر جنات کی سرکشی لڑائیوں اور فسادات سے بلبلا اٹھی- اور بارگاہ ربی میں التجا کی کہ ان سرکشوں کو مجھ پر سے ہٹا لے یا مجھے ہی حکم دے کہ میں انہیں اپنے اندر دبوچ لوں- ملائکہ نے بھی اللہ سے سفارش کی کہ جنات ایک بار پھر سے سرکش ہو گئے ہیں اور اب کے حالات اس قدر برے ہیں کہ بس کہیں کہیں کوئی صاحب ایمان اور نیک پاک جن رہ گیا- جو زیادہ صالح ہیں وہ آسمان پر آباد ہو گئے ہیں زمین والوں کی نافرمانیوں اور سرکشیوں سے عاجز آ کے (جنات میں جو جتنا صالح اور نیک ہوتا وہ بحکم ربی پہلے دوسرے اور تیسرے آسمان تک آ سکتا تھا تا کہ ملائکہ سے تعلیم اور حکم خداوندی سیکھ سکیں اور انہیں اپنی قوم تک پہنچائیں اللہ تعالی کی رحمت ہمیشہ سے اس کے غضب پر حاوی رہی ہے- خالق کائنات نے سرکش جنات کی رہبری اور راہ نمائی کے لئیے ان میں سے نیک لوگوں کو انہیں ہدایت کی طرف بلانے کا کام سونپا (نبی بنایا اس امر میں سب سے پہلے ایک بڑے نیک ذاہد و عابد جن “چلپانیس” کو منتخب کیا گیاگو کہ وہ بھی اپنی قوم کی نافرمانیوں اور کوتاہیوں و سرکشیوں سے عاجز آیا ہوا اور بیزار تھا لیکن حکم ربی کے آگے اس نے سر جھکا دیا اور قوم کو واعظ و تبلیغ کرنے لگا اور انہیں حکم الہی کی طرف بلایا لیکن سرکش قوم نہ مانی بلکہ نبی اللہ کو شہید بھی کر دیا زمین کی گریہ زاری آسمان کے فرشتوں اور عرش الہی کو بھی ہلا گئی لیکن اللہ کی رحمت نے پھر جوش کھایا اور غضب پر حاوی ہوئی۔
چلپانیس کے بعد ایک اور نیک بزرگ جن “بلیقا” (جو کہ بہت نیک اور زاہد و عابد ہونے کے ساتھ بادشاہت بھی رکھتے تھے کو یہ کام سونپا گیا- ان کا دور اچھا گزرا جو لوگ تبلیغ و تعلیم سے راہ راست پر آنے والے تھے انہیں تبلیغ سے اور جو نہ ماننے والے گمراہ و سرکش تھے انہیں جنگ سے زیر کیا گیا اور اس طرح پھر سے حکم الہی عام ہوا۔

ان کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ قوم پھر اسی طرف آنے لگی اور اسی طرح آٹھ سو سے زائد نبی مبعوث ہوئے جو قوم کو سمجھانے اور اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتے رہےپھر جب جنات کی سرکشی بڑھی (اور یہی معاملہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمیشہ سے چلا آ رہا) تو ایک اور بزرگ “ہاموس” کو مبعوث فرمایا گیا جنہوں نے قوم کو سخت تنبیہہ کی کہ اگر نہ مانے تو سخت سزا دی جائے گی اور قوم جنات نے عہد کیا کہ وہ فرمانروا رہیں گےیہی وہ زمانہ تھا جب ایک قبیلہ میں ایک جن بچے کی پیدائش ہوئی جس کا نام “چلیپا رکھا گیا جو بڑا ہونے پر ایک نڈر بہادر اور بےباک نکلا جس کا چہرہ جیسے ببر شیر کا اور بےحد بہادر نڈر اور قوم نے انہیں “شاشین” (دل دہلا دینے والا) کا لقب دیا تھا کہ جب وہ میدان میں ہوتا تو دشمن کا دل اسے دیکھتے ہی کانپ اٹھتااور ایک دوسرے قبیلہ میں “نبلیث نامی جننی پیدا ہوئی جو قوم جنات کی سب سے زیادہ طاقتور مادہ تھیں کہ کئی سو کا مقابلہ کر سکتی تھی ان کے چہرے کی ساخت جیسے مادہ بھیڑئیے کا چہرہ ہوتا ہے (واضح رہے کہ جنات کی شکلیں مختلف ہوتی یا ہو سکتی ہیں اور یہی ان کی پہچان اوپر بیان کی گئی کہ وہ کسی بھی صورت میں متشکل ہو سکتے ہیں) ان دونوں کے بارے مشہور تھا کہ جس قوم میں چلیپا اور نبلیث ہوں وہ کبھی ہار نہیں سکتی کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی———–>> جاری ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *