Main Menu

حلقہ وسطی باغ پیرا شوٹرز کی جنت ؛ تحرير: ابوبکر راجپوت

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

آزاد جموں کشمیر ضلع باغ کا حلقہ وسطی باغ تاریخی طور پر بہت ہی اہم حلقہ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں چند طلباء نے دارلعلوم دیوبند سمیت برصغیر کے مشہور اداروں سے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کر کے تحریک پاکستان، تحریک کشمیر اور مختلف تعلیمی سوسائٹیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ۔۔۔ ان عظیم لوگوں میں مسلم کانفرنس پونچھ کے بانی سرپرست اعلی مولانا عبد اللہ کفل گرھی، مفتی امیر عالم، مولانا امیر زمان,مولانا عبد الحی سمیت کئی نامور شخصیات شامل ہیں جنہوں نے اس خطے میں تعلیم کے ابتدائی ادارے قائم کیے جہاں سے نا صرف لوگوں کو دینی شعور عطا ہوا بلکہ سیاسی اور سماجی شعور نے بھی سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔

آزاد جموں کشمیر میں انتخابی سیاست کے قیام کے بعد اس حلقے سے راجہ سبیل مرحوم دو بار، راجہ رفیق مرحوم ایک بار، راجہ یاسین صاحب دو بار، سردار قمر زمان صاحب دو بار، کرنل نسیم مرحوم ایک بار، عبد الرشید ترابی دو بار (ایک بار منتخب اور ایک بار مخصوص نشستوں سے) اور راجہ مشتاق منہاس صاحب ایک بار ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوۓ۔

یہ حلقہ عمومی طور پر پیرا شوٹرز کی جنت کہلاتا ہے۔۔۔ کوئ بھی بندہ جو مرکز کی جماعت تک رسائی رکھتا ہو وہ راتوں رات سیاسی قائد بن کر آسانی سے اس حلقے سے منتخب ہو سکتا ہے پھر چاہے گراؤنڈ میں اس کا کوئ کردار ہو یا نا ہو۔۔۔ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اس بات کا تجزیہ تاریخ کی ورق گردانی سے کرتے ہیں۔

اس حلقے سے سب سے پہلے راجہ سبیل مرحوم نے آزاد امیدوار الیکشن جیت کر اسمبلی میں قدم رکھا جن کا واحد کریڈٹ یہ تھا کہ وہ نارمہ برادری کے اکلوتے وکیل تھے اور دو بڑے علماء کے آپسی جھگڑے کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو ہینڈل کرنے کے لیے نارمہ ایجوکیشن سوسائیٹی کے سابق صدر مولانا محمد اکبر مرحوم نے ان کا نام امیدوار کے طور پر تجویز کیا۔۔۔ یوں جس شخص کو اجلاس میں بیٹھے لوگ بھی نہیں جانتے تھے وہ اکثریتی برادری کا اکلوتا وکیل ہونے کی وجہ سے تاریخی کردار کے حامل علماء کی موجودگی میں بطور متبادل اور غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر قومی اسمبلی میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوا۔۔۔ لیکن حلقہ کی شومئی قسمت کہ جناب پانچ سال بعد الیکشن ملتوی ہونے کے باعث یہاں رُک کر عوام کی خدمت کے بجاۓ زاتی کاروبار کی غرض سے شہر تو شہر یہ وطن ہی چھوڑ کر دیار غیر کو کُوچ کر گئے اور گرداب میں پھنسی عوام کو حالات کی بے رحم موجوں کے حوالے کر کہ خود سعودی عربیہ چلے گئے جناب ایک بار 1991ء میں صرف الیکشن لڑنے واپس تشریف فرما ہوۓ لیکن شکست کھا کر فورا ہی واپس چلے گئے اور پھر دس سال بعد 2001ء میں تیسری بار آسان ماحول دیکھ کر الیکشن میں حصہ لینے کے لئے حلقہ میں وارد ہوۓ۔۔۔ یوں حادثاتی لیڈر بننے والے اس نیک اور شریف انسان کا ایک ہی سیاسی اصول رہا کہ اگر جیت گئے تو مظفر آباد اور ہار گئے تو سعودی عربیہ۔۔۔ عوام جاۓ بھاڑ میں۔۔۔

اس حلقے سے منتخب ہونے والے دوسرے ممبر قومی اسمبلی راجہ محمد رفیق خان تھے جو حقیقی معنوں میں عوامی نمائندے تھے اور ڈسٹرکٹ کونسلر سے اوپر آۓ اور پھر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوۓ لیکن خود شرقی سے تعلق رکھنے کے باعث پہلے 1990ء میں اپنی برادری کے کارکنوں کی مخالفت کے باعث الیکشن ہار گئے اور بعد میں 1991ء میں برادری کے جرگے کے باعث حلقے کے اسی قائد کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہونا پڑا جو حلقے کو گرداب میں چھوڑ کر خود زاتی کاروبار کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے اور الیکشن سے پہلے برادری کے جرگے کے باعث واپس سیاست میں حصہ لینے کے لیے حلقے میں تشریف لاۓ تھے اور الیکشن میں شکست کے بعد واپس کاروبار کے لئے سعودیہ چلے گئے اور دس سال بعد پھر الیکشن کے لیے واپس لوٹے۔۔۔

حلقے سے منتخب ہونے والے تیسرے ممبر اسمبلی سردار قمر الزمان صاحب تھے جو 1990ء کے الیکشن میں بطور آزاد امیدوار ممبر قومی اسمبلی منتخب کر پیپلز اپرٹی کی حکومت میں شامل ہوۓ اور وزارت کے منصب پر فائز ہوۓ لیکن اگلے الیکشن میں حلقے، قبیلے اور ووٹرز کو مسلم کانفرنس کے ہاتھوں فروخت کر خود شرقی باغ چلے گئے اور حلقہ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جس کہ سزا ان کے بیٹے کو 2001ء میں اور خود انھیں 2003ء اور 2006ء کے الیکشن میں بھگتنا پڑی۔ 2011ء میں عوام نے ایک اور موقع دیا لیکن اس بار بھی قمر سرکار کا پڑاؤ نیلم اور سدھن گلی کے ریسٹ ہاؤس میں ہی رہا اور نتیجہ 2016ء کے الیکشن میں عبرت ناک شکست بھگتنا پڑی اور اب 2021ء کے الیکشن میں 1991ء طرح ایک بار پھر حلقے کا سودا کر کہ خود شرقی حلقے میں چلے گئے ہیں۔۔۔

حلقے سے منتخب ہونے والے چوتھے ممبر اسمبلی ایک غیر معروف شخصیت شخصیت راجہ یاسین صاحب تھے جو اس سے قبل اسلام آباد میں ایک وارڈ کے مسلم کانفرنسی عہدے دار تھے اور بیکری کے کاروبار سے وابستہ تھے لیکن راجہ سبیل مرحوم، راجہ رفیق مرحوم، راجہ عبدالجبار مرحوم جیسے سینئر مسلم کانفرنسی راہنماؤں کے آپسی جھگڑوں اور غیر سیاسی جرگوں کے باعث مسلم کانفرنس کے ٹکٹ کے امیدوار اور پھر ممبر قومی اسمبلی اور وزیر بنے لیکن تمام تر سیاسی کامیابیوں کے باوجود بھی موصوف نے کبھی باغ شہر میں آشیانہ بنانا اور لوگوں کے مسائل سننا گوارا نا کیا جس کی سزا جناب کو 1996ء اور 2011ء کے الیکشن میں شکست اور دیگر الیکشن میں ٹکٹ نا ملنے کی صورت میں ملی حالانکہ قدرت نے 2003ء کے الیکشن میں انھیں ایک بار پھر ضمنی الیکشن میں جیت کر وزارت کے منصب پے وائز ہو کر حلقے کی خدمت کا موقع دیا لیکن جناب والا بھی اپنے پیش روؤں کی طرح حلقہ سے جیت کر حلقے کو داغ مفارقت دینے کی روش پر قائم رہے اور تا دم تحریر اسی روش پر قائم ہیں۔۔۔

حلقہ سے الیکشن جیت کر ممبر قومی اسمبلی بننے والے پانچویں امیدوار جناب عبد الرشید ترابی صاحب تھے جو 1996ء میں جہادی ماحول، خلائی مدد اور بڑی برادری کے اکلوتے امیدوار ہونے کے باعث الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کے امیدوار منتخب ہوۓ لیکن اُن کا سارا فوکس حلقے کے بجاۓ بین الاقوامی دوروں اور جہادی کانفرنسوں پر ہی مرکوز رہا جس سے نا صرف بہت سے معصوم جوان جہاد کشمیر میں جاں سے گئے بلکہ اس سے فائدہ اٹھا کر شرقی سے منتخب ہونے والے وزیر نے کرپشن کا بازار بھی خوب گرم کیا۔۔۔ یوں حلقے کو بے یارو مددگار چھوڑنے کی سزا آج تک عبد الرشید ترابی صاحب بھگت رہے ہیں۔۔۔ 2016ء میں ٹیکنو کریٹ کی سیٹ سے منتخب ہونے کے باوجود بھی موصوف اپنے سابقہ ریکارڈ پر قائم ہیں جس کا نتیجہ آمدہ الیکشن میں واضح دکھائی دے رہا ہے۔۔۔

بدقسمت حلقے سے منتخب ہونے والے چھٹے ممبر اسمبلی کرنل(ر) راجہ محمد نسیم خان تھے جن کی حلقے سے عدم وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ان کی اپنی برادری جو کہ حلقہ کی سب سے بڑی برادری ہے، نے انھیں مکمل طور پر جھٹلا دیا اور صرف ایک گاؤں آویڑہ کے لوگوں نے انھیں الیکشن میں یک طرفہ جیت دلائ۔۔۔ پاکستان میں مارشل لاء، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کاکول اکیڈمی میں انسٹرکٹر ہونے، اقتدار کے ٹکٹ اور خلائی مخلوق کی مدد سے وہ الیکشن جیت کر وزیر تعمیرات عامہ بننے میں کامیاب ہوئے تو بلا شبہ انھوں نے باغ میں سڑکوں اور پٔلوں کا جال بچھا دیا لیکن حلقے کی عوام کو انھوں نے اپنے اُن بھائیوں اور دوستوں کے حوالے کیے رکھا جو اپنے ہی لوگوں کو جعلی ایف آئی آر میں جیل بھجوانے اور لوگوں سے پیسے لوٹنے کو انجواۓ کرتے رہے لیکن جناب نے باغ شہر میں دفتر کھولنے، رہائش رکھنے اور لوگوں کے مسائل سننے میں قطعا کوئ دلچسپی نا دکھائ۔۔۔ اس لاتعلقی کی سزا جناب کو 2011ء کے الیکشن میں اور لواحقین کو 2016ء کے الیکشن میں شکست کی صورت میں ملی لواحقین آج تک اسی روش پر قائم ہیں اور نتیجہ بھی وہی ہو گا یعنی ڈھاک کے تین پات۔۔۔

اس حلقے سے منتخب ہونے والے ساتویں ممبر قومی اسمبلی راجہ مشتاق منہاس ہیں جو صحافتی خدمات کے دوران شریف فیملی سے قائم ہونے والے زاتی تعلق کے باعث 2016ء میں مسلم لیگ کے بانیوں سے ٹکٹ چھین کر راتوں رات امیدوار اسمبلی اور پھر ممبر و وزیر بننے میں کامیاب ہوۓ لیکن موصوف کا زاتی موبائل نمبر تک پچھلے پانچ سالوں سے بند ہے۔۔۔ باغ میں رہ کر دفتر کھولنا تو در کنار جناب والا سے تو عام آدمی کا رابطہ کرنا ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

سچ یہ ہے کہ وسطی حلقے سے منتخب ہونے والے تمام ممبران قومی اسمبلی سے صرف راجہ محمد رفیق خان وہ واحد لیڈر تھے جو نا صرف اقتدار کے دوران بلکہ اقتدار کے بعد بھی ہمہ وقت حلقے میں رہے اور عوام کی بے لوث خدمت کی لیکن زاتی تعلق حلقہ شرقی سے ہونے کے باعث اپنی برادری کے ہاتھوں جرگے کی طاقت سے الیکشن سے باہر ہونا پڑا۔۔۔ باقی تمام ممبران، سیاست میں حادثاتی طور پر ہی آئے اور جیتنے کے بعد حلقہ سے یوں غائب ہوۓ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔ اصول سب کا ایک ہی رہا۔۔۔ جیت گئے تو مظفرآباد، ہار گئے تو اسلام آباد یا سعودی عربیہ۔۔۔ جس طرح شرقی کی قیادت ہار اور جیت دونوں صورتوں میں ساتوں دن اور پورا ماہ حلقے میں موجود رہی وہ خوشی وسطی والوں کو کبھی نصیب نہ ہوئ۔

آج وہی لوگ یا ان کے زاتی و سیاسی وارثان یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ حلقہ میں کسی پیرا شوٹرز کو نہیں آنے دیں گے۔۔۔ اگر یہ لوگ حلقہ میں رہ کر عوام کے درمیان رہتے ہوۓ عوام کی خدمت کرتے تو سیاسی یتیمی کا شکار حلقہ اور عوام ایسے لیڈروں کو عزت اور طاقت کے اس مقام ہے فائز کرتی جہاں کوئ پیرا شوٹرز قدم رکھنے کا تصور کرتے ہوۓ بھی خوف سے کانپ اٹھتا۔۔۔۔ لیکن یہ خواب محض خواب ہی رہا جو کبھی شرمندہ تعبیر نا ہو سکا۔

پیرا شوٹرز کے حلقے میں ایک اور پیرا شوٹرز کی آمد ہے جو جیت گیا تو مظفر آباد اور ہار گیا تو سینٹارس میں ہو گا اور عوام کے حصے میں آئے گی ہمیشہ کی طرح دھوکا دہی اور بے وفائی۔۔ جو ایسے پیرا شوٹرز کو ووٹ دینے والی عوام کا مقدر ہوا کرتی ہے۔۔۔۔

عوام کے لیے بس ایک ہی پیغام ہے

منظم ہو تو بدل دو نظام زندگی
منتشر ہو تو مرو، شور کیوں مچاتے ہو؟






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *