تیئس مارچ اور نام نہاد آزاد کشمیر کا نام نہاد وزیر اعظم ؛ تحریر : رضوان کرامت
نام نہاد وزیر اعظم اس لیے کیونکہ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کا انتخاب پاکستان کے حقیقی حکمران کرتے ہیں اور اس عہدہ پر موجود جو بھی شخص رہا اس کے فرائض میں شامل تھا اور ہے کہ وہ نام نہاد آزاد کشمیر کے عوام کو ابہام میں مبتلا کرے اور ان کو حقیقت تک پہنچنے نہ دے اس علاقہ میں جو کھربوں کی دولت ہر سال پیدا ہوتی ہے اس کو پاکستان کے حقیقی حکمران تک پہنچنے میں آسانی پیدا کرے کسی قسم کی مزاحمت پیدا نہ ہونے دے مسئلہ کشمیر کے بارے میں یہاں کے عوام میں ہر لمحہ ابہام پیدا کرے اگر اس عہدہ کا عملی کردار نام نہاد آزاد کشمیر کے عوام کی ترقی اور بہبود نہیں بلکہ صرف ابہام ہی پیدا کرنا ہے اور پاکستانی حقیقی حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو پھر یہ نام نہاد وزیر اعظم ہی ہوا۔
تيئس مارچ 2021 کو نام نہاد وزیر اعظم نے کہا کہ” خونی لکیر کی دوسری جا نب بسنے والے مظلوم و محکوم کشمیری عوام بھی مملکت خداداد پاکستان کا حصہ بننے کے منتظر ہیں ” ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ حقیقت کے منافی ہے وادی کی اکثریت مکمل آزادی چاہتے ہیں اگر چند لوگ ایسا سمجھ بھی رہے ہیں تو دیکھنا ہو گا کہ پاکستانی ریاست کا نظام کیسا ہے یہاں ایک عام شہری کو کتنی معاشی, سیاسی اور سماجی آزادیاں حاصل ہیں تو جب ہم اس ریاست کو دیکھتے ہیں تو یہاں جاگیردارانہ جمہوریت ہے پارلیمنٹ میں 99فیصد افراد جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ پارٹیوں کے نمائندے بیٹھے ہیں ریاست کے داخلی اور خارجی معاملات میں فوج کا نمایاں ,حتمی اور فیصلہ کن کردار ہے ساٹھ فیصد سے زائد شہری تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا سکتے. تحریر و تقریر پر مکمل پابندی ہے جو بات کرتا ہے میسنگ پرسن ہو جاتا ہے ہر طرح کی جدت کی ریاست مخالفت کرتی ہے. پڑھے لکھے ڈگری ہولڈر نوجوانوں کے لیے کسی قسم کا باعزت روزگار پیدا کرنے کی کبھی کوئی حکمت عملی نہیں بنائے گی. نصاب میں تاریخ کے مضمون پر پابندی ہے کسی بھی علاقے یا صوبے کی سچی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی بلکہ چند جاگیرداروں اور حقیقی حکمرانوں کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے جھوٹی تاریخ پڑھائی جاتی ہے فرضی ہیرو تراشے گے ہیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔
اگر ہم 23 مارچ کو ہی لے لے تو نصاب میں جو پڑھایا جا رہا ہے سب جھوٹ ہے اس دن کے حوالے سے چند دانشوروں اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر سب تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں کسی میں جرات نہیں کہ وہ 23 مارچ کی سچائی کو عوامی عدالت میں بے نقاب کرے. حقیقت یہ ہے کہ انگریز کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ برصغیر پر اپنا اقتدار قائم رکھ سکے تو اس نے پندرہ اگست 1947 کو ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور محمد علی جناح اور گاندی جی کو اپنے اپنے علاقوں کا گورنر جنرل مقرر کیا جبکہ حقیقی اقتدار اپنے پاس ہی رکھا اور طے کیا کہ دونوں نومولود ریاستیں اپنا اپنا آئین ترتیب دے اس کے بعد برطانیہ کی ان علاقوں سے عمل داری ختم ہو جائے گی ہندوستان نے یہ کام 26 فروری 1949کو مکمل کر لیا اور وہ اس دن یوم جمہوریہ مناتا ہے جبکہ پاکستان کو اپنا آئین بنانے میں نو سال کا عرصہ لگ گیا اور دو مارچ 1947 کو ملک کا پہلا آئین ترتیب دیا گیا جو 23 مارچ 1956 کو منظور کیا گیا اس دن کو پاکستان کے جاگیرداروں کو انگریز سے آزادی ملی اس دن کو یوم جمہوریہ قرار دیا گیا اور چار سال پاکستان نے اس دن یوم جمہوریہ منایا لیکن جب 1959 کو ایوب خان نے ملک کا آئین توڑ کر ملک میں مارشل لاء لگایا تو اس وقت اس دن کو منانے پر سوال اٹھا کیونکہ یوم جمہوریہ تو عوام کی حکومت ہی منا سکتی ہے ایک ڈکٹیٹر نہیں تو فوجی ڈکٹیٹر نے اس دن کو قراردار پاکستان کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا اور اس کو آل انڈیا مسلم لیگ کی 24مارچ 1940 کی قرارداد سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی اور تاریخ کو مسخ کیا اگر ہم 24 مارچ 1947 کی آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد پر نظر ڈالیں تو اس کے دو مطالبات تھے ایک ہندوستان میں مسلم ریاستوں کا قیام اور دوسرا مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل لیکن اس قرارداد میں کئی بھی اسلامی ریاست یا پاکستانی ریاست کا ذکر نہیں تھا جو ایک آمر نے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے تاریخ سے کھلواڑ کیا. اور آج تک اس کے بعد آنے والی کسی جمہوری حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس تاریخی غلطی کو درست کر سکے آج پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں جو اقتدار میں آئی وہ اس تاریخی جرم میں برابر کی شریک ہیں ۔
اب ان چند معصوم, نہتے, پسے ہوئے اور کچلے ہوئے ریاست جموں کشمیر کی قومیتوں کے شہریوں سے سوال بنتا ہے جو سمجھ رہے ہیں کہ ہم پاکستان میں اس لیے شامل ہونا چاہیے کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے کیا اسلامی ریاست کو اسلام اجازت دیتا ہے کہ چند جاگیرداروں کے مفادات کے لیے بائیس کروڑ مسلمانوں سے جھوٹ بولا جائے.ہر باشعور فرد کا جواب نفی میں ہو گا. پاکستان ایک جاگیردارانہ ریاست ہے. اور جاگیرداروں کے مفادات کے لیے ہر موقع پر اپنی عوام کا استحصال کرتی آ رہی ہے.یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان, خیبر پختون خواہ اور سندھ میں قومی سوال موجود ہے۔
اب ہم وادی, جموں, لداخ اور گلگت بلتستان کے باشعور شہریوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ تمہاری محرومیوں کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ آپ کے وسائل پاکستان اور ہندوستان کے بالائی طبقات لوٹ رہے ہیں اگر آپ اپنی نسل نو کو شاندار مستقبل دینا چاہتے ہو تو پھر صوبہ یا الحاق پاکستان یا ہندوستان سے آپ کی محرومیوں کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اس کے لیے شعوری طور پر منظم جدوجہد درکار ہے جو ان قومیتوں کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے مکمل آزادی دلوا سکے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے بالائی طبقات اپنے عوام کا بھی مسلسل استحصال کر رہے ہیں ہمیں ان محنت کش عوام سے بھی جڑت بننا ہو گی نام نہاد وزیراعظم پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ریاست جموں کشمیر کی قومیتوں کا باشعور شہری کبھی بھی کسی جاگیردارانہ ریاست یا سرمایہ دارانہ ریاست کا حصہ بننے پر تیار نہیں ہو گا.باقی ہمیں اس عہدے پر کوئی گلہ نہیں کیونکہ یہاں بیٹھنے والا تو اپنے آقاؤں کی وفاداری کرتا ہےوہ اپنا کام جاری رکھے اور ہم اپنی تاریخی ذمہ داری پوری کرتے رہے گے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More