Main Menu

معاہدہِ امرتسر اور ہم ؛ تحرير: عثمان افسر

Spread the love

معاہدہ امرتسر یا بیعنامہ امرتسر اصل فساد کی جڑ ہے بالفرض اگر یہ معاہدہ نا ہوا ہوتا تو بہت سی فضول چیزوں سے ہم بچے ہوتے شائد۔کون سا جموں کون سا کشمیر کہاں کا گلگت کہاں کی آزادی کون سی وحدت کس کی وحدت شائد آج ہم بھی ہندوستان یا پاکستان یا دونوں میں آدھے آدھے ہوتے پھر ہمارے پاس بحث کرنے کو بہت کچھ ہوتا مثلاً نیا پاکستان کا خواب کس نے دیکھا یا فیتہ لیکر مودی جی کا چھپن انچ کا سینہ ہی ناپ رہے ہوتے اور کرنے کو کام کاج بھی کچھ ہوتا۔مگر کیا کریں بدقسمتی سے معاہدہ طے پا گیا اور ایک نئی ریاست تشکیل پا گئی ورنہ ہمارے پاس سلطان زین العابدین ، للتہ دیتہ اور سلطان شہاب الدین وغیرہ کی ریاست کے دوبارہ حصول کے لیے اس خطے کے تمام ممالک سے ٹکرانے کا آپشن بدرجہ اتم موجود تھا۔ خیر چنگا مندا معاملہ گوروں اور گلاب سنگھ کے درمیان طے پا گیا سو سال کے لگ بھگ گلاب سنگھ کی نسلوں نے عیاشی ماری ساتھ میں ان لوگوں نے بھی جو آج تو اُس خاندان کو صلواتیں سناتے ہیں لیکن اس کے عہد میں اسکے نمبردار اور جاگیر دار بننے میں فخر محسوس کرتے تھے پھر اپنے ہی بھائی بندوں کے استحصال کے مزے بھی لیتے تھے،مہاراجے کے لیے مالیہ بھی یہی لوگ اکھٹے کرتے تھے اگر میں غلط نہیں تو۔ اب سوال یہ کہ ایک تو ہم نے ایک غلط بندے کے لیے اسوقت سہولتکاری کا فریضہ سر انجام دیا دوسرا آج ہم اس ریاست کی بحالی کی بات کیوں کررہے ہیں جس کو ایک ایسے معاہدے کے ذریعے تشکیل دیا گیا جس کو ہم سرے سے ہی نہیں مانتے؟اور نا ماننے کی معقول وجہ بھی نہیں۔پھر کہا جاتا ہے کہ ہم نے انیس سو سینتالیس میں ڈوگروں سے آزادی لی لیکن بڑی عجیب آزادی ہے جو چار ہزار مربع میل میں رک گئی اور ایک بڑا حصہ ہندوستان کے ہاتھ میں دے کر اپنے لوگوں پر جبر و بربریت کا نا رکنے والا سلسلہ شروع کروادیا حالانکہ دوسری طرف بھی مسلمان کثیر تعداد میں موجود تھے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈوگروں کے بھاگ جانے کے بعد کم از کم بیچ میں اپنے لوگوں کے درمیان لکیر نا کھینچی جاتی چلو مسلمان ہی ایک سائڈ پر ہوجاتے پھر تو اِس آزادی کی بھی سمجھ آتی لیکن ہم تو الٹا گیم سے ہی آؤٹ ہوگئے۔

سنا ہے کہ ہمارے غازیِ ملت صاحب اور ہری سنگھ کے درمیان اقتدار کی عوام میں منتقلی کی بھی کوئی بات چیت ہوئی تھی (میں نے سنا ہے پڑھا نہیں اگر کسی کے پاس علم تو ضرور راہنمائی کریں )اور اس پر غازیِ ملت صاحب نے اتفاق بھی کرلیا تھا لیکن بعد میں انکے تیور بدل گے اور ایک بند کمرے میں الحاقِ پاکستان کی قراردار منظور کرکے چار ہزار مربع کی آزادی لے لی اور غازی کا میڈل بھی اس معاملے میں قیوم صاحب نے پیچھے رہنا گوارا نا کیا اور ایک ہی گولی کو بیک وقت ہڈا باڑی ، دھیرکوٹ منگ وغیرہ سے چلا کر مجاہدِ اوّل ہونے کا منفرد اعزاز اپنے نام کیا ۔ بہرحال معاہدے پہ آتے ہیں اگر اس معائدے کو بیچ سے نکالتے ہیں تو جموں، کشمیر، گلگت، لداخ اور اکسائی چن وغیرہ پر مشتمل ریاست کا وجود ہی کہیں نظر نہیں آتا نا ہی جموں کشمیر اقصائی تبتہا کی پٹی پوری ہوتی ہے۔اب ہمارے پاس آپشن کیا ہے؟ یا تو سلطان زین العابدین کی ریاست کی بحالی کی جنگ لڑی جائے جس کا دور دور تک کوئی چانس نہیں یا پھر معلوم تاریخ و شواہد کو مدِنظر رکھتے ہوئے مارچ اٹھارہ سو چالیس میں تشکیل ہونے والے ریاست کے دعوے پہ قائم رہتے ہوئے جدوجہد کی جائے۔تاریخ وہ بنیادی نقطہ ہے جو ہمیں ریاست کی بحالی کی جدوجہد کا جواز فراہم کرتا ہے ورنہ اس کے علاوہ ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمارے تقریباً پچاسی ہزار مربع میل کی وحدت کی بحالی کے دعوے کو ثابت کرسکے۔ باقی اگر طرزِ حکومت یا نظام کی بات کی جائے تو یہ قابلِ بحث چیز ہے اس کو قبول یا رد کیا جاسکتا ہے۔ہاں اگر ہم جاگیردارانہ سماج میں ایک آئیڈیل ریاست ڈھونڈ رہے ہیں تو اس میں غلطی ہماری اپنی ہے۔

جاگیر داری انسان دوست نہیں ہوتی جیسے کھیت میں بیل کو جوتنے کے لیے اس کو گھاس ڈالنا ضروری ہے یا اب کے جدید دور میں ٹریکٹر کو چلانے کے لیے پٹرول درکار ہے ایسے ہی جاگیر دارنہ سماج میں بھی ہوتا ہے جاگیر کا نظام چلانے کے لیے انسانوں کو زندہ رکھنا ضروری ہے جیسے آجکل کے ہمارے قائدین کالے پائپ کے بنڈل یا سولنگ والی سڑک دے کر کرتے ہیں ایک اسکیم کے بدلے پانچ سال تک آوے جاوے کے نعرے لگتے ہیں واہ واہ بھی لگی رہتی ہے اور جھنڈی ڈنڈی بھی۔باقی بات ہے مہاراجہ دور کے جھنڈے کی جس کے پیلے رنگ کو کافر قرار دیا گیا ہے تو اسکے مسلمان ہونے تک انتظار کرلینا چاہیے ویسے آجکل کے ہمارے شدید قسم کے مسلمان آئیڈیل ملک ترکی کا جھنڈا پورا سرخ ہے اسے پھر کمیونسٹ جھنڈا اور اردگان کو کامریڈ طیب کہلانا چاہیے۔ریاستوں کے جھنڈے اور جغرافیائی حدود بدلتی رہتی ہیں اس لیے جھنڈے کو ایک ریاستی علامت کے طور پر آپ چاہیں تو رکھیں نا چاہیں تو نا رکھیں کیونکہ کل کو ریاست شکل بدل بھی سکتی ہے ممکنات میں سے ہے۔ اور پھر حدودِ اربعہ کی بات کیجائے تو اگر ہم اس پہ بضد ہیں کہ ہماری ریاست جموں کشمیر لداخ گلگت اکسائی چن وغیرہ پر مشتمل ہے تو ہمیں سولہ مارچ کے معاہدے کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر حلق سے اتارنا ہوگا تاکہ درست سمت پر توانائی لگائی جا سکے اور ہر دوطرفہ قابضین کے خلاف ایک ٹھوس بنیاد پر منظم لڑائی لڑی جاسکے۔ ہاں اگر اس کے علاوہ کوئی اور نقشہ ہمارے ذہن میں ہے تو اس معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر آگے بڑھتے ہیں اور اپنی ریاست تلاش کرتے ہیں ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *