Main Menu

معاہدہ امرتسر: اہمیت وافادیت ؛ تحریر:اسد نواز

Spread the love

تاریخ میں کسی کی خواہش کے مطابق نہ تو کوئی چیز ڈالی جا سکتی ہے نہ نکالی جا سکتی ہے۔جو ہو چکا وہ درست تھا یا غلط اسکا فیصلہ وقت نے کرنا ہوتا ہے۔تاریخ ہی ثابت کرتی ہے کہ اس کراہ ارض پر موجودہ خطہ جموں کشمیر تو ہزار ہا سالوں سے موجود ہے اور مختلف اوقات میں اسکی جغرافیائی حیثیت تبدیل ہوتی رہی۔16 مارچ اٹھارہ سو چھیالیس سے قبل یہ خطہ کئی راجواڑوں پر مشتمل تھا اور ان راجواڑوں پر اختیار یا کنٹرول خالصہ دربار لاہور(پنجاب کی سکھ سلطنت) کا تھا۔خالصہ دربار اور انگریز کے درمیان ہونے والی جنگ میں خالصہ دربار کو شکست ہوئی ،جنگ بندی کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ خالصہ دربار برٹش کو تاوان جنگ ادا کرے گا جو کہ اس وقت کے لحاظ سے ڈیڑھ کروڑ نانک شاہی سکہ ( رائج الوقت کرنسی) طے ہوا۔بصورت دیگر پنجاب دربار کے ماتحت علاقے انگریزوں کی عملداری میں چلے جائیں گے ۔جنگ کی وجہ سے شکستہ حال تھکی ہاری سکھ سلطنت کے پاس کل ملا کر پچھتر ہزار نانک شاہی سکے جمع ہو سکے اور باقی پچھتر لاکھ نانک شاہی کے بدلے میں انگریزوں نے سکھ سلطنت کے کچھ علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے۔جن میں موجودہ ریاست جموں کشمیر کا بیشتر علاقہ شامل تھا ۔لاہور دربار میں جموں کا ایک باشندہ گلاب سنگھ بھی اعلیٰ عہدے پر فائز تھا جس نے سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا جسکی وجہ سے برطانوی حکومت کے نمائیندوں کے ساتھ بھی اسکے تعلقات استوار ہو گئے تھے۔اس نے جب دیکھا کہ یہ علاقے ہمیشہ کیلیے انگریز کے پاس جارہے ہیں تو اس نے انگریز کو پیش کی کہ اگر وہ سکھوں کے ذمہ واجب الادا رقم پچھتر لاکھ نانک شاہی سکہ برطانوی حکومت کو ادا کر دے تو کیا ان علاقوں پر اسکی عملداری تسلیم کر لی جائے گی؟ساتھ میں اس نے انگریز ریذیڈنٹ کو مطمئین کرنے کیلیے یہ بھی کہا کہ یہ دور دراز کے بنجر اور پہاڑی علاقے ہیں جہاں نہ تو کسی قسم کی پیداوار ہوتی ہے اور نہ ہی رسل ورسائل کا کوئی معقول انتظام ہو سکتا ہے نیز ریل کی پٹڑی بچھانا بھی ممکن نہیں ۔

انگریز ریذیڈنٹ نے یہی باتیں بذریعہ تار ملکہ برطانیہ کو بھیجیں اور گلاب سنگھ کے ساتھ معاہدے کی اجازت مانگی ،ملکہ برطانیہ نے انگریز ریذیڈنٹ کو اس شخص کے ساتھ فوری طور پر معاہدہ کرنے کے احکامات جاری کئیے ،یوں 16 مارچ 1846 کو انگریز ریذیڈنٹ اور گلاب سنگھ کے درمیان ان علاقوں کی عملداری یا انتقال اقتدار کا معاہدہ طے پایا۔یوں جموں اور کشمیر کو ملا کر ایک ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔
چونکہ یہ بادشاہت کا عہد تھا اور پوری دنیا کی طرح یہاں بھی ایک بادشاہت قائم ہوگئی جو بتدریج ارتقائی سفر طے کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی جسکی مثال یہاں ایک عوامی اسمبلی کا قیام،بہترین عدالتی نظام،انسانی حقوق کے حوالے سے قانون سازی، سٹیٹ سبجیکٹ رول، بنیادی تعلیم لازمی، تحفظ جنگلات کا قانون، کم عمری کی شادیوں پر پابندی، بیگار کا خاتمہ، جگہ جگہ تعلیمی اداروں کا قیام، مال مویشیوں کیلیے سرکاری چراگاہیں، گیلیں اور راستے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے انسانی منشور سے بھی قبل انسانی بنیادوں پر قانون سازی ۔ لیکن اسی دوران انگریز کا یہاں سے نکلنا طے پا گیا اور جاتے جاتے عظیم برصغیر کی طرح اس ریاست کو بھی قتل و غارت گری کے ذریعے تقسیم کر کے گیا اور جسکا قضیہ آج تک موجود ہے۔
اس بحث میں جائے بغیر کہ گلاب سنگھ بدکردار تھا یا باکردار،اچھا تھا یا برا ،نیک دل تھا یا سنگ دل ،اس نے اپنا اقتدار قائم کرنے کیلیے ، ہوس ملک گیری اور بادشاہت قائم کرنے کیلیے یہ ریاست بنائی تھی یا کسی دوسرے مقصد کیلیے (چونکہ اس پر مختلف بحثوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ہماری آج کی تحریر میں یہ بحث نہیں ہے) مقصد جو بھی تھا لیکن یہ تلخ تاریخی سچائی ہے کہ اگر معاہدہ امرتسر نہ ہوتا تو یہ علاقہ برطانوی ہند کا حصہ بن جاتا ، اور تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت آج انڈیا اور پاکستان میں بٹ چکا ہوتا۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہا کا جھنڈا

تقسیم ہند کا فارمولہ یہ تھا کہ شخصی ریاستوں کے بادشاہ اپنی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کریگا جبکہ برطانوی ہند ( جہاں انگریز کی برائے راست حکمرانی تھی) میں ہندو مسلم اکثریت کی بنیاد پر انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونا تھا۔آج اقوام متحدہ کے اندر جس ریاست کا ذکر ملتا ہے یہ معاہدہ امرتسر کی بنیاد پر بننے والی ریاست ہی ہے اسکے سوا کچھ بھی نہیں ۔یہ اسی ریاست کا تنازع ہے نہ کہ کسی حق خودارادیت یا انسانی حقوق کا کوئی مسلہ ہے۔ہماری خواہش ہو نہ ہو،گلاب سنگھ ہمیں اچھا لگے یا برا ، اس سے کوئی نفرت کرے یا محبت یہ اسکا حق ہے لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑنا ، سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے کیس کی قانونی بنیاد ،ثبوت اور حوالہ گلاب سنگھ کا معاہدہ ہے اور یہی بین الاقوامی سطح پر ہمارا کیس ہے۔آج کے عہد میں گو کہ قومیتوں کا سوال ابھر کر سامنے آیا ہے لیکن ان قومیتوں کے اتحاد کا تاریخی حوالہ بھی یہی معاہدہ ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *