Main Menu

شہيدِ کشمير مقبول احمد بٹ کا 37 واں يومِ شہادت دُنيا بھر ميں جوش و خروش سے آج منايا جا رہا ہے

Spread the love

مقبول احمد بٹ شہيد رياست جموں کشمير کی قومی آزادی و خودمختاری کے لئے جدوجہد کی علامت بن چُکے

پونچھ ٹائمز رپورٹ

شہيدِ کشمير مقبول احمد بٹ کا 37 واں يومِ شہادت دُنيا بھر ميں جوش و خروش سے آج منايا جا رہا ہے۔ مقبول احمد بٹ شہيد نے اپنی زندگی نچھاور کر دی مگر نظريات پہ سودے بازی نہ کی اور تختہ دار کو چومتے ہوۓ خود کو رياست جموں کشمير کی وحدت، آزادی، خودمختاری کے ليے اور غلامی، ستحصال و دولت پسندی کے خلاف جدوجہد کی علامت بنا ديا۔

مقبول احمد بٹ کون تھا؟

مقبول بٹ شہید 1938 کو کشمیر کے ایک گاوں ہندواڑہ میں پیدا ہوئے اور جدید غلامی کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا آپ ایک کسان غلام احمد بٹ کے گھر پیدا ہوئے 1954 میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے بارہمولہ کے سینٹ جوزف کالج میں داخلہ لیا تعلیم کیساتھ ساتھ آپ ملکی سیاست کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کرتے رہے سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہونے پر آپ کے وارنٹ گرفتاری ہوئے اور ساتھ بی اے امتحان بھی تھے چھپ چھپا کر امتحان دیے اور اس میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے
اپنے چچا عبدالعزیز بٹ کیساتھ آزاد کشمیر آئے آپ کے چچا محنت مزدوری کیلیے آیا کرتے تھے۔ 1947 سے پہلے آزاد کشمیر آنا کوئی بڑی بات نہیں تھی سیز فائر لائن پر سختی نہیں تھی کچھ دن مظفر آباد اور ایبٹ آباد گزارنے کے بعد لاہور چلے گئے اپنی تعلیمی معاملات کو ساتھ رکھا اور ایم اے کی ڈگری 1960 میں پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی 1961 میں کے ایچ خورشید کی صدارت کے دوران آزاد کشمیر میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہوۓ اور مقبول بٹ صاحب جیت گئے 1963 میں کشمیر کی تقسیم کی تجویز پاکستان اور بھارت کی طرف سے آئی جس پر آپ نے بڑے غصہ کا مظاہرہ کیا اور اس سازش کے خلاف کشمیر انڈیپنڈنس کمیٹی قائم کی بعد میں جناب مقبول بٹ صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حق خودارادیت کے حصول کیلئے منظم مطالبہ اور جدوجہد کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

سياسی سفر

مقبول احمد بٹ کو محاذ رائے شماری کے نام سے بننے والی تنظیم کا پبلسٹی سیکرٹری منتحب کیا گیا۔ سوشلزم کے نام پر بننے والی یہ پارٹی ابتدائی چند سالوں میں ہی بہت زیادہ مقبول ہو گئی۔

مقبول بٹ نے اپنے ايک عدالتی بيان ميں کہا تھا کہ میں رياست جموں شمیر میں ظلم، جبر، جہالت فرسودگی، دولت پسندی، غلامی اور منافقت کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں۔
ایک تقریر میں مقبول بٹ کا کہنا تھا کہ آزادی سے ہمارا مطلب کشمیر کی مقدس دھرتی سے غیر ملکی تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بھوک، پیاس، افلاس، جہالت اور سماجی و معاشی ناہمواری کو شکست دینا بھی ہے۔

آزاد کشمیر کی نام نہاد حکومت کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ وہ وظيفہ خور ہيں اور جو لوگ اپنی کوشش اور محنت سے دو وقت کا کھانا نہیں کما سکتے وہ کسی قوم کی منزل کیا خاک دلوائیں گے ۔
مقبول بٹ 1969 میں محاذ رائے شماری کے صدر منتخب ہوئے اور جماعت کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم جس سے حق خودارادیت کا حق چھین لیا گیا ہے ھمارا مقصد ہے پاکستان اور بھارت نے جو وعدے کیے تھے وہ اقوام متحدہ کو ساتھ رکھ کر کشمیریوں کی امنگوں کے عین مطابق پورے کیے جائیں ۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارا جو بنیادی فلسفہ ہے جو بنیادی موقف ہے کہ کوئی اگر ہمیں آزادی کی جنگ لڑنے دے یا نہ دے ہم اپنی حق خودارادیت کی جنگ خود لڑیں گے ۔

گنگا طيارہ اغواہ

اکتيس جنوری 1971 میں ہندوستان کا گنگا نامی مسافر بردار جہاز اغوا کیا گیا اور اس کے عوض حق خودارادیت اور اپنے ساتھی جو انڈین جیلوں میں تھے ان کی رہائی کیلیے کہاگیا ۔ جہاز کو لاہور اتارا گیا پر کوئی بھی بات پر عمل درآمد کروا نہ سکے اور پاکستان کی سیاسی صورت حال خراب ہونے پر مارشل لاء تھا پھر بھٹو صاحب نے حریت پسندون سے ملاقات کر کے ہر ممکن تعاون کا یقین دلا کر مسافروں کو آزاد کر دیا اور جہاز کو حریت پسندوں سمیت آگ لگا دی اور ہاشم اور اشرف زخمی حالت میں اپنی جان بچا کر باہر نکلے ۔ منصوبہ ناکام ہوا مگر دنیا نے کشمیریوں کی طرف نظریں جمائیں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کرنے پر زور دیا اور مقبول بٹ کو مقامی و عالمی سطح پر حق خودارادیت کے جنگجو راہنما کے طور پر ديکھا گيا۔

پاک و بھارت کا ايجنٹ ہونے کا الزام

بھارتی طیارہ کے اغوا پر بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا اور اس کے جواب میں پاکستان نے تمام حريت راہنماؤں کو بھارتی ایجنٹ ثابت کرنے کیلیے طرح طرح کی اذيتيں ديں۔ تحقیقات پر پتا چلا کہ وہ حریت پسند ہی تھے۔ طيارے کے ايک اغواہ کار ہاشم قريشی کا کہنا تھا کہ پاکستانی مقبوضہ کشمير کے سردار قیوم خان نے حریت پسندوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اعلان کریں کہ جہاز المجاہد تنظیم نے اغوا کیا ہے تو ہماری يعنی پاکستانی مقبوضہ کشمير کی حکومت ان سے تعاون کرے گی مگر حریت پسندوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ۔

مئی 1976 کو مقبول بٹ اپنے دو ساتھیوں کیساتھ بھارتی مقبوضہ کشمیر روانہ ہوئے اور وہاں تحریک کو اجاگر کرنے کے لیے نوجوانوں سے ملے مگر خفیہ ایجنسیوں کو ان کی آمد کا پتا چل گیا اور دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ واضع رہے کہ مقبول بٹ پہلے ہی ايک پوليس اہلکار کی موت کے الزام ميں سزائے موت کے قیدی تھے اور جیل توڑ کر بھاگے ہوۓ تھے۔ 29 مئی 1977 کو برطانيہ ميں محاذ رائے شماری کا نام تبدیل کر کے لبریشن فرنٹ رکھا گیا امان اللہ خان کو تنظیم کا جنرل سیکرٹری منتحب کیا گیا۔ جس کے مقاصد مندرجہ ذيل تھے

۔جموں کشمیر یا اس کا کوئی بھی حصہ آئینی اور قانونی طور پر بھارت یا پاکستان کا حصہ نہیں۔
۔جموں کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی تنازعہ نہیں بلکہ اس کے باشندوں کا مسئلہ ہے۔
۔ آزادی کے لیے سیاسی سفارتی اور مسلح جدوجہد ضروری ہے۔
۔ جموں کشمیر کے مسئلے کا بہترین حل خودمختار مملکت ہے۔
جموں کشمیر قوم کو متحد کر کے ہی آزادی لی جا سکتی ہے۔
۔ دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت حاصل کرنا اور ان کی حمایت کرنا ۔
بعد ازاں اس تنظيم نے برطانيہ ميں بھارتی سفارتکار مہاترے کو اغواہ کيا اور مقبول بٹ کی رہائ کا مطالبہ کيا مگر بعد ميں مہاترے کو قتل کر ديا گيا۔

مقبول بٹ 1984 تک بھارتی جیل میں رہے اور 11 فروری 1984 کو مقبول بٹ کو آزادی کی جنگ لڑنے پر صبح ساڑھے چار بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ مقبول بٹ صاحب نے سوچیت گڑھ کی مٹی کو ہاتھ میں لے کر جو وعدہ کیا وہ پورا کر دیکھایا اور وطن پر قربان ہو گۓ۔
آج کا دن رياست جموں کشمير کے دُنيا بھر ميں موجود شہريوں کے لئے رياست جموں کشمير کی قومی آزادی خودمختاری و استحصال سے پاک معاشرے کے قيام کے لئے جدوجہد کی تجديدِ عہد کے دن کے طور پر منايا جاتا ہے۔

مقبول بٹ کے نظريات پر اسليے کوئ شک نہيں کيا جا سکتا چونکہ مقبول بٹ کا آخری لمحے تک کا عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اُنکا مقصد رياست جموں کشمير کو غير ملکی غلامی سے مکمل نجات دلانا تھا۔ ہاں يہ ضرور ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے اپنا گئ حکمتِ عملی سے اختلاف يقيناً کيا جا سکتا ہے۔

پانچ اگست 2019 کے اپنے زير قبضہ رياستی علاقوں کو بھارت ميں شامل کرنے کے بھارتی حکومتی فيصلے اور اسکے بعد پاکستانی حکمرانوں کے معاملات و منشاء کو بھانپتے ہوۓ رياست جموں کشمير کے اکثريتی عوام اس حقيقت کو بھانپ چُکے ہيں کہ رياست جموں کشمير کی تقسيم و غلامی بارے دونوں ممالک کے نظريات ايک ہی طرح کے ہيں اس بارے ميں دونوں ممالک ايک دوسرے سے مکمل مفاہمت رکھتے ہوۓ رياستی عوام کو محض لولی پاپ دے رہے ہيں۔ اس حقيقت کو بھانپتے ہوۓ رياستی عوام اور خاص کر نوجوان مقبول بٹ کے نظريات کی طرف خاصی دلچسپی ليتے ہوۓ پاکستان و ہندوستان سے الحاق کی باتوں کو جُرم قرار دے رہے ہيں اور مقبول بٹ کے راستے پر دن بدن قافلوں ميں اضافہ ديکھنے ميں آ رہا ہے۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *