Main Menu

مقبول بٹ زندہ ہے! شاعرہ: رابعہ رفيق

Spread the love

اے کسان کے بیٹے
زعفرانی کھیتوں کے چہتے
صبحِ آزادی کی تلاش میں
تاعمر چلنے والے

سامراجی زنجیروں کو
گہری ضرب لگائی تم نے
انقلاب کے نعروں سے
دیوارِ زنداں ہلائی تم نے

آزادیوں کے سفر پہ
تم جھرنوں کی مانند رواں رہے
دور بلندیوں پہ اڑتے پنچھی
تیرے ہم نوا رہے

یخ موسموں کے جزیروں پہ
تم جنگل جنگل چلتے رہے
آزادیوں کے خواب
تیری آنکھوں میں چمکتے رہے

ظلمت کے دیوتاؤں نے
حکم صادر کیا تھا پھر

کہ برفیلی چوٹیوں کا چہتا
یہ جنتِ ارضی کا بیٹا
سحر کے خواب دیکھنے لگا ہے
پھانسی پہ لٹکا دو
اسے سولی پہ چڑھا دو

یہ حاکمِ وقت کو للکارنے لگا ہے اسے مٹا دو!

وقت کے خداؤں کے آگے
سر کبھی نہ جھکایا تم نے
نئی سحر کی خاطر
تختہِ دار کو گلے لگایا تم نے

اپنی مٹی سے اپنے جھرنوں سے
اپنی جھیلوں اور پہاڑوں سے
بلا کا عشق تھا تمہیں
اُنہیں کہ آغوش میں سونا تھا تمہیں

پر روشنیوں کے قاتل
ڈر گے تھے اس قدر تم سے
کہ زنداں کو ہی تیرا مدفن بنا ڈالا
جنتِ ارضی کو ویراں کر ڈالا

ان جفاؤں سے ان سزاؤں سے
تیری ماؤں کے چہرے
سرسوں کے پھولوں کی مانند زرد پڑ گے تھے

تیرے دیس کے بچوں کی آنکھوں سے
خوف مٹ گیا تھا
ان معصوم سی آنکھوں میں
پھر خوں اتر آیا تھا

تیری وادیوں کی نیلی جھیلوں میں
تیرنے لگی تھی لہو کی سرخی
تیری زبان سے نکلا وہ آخری جملہ

میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا!

ہاں اب یہ جملہ ہر زبان پر ہے
کلیاں یہ سن کر جی اٹھتی ہیں
پنچھی اب یہی گاتے ہیں

میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا

دِست قاتل سے کوئی پوچھے
کتنے سر کاٹو گے تم
کتنوں کو پھانسی پہ لٹکاؤ گے
اس دھرتی کی فضاؤں میں
ہر انساں کی اداؤں میں
مقبول بٹ زندہ ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *