Main Menu

نو فروری 1984 طلبا یونین پر پابندی کا المیہ؛ تحرير: سردار کامران الٰہی

Spread the love

یہ ضیاء کا تاریک دور تھا ایّوبی آمریت کی طرح ان کو بھی خیبر سے لیکر کراچی تک طلباء اور مزدور تنظیموں کی طرف سے شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا تھا ۔ایک طرف مزدور دشمن قوانین لاگو کرکے ان سے بھٹو دور میں مراعات لینے کا عمل شروع ہوا اور دوسری طرف ریاستی جبر کے زریعے انکی تحریک کو کچلنے کا آغاز کیا گیا ۔انکو نہ صرف روزگار سے محروم کر دیا گیا بلکہ جیلوں میں بھی ڈال دیا گیا ۔یہاں تک کہ ملتان میں مزدوروں کے احتجاج پر گولیاں چلوا کر کئ مزدوروں کو شہید کیا گیا ۔
اِسی طرح طلباء تحریک کو بھی وحشیانہ طریقے سے کچلنے کی کوششیں کی گیئں ۔
1980 میں طالب علم رہنما نذیر عباسی کو شہید کیا گیا، سینکڑوں طالب علم رہنماوُں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا. اْس زمانے میں طلباء تحریک دو واضح دھڑوں میں تقسیم تھی’ ایک طرف ضیاء کے حمایتی اسلامی جمیعت طلباء اور ایجنسیوں کی نسلی بنیادوں پر بنایء گئ تنظیمیں تھیں اور دوسری طرف ترقی پسند جمہوری طلباء تنظیمیں جو جمہوری تحریک ایم آر ڈی کا ہر اول دستہ تھا، جس نے ضیاء فسطایء رجیم کو بڑا پریشان کیا ہوا تھا ‘ضیاء الحق کے لیےء کسی قسم کی مخالفت ناقابل برداشت تھی اس لیےء ایک گرینڈ سازش کے تحت طلباء یونین پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کی گیء. جس میں افغان جنگ میں ان کے اتحادی جماعت اور اس کی ذیلی تنظیم اسلامی جمیعت طلباء کو اہل کار بنایا گیا ‘ان کو تعلیمی اداروں میں خوف پھیلانے ‘ تشدد اور قتل و غارت کی کھلی لائنسس دے دی گیء۔مجھے اب بھی یاد ہے 9فروری 1984 کی صبح خیبر میڈیکل کالج پشاور میں اسلام جمیعت طلباء کے تھنڈر سکواڈ کے غنڈوں اور غازیوں نے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن عطاء اللہ جس کا تعلق دیر سے تھا کو سر عام مشال خان کی طرح گولیوں سے چھلنی کر کے شھید کر دیا ۔
اس واقعے کی آڑ لیکر FC کو یونیورسٹی میں داخل کیا گیا ہمارے کمروں پر چھاپے ڈال کر نہ صرف ہمیں کمروں سے بے دخل کیا گیا بلکہ ہمارے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیےء گیےء ۔خوف و ہراس کی انتھا کر کے غیر معینہ مدت کے لیےء تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا ۔
شام کو ریاستی نشریاتی اداروں سے تمام طلباء سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان کیا گیا
۔۔یہ 9فروری 1984 کا وہ تاریک دن تھا جس کا خمیازہ آج تک ہماری سیاست ‘نوجوان اور عوام بھگت رہی ہے سیاست کی نرسری کو اجاڑ کر ملک میں رجعت اور کرپشن کی گٹھ جوڑ کی نیء رِیت ڈالی گیء جس کی حالیہ مثال ولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال قتل کیس کا واقعہ ہے ۔
ایک طرف یونین سازی پر پابندی سے طلباء کو حق نمائندگی سے محروم کرکے یونیورسٹی افسر شاہی کی رحم وکرم کا بھکاری بنا دیا گیا شروع دن سے انڈر ٹيکنگ لیکر ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لینگے اس لیےء آئے روز فیسوں میں اضافہ اور دوسرے کیء طرح کی محرومیاں اور مجبوریاں ان کا مقدر بنا دی گیء ہیں اور دوسری طرف طلباء یونین پر پابندی کا نقصان صرف طلباء مسائل اور مشکلات تک محدود نہیں رہیں بلکہ اس کے منفی اثرات ملکی سیاست پر بھی پڑے ہیں ۔
سیاسی پارٹیاں سیاسی کیڈر سے محروم ہو گئیں پارٹی ڈھانچے فارغ طلبا کیڈر سے پْر کیےء جاتے رہے بد قسمتی سے نرسری سے فارغ کیڈرز کے نہ آنے کی وجہ سے پراپرٹی ڈیلرز ۔ٹھیکداروں اور طرح طرح کے مافیاز نے سیاست اور پارٹیوں میں پنجے گاڑ دیےء ہیں جو مخصوص مفادات کے لیےء پارٹی پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہیں،
اگرچہ پچھلے عرصے یونین پر پابندی کے خاتمے کے اعلانات ہوےء سینٹ میں بھی آواز اٹھی لیکن سیاسی عزم نہ ہونے اور سیاست کی کمزوری کی وجہ سے ریاست نام نہاد سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر 34 سال بعد بھی حالت وہیں کی وہیں ہیں ۔
آج کا سب سے بڑا سوا ل یہ ہے کہ آج ہماری سیاست کہاں کھڑی ہے ؟
میری رائے میں آج کی سیاست کہیں بھی نہیں کھڑی ہے اور اگر کھڑی ہے تو لوفروں لفنگوں اور آڑھتیوں کے درمیان کھڑی ہے ۔جس نے عوام کو صرف لوٹنا ہے ۔
آج اگر سیاست کا یہی حال ہے تو اس کے وجوہات 9 فروری 1984 طلباء یونین پر پابندی اور 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ڈھونڈنے پڑینگے ۔آج کے باشعور طلباء اور طلباء تنظیموں کے سامنے اگر کویء اہم فریضہ بنتا ہے تو پہلی فرصت میں وسیع بنیادوں پر صف بندی اور جتھہ بندی کرکے آنے والی وقتوں میں ایک ہی نقطہ پر نہ صرف ابھی سے تحریک کا آغاز کریں بلکہ سیاسی پارٹیوں سے واضح طور پر کہہ دیں کہ ہم تب ان کا حصہ بنینگے جب تمام پارٹیاں یونین کی بحالی واضح طور پر اپنے منشور کا حصہ بنائیں ۔

آئیں یہیں سے کل کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *