Main Menu

امجد شاہسوار کی موت کے ذمہ دار حرام خور؛ تحریر:اسدنواز

Spread the love

گزشتہ کئی سالوں سے ملائیشیا میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والے امجد شاہسوار کی موت بظاہر طبعی موت ہے لیکن درپردہ یہ ایک قتل ہے اور اس قتل کے ذمہ دار حرام خوروں کے اس اڈے نام۔نہاد آزاد کشمیر کا حرام خور اقتدار پرست طبقہ ہے۔پانچ سو ارب روپے کے وسائل کی لوٹ مار کروا کر ایک سو پچیس ارب بطور رشوت لینے والا یہ ٹولہ جو قبیلوں کے نام پر مسلط کیا جاتا ہے اسکو نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کوئی سوال کرنے والا۔انکے ساتھ ساتھ یہ اقبال جرم کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ یہاں کی آزادی پسند ۔قوم پرست اور ترقی پسند قیادت بھی بری الذمہ نہیں اور تاریخ انکو بھی اس کوتاہی پر شریک جرم لکھے گی۔اسلیے کہ جنہوں نے سنتالیس میں حرام خوری کا یہ اڈہ قائم کیا تھا وہ اس سے قبل مہاراجوں سے مل کر مفادات حاصل کرتے تھے،سنتالیس میں انہوں نے جو غداری کی اس کا بھی معاوضہ لیا،اور سنتالیس سے لیکر آج تک انکی نسلیں مفادات سمیٹ رہی ہیں فتح محمد کریلوی ،قیوم خان،ابراہیم خان،نورحسین،حیدر خان کی اولادیں کل بھی لاہور کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتی تھیں اور آج بھی امریکہ برطانیہ اور یورپ میں حاصل کرتی ہیں ،ان میں اکثریت کی تین جگہوں پر عالی شان رہائشیں ہیں ۔ایک ادہر جہاں انہوں نے حکمرانی کرنی ہے ایک پاکستان جہاں سے حکمرانی لینی ہے اور ایک مغرب میں جہاں اپنی آنے والی کئی نسلوں کا مستقبل محفوظ کیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے حرام خوری کے اس اڈے کو قائم کرنے سے لیکر تمام آسائشیں، سہولتیں اور جائیدادیں بنانے میں ” قبیلے ” کا کارڈ استمعال کیا۔ہر قبیلے کے چند سو حرام خوروں کے ذریعے عام آدمی ،نوجوانوں اور محنت کشوں کو استمعال کیا گیا۔قبیلوں کے نام اور افرادی قوت کی گنتی کر کے نوے فیصد انسانوں کی قیمت وصول کی گئی اور کی جا رہی ہے۔قبیلوں کا نام استمعال کر کے آقاوں سے اپنی نسلوں کیلیے بھی سودے بازی کر لی گئی،جن کے سروں کی قیمت لگائی گئی ان کی حالت کیڑوں مکوڑوں جیسی تھی ،ہے اور نہ جانے کب تک رہے گی۔
#آزادی_پسند،#قوم_پرست اور #ترقی_پسند پارٹیوں کی قیادت اس لیے شریک جرم ہے کہ کسی بھی جگہ سے اپنے اپنے قبیلے کے حرام خور ٹاوٹ کا احتساب نہیں کیا،اسکے چنگل سے عام آدمی کو آزاد کروانے ، حقیقی #طبقاتی_تضاد کو اجاگر کرنے اور عام نوجوان کو یہ برادری و قبیلے کا گورکھ دھندہ سمجھانے کے بجائے ہندوستان سے کشمیر آزاد کروانے ،چلو چلو سرینگر چلو۔سٹالن ٹراٹسکی کے سو سالہ پرانے قصے کہانیاں اور انقلاب کی اقسام بتانے ،تصوراتی نعروں اور بحثوں میں الجھائے رکھا اور ابھی تک یہی سلسلہ جاری ہے۔
امجد کے حوالے سے بات کی جائے تو بیرون ممالک آزادی کی دکانیں چلانے والے ،کارکنوں کے سروں کی قیمت وصول کرنے والے ،سیاسی پناہ کا دھندہ کرنے والے(عام سیاسی پناہ گزین کی بات نہیں ہو رہی)،این جی اوز سے کروڑوں ڈالر امداد لینے والے،لگژری ہالوں کے اندر انقلاب کے لیکچر دینے اور فلسفیانہ بھاشن دینے والے پنڈتوں سے بھی #سوال بنتا ہے کہ کس کس نے امجد کے حالات کی خبر لی ؟؟؟ کس نے اس کے گھر کے حالات معلوم کیے؟؟کون ہے جس نے اس جلاوطنی میں اسکی کوئی مدد کی؟؟؟اگر کوئی ہے تو سامنے آئے اور بتائے کہ میں مجھ سے یہ ہو سکتا تھا اور میں نے یہ کیا۔( سواِئے ان چند محنت کش پردیسیوں کے)۔
امجد کی موت بلا شبہ ایک قتل ہے اور اس قتل کی ذمہ دار یہ حرام خوری کے اڈے کی انتظامیہ اور اسکے کل پرزے ہیں ۔جو پانچ سو ارب کے وسائل کی لوٹ مار کروا کر سوا سو ارب روپیہ سالانہ بطور رشوت لیتے ہیں ۔چالیس لاکھ کی آبادی میں سے سولہ لاکھ بیرون ممالک اور بقیہ صرف چوبیس لاکھ کو اربوں کے وسائل ہونے کے باوجود جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والا یہی حرام خوروں کا ٹولہ ہے۔نام نہاد آزاد کشمیر کے اندر موجود تمام سیاسی آزادی پسند سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں کی پہلی اور بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو اپنے بنیادی حقوق لینے کیلیے تیار کریں۔ایک دفع مطالبہ کیا جائے ،انکو وقت دیا جائے اور اسکے بعد انکے خلاف عملی قدم اٹھایا جائے ۔اس نظام کے کل پرزوں کیلیے یہ زمین تنگ کر دی جائے ،انکو پکڑا جائے ،انکا احتساب کیا جائے اور ان سے تہتر سالوں کا حساب لیا جائے ۔بہت ہو گیا بس ایک طرف رکھو سارے فلسفے،سارے نعرے ،سارے قصے بنیادی انسانی حقوق ہر نوجوان کو روزگار کی ضمانت
تعلم۔اور علاج کی فراہمی یہی بنیادی آزادی ہے اور یہی انقلاب ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *