Main Menu

فرسودہ قوم پرستی و قلاش معیشت پسندی ؛تحریر : حافظ طیب ریاض

Spread the love

پانچ اگست 2019 جب ہندوستان نے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت اور قانون باشندہ ء ریاست کے خاتمے کا اعلان کیا تو اس کے نتیجے میں ریاست کے تمام منقسم حصوں میں ایک صف ماتم بچھ گئی لداخ سے لیکر پونچھ تک عوام نے اس فیصلے کو نہ صرف ماننے سے انکار کر دیا بلکہ اس فیصلے کے خلاف سیاسی جد وجہد کا فیصلہ کیا ۔پاکستانی زیر انتظام ازاد کشمیر میں پرجوش نوجوان بھی 10 اگست کو پہرا دے کر کھڑے ہوئے اور قیادت کو مجبور کیا کہ وہ ان سنگین حالات میں مشترکہ جد وجہد کی حکمت عملی وضع کریں اس عوامی دباو کے نتیجے میں پی این اے کی تشکیل ہوئی جس نے مقاصد ذیل کو اپنی جد وجہد کی بنیاد بنایا ۔

نمبر۱: ازاد کشمیر و گلگت بلتستان کی مشترکہ آئین ساز اسمبلی کا قیام
نمبر ۲: ریاست کے اس منقسم حصے ازاد کشمیر گلگت بلتستان کے تمام معاشی وسائل پر حق ملکیت کا قیام ۔

ان مقاصد کی بنیاد پر پی این اے نے اپنی جدوجہد استوار کی اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد تاریخ کے میدان میں اتری تاکہ اپنی محرومیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ایک عظیم الشان مستقبل کی تعمیر کر سکے ۔ ابتداء پی این اے ایک خالص عوامی تحریک کے طور پر ابھرا جس میں شناختوں کا بحران تھا اور نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ رنگ ۔
لیکن اسی ابتدائی عرصے میں پی این اے کی مرکزی کو آرڈینیشن کی پالیسی کو بائی پاس کرتے ہوئے مختلف قوم پرست پارٹیوں نے اپنی انفرادی کالز دینے کا فیصلہ کیا پہلے پہل تیتری نوٹ اور چکوٹھی کی کال پر عوام کا جم غفیر نکلا ‘ ریاستی جبر کا مقابلہ کیا اور بلاآخر کسی دوسرے مرحلے کا اعلان کرتے ہوئے لوٹ ایا ۔

پھر پی این اے کی 22 اکتوبر کی کال پر بڑی تعداد میں لوگ اپنے حق کے لئیے نکلے۔ ریاستی جبر ‘ تشدد ‘ تھانہ جیل کا سامنا کیا اور واپس گھروں کو لوٹ آئے۔۔۔ مشترکہ جد وجہد پر یقین رکھنے والے اور دنیاء بھر کے محکوم لوگوں کے اشتراک عمل کے قائل عظیم قوم پرست قائدین پہلے دن سےہی مشترکہ جد وجہد کے عملی تقاضوں سے بے بہرہ و نابلد نظر آئے ۔رہی سہی کسر تب پوری ہوئی جب پی این اے کی مرکزی قیادت اس انفرادیت پسندی کا شکار ہوئی اور مشترکہ جد وجہد کے تابوت میں اخری کیل ٹھونکتے ہوئے جبری ناطے توڑنے کی غرض سے سیمنٹ سریا سے بنے ” زمینی راستے “بلاک کرنے نکل کھڑی ہوئی۔

پی این اے کی مرکزی قیادت نے کسی قائدانہ حکمت کا ثبوت دینے کی بجائے استعفے دینے ‘ اپنی انفرادی کالز دینے ‘ خاموش رہنے اور فیس بک پر اپنے نام کے ساتھ موٹے حروف میں چئیرمین پی این اے لکھنے پر ہی اکتفاء کیا ۔

پی این اے کا عام کارکن جس نے اپنی طاقت اور دباو سے پی این اے بنوایا ‘ نہ صرف بنوایا بلکہ پوری طاقت سے اسکو تعمیر کرنے کے لئیے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ۔ جس نے جد وجہد کے اس عمل میں خود کو اعلی مقاصد کے لئیے وقف کئیے رکھا ۔وہ بھلا قیادت کے اس بانجھ پن سے کب مایوس ہونے والا تھا ۔اگرچہ محض ایک آدھ عہدے کے علاوہ اب پی این اے میدان میں عملا کہیں موجود نہیں ہے ۔کیونکہ وہ ایک خود کار نفی کے عمل سے گزر کر پہلے سے زیادہ جاندار عوامی مزاحمت کی بنیاد رکھ چکا ہے ۔اب ماضی کے کتبوں کے ساتھ لپٹنا یا تو عقیدت مندی ہو سکتی ہے یا پھر مفاد پرستی ۔ اور مزاحمت کار عوام اور انکا ہراول دستہ مزاحمتی سیاسی کارکن نہ ہی عقیدت مند ہیں اور نہ ہی مفادپرست اس لئیے ماضی کے مزاروں پر لگے کتبے انکے لئیے بے معنی ہو چکے ہیں۔
پی این اے کی مرکزی قیادت ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کو لیکر ریاست کے اندر ہی رابطے استوار نہ کر سکی چہ جائیکہ وہ دیگر مظلوم قومیتوں و محنت کش طبقات سے اپنے رابطے استوار کرتی ۔۔ سیاسی جد وجہد کو جدوجہد کی وسیع سماجی شکلوں سے مربوط نہ کر سکنے کے باعث پی این اے اپنی عوامی حیثیت کھو بیٹھا اور محض چند افراد کے رحم و کرم پر پنڈولم کی طرح جھومتا رہا۔

پورے عرصے میں بحث کا موضوع محض افراد رہے پی این اے کی ہر خوبی حامی کا جائزہ محض افراد کے کردار تک محدود رکھ کر کیا جاتا رہا اور فرد کے کردار کے تعین کا بھی کوئی انقلابی معیار قائم نہیں کیا جا سکا ۔غرضیکہ قبائلی باقیات اور مڈل کلاس قیادت کی اپروچ سے جنم لینے والے فرسودہ طرز سیاست ‘ عدم مستقل مزاجی ‘ سائنسی انداز فکر کی عدم موجودگی ‘ جتھ بندی کی نفسیات اور مشترکہ جدوجہد کے عملی تقاضوں کے مطابق فیصلوں اور اقدامات نہ لینے کی روش کی بھینٹ پی این اے چڑھ گیا جس کی تاریخی بنیادیں قوم پرست پارٹیز میں تربیت کے فقدان ‘ اداروں پر افراد کی بالادستی کے ساتھ براہ راست وابستہ ہیں ۔ یوں اپنے بلکل ابتدائی عرصے میں ابھرنے والا ایک عوامی محاذ جس کا مقصد ایک زیادہ بڑے ‘ جامع اور وسیع پیٹریاٹک فرنٹ کی تشکیل تھا سکڑ کر ایک چھوٹا سا جتھا بنتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے یکا یک یوں غائب ہوا جیسے گنجے کے سر سے بال ۔جس کی مثال اگر عالمی تاریخ سے ڈھونڈی جائے تو عالمی تاریخ میں اسی منقسم ریاست کے ماضی کے کسی الائنس سے مل سکتی ہے ۔

مگر پی این اے کسی ڈرائنگ روم میں کسی دانشورانہ بحث کا حاصل نہیں تھا بلکہ یہ ہزاروں عام سیاسی کارکنوں کا دباو کے نتیجے میں معرض وجود میں ایا تھا جو نہ صرف کل مشترکہ جدوجہد پر یقین رکھتے تھے بلکہ موجودہ حالات میں ہونے والی تیز ترین تبدیلیوں سے انھوں نے اپنے یقین کو مزید استحکام بخشاء ہے۔ قیادت کے فرسودہ رویوں سے مایوس ہو کر پی این اے کے عام سپاہی نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے عوام کی ذیلی پرتوں کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پی این اے کے دستور میں درج عوامی انقلابی کمیٹیز منصہ ء شہود پر آئیں۔ بد قسمتی سے پی این اے کی مرکزی قیادت نے کبھی بھی اس طرح کی طویل لڑائی کو نہ اپنے ذہن میں جگہ دی اور عوامی کمیٹیز کے قیام کو نہ ہی اپنی توجہ کا مستحق سمجھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے عوامی کمیٹیز کا جال بچھنا شروع ہو گیا ۔پونچھ’ باغ ‘سدھنوتی اور دیگر اضلاع و ڈویژنز میں عوامی کمیٹیز و متحدہ محاذوں کی تشکیل اور ان میں سر گرم شرکت سے محب وطن عوام دوست سیاسی کارکن جدوجہد کی وسیع سماجی شکلوں سے نہ صرف خود کو جوڑ پائے بلکہ ان کثیر سماجی جدوجہد کی شکلوں کے کردار کو بھی سمجھنا شروع ہوئے ۔ قیادت کی بے عملی سماجی حرکت کو روک نہیں سکتی ۔ازاد کشمیر کے عام کارکنوں نے اپنے عمل کی بے مثال طاقت سے وہ کر دکھایا جو پی این اے کی قیادت بے شمار وسائل کے باوجود اپنی بے عملی کے باعث نہ کر سکی۔دیہاتوں اور چھوٹےقصبوں میں بننے والی عوامی کمیٹیز کا پارہ اسوقت چڑھا جب ازاد کشمیر کی حکومت نے ان پر ایک ہی مہینہ میں پانچ سو روپے مہنگائی کا بم گرایا ۔اسوقت روڈ ‘ سکول ‘ ٹنکی ‘ کالج اور بی ایچ یو کی لڑائی لڑنے والی کمیٹیز ایک بڑے فورم کی تشکیل میں کامیاب ہوئی اور عوامی ایکشن کمیٹیز کی تشکیل کیں ۔جس نے گندم سبسڈی اور اٹے کی پرانی قیمتوں کی بحالی کے مطالبے پر پونچھ بند کی کال دی ۔جس میں عوام کے جوش و خروش نے ریاستی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔یہ تحریک جزوی فتح حاصل کر پائی لیکن تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی ابھی تو تحریک نے انگڑائی لی ہے ۔

آٹے میں اٹکی معیشت پسندی 

جس طرح طبقاتی تفریق عدم سے وجود میں نہیں آتی اسی طرح گندم سبسڈی بحالی اور اٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تحریک بھی عالم بالا سے نازل نہیں ہوئی ۔بنیادی حقوق پر جاری منظم تحریکات جو مقامی سطح پر کمیٹیز اور عوامی اتحادوں کے توسط سے جاری تھیں آٹے کی قیمتوں میں اضافے سے ابھر کر سامنے آئی ہیں۔جن کو سیاسی کارکنوں نے وسیع سطح پر جوڑ کر عوامی ایکشن کمیٹیز تشکیل دیں۔ جو بہت کم عرصے میں ڈویژن سطح کی کمیٹی قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔ لیکن اٹا تحریک اپنی تاریخی تحدید رکھتی ہے ۔صرف پونچھ ڈویژن کی بنیاد پر دیگر ڈویثنز میں اٹا تحریک کو پھیلانے کی خواہش بہت اچھی تو ہو سکتی ہے لیکن عملی مسئلہ یہ ہے کہ اس سال جس علاقے سے سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ہوں جہاں بیسیوں گھر جھلس گئے ہوں ‘ جہاں ہر آواز کے ساتھ لوگ زیر زمین پناہ گاہوں میں جاگتے جاگتے رات گزارنے پر مجبور ہوں۔ وہاں عوام کا بنیادی مسئلہ امن اور ثانوی مسئلہ اٹا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حویلی کے اندر ایسی کسی خودرو تحریک اور ایسے کسی ریڈیکل اقدام کے ثبوت دستیاب نہ ہو سکے ۔اور مظفر آباد اور میرپور ڈویژن کے آفت زدہ علاقوں کا بنیادی مسئلہ اس خونی کھیل سے خلاصی ہے۔۔ لیپا تو آج بھی مہنگائی کا نہیں بلکہ اشیاء خورد ونوش کی عدم دستیابی کا شکار ہے ۔۔ غاصب افواج کی ائے روز گولہ باری نے لوگوں کو اگلے لمحے کےلئیے بھی بے یقینی کا شکار کر دیا ہے چہ جائیکہ وہ انے والے کل کی شام میں پکنے والی روٹی کا فکر کرتے ۔

معیشت پسندی کا تاریخی المیہ یہ ہے کہ اول تو وہ خود رو شعور کی اس حد تک دم چھلا بنتی ہے کہ اہم ترین سیاسی سوالوں کو قابل اعتناء نہیں سمجھتی ۔۔ کسی محکوم قوم کے با اختیار آئین ساز اسمبلی کے بنیادی جمہوری حق کو غیر اہم اور تاریخی اعتبار سے مردود مطالبہ گردانتے ہوئے قومی سوال پر ابہام کا شکار رہتی ہے اور ائین ساز اسمبلی اور قومی وسائل پر حق ملکیت کے مقابلے پر یونین سازی کے سوال لا کھڑا کرتی ہے ۔یونین سازی کا سوال کسی بھی سطح پر کم اہم سوال نہیں ہے بلکہ یونینز آئین ساز اسمبلی و اپنے وسائل پر اپنے حق ملکیت کو قائم کرنے کے لئیے ناگزیر ہیں ۔مگریونین سازی کا سوال جب بھی قومی سوال کے مقابل لا کر کھڑا کیا جاتا ہے تو وہ ٹریڈ یونینسٹ اپروچ کے ساتھ حکمران طبقے کی خدمتگزاری کے سواہ کچھ نہیں ہوتا۔

معیشت پسندی اپنی اسی فکری قلاشی کے باعث نوآبادیاتی سماج میں جد وجہد کی پھیلی وسیع سماجی شکلوں کو سمجھنے میں کلیتا ناکام رہتی ہے ۔وہ گماشتہ حکمران طبقے کے خلاف کہ جو طبقہ تاریخی طور پر بیرونی آقاوں کا دم چھلہ ہوتا ہے کہ خلاف بننے والی تحریک کو قومی تحریک کی نفی قرار دیتے ہوئے قوم پرستی کو فرسودہ قرار دیتی ہے چونکہ معیشت پسندی تاریخی اعتبار سے ٹریڈ یونینی شعور سے بلند نہ ہو سکنے کے باعث ایک ایسی بند گلی میں کھڑی ہے جہاں عوام کی بنیادی حقوق کی تحریک کی کامیابی کا انحصار عالمی انقلاب پر ہوتا ہے ۔اسی لئیے ریاست کی وحدت کی بحالی اور قومی آزادی جیسے اہم سیاسی سوال تحریک کی ابتداء ہی میں نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ تحریک کی پسپاہی کی صورت میں رونماء ہوتا ہے ۔

قومی و طبقاتی جنگ میں ہم آہنگی

ہمارے سماج میں جس شدو مد کے ساتھ اصطلاحات کو استعمال کیا جاتا ہے اسی شدومد کے ساتھ اصطلاحات کی عینیت پسندانہ تعبییرات و تشریحات کی بھر مار ہے۔ اپ اس بنیادی مسئلے کو ہی لیجئیے کہ قومی جنگ کو طبقاتی جنگ کے مد مقابل لا کھڑا کیا جاتا ہے ۔بیشک قومی جنگ و طبقاتی جنگ بلکل زندگی کے الگ الگ دھاروں میں تیرنے والی دو بلکل منفرد اور مختلف چیزیں ہیں ۔مگر صرف ان کے لئیے جو عامی مادیت کا شکار ہیں ۔ وہ جو محکوم قوم کی وسیع عوام کو عالمی محنت کش طبقے سے الگ سمجھتے ہیں۔ وہ جو پسماندہ اور نو آبادیاتی خطوں کی عوامی تحریکات پر یقین سے قاصر ہیں اور جن کے انقلابی مراکز صرف جدید صنعتی مراکز ہیں۔

ریاست جموں کشمیر کے اندر پنپنے والا قومی رجحان دراصل ریاست کے اندر بسنے والی کئی اقوم کے حق ملکیت و حق حاکمیت کا سوال ہے جو تدریجی سفر طے کرتے ہوئے ایک جست میں ازادی کی منزل عبور کرے گا ۔۔ اب اس عام فہم اور سادہ مسئلے کو کتنی ہی پیچیدہ انقلابی لفاظی میں چھپا دیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ آٹا تحریک کسی بھی اعتبار سے قومی تحریک کی نفی ہے۔۔ ہاں اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ روٹی کا سوال نظر انداز کر کے کسی بھی با اختیار اسمبلی کا حصول تا دم مرگ ممکن نہیں ۔ قومی سوال دراصل محکوم قوم کے استحصال کا سوال ہے جو اپنے اندر طبقاتی جوہر رکھتا ہے ۔ لیکن سماج میں جاری بیسیوں تضادات کو نظر انداز کر کے محض ایک طبقاتی تضاد کو ہی حتمی اور مطلق سمجھنا جوہریت پسندوں کا وطیرہ رہا اضداد کے اس عدم مربوط مطالعے سے وہ سیاسی منظرے نامے پر معیشت پسند ی کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔ قومی آزادی کے لئیے وسیع سطح پر عوامی تنظیم سے ہی قومی آزادی کا حصول ممکن بناتے ہوئے مزدور بین الاقوامیت پر اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دی جا سکتی ہے ۔ قومی و طبقاتی جنگ میں ہم آہنگی کا یہی وہ مفہوم ہے جو نہ صرف قومی شاونزم کے حکمران طبقے کے زہر کا تریاق ہے بلکہ معیشت پسندی اور ٹریڈ یونینی اپروچ سے تحریک کے تحفظ کا ضامن ہے۔۔قومی جنگ کو طبقاتی جنگ کے مد مقابل کھڑا کرتے ہوئے جانے انجانے میں ہم حاکم قوم کی قوم پرستی کے مرتکب ہوتے ہیں۔لہذا قوم پرستی کی تمام فرسودہ صورتوں کے خلاف جدوجہد کے دوران حاکم قوم کے حکمران طبقے کی طرف سے دی گئی قوم پرستی کے خلاف جد وجہد کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔
بالخصوص ریاست جموں کشمیر کے تناظر میں حاکم قوم کی قوم پرستی کے خلاف جد وجہد ہر سیاسی کارکن کے لئیے فرض عین کا درجہ رکھتی ہے اور یہی حاکم قوم کے محنت کش طبقے کے ساتھ سب سے بڑی یکجہتی ہے جو اس کے سر کا بوجھ اس جد وجہد میں بانٹتے ہوئے ہلکا کرتی ہے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *