Main Menu

جموں و کشمیر ، تنازعہ کیا ہے؟؟ تحریر: شفقت راجہ

Spread the love

ریاست جموں و کشمیر کے تنازعہ کوسمجھنے کیلئے سب سے اہم اور آسان سوال یہ بنتے ہیں کہ یہ تنازعہ کیوں اور کیسے پیدا ہوا اور دراصل تنازعہ کیا ہے ؟

اس ضمن میں کیوں اور کیسے کا آسان جواب تو یہ ہے کہ برطانوی سلطنت کے تقسیم ہند منصوبہ اور قانون آزادی ہند 1947 کافی مبہم ہیں کہ جو برطانوی ہند کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں مگر آئینی و انتظامی طور پر نیم خودمختار ہندوستانی ریاستوں کے مستقبل کو ریاستی حکمرانوں کی مرضی و منشا کے تابع کر دیتے ہیں اور پھر حکومت ہند کے نمائندگان ان ریاستی حکمرانوں کو اپنی آبادی کی خواہشات اور جغرافیائی حالات کے مطابق نئے بننے والے ممالک یا ڈومنینز بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں اور ریاستوں کی خودمختاری کو بھی خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ اس ابہام کے نتیجے میں مختلف ریاستوں کے مقتدرحکمرانوں کے ارادوں اور فیصلوں کی وجہ سے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں جن میں جونا گڑھ ۔ حیدر آباد اور جموں و کشمیر کی ریاستیں زیادہ اہم ہیں۔ جوناگڑھ کی اکٹریتی آبادی غیرمسلم اور اس کا پاکستان کیساتھ زمینی رابطہ نہ ہونے کے باوجود مسلم حکمران مہابت خانجی نے ستمبر 1947 میں پاکستان کیساتھ الحاق کر دیا تھا کیونکہ قانون آزادی ہند کے مطابق یہ اس کا آئینی اختیار تھا مگر وہاں پیدا ہونے والے سیاسی انتشار کی آڑ میں بھارت نے اس پر قبضہ کر لیا اور جوناگڑھ کا مسلہ پیدا ہو گیا۔ حیدرآباد ریاست کی اکثریتی آبادی بھی غیرمسلم تھی اور اسکی سرحدیں چاروں طرف سے بھارت کیساتھ جڑی ہوئی تھیں مگر حیدرآباد کے مسلم حکمران نواب عثمان علی خان نے خودمختاری کا اعلان دیا جسے پاکستان کی اخلاقی و سیاسی حمایت حاصل تھی اور یوں حیدرآباد کا قضیہ پیدا ہوا۔
اب جموں کشمیر کی طرف آئیں تو اس ریاست کی اکثریتی آبادی تو مسلمان تھی مگر حکمران مہاراجہ ہری سنگھ غیرمسلم تھا جو اپنی ریاست کو خودمختار رکھنا چاہتا تھا جو 15 اگست 1947 کو پاکستان کیساتھ معاہدہ قائمہ (سٹينڈ سٹل) کر چکا تھا جبکہ بھارت نے یہی معاہدہ ابھی زیر التوا رکھا ہوا تھا۔ ریاست کے اکثریتی عوام اور انکی سیاسی قیادت کا جھکاؤ بھارت اور پاکستان کی طرف تھا اور ریاست میں بیرونی سیاسی مداخلت کی وجہ سے سیاسی انتشار یہاں بھی پیدا ہو رہا تھا۔ اکتوبر 1947 میں ریاست پر قبائلی حملہ ہوا اور مغربی سرحدی خطے پونچھ اور ملحقہ علاقوں سے جنگ عظیم کے ریٹائرڈ فوجیوں کے جتھوں نے بھی اپنے اپنے علاقے میں جہاد شروع کر دیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے فوجی امداد کیلئے بھارت سے مدد مانگی جسے بھارت نے الحاق سے مشروط کیا اور آخرکار 26 اکتوبر 1947 کو مجبوراً ریاست کا بھارت سے مشروط الحاق ہوا اور بھارتی افواج ریاست میں داخل ہوئیں جنہوں نے حملہ آوروں کو بارہ مولہ سے دھکیلتے ہوئے اڑی تک پہنچایا اور پھر پہلی پاک بھارت جنگ کا آغاز ہو گیا اور یوں جموں کشمیر تنازعہ پیدا ہوا جسے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ میں پہنچایا گیا۔ جوناگڑھ اور حیدرآباد کے تنازعات تو بھارتی قبضے کے بعد مرحلہ وار ختم ہو گئے مگر جموں و کشمیر کا تنازعہ تاحال حل طلب ہے۔
تقسیم ہند کے وقت چند دیگر ریاستوں سمیت جموں و کشمیرجیسے تنازعات کیوں اور لیسے پیدا ہوئے یا پیدا کیے گئے، اس کا پس منظر تو معلوم ہو گیا تاہم سب سے ہم سوال یہ ہے کہ تنازعہ جموں کشمیر کیا ہے ؟ اس پر بھی مختلف الخیال لوگوں کے خیالات اور خواہشات سے جڑی مختلف تشریحات بھی ہیں جبکہ یہ تنازعہ ازخود بالکل غیرمبہم اور سیدھا سادہ سا ہے۔

ریاست جموں وکشمیر پر قبائلی حملہ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال پر مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارتی گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن کو 26 اکتوبر 1947 کو لکھے خط میں ریاست کی سوویت یونین اور چین کیساتھ سرحدوں کی تزویراتی اہمیت کو واضع کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ ریاست کو خودمختار رکھنے کا خواہاں تھا، پاکستان کیساتھ معاہدہ قائمہ بھی ہو گیا جس کی وجہ سے ڈاک تار کا انتظام حکومت پاکستان نے سنبھالا اور پھر ریاست پر قبائلی حملہ ہو گیا۔ ریاست کی اس پوری مغربی سرحدی پٹی میں قتل عام اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا، عورتوں کو اغوا کیا گیا اور ان کی عزتوں پر ہاتھ ڈالا گیا، مہاراجہ ہری سنگھ نے لکھا کہ وہ ان ہنگامی حالات کی مجبوری میں فوجی امداد کیلئے بھارت سے الحاق کرتا ہے

‏With the conditions obtaining at
‏present in my State and the great emergency of the situation as it exists, I have no option but to ask for help from the Indian Dominion. Naturally they cannot send the help asked for by me without my State acceding to the Dominion of India. I have accordingly decided to do so and I attach the Instrument of Accession for acceptance by your Government.
بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے بھی 26 اکتوبر 1947 کو برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کو بھیجے مراسلے میں لکھا کہ ہمیں ریاست کشمیر کی حکومت کی طرف سے ہنگامی حالات میں مدد کی اپیل آئی۔ اس ریاست کی سرحدیں افغانستان، سوویت یونین اور چین سے ملتی ہیں اور ریاست کی سلامتی کیلئے اس کا اندرونی امن اور مستحکم حکومت ضروری ہے اور یہ بھارت کی سلامتی کیلئے بھی اہم ہے کیونکہ ریاست کی جنوبی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں تو یہ ہمارے قومی مفادات کا معاملہ بھی ہے۔ اسلئے ہم غور کر رہے کہ وہ تعاون فراہم کریں کہ جس سے ریاست کشمیر اپنا تحفظ کر سکے۔ میں یہ واضع کرتا ہوں کہ ہماری یہ امداد ریاست کے بھارت کیساتھ الحاق کیلئے نہیں ہوگی۔ ہم نے بارہا یہی باور کروایا کہ جس علاقے یا ریاست کا تنازعہ ہو گا، اس کے الحاق کا فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق ہو گا اور ہم اس پر قائم ہیں۔

‏We have received urgent appeal for assistance from Kashmir Government…
‏… I should like to make it clear that question of aiding Kashmir in this emergency is not designed in any way to influence the State to accede to India. Our view which we have repeatedly made public is that the question of accession in any disputed territory or State must be decided in accordance with wishes of people and we adhere to this view …..

بھارت کے گورنر جنرل لوئس ماونٹ بیٹن نے بھی 27 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کے خط کے جواب میں لکھا کہ مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے ہماری حکومت نے اس مشروط الحاق کو قبول تو کیا مگر ہماری حکومتی پالیسی ہے کہ جس بھی ریاست کے الحاق کے فیصلے پر اعتراض یا تنازعہ کا احتمال ہو گا اس ریاست کے الحاق کا حتمی فیصلہ ریاستی عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ ہماری خواہش ہے کہ حملہ آوروں کو باہر نکالنے کے بعد جب امن و امان بحال ہو جائیگا تو ریاست کے الحاق کا فیصلہ ریاستی عوام کریں گے

‏My dear Maharaja Sahib,
‏Your Highness’ letter dated 26 October has been delivered to me by Mr. V. P. Menon. In the special circumstances mentioned by your Highness my Government have decided to accept the accession of Kashmir State to the Dominion of India. Consistently with their policy that in the case of any State where the issue of accession has been the subject of dispute, the question if accession should be decided in accordance with the wishes of the people of the State, it is my Government’s wish that as soon as law and order have been restored in Kashmir and her soil cleared of the invader the question of the State’s accession should be settled by a reference to the people.

تقسیم ہند کے وقت بھارت یا پاکستان سے الحاق کی بجائے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے اپنی اس کثیرالمذہبی ریاست کو خودمختار رکھنے کی خواہشات کی تکمیل کے خلاف ان دونوں ممالک کی طرف سے سیاسی مداخلت کیساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے مسلح جتھوں کی ریاست میں مسلح مداخلت سے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات میں باامرمجبوری الحاق بھارت پر رائے شماری کی شرط ہی تنازعہ جموں کشمیر ہے جس میں اس ریاست کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ ریاستی عوام کریں گے۔
متنازعہ ریاست جموں کشمیر و لداخ بشمول گلگت بلتستان کے حتمی مستقبل کا تعین پنڈت نہرو اور لارڈ ماونٹ بیٹن کے اکتوبر 1947 کے مراسلات اور ان پاک بھارت دوطرفہ مزاکرات سے لیکر اقوام متحدہ کی قراردادوں تک رائے شماری کیساتھ مشروط ہے۔ اس رائے شماری کے انعقاد میں سات دہائیوں سے تعطل کیونکر ہوا یہ الگ داستان ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *