Main Menu

خیال گردی ؛ تحریر : محمّد پرویز اعوان

Spread the love

اٹھارہ سو چھیالیس میں مائدہ امرتسر کے تحت تشکیل پانے والی ریاست جموں کشمیر جو ایک شاہی ریاست تھی 1947 میں تقسیم ہو گئی۔آخری ڈوگرا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تقسیم بر صغیر کے اثرات کی زد میں تھا ادھر دو نام نہاد سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس نے بھی اپنی وفا داریاں نیو بننے والے ممالک ہندوستان اور پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیں جس کی وجہ سے عوام میں بھی واضح تقسیم ہو گئی تھی۔ کشمیر ، لداخ اور جموں کے عوام شیخ عبدالله کی سپورٹ میں کھڑے ہو گئے اور گلگت بلتستان میں بھی مہاراجہ کے گورنر گھنسارا سنگھ کے خلاف بغاوت ہو گئی اور اس کو ریاست بدر ہونا پڑھا اور گلگت اور آدھا بلتستان ڈوگرا حکومت سے نکل گیا اور مقامی حکومت بنی جو شائد صرف 17 روز ہی برقرار رہ سکی اور اس کے بعد اس حکومت کے سربراہ کو پاکستان کے غذائی ترسیلات کے محکمہ میں سنا ہے منشی کی نوکری مل گئی تھی جسکی اس نے کہیں پہلے ہی درخواست دے رکھی تھی۔

ادھر 4 اکتوبر 1947 کو راولپنڈی میں کسی ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جیسے بتایا جاتا ہے جموں کشمیر کیلئے کسی انقلابی عبوری حکومت اعلان کیا گیا کسی انور صاحب کو صدر نامزد کیا گیا پتا نہیں وہ کون صاحب تھے اسکے کئ دعویدار رہے جن میں نمایاں نام سردار ابراھیم اور خواجہ غلام نبی گلکار کے آتے ہیں۔

یہ ہوائی حکومت لا پتا ہو گئی تھی پھر 24 اکتوبر کو ایک اور حکومت کا اعلان ہوا جو آج تک چل رہی ہے موجودہ دور میں ڈھائی ضلعوں میں آباد آزادی پسند آجکل 4 اکتوبر کی حکومت اور جھنڈوں کو لیکر باہم دست و گریبان ہیں اور گالی گلوچ توہین آمیز ایک دوسرے کی تذلیل قبیلائ تعصب اور پتا نہیں کون کون سے فضول بحثوں میں پڑ کر عظیم آزادی پسندی و ترقی پسندی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ہماری خیال گردی کچھ یوں ہے کہ تمام آزادی پسند ورکرز کو سنجیدہ ہو کر ایک دوسرے کا احترام کرنا سب سے پہلے سیکھنا ہو گا۔

آزادی اور ریاست جموں کشمیر لداخ گلگت بلتستان کو ایک وحدت ماننے والے کسی لیڈر کسی گروہ پر فتویٰ صادر کرنے کے بجاے اس کی راۓ کا احترام کیا جانا چاہیے۔ داخلی حکمت عملی اور نظریات پر صحت مند اختلاف بے شک رکھا جائے کوئی پرو انڈیا آزادی پسند ہو یا پرو پاکستان یا پرو رياست آزادی پسند سب کو سیاسی دلائل سے اختلاف راۓ کی گنجائش دینی چاہیے نہ کہ نفرت تعصب انتشار پیدا کرنا چاہیے۔

جہاں تک جھنڈوں کا تعلق ہے تو اس پر بھی باہم انتشار کو فروغ دینا قابض قوتوں کو فائدہ دینے کے برابر ہے۔ لیاقت حیات صاحب، ڈاکٹر توقیر گیلانی صاحب، رفیق ڈار صاحب کے ہم خیال ہوں یا سجاد راجہ یا شوکت کشمیری ذولفقار ایڈو کیٹ ، اظہر کاشر ، کامران بیگ ، سردار طلحہ ، وقاص خالق ، سجاد افضل ، صغیر ایڈو کیٹ ، روف کشمیری افضل سلہریا، سب کسی نہ کسی شکل میں ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور وحدت کی بحالی ہی کی بات کرتے ہیں ان کے ساتھ چلنے والوں کو آپس میں نہیں لڑنا چاہیے اس کا فائدہ آزادی کے دشمنوں کو پہنچتا ہے۔ سب اپنے اپنے حساب سے جدو جہد جاری رکھیں، ان میں سے کسی کو بھی قابض قوتوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا تو سب کو مل کر اس کا تحفظ کرنا چاہیے۔

سب کو اپنی طاقت آزادی کے دشمنوں کے خلاف لگانی چاہیے نہ کہ آپس میں لڑتے رہنا چاہیے۔

آزادی کے حقیقی دشمن کون ؟

تمام آزادی پسند رہنماؤں کو چاہیے کہ دہلی اسلام آباد کے خلاف پر جوش تقریریں کرنے کے بجاے نوجوانوں کو سری نگر گلگت مظفرآباد اسمبلیوں میں بیٹھے آزادی کے دشمنوں کے خلاف منظم کریں ان کی جگہ آزادی پسند لیں۔کیوں کہ جب یہ آزادی اور حقوق کی ڈیمانڈ ہی نہیں کرتے یہ خود بھارت اور پاکستان کو اپنا مائی باپ مانتے ہیں تو ان ممالک کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہم کو آزادی دیں، حقوق دیں ۔
ان سے یہ نام نہاد حکمران جو ڈیمانڈ کرتے ہیں ان کو وہ ملتا ہے
آزادی کے دشمن شیخ عبدالله، مفتی سعید، حفیظ الرحمان جو بھی گلگت بلتستان کی اسمبلی میں بیٹھ کر اسلام آباد سے مراعات لیتا ہے اور آزادی کے خلاف کام کرتا ہے اسی طرح سردار قیوم اسکی اولاد چوہدری غلام عباس ، سردار ابراھیم انکی اولاد سکندر حیات ، بیرسٹر سلطان یہی اصلی آزادی کے دشمن ہیں۔

سب ملکر ان سے آزادی حاصل کرنے پر توانائی صرف کرو بھلے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ہی مگر آپس میں الجھے رہنے سے ہر ممکن گریز کرنی ہو گی ورنہ سب ہی بادی النظر میں دشمن کی سہولت کاری کریں گے۔

جھنڈوں ، شخصیات ، قبیلوں کی بحثیں آزادی کے دشمنوں اور وحدت کو پارہ پارہ کرنے والوں کے مفاد کیلئے ایندھن کا کام کر رہی ہیں یہ کوئی مانے یا نہ مانے ۔
آج نہ مہاراجہ ہری سنگھ کسی ایک خطے میں حکمران ہے نہ وہ وحدت موجود ہے اسی طرح کوئی عوامی يا ریاستی جھنڈا بھی نہیں اور سٹیٹ سبجیکٹ بھی نہیں ہے بلکہ ملک ہی پارہ ہو چکا اس کے جو ذمہ دار ہیں ان کا محاسبہ تاریخ پر چھوڑ دیں اور آزادی اور وحدت کے دشمنوں کے خلاف جدو جہد جاری رکھیں ، عوام کے بنیادی حقوق کی لڑائی میں عوام کو ساتھ شامل کریں۔ مگر خدا راہ ایک دوسرے پر فتوے نہ دیں خاص طور پر پاکستان کے زیر تسلط جموں کشمیر والے مظفر آباد پر کنٹرول حاصل کر کے خود کو سٹیک ہولڈر ثابت کریں تا کہ کسی سٹیٹس ، کسی حثیت میں آپ دہلی و اسلام آباد سمیت عالمی فورمز پر اپنا پروگرام رکھ سکیں ورنہ پھر تاریخ کے ہاتھوں عبرت کا نشان بننے کیلئے تیار رہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *