Main Menu

جموں کشمیر کے موجودہ زمینی حقائق ؛ تحرير: شفقت راجہ

Spread the love

متحدہ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا، جموں کشمیر و لداخ، جموں و کشمیر اور کشمیر کے نام سے ایک ریاست ہوا کرتی تھی جو جموں کے حکمران گلاب سنگھ اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سرکار کے درمیان مارچ 1846 میں ہوئے امرتسر معاہدہ کے ذریعے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس ریاست کا کل رقبہ تقریباً 85806 مربع میل تھا جب 1947 میں بھارت و پاکستان کے قیام کیلئے برصغیر ہند کے ٹوٹنے کے عمل کیساتھ یہ ریاست بھی ٹوٹ گئی اور آج محض متنازعہ ٹکڑوں میں وہ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان بٹی ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کے پاس تقریباً 39 ہزار مربع میل ریاستی علاقہ ہے جو بھارت چین جنگ 1962 سے پہلے 53 ہزار مربع میل تھا، پاکستان کے پاس 33 ہزار مربع میل اور چین کے پاس تقریباً 14 ہزار مربع میل کے منقسم ریاستی ٹکڑے ہیں۔
بھارت کے کنٹرول میں ریاستی ٹکڑے کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ، پاکستان کے کنٹرول میں ریاستی حصے کی کل آبادی تقریباً ساٹھ لاکھ ہے جبکہ چینی کنٹرول ریاستی خطہ سیاچن میں آبادی نہ ہونے کے برابر بہرحال تقریباً دس ہزار نفوس کا محض ایک تخمینہ ہے۔
بھارتی کنٹرول والے ریاستی خطے کے جموں ڈویژن کا رقبہ تقریباً سولہ ہزار مربع میل اور کل آبادی 2011 کی مردم شماری میں 5350811 جس میں اکثریتی آبادی ہندو (65%)، منتخب سیاسی نمائندگی بی جے پی اور عوامی خواہشات بھارت نواز ہیں۔ کشمیر ڈویژن کا رقبہ تقریباً دس ہزار مربع میل اور آبادی 6907622 (2011), اکثریتی آبادی مسلمان (97%)، جن کی منتخب اکثریتی سیاسی نمائندگی تو بھارت نواز ریاستی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے پاس ہے مگر وادی کشمیر میں تیس سال سے جاری علیحدگی پسند تحریکوں اور بھارتی ظلم و جبر کی انتہا کے بعد عوامی خواہشات کا درست تخمینہ لگانا تو مشکل ہے البتہ ایک مضبوط پاکستان نواز عنصر بھی موجود ہے۔

لداخ ڈویژن کا رقبہ تقریباً ساڑھے چھتیس ہزار مربع میل، کل آبادی تقریباً تین لاکھ جس میں 46 فیصد مسلمان، 40فیصد بودھ، 12فیصد ہندو شامل ہیں۔ منتخب سیاسی نمائندگی اکثر بھارتی جماعتوں کی اور اکثریتی عوامی خواہشات بھارت نواز ہیں۔
بھارت نے اگست 2019 سے اپنے زیر انتظام خطے کی خصوصی ریاستی حیثیت ختم کر کے جموں کشمیر اور لداخ کے دو الگ مرکز کے زیرانتظام یونین ٹیرٹریز بنا دیے ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام ریاستی خطے نومبر 1947 سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر نامی دو انتظامی اکائیاں میں تقسیم رہے ہیں۔

گلگت بلتستان : چین اور واخان پٹی افغانستان کی سرحدوں سے متصل تزویراتی اہمیت کا حامل یہ شمالی علاقہ 1947-1948 تک ریاست جموں و کشمیر کا باقاعدہ حصہ رہا ہے اور تنازعہ جموں کشمیر کی وجہ سے ابھی بھی متنازعہ ہی ہے۔ اس خطے کا رقبہ اٹھائس ہزار مربع میل اور سو فیصد مسلم آبادی تقریباً اٹھارہ لاکھ ہے۔ اس خطے کی تقریباً ساری آبادی یہی سمجھتی ہے کہ ان پر جموں کے غیرمسلم ڈوگروں نے قبضہ کیا ہوا تھا اور 1947 میں انہوں نے ڈنڈوں اور کلہاڑیوں کیساتھ جنگ کر کے ریاست جموں و کشمیر سے آزادی لے لی تھی اور اس علاقے کو پاکستان کا حصہ بنایا تھا۔ 2009 تک گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا جو انتظامی طور پر وفاقی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان سے منسلک ہے۔ لوگوں کی مجموعی اکثریت خود کو پاکستانی مانتی ہے اور وہ لوگ آئین پاکستان میں صوبائی حیثیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اوائل میں یہ دور دراز اور پسماندہ علاقہ تھا مگر قراقرم ہائی وے یا شاہراہ ریشم کی تعمیر کے بعد یہاں کافی ترقی ہوئی، یہاں کے لوگ تعلیمی میدان میں بھی آگے بڑھے ہیں جو کراچی اور راولپنڈی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پزیر ہیں۔ محدود سا قوم پرست طبقہ جو جموں کشمیر ریاست سے الگ اس خطے کا کوئی اپنا ہی تنازعہ بناتے ہوئے اس خطے کی مکمل آزادی کی خواہش بھی رکھتا ہے تاہم سیاسی نمائندگی پاکستانی سیاسی جماعتیں ہی کرتی ہیں۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ خطے کی پسماندگی اور محرومی کو لیکر ان لوگوں کی اکثریت آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اور لوگوں سے شدید نالاں ہے، اسلئے محض گنتی کے چندلوگ شعوری طور پر اور کچھ مسلکی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر سے کوئی ماضی یا مستقبل کا ناطہ رکھنا چاہتے ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *