Main Menu

ای يو ڈِس انفو ليب رپورٹ: درست سمت جدوجہد ہی تاریخی گواہی ہے، تحرير: طاہر بوستان

Spread the love

یورپی یونین کے ادارے ڈِس انفو ليب کی انڈين کرونيکلز ریسرچ میں درجنوں پارٹیاں اور اين جی اوز پندرہ سال سے انڈین مفادات سے جڑے تھے۔ سردار شوکت علی کشمیری اور پروفیسر محمد سجاد راجہ کی وضاحتیں اور میسجز نظر سے گزرے تو ان دونوں اشخاص کی جدوجہد، ذھانت، صلاحیتوں کا ایک طویل سفر آنکھوں میں گھوم گیا ۔

گورنمنٹ ڈگری کالج میرپور کی 1979 ايف ايس سی سے شروع ھونے والی سجاد راجہ کی رفاقت جس میں ارشد بلو، طارق ایوب، میر فاروق، میر طارق، ارشد چوھدری، راجہ افتخار، راج غضنفر، منور شاہ، راجہ علی زمان، ظفر یوسف، فرخ عباس، راجہ کلیم اللہ، سہیل قیصر، اختر میر، سہیل انصاری، طارق انصاری، ضامن عباس وغیرہ اين ايس ايف کے طالبعلم راھنما تھے ۔
سال 1981 کی شہری حقوق تحریک میں جب مارشل لائی حکم کے تحت پمفلٹ اور اشتہارات کی چھپائی بند ھوئی تو اين ايس ايف نے یونیورسٹی کالج میرپور کی نئی سائیکلو سٹائل پرنٹنگ مشینیں فراہم کیں ۔ ارشد بلو، ارشد چوھدری، سجاد راجہ چوری میں گرفتار ھوے جسکا اعلان صدر آزاد کشمیر برگیڈیئر حیات خان نے میرپور پریس کانفرنس میں کیا ۔ ارشد بلو کے قتل کے بعد سجاد راجہ کالج کا سب سے معروف طالبعلم راھنما تھا ۔ وہ تھوڑی جان کے باوجود آگ ہی تھا ۔

سال 1983 کی کالج یونین الیکشن میں امیدوار کیلئے دوستوں کے درمیان ھونے والے ٹاس میں جیتنے کے باوجود وہ میرے حق میں مشین چوری کیس کے باعث دستبردار ھوا، لیکن الیکشن کمپین کی نگرانی کرتے اين ايس ايف کے پینل کو پہلی بار تاریخ ساز کامیابی دلائی ۔ بعد ازاں اس نے اين ايس ايف کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور صدارت کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔

کراچی یونیورسٹی کی شوکت کشمیری سے شناسائی 1985 میں سیاسی رفاقت میں بدلی جب جموں کشمير پيپلز نيشنل پارٹی کے بانی چیئرمین بیرسٹر قربان علی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل شوکت کشمیری، جوائنٹ سیکریٹری چودھری محمد صدیق ایڈووکیٹ کو سجاد راجہ مجھے پارٹی میں شمولیت کیلئے میرے گھر مہموں پور لاے ۔ جو ان کے جون 1992 میں پارٹی سے سنگین الزامات کے ثابت ھونے پر پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ اور بنیادی رکنیت سے محروم کر دیئے گئے ۔ جنھوں نے سویٹزرلینڈ کو اپنا مسکن بنایا ۔مجھے پارٹی میں شامل کرنے والے ایک صاحب خود فارغ اور دوسرے صاحب نے میری، سردار جاوید نثار ایڈووکیٹ، عنصر نواز چوھان کی کوششوں سے ذوالفقار احمد راجہ اور سردار جاوید شریف گروپ، میں اتحاد اور پی اين پی اور اين ايس ايف کے دو نکاتی معاہدہ :۔

۔۱- پی اين پی اور اين ايس ايف طلباء اور عوام میں اتحادی پارٹیاں ھوں گی ۔

۔۲- سینئر طلباء راھنما جے کے پی این پی میں شمولیت اختیار کریں گے ۔

تمام کوششیں اور معاہدے اس وقت غارت ھوے جب ان کی کوششوں سے پيپلز نيشنل پارٹی کے مقابل نيشنل عوامی پارٹی کھڑی کر دی گئ اور خود موصوف برطانیہ منتقل ھو گے ۔جہاں نيپ اور اين آئ اے سے نئی پارٹی نکالتے برسلز، جنیوا، ھیگ تک کی شہ سرخیاں بنتے میرے دونوں مہربان دوست خود وضاحتیں پیش کرتے پھر رہے ہیں کہ ھم تو محب وطن ھیں یہ فلاں تصویر فلاں جگہ تھی اور فلاں پروگرام فلاں جگہ تھا ۔

میرا ماننا ہے کہ بنیادی انسانی ضرورتیں، گھر، شادی، بچوں کی کفالت اور سواری جو ھر بندہ اپنی بساط کے مطابق کرتا ہے، اگر گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ھو تو یہ حدف اور آسان ہو جاتا ہے ۔

اس پرخطر و پرخار راستے پر چلنے کو کسی نے مجبور تو نہیں کیا تھا ۔ اگر آپکو سرمایہ، دولت، شہرت، نمود و نموش درکار تھا تو اسلام آباد کے گیت گاتے جہاں مسند اقتدار کے آسان راستے ملتے، میرا یقین ہے کہ آپ دونوں کی صلاحیتوں و ذھانت کی دھاک ھوتی، پتہ نہیں آپ نے مشکل راستے کا انتخاب کیوں کیا اور 40 سالہ جدوجہد کے بعد پھر بھی وضاحتوں پر انحصار ھے۔

شکر ہے کہ گامے کی طرح جس کے گاوں میں سیلاب آیا تو افراتفری میں بہتی گھریلو اشیاء کو پکڑتے، سمیٹتے، جان بچاتے، بھاگم بھاگ چودھری نے درخت پر بیٹھے پرسکون، سیلاب سے لطف اندوز ھوتے گامے سے سکون و اطمینان کی وجہ پوچھی تو گامے کا تاریخی جملہ کہ

” غریبی دی چس ھی اج آئی اے”

حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اور واضح، شفاف جدوجہد کی وضاحتوں کی ضرورت نہیں ھونی چاھیے ۔ آپ کا کام آپکی گواھی ھونا چاہیے، ورنہ تاریخ رحم نہیں کرتی ۔

مضمون نگار جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے سفارتی محاذ کے چيئرمين ہېں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *