Main Menu

آہ نوید ! تجھے قتل کر دیا گیا ؛ تحرير: کامريڈ محمد الياس

Spread the love

ہمارا ایک اور بہت ہی پیارا نوجوان نوید مجید آج ہم میں نہیں رہا۔سری آویڑہ ضلع باغ سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان واپڈہ کا ملازم تھا اور باغ گریڈ اسٹیشن میں ڈیوٹی کرتا تھا۔
بہترین فیملی لائف،سماجی سرگرمیوں اور انتہا درجے کی اسپورٹس کے ساتھ وابستہ بھر پور زندگی گزار رہا تھا۔روزمرہ معمول کے مطابق رات کی ڈیوٹی پر حاضر ہوا اور چند ہی گھنٹوں میں اسے اس کے دفتر میں قتل کر دیا گیا۔ اس بیمانہ قتل کے بعد لاش کو ہسپتال پہنچایا گیا اور لاش کا پوسٹمارٹم کیا گیا۔لاش ہسپتال پہنچتے ہی اس قتل کو خود کشی کا رنگ دینے کے لیے قیاس آرائیاں شروع کر دی گئی۔

ہماری سوسائٹی میں ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ ہمارۓ اجتماعی رویے ایسے ہیں جو سو فیصد قتل ہوتا ہے اسے بھی خود کشی میں بدل دیا جاتا ہے۔نوید کے قتل کو ہم سو فیصد قتل کہتے ہیں اس لیے کہ نوید فیملی سماجی اور اسپورٹس کی بھر پور اور خوش اسلوب زندگی گزار رہا تھا،اس کا کوئی ایسا معاشی ،سماجی یا فیملی ایشو نہیں تھا کہ وہ خود کشی کرتا،والی بال کا پورا سیزن مارچ سے لیکر آج سے دو دن پہلے بیس بگلہ کے ٹورنمنٹ تک ہم ہر میدان میں ایک ساتھ رہے،معاشی معملات سے لیکر فیملی معملات تک ہمارا ایک دوسرۓ سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں تھا،غم خوشی مشکلات کے ہم بے لگام ساتھی تھے۔

رات ڈیوٹی پر جاتے ہوۓ وہ روزانہ کا ناشتہ جو وہ صبح کرتا تھا ساتھ لے جاتا تھا آخری دن بھی وہ ناشتہ متعلقہ جگہ سے ساتھ لیکر گیا،ایک گھنٹے بعد اگر خود کشی کرنا ہوتی تو ناشتہ کیوں ساتھ لیکر جاتا؟؟
ڈیوٹی پر جانے سے ایک گھنٹہ پہلے باغ کی ایک اسپورٹس کی دکان سے وہ والی بال خرید کر لے جاتا ہے کہ صبح سے لاک ڈاون ہے تو والی بال ہی کھیلوں گا لاک ڈاون میں اور کیا کرنا ہے، اس کے ایک گھنٹے بعد اس کا قتل ہو جاتا ہے؟

قتل کے بعد تقریباَ 6 گھنٹے تک لاش ہسپتال میں رہتی ہے پوسٹ مارٹم ہوتا ہے لیکن اس دوران نہ ہسپتال کا ایم ایس ہسپتال آتا ہے،
نہ ڈی سی اور ایس پی موقع واردات سے لیکر ہسپتال تک پہنچتے ہیں۔
باغ کا ایک نوجوان شہری قتل ہو گیا،واپڈہ کا ملازم بھی تھا لیکن باغ انتظامیہ سے لیکر ہسپتال انتظامیہ تک نے پوری غفلت برتی ہے جیسے کوئی انسان نہیں بلکہ بھیڑ بکری کی موت واقع ہوئی ہے۔

پولیس ابتدا میں ہی موقف اپنانا شروع ہو گئی کہ یہ خود کشی ہے،یعنی سر سے بوجھ اتارنے والا رویہ۔آج تو ہم ٹوکن احتجاج کے بعد ورثہ کے کہنے پر لاش لے آۓ ہیں لیکن اگر نوید کے قتل کو لیکر انتظامیہ کا جو رویہ ہے اگر اس قتل کو خود کشی بنانے کی کوشش کی گئی یا تحقیقات درست بنیادوں پر نہ کی گئيں تو ہم احتجاج کی ہر سطح پر جائیں گے۔

چونکہ گرڈ میں موجود پنجابیوں نے کچھ سال قبل نیندرائی باغ سے تعلق رکھنے والے ایک ملازم کو ذبح کر دیا تھا اور اس قتل کو بھی بعد میں اس رپورٹ کے ساتھ رفع دفع کر دیا گیا تھا مقتول کا ذہنی توازن درست نہیں تھا اس نے خود کشی کر لی۔

حالانکہ اصل وجہ سارۓ لوگ جانتے ہیں کہ پنجابی واپڈہ میں لوکل شہری کو برداشت نہیں کرتے ہیں ہمارۓ ہی شہر میں آ کر وہ ہمارے شہری کو قتل کر کہ اس کی جگہ کسی پنجابی کو ایڈجسٹ کروا لیتے ہیں۔

نوید کو بھی اسی بنیاد پر قتل کر دیا گیا ہے۔ نوید تو مر گیا ہے لیکن ہمارۓ اجتماعی رویے نوید کے قتل پر بھی ایسے ہیں کہ
ہم نوید کو دفنا دیں گے،اللہ کی مرضی ایسی تھی، اللہ جنت میں اعلی مقام عطا فرماۓ اور اس کے بعد اپنے کاموں میں مشغول۔۔۔۔!!ایک دن پولیس کی رپورٹ ملے گی کہ یہ خود کشی تھی۔پہلے نیندرائی کا ملازم تھا، گزشتہ سال حمزہ امتیاز اور آج نوید کا قتل،اگر ہمارا اجتماعی مزاج ایسا ہی رہا تو یاد رکھیں پھر ہمارا کوئی بھی نوجوان محفوظ نہیں رہے گا۔

ہمارۓ نوجوان کراۓ کے قاتلوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے اور ہم دفناتے اور دعائیں کرتے رہیں گے۔

ہم انتظامیہ ڈی سی ، ایس پی اور ایس ایچ او باغ کو متنبی کرتے ہیں کہ نوید قتل کیس کی ابتدائی رپورٹ سے لیکر ایف آئ آر اور ابتدائی میڈیکل رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جاۓ۔

نوید کے ساتھ ڈیوٹی پر معمور تمام ملازمین کو انچارج سمیت فی الفور گرفتار کر کے انھیں زیرِ تفتیش لایا جاۓ۔بصورت دیگر نوجوان بھر پور احتجاج کریں گے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *