Main Menu

ہم مايوس ہيں نہ نااميد، دہلی و اسلام آباد کے حکمرانوں کی بندر بانٹ کسی صورت قبول نہيں، چیئرمين پی اين اے کا پيغام

Spread the love

پېپلز نيشنل الائنس کے چیئرمين ذوالفقار احمد ایڈووکیٹ نے اپنے پيغام ميں کہا ہے کہ پیارے ہموطنو! دہلی سرکار اور اسلام آباد کے حکمرانوں کے جو فیصلے و لچھن ہیں انکے بارے میں پی این پی کے بانی چیرمئین بیرسٹر قربان علی نے تقریباً تیس سال قبل اپنی کتاب “سیاسی و سائنسی فکر” میں لکھ دیا تھا دہلی و اسلام آباد سرکار کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہی مسلئہ جموں کشمیر کو حل کرنا چاہتی ہیں جو کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کے مستقبل کا مستقل حل ہر گز نہ ہے ۔ اور نہ ہی جموں کشمیر کے عوام دو قابض ممالک کے مابین بندر بانٹ یا کچھ لو اور دو کی پالیسی کو قبول کریں گے۔

آج بھارتی و پاکستانی حکمران برطانوی سامراج کے شاطرانہ، توسیع پسندانہ، مکارانہ، طرز قبضہ کو استعمال کرتے ہوئے انہی ایسٹ انڈیا کے طور طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے دہلی و اسلام آباد کے حکمران شملہ معاہدہ کی اڑ میں ھماری ریاست کو ہڑپ کرنے کے سازشی منصوبے بنا چکے ہیں جس پر دہلی سرکار نے 5 اگست 2019 کو اپنے ہی آئین کے ارٹیکل 370 و 35 A کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک جبری آرڈیننس مسلط کر کے کیا اور اسلام آباد سرکار بھی اپنے ہی آئین 1973 کے ارٹیکل 257 کو نظرانداز کرتے ہوئے کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی قرار داروں جن کے مطابق جموں کشمیر ایک مسلمہ و باقاعدہ دو کروڑ کشمیری عوام کا مقدمہ ہے کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے مترادف ہے۔ ھم دنیا بھر کی تحریری، قوموں کی غلامانہ زندگی اور شعوری تاریخ کے تناظر میں دہلی اور اسلام آباد کے اقتدار کے نشہ میں بد مست حکمرانوں کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ ریاست جموں کشمیر کی عارضی تقسیم بھی 73 سالوں میں جنوبی ایشیا کو امن، روز گار، خوشحالی، انیوالی نسلوں کا تابناک مستقبل نہ دے پائی اور نہ ہی اس ریاست کی مستقل تقسیم آپکے کے ممالک کے عوام کیلئے کوئی نیک شگون ثابت ہو پائے گا ۔ اسکی زندہ و تابندہ مثال آپکے سامنے ھیکہ آپکے لیڈران نے صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے برصغیر کے عوام کو اسلیئے تقسیم کروا دیا کہ مختلف مذاھب و تہذیب و تمدن کے حامل ہیں یہ ایک ساتھ زندگی بسر کر ہی نہیں سکتے ہیں اور دنیا بھر کی تاریخ میں واحد پرامن اور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہجرت ہوئی جس میں تقریباً 30 لاکھ بے گناہ و معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا۔ تو ھم جواب چاہتے ہیں کہ اگر صدیوں سے اکٹھے رہنے میں انتشار و بدامنی تھی تو کیا الگ الگ ہو کر 73 سالوں سے بھارت و پاکستان کے عوام خوشحالی، سکون اور امن کی پرسکون نیند میں ایک پل بھی سو سکے ہیں یا انکے جو متحدہ ہندوستان میں بھوک، غربت،بدامنی، بیروزگاری، مذھبی تنازعات، فرقہ پرستی کے گھمبیر ترین مسائل حل ہو پائے ہیں یا ان میں مزید شدت آئی ہے آپکا جواب یقیناً نفی میں ہی ہو گا۔ کیونکہ برصغیر کی تقسیم کا قضیہ کوئی مذھبی مسلئہ نہیں تھا بلکہ سامراج کی ضرورت تھی سو آج تلک پوری ہو رہی ہے۔

ھم دہلی و اسلام آباد کے حکمرانوں کو برملا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر اپ کی پالیسی آج ماضی سے یکسر مختلف ہو گئی ھیکہ ریاست کو مستقل تقسیم کر دیا جائے تو اس سے نہ ہی مسلئہ حل ہو گا اور نہ ہی خطہ میں امن آئے گا اور نہ ہی جن مفادات پر آپکی للچائی نظریں ہیں وہ پورے ہونگے بلکہ اپ ایک بار پھر سے عالمی سامراجی طاقتوں کو اس خطہ میں برائے راست مداخلت و جنگ کی دعوت دینے جا رہے ہیں۔ آپکی سازشوں و پالیسی کی بنیاد پر جموں کشمیر کے عوام کی مکمل آزادی کی تحریک ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اور دوست و دشمن کی بہتر انداز میں شناخت و پہچان کرتے ہوئے اپنی درست سمت کا تعین کرے گی۔

ھم دہلی سرکار و اسلام آباد کی خلافت کے فیصلوں سے قطعا مایوس نہیں ہیں اور نہ ہی نا امید ہیں ھمیں قومی آزادی کی تحریکوں نے ہی درس دیا ھیکہ تحریکیں غلطیوں سے ہی سیکھتی اور اپنی سمت کی طرف بڑھنے کیلئے نوک پلک سنوارتی ہیں۔ جموں کشمیر کی موجودہ 73 سالہ غلامی کا عرصہ کوئ زیادہ اہمیت اسلیئے نہیں رکھتا ھیکہ دنیا بھر کی غلام قوموں نے اپنی آزادی کی خاطر سالہ سال تک جدوجہد کی ہے خود سابقہ برصغیر اور حالیہ بھارت و پاکستان کے عوام نے انگریز سامراج کے خلاف دو سو سال تک جدوجہد کی ہے۔ آج کے عظیم چین کے عوام نے سالہ سال تک چار عالمی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنی کیلئے جدوجہد ہی نہیں کی بلکہ قومی جمہوری انقلاب برپا کر دیا۔ کیوبا کے عوام نے امریکی سامراج کے خلاف سالہ سال تک جدوجہد کی اور آخرکار اس جدوجہد کے نتیجے میں انقلابی لیڈر کاسترو کی راہنمائی میں امریکی سہولت کار بیٹسٹا کے خلاف 1 جنوری 1959 کو انقلاب برپا ہوا۔ الجزائر 132 سالوں تک غلام رہا اور آخر کار الجزائری عوام نے فرانس جیسی طاقت سے 1962 میں آزادی حاصل کی۔ اس طرع کی ہزاروں مثالیں تاریخ میں مندرج ہیں۔

دنیا کا قانونی، اخلاقی، معاشرتی اور مسلمہ اصول ھیکہ جس خطہ ارضی پر جو انسان صدیوں سے رہ رہے ہیں وہاں کے قدرتی، معدنی اور دیگر تمام تر وسائل کے مالک بھی وہی ہیں اور اقتدار اعلی پر بھی انہی کا ہی حق ہے۔ آپ جبر، طاقت، ظلم، دباؤسے حکمرانی تو کریں گے لیکن جس دور میں بھی اس خطہ کے عوام کو شعور آ گیا تو اپ کو بوریا بستر گول کرنا ہو گا۔ اسلیئے بھارت و پاکستان کے حکمرانوں کو ھم بار بار آوازیں دیکر اور مخاطب کر کہ کہہ رہے ہیں کہ جموں کشمیرسے نکل جائیں اور بین الاقوامی سامراج کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے اپنے کروڑوں عوام جنکے اباو اجداد نے خوشحال مستقبل کے سہانے خواب دیکھے تھے انہیں روزگار دیں، روشن مستقبل دیں، تعلیم، صحت ، رہائش کی جیسی بنیادی سہولتیں دیں ورنہ اگر جنگی جنون ہی پالنا ہے تو سامراج جنوبی ایشیا میں تیسری عالمی جنگ کے تانے بانے بن ریا ہے۔
فیصلہ اپ پر ہے امن یا جنگ






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *