Main Menu

گلگت بلتستان کی تاریخ اور غلامی کے عبوری آئینی لارے؛ تحریر: ہارون اشفاق

Spread the love

عوامی آزادیوں اور خودمختاری کے نام پر 73 برس قبل خدا، بھگوان اور کلمہ حق ،اوم جے جگدیش ہرے کا راگ الاپ کر برطانوی سامراج نے اپنے گماشتوں جناح اور گاندھی کو آگے کرتے ہوۓ ہندوستان کے کروڑوں انسانوں کو تقسیم کیا , جبکہ یہاں کے عوامی انقلابی راہنماؤں بھگت سنگھ کو پھانسی دی , سبھاش چندرا بوس پر سیاسی مقدمات بنا کر اسے جلا وطنی پر مجبور کر دیا ۔
ہڑپہ , موہن جو داڑو کی پہلی انسانی تہذیب کے رکھوالے فرنگی کی ایک چکنی چال پر ٹوٹ کر بکھر گئے – انگریز کی نگرانی میں کھینچی گئی ایک لکیر نے ہزاروں سالہ تاریخ کا ایک ملک دو ٹکڑوں اور یہاں کا انسان کئی ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا – جیسے انسانی تاریخ میں انسانوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں تقسیم کرنے کے لئے بالا طبقات نے مذاہب کو استعمال کیا ویسے ہی ہندوستان کے عوام کو تقسیم کرنے کے لئے دو مذاہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ورنہ یہ لوگ صدیوں سے متحد رہ رہے تھے – جب یورپ میں پادری اور جرنیل خداوند اور یسوع کے نام پر ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے کیتھولک پروٹسٹنٹ اور یہودی عیسایوں کی گردنیں اتار رہے تھے اس وقت بادشاہ بابر کا ہندوستان ایک سیکولر اور معتدل ملک تھا جو تیزی سے صنعتی معاشی ترقی کر رہا تھا – آج ایک طرف ہندوتوا بھارت میں کروڑوں انسان بھوک بیماری سے مر رہے ہیں دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آدھی آبادی تعلیم علاج رہائش سے محروم ہے ۔
سامراج کی دم چھلہ خونی ریاست پاکستان سے جب بنگالیوں نے اپنے حقوق اور آزادی مانگی تو ان کی عورتوں کی شلواریں کھینچی گئیں , جب بلوچوں نے اختیار اور برابری مانگی تو ماؤں کے بچے گمشدہ کر دیے گئے , جب پختونوں نے اپنا حق مانگا تو ان پر ڈراؤن گراۓ گئے سکولوں میں ننھے فرشتوں کو گولیوں سے بھونا گیا , سندھیوں کو گولیاں ماریں گئیں جب جب کشمیریوں نے احتجاج کیا انہیں سڑکوں پر لہو لہو کیا گیا آزادی پسند قائدین کو قتل کیا گیا جن کے قاتل آج تک نامعلوم ہیں – وہ خونی ریاست جس کو اپنے ہی بچوں کا خون منہ لگ جاۓ وہ کسی کو کیا عبوری آئینی حقوق اور اختیار دے گی – گلگت بلتستان کو وہی صلہ اور انعام ملے گا جو حق مانگنے پر بابا جان کو ملا , جو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا کو ملا تھا , جو بلوچ ماؤں کو ملا , جو سندھیوں پختونوں کو ملا جو آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو ملا جو ساہیوال کے بچوں کو ملا – عوام تو عوام ہیں یہاں بالا طبقات کے تراشے گئے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ کیا ہوا … لاشیں ,جیلیں اور جلا وطنی جناح اور فاطمہ جناح کے ساتھ کیا ہوا .. بھٹو اس کے بیٹوں اور بیٹی کا کیا ہوا آپریشن رد النواز ابھی حال ہی کا واقعہ ہے ایسی ریاست سے گلگت بلتستان کے عوام اگر حقوق اور آزادیوں کی امید لگاتے ہیں تو اس سے بڑی حماقت زمین پر اور کیا ہو سکتی ہے ۔
پاکستان میں جب تک بلوچوں سندھیوں پختونوں سرائیکیوں اور ہزارہ والوں کو برابری نہیں ملتی ان کی قومیتوں اور وسائل پر انکا اختیار اور اقتدار نہیں ملتا جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو یہاں کچھ نہیں ملنے والا , غلامی کا طوق گلے میں سجاۓ کبھی کوئی دربار کی کرسی تک نہیں پہنچا نہ ہی انسانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود ہے جہاں کسی غلام کو آقا نے خود آزادی اور حق دیا ہو ۔
اگر تم حقوق دے رہے ہو تو مٹی کا وہ سپوت وطن کا بیٹا جس نے اپنے لوگوں کی روٹی کپڑا مکان زمین مانگی جو تم نے چھین رکھے ہیں اسے تم نے 40 سال کے لئے اندر کیوں کر دیا … اس کا جرم کیا ہے۔
اپنے وطن میں اپنے لوگوں کا حق مانگنا بابا جان کو تم سلاخوں کے پیچھے ڈال کر اس کا وطن اور وسائل ہڑپ کر لو گے , بابا جان جیل میں مر کر وطن تاریخ اور دنیا میں زندہ رہے گا تم سے اس کی
نسلیں سوال کریں گی , اس کے ہم خیال اور اس کا نظریہ قید نہیں ہوۓ , غلام تمہارے گریبان تک پہنچ جائیں گے اور ایک دن اپنی آزادی چھین کر لیں گے ۔
گلگت بلتستان کی اپنی تاریخ تہذیب ثقافت اور اپنا معاشی جغرافیائی وجود ہے – اس کے جموں و کشمیر سے لاکھوں برس کے معاشی رشتے ہیں , ہزاروں سالہ علاقائی اور ثقافتی بندھن ہیں اور سو سال یہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہے ہیں – گلگت سکردو ہنزہ کے سری نگر مظفر آباد سے رشتوں کو کوئی جدا نہیں کر سکتا یہ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ ہے جو انسانوں کے دلوں پر درج ہو چکی اس پر مٹی ڈال کر اسے دبایا تو جا سکتا ہے اسے صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں جا سکتا یہ انسانی سماجی رشتوں کی ہزاروں سال کی داستان ہے جب پاکستان کا کوئی وجود نہیں تھا گلگت بلتستان جموں کشمیر کی وحدت کا ایک لازمی حصہ تھا وجود کا ایک انگ ۔
گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے اٹا ہوا ایک دلکش اور حسین خطہ ہے یہاں کے باشعور عوام راولپنڈی کے جرنیلوں کی طرف سے گلگتی ٹوپی پہنا کر بھیجے گئے عمران نیازی بلاول اور مریم کو خوب پہچان چکے ہیں ان کے ٹوپی ڈراموں کو اچھی طرح جان چکے ہیں – گلگت بلتستان کو جب تک ایک قومیت تسلیم نہیں کیا جاتا , ان کی سیاسی سماجی تاریخ کا احترام نہیں کیا جاتا یہاں کے عوام کے حقوق اور آزادیوں کا احترام نہیں کیا جاتا اور اس کے 1947 سے پہلے کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا گلگت بلتستان کا کوئی ایک مسلہ بھی حل نہیں ہو گا بلکہ مسائل بڑھیں گے –
گلگت بلتستان کے عوام قابضوں کے ہتھکنڈوں کو پہچان کر انہیں مسترد کریں گے ان پر پاکستان چین اور انڈیا کی نظریں ہیں وہ یہاں کے دریا پہاڑ جنگل اور معدنیات لوٹنا چاہتے ہیں , دریاۓ سندھ کی رائلٹی , بھاشا ڈیم اور شاہراہ قراقرم گلگتی بلتی عوام کی ملکیت ہیں ان کا قبضہ اور اختیار یہاں کے عوام حاصل کر کے رہیں گے وہ اپنے وطن پر اپنا راج قائم کر لیں گے اور ایسا پاکستان یا ہندوستان کی غلامی میں ممکن نہیں یہ ” قومی اشتراکی جمہوریہ کشمیر ” یا سوشلٹ سٹیٹس آف جموں کشمیر گلگت بلتستان لداخ ” میں ہی ممکن ہے۔ جہاں جموں لداخ گلگت بلتستان اور کشمیری قومیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں سب کا ایک اشتراک کی بنیاد پر ملک دوبارہ بحال ہو جو 1947 سے پہلے ایک ملک تھے جو 6 ہزار سال پہلے بھی دنیا کی ایک نسبتا خوشحال سلطنت تھے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *