Main Menu

ریاست جموں و کشمیر: 22 اکتوبر کا پاکستانی حملہ و حکومتيں پاکستانی طفیلی انتظامیہ کا قيام تھا؛ تحریر: ثمینہ راجہ

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

اکتوبر کا مہینہ ھمارے ملک کی تاریخ کا بدترین مہینہ ھے – میں 4 اکتوبر 1947 کو اعلان کی جانے والی باغی حکومت کی حقیقت کے حوالے سے اپنے ایک آرٹیکل میں پہلے ھی اپنی تحقیق قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر چکی ھوں ۔
اب حسبِ وعدہ اکتوبر 1947 کے دیگر واقعات کے حوالے سے میں اپنا موقف قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتی ھوں ۔

ریاست جموں و کشمیر کے اندر مختلف لوگ آزادکشمیر کی حکومت کے حوالے سے مختلف مؤقف رکھتے ہیں ۔ جو لوگ سچے قوم پرست ہیں لیکن اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہلانا چاہتے ہیں وہ 24 اکتوبر 1947 کے حوالے سے کہتے ہیں کہ “ایک قوم کو شخصی غلامی سے تو آزاد کیا گیا مگر غیر ملکی تحویل میں دے دیا گیا …” ۔ یہ ان قوم پرستوں کی بات ہے جو نام نہاد قوم پرست گروہ کے اندر سب سے زیادہ مخلص اور سچے ہیں ۔ وگرنہ نام نہاد قوم پرستوں کی اکثریت تو آزادکشمیر کو آزاد ہی مانتی ہے اور یہ لوگ ہمیشہ اس کو تسلیم کئیے جانے کی بات کرتے آئے ہیں ۔ ان کو اس چیز کا آج تک ادراک ہی نہیں ہو سکا کہ آزادکشمیر حکومت کو بنیاد بنا کر جو بھی جدوجہد کی جائے گی وہ بالآخر ریاست کی تقسیم پر ہی منتج ہو گی ۔

میں یہاں خاص طور پر اس نقطے ہر زور دوں گی کہ ماہ اکتوبر 1947 کے واقعات کا تعلق قطعی طور پر ریاست جموں و کشمیر سے شخصی راج کے خاتمے سے نہ تھا – اکتوبر 1947 کے تمام منصوبے صرف اور صرف ریاست جموں و کشمیر پر طاقت کے بل بوتے پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی نیت سے تشکیل پائے ۔

پاکستان نے 15 اگست 1947 کو ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ معائدہ قائمہ کیا تھا اور اس معائدے پر پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور ریاست جموں و کشمیر کی طرف سے وزیر اعظم میجر جانک سنگھ نے دستخط کئیے تھے – مگر پاکستان نے یہ معائدہ کرنے کے باوجود 20 اگست 1947 کو پاکستان آرمی نے آپریشن گلمرگ تشکیل دیا جس کے تحت قبائلی جتھوں کو ریاست میں داخل کر کے ریاست پر قبضہ کرنے کا پروگرام بنایا گیا ۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس سارے منصوبے کی سیاسی قیادت میاں افتخار الدین کو سونپی گئی ۔ آپریشن گلمرگ کے تحت 4 ستمبر 1947 کو کہوٹہ سے 400 مسلح لوگوں کو ریاست میں داخل کیا گیا، ان کو ریاست کے غیرمسلم شہریوں کو ہراساں کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ پھر 9 ستمبر 1947 کو معائدہ قائمہ کی خلاف ورزی کرتے ھوئے ریاست کے لئیے خوراک، تیل، پیٹرول اور نمک وغیرہ کی ترسیل کو روک دیا اور تجارت کو منسوخ کر دیا، ہاکستان کے اس اقدام نے ریاست جموں و کشمیر کے اندر بحرانی کیفیت پیدا کر دی – پاکستان کا یە عمل عالمی قوانین کا کھلے عام تمسخر اور باھمی معائدے کی صریح خلاف ورزی تھی – پاکستان کے اس عمل نے ریاست جموں و کشمیر کے اندر بے یقینی کا ماحول اور بےچینی کی کیفیت پیدا کر دی – 12 ستمبر 1947 کو پاکستانی وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے کرنل اکبر خان اور سردار شوکت حیات کے تیار کردہ منصوبوں کی منظوری دی ۔ ان منصوبوں کے مطابق ریاست میں قبائلیوں کو داخل کر کے بظاہر ریاستی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت کا پروپیگنڈہ کر کے ریاستی دارالحکومت ہر قبضہ کیا جانا تھا ۔ مسلم لیگ سکاوٹس کے سربراہ میجر خورشید انور کو قبائلی لشکر تشکیل دینے کی عملی ذمہ داری سونپی گئی ۔
کچھ لوگ 19 جولائی 1947 کی جعلی قرارداد الحاق پاکستان کو اکتوبر 1947 کے واقعات کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” 19 جولائی کو غلام عباس نے جیل سے رھا ھوتے ھی خودمختار ریاست کی مسلم کانفرنس کی پہلی قرارداد کو کالعدم قرار دے دیا اور الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کر لی گئی” ۔

لیکن اس بات کی تصدیق کسی مستند ذریعے سے نہیں ھوتی اور یە بات واقعاتی حقائق کے خلاف ھے – 19 جولائی کو مسلم کانفرنس کا کوئی باضابطہ کنونشن منعقد نہیں ھوا تھا – تمام قیادت بدستور جیل میں تھی اور کنونشن کے لئیے جگہ کا انتظام ھی نہ ھو سکا تھا – ان حالات میں سردار ابراھیم نے اپنے گھر میں چند دوستوں کی ایک محفل میں ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی – اس عمل کی نہ تو کوئی سیاسی اھمیت ھے اور نہ ھی قومی امور میں ایسے انفرادی واقعات کا تذکرہ ھوتا ھے – 19 جولائی کی اس محفل کے ساتھ چوھدری غلام عباس کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا ۔

پاکستان اور بھارت میں قیام پاکستان کے بعد ھونے والے فسادات اور دنگوں کا بھی ریاست جموں و کشمیر کے اندر بڑے پیمانے ہر کوئی ردِعمل نہ ہوا تھا – تاہم 18 اگست 1947 کے وزیرآباد جموں ٹرین کے سانحے (جس میں جموں جانے والی ٹرین میں موجود تمام ہندو اور سکھ مسافروں کو قتل کر دیا گیا تھا) کے بعد جموں میں مسلمانوں پر ہندو شدت پسندوں کے حملے معمول بن گیا تھا اور ان حملوں میں سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا ۔ اس لئیے بعض احباب کا یہ کہنا درست نہیں کہ “ستمبر کے مہینے میں کشمیر کے بعض علاقوں میں کشیدگی شروع ھو گئی جن میں سے پونچھ سرفہرست تھا” … ریاست کے اندر ہندو مسلم کشیدگی صرف جموں، سامبہ اور چنینی کی حد تک محدود رہی ۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ھے کہ ستمبر / اکتوبر 1947 کی کشیدگی سردار ابراھیم کی ایک تقریر کے بعد مہاراجہ کے خلاف کھلی بغاوت میں تبدیل ھو گئی – موصوف اس وقت سری نگر میں تھے” – اور پونچھ میں کوئی بغاوت موجود نہیں تھی ۔ اس طرح کی باتیں از خود علمی تحقیق اور استدلالی وزن سے ماورا ثابت ھوتی ھیں ۔
ستمبر میں سردار ابراھیم نے سرینگر میں کس مقام پر کتنے بڑے مجمعے میں تقریر کی تھی؟ اس کا کوئی ثبوت تاریخ کے صفحات سے نہیں ملتا – اگر مان بھی لیا جائے کہ سردار ابراھیم نے ستمبر 1947 میں سرینگر میں کسی بند کمرے میں کوئی تقریر کی تھی تو اس تقریر کا فوری اثر تو سرینگر میں ھونا چاھئیے تھا مگر ایسا نہیں ھوا سرینگر جو سیاسی طور پر نیشنل کانفرنس کے زیر اثر تھا وھاں تو 26 اکتوبر تک مکمل سکون اور معمول کی کیفیت تھی – پھر سوال یە پیدا ھوتا ھے کہ سردار ابراھیم کی ستمبر کی سرینگر کی تقریر کا پلندری اور راولاکوٹ میں کیسے اثر ھو گیا؟ وہ تقریر جو سرینگر میں کی گئی کیسے اور کن ذرائع ابلاغ کے ذریعے 300 میل دور پلندری اور لاولاکوٹ میں لوگوں کے اندر فوری طور پر بغاوت کے جذبات ابھارنے میں کامیاب ھو گئی – کیا اس دور میں یە ممکن تھا جب نہ ریڈیو تھا، نہ ٹیلیویژن اور بجلی؟ عام آدمی راولاکوٹ سے سرینگر کئی دنوں میں پہنچتا تھا – سرینگر کی بند کمروں کی تقریروں کا فوری اثر تھوراڑ، پلندری، راولاکوٹ اور ھجیرہ میں کیسے ھو گیا؟ اور اثر بھی ایسا کہ سیاسی بےچینی اور کشیدگی ان کی ایک تقریر کے بعد مہاراجہ کے خلاف کھلی بغاوت میں تبدیل ھو گئی – یہ سب قصے کہانیاں ھیں جن کا حقائق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں – یہی ھمارے مادر وطن کی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ ھے – ایسا کچھ بھی نہیں ھوا تھا – قارئین کرام خود تجزیہ اور فیصلہ کر سکتے ھیں کی ستمبر 1947 میں ایسا ھونا ممکن ھی نہ تھا ۔
یە بھی کہا جاتا ھے کہ سردار ابراھیم کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئیے گئے اور انھوں نے بھاگ کر پاکستان میں پناہ لی – حقیقت یە ھے کہ اس وقت وارنٹ گرفتاری جاری کر کے گرفتاریاں نہیں کی جاتی تھیں اور اگر ایسا تھا بھی تو سردار ابراھیم کو وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والے کسی جج نے کیسے اطلاع کر دی کہ آپ کو پولیس گرفتار کرنے آ رھی ھے آپ بھاگ جائیں؟ موبائل فون تو اس زمانے میں تھے نہیں ۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہا کا جھنڈا

قارئین کرام خود تجزیہ کر سکتے ھیں کہ ایسے قصے محض حقائق کو مسخ کرنے کے لئیے گھڑے گئے ھیں – پھر سردار ابراھیم سرینگر سے بھاگ کر کن راستوں سے کتنے دنوں میں پاکستان پہنچے اور سیاسی پناہ لی؟ سب من گھڑت کہانیاں ھیں جو چوک میں کھڑے ھو کر تقریر میں تو بیان کی جا سکتی ھیں مگر تاریخ کے ایک سنجیدہ محقق کی حسِ استفسار سے بچ نہیں سکتیں ۔
یہ بھی کہا جاتا ھے کہ 4 اکتوبر 1947 کو ایک باغی حکومت کا اعلان کیا گیا اور صدر غلام نبی گلکار انور کو منتخب کیا گیا – میں موضوع کی مزید وضاحت اور قارئین کرام کے تجزئیے کے لئیے عرض کر دوں کہ:

4 اکتوبر کی باغی حکومت کا قیام کس مقام پر عمل میں لایا گیا؟
اجلاس کے شرکاء کے نام کیا ھیں؟
حکومت کے انتخاب کا طریقہ کار کیا تھا؟
خواجہ غلام نبی گلکار کے نام کے ساتھ انور کہاں سے آ گیا؟
کیا خواجہ غلام نبی گلکار اس اجلاس میں موجود تھے جہاں حکومت کا انتخاب کیا گیا؟
اگر نہیں تو ایک غیر حاضر سیاسی کارکن کو ھی اگر اتنی اھم ذمەداری سونپنی تھی تو اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کا اس ذمەداری کے لئیے انتخاب کیوں نہیں کیا گیا؟
جب سردار ابراھیم کا اصل نام وزیراعظم کے طور پر استعمال کیا جا رھا تھا تو خواجہ غلام نبی گلکار کے لئیے خفیہ نام کیوں چنا گیا؟
ان سوالوں کے جواب ھیں کسی کے پاس؟
اگر ھیں تو کیا دلائل ھیں؟
کچھ بھی نہیں – کسی کے پاس کوئی جواب نہیں اور نہ کوئی دلیل اور ثبوت ھے – سب من گھڑت قصے ھیں مگر ایسے قصے آج 2020 میں قارئین کرام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے ۔
یہ بھی کہا جاتا ھے کہ ستمبر 1947 میں پونچھ میں مسلح بغاوت شروع ھو چکی تھی – خوراک اور پیٹرول کی ترسیل بند ھو گئی تھی نتیجتاً کشمیر کی فوج کی نقل و حرکت محدود ھو گئی تھی اور وہ باغیوں کو قابو میں کرنے کی ناکام کوشش کر رھے تھے –
میرا استفسار یە ھے کہ
پونچھ میں ستمبر یا اوائل اکتوبر میں کونسی مسلح بغاوت تھی؟
کتنے سرکاری دفاتر پر باغیوں کا مسلح قبضہ تھا؟
کتنے فوجیوں، سرکاری افسران یا پولیس اھلکاروں کو باغیوں کی طرف سے گرفتار کیا گیا تھا اور انکے نام کیا ھیں؟
جب مظفرآباد میں پاکستان نے 22 اکتوبر کو حملہ کیا تو سرکاری افسران، پولیس اھلکاروں اور فوجیوں کو قتل کر دیا گیا، جیل توڑ دی گئی اور سرکاری املاک کو نذرآتش کر دیا گیا – پونچھ کی مسلح بغاوت میں ایسا ایک بھی واقعہ کیوں نہ ھوا؟
باغی حکومت کا نظام کیسے چل رھا تھا اسکے اقدامات پر کیسے عملدرآمد ھوتا تھا؟
ان اھم ترین تاریخی اھمیت کے حامل واقعات کا کیا ثبوت ھے؟
مسلح بغاوت تو گلگت میں ھوئی تھی جب مہاراجہ کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گلگت سکاؤٹس نے گرفتار کر کیا تھا – اور اس بغاوت کے ایک ایک لمحے کا ریکارڈ موجود اور محفوظ ھے – ستمبر کی پونچھ کی یە کونسی مسلح بغاوت ھے جس کا نہ کوئی ثبوت ھے نہ ریکارڈ؟ کوئی سرکاری ملازم نہ مارا گیا اور نہ گرفتار کیا گیا ۔
محض طلسماتی قصے اور داستانیں ھیں ۔
تاریخ کے ایک غیر جانبدار طالبعلم کی حیثئت میں ھم ان مافوق الفطرت داستانوں پر یقین کر سکتے ھیں کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ 4 اکتوبر ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کا پاکستان کا پلان اے تھا – یە پلان بری طرح ناکام ھوا ۔
چنانچە 4 اکتوبر کی اعلان کردہ باغی حکومت کے صدر مسٹر ( میجر خورشید) انور اور وزیراعظم سردار ابراھیم کو پلان بی کے تحت ریاست پر پاکستانی حملے کا اھتمام کرنے کے فرائض سونپے گئے – تیاریوں میں تین ھفتے لگے ۔
اور 21 اکتوبر اور 22 اکتوبر کی درمیانی شب پاکستانی فوج کی قیادت میں قبائلی لشکر ریاست پر حملہ آور ھو گئے – طاقت کے بل بوتے پر ریاست پر قبضہ کرنے کی کوشش کے طور پر اور پاکستان کے یکطرفہ مسلح فوجی حملے کو جواز فراھم کرنے کی خاطر 24 اکتوبر کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا اعلان کیا گیا جسکے صدر 4 اکتوبر کی باغی حکومت کے وزیراعظم سردار ابراھیم بنائے گئے – چونکہ 4 اکتوبر کی فرضی حکومت کے صدر مسٹر انور ایک پاکستانی شہری تھے اس لئیے ان کو 24 اکتوبر کی حکومت میں شامل نہ کیا گیا ۔ 22 اکتوبر اور 24 اکتوبر 1947 کے واقعات 4 اکتوبر 1947 کے واقعے کا تسلسل ھے اور یە سب کچھ پہلے سے طے کردہ منصوبے اور سازش کا حصہ تھا ۔
مجھے بہت تعجب ھوتا ھے جب یہ سنتی ھوں کہ ریاست جموں و کشمیر پر 22 اکتوبر 1947 کا پاکستانی حملہ ایک کھلی جارحیت تھی مگر 4 اکتوبر کی باغی حکومت ایک جمھوری اور انقلابی حکومت تھی جس کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کو مہاراجہ کی شخصی بادشاھت سے نجات دلانا تھا ۔
22 اکتوبر 1947 کا پاکستانی حملہ 4 اکتوبر 1947 کی باغی حکومت کی سرپرستی میں ھی کیا گیا تھا – اگر 4 اکتوبر 1947 کی حکومت جمھوری، انقلابی اور جائز قومی حکومت تھی تو پھر اس کی سرپرستی میں کیا جانے والا 22 اکتوبر کا عمل کیسے غلط ھو گیا؟ 22 اکتوبر کا عمل تو 4 اکتوبر کی حکومت کو ریاست جموں و کشمیر کی سرزمین پر براجمان کرنے کے لئیے کیا گیا تھا –
حکومت کے قیام کا اعلان درست مگر اس حکومت کو عملاً قائم کرنے کا عمل غلط —— یہ کیا منطق اور دلیل ھے؟ کوئی عقلمند اور غیر جانبدار آدمی اس بھونڈے استدلال کو قبول کر سکتا ھے کیا؟
پھر راولپنڈی میں 4 اکتوبر 1947 کو قائم کی جانے والی حکومت کو جب عملی طور پر ریاست جموں و کشمیر کی سرزمین پر 24 اکتوبر 1947 کو ازسرِنو تشکیل دیا جاتا ھے تو یە عمل پھر غلط ھے – کیسے؟ کیوں؟
ایک باغی حکومت بیرون ملک بنتی ھے وہ جمھوری، انقلابی اور قومی حکومت قرار پاتی ھے – اسی جمھوری، انقلابی اور قومی حکومت کا وزیراعظم جب 20 دنوں کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے اندر 24 اکتوبر 1947 کو اپنی حکومت کی تشکیل نو کرتا ھے تو وہ عمل کیوں اور کیسے غلط ھو جاتا ھے؟
کیا جواب ھے قومی، انقلابی اور جمھوری دانشوروں کے پاس؟
سیدھی سی بات ھے یا تو 4 اکتوبر سے لے کر 24 اکتوبر کے تمام واقعات جو ایک ھی پلان کے مختلف مراحل تھے درست تسلیم کئیے جائیں یا پھر یکسر غلط ۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہا کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی فائل فوٹو۔

پلان کا جب اعلان ھوتا ھے تو وہ جمھوری اور انقلابی پلان ھے اور جب اس پلان پر عملدرآمد ھوتا ھے تو وہ سارے کا سارا غلط قرار پاتا ھے تو پھر پلان بھی غلط ھوا نا؟
پلان کس طرح ابھی تک درست ھے جب اس کے تحت اٹھنے والے تمام اقدامات غلط ھیں؟
میں اپنے قومی، انقلابی اور جمھوری بھائیوں سے سوال کرتی ھوں کہ وہ کیوں قوم کو ابہام کا شکار کر رھے ھیں؟
وہ سچی بات کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟
وہ سارے سچ کو آدھا سچ بنا کر کیوں تاویلیں پیش کرتے ھیں؟
خدا را اب قوم کو اس ذھنی خلفشار، علمی ابہام اور تاریخی گڈمڈ سے باھر نکلنے دیجئیے – اور مان لیجئیے کہ 4 اکتوبر، 22 اکتوبر اور 24 اکتوبر ایک ھی پلان کے مختلف مراحل تھے – یە سارا پلان پاکستان کا تیار کردہ تھا، اور اسکے تمام مراحل کو پاکستان ھی نے عملی جامہ پہنایا ۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *