Main Menu

عظیم پشتون شاعر ،مبارز اورفیلسوف غنی خان ؛ تحرير: مشتاق علی شان

Spread the love

غنی خان جدید پشتو ادب کا ایک معتبر حوالہ ہے ۔انھیں اگر پشتو زبان کا سب سے مقبول شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔دنیا بھر میں جہاں جہاں پشتون بستے ہیں وہاں غنی خان پڑھا اور سنا جاتا ہے ۔ پشتو زبان کے ممتاز گلوکار سردار علی ٹکر نے ان کی نظموں کو اپنی خوبصورت آواز میں گا کر گویا دوام بخش دیا ہے ۔ یوں غنی خان کی شاعری محض کتابوں تک محدود نہیں رہی بلکہ وسیع عوامی حلقوں تک اس کی رسائی ہے ۔ شاید ہی کسی پشتون شاعرکے کلام کو اتنی عوامی پذیرائی ملی ہو جتنی کہ غنی خان کے حصے میں آئی ہے اور آج بھی دور دور تک ان کا کوئی ہمسر و ثانی نظر نہیں آتا ۔ بلاشبہ پشتونوں نے انھیں اپنے سب سے بڑے شاعر کا درجہ دے رکھا ہے ۔غنی خان کے خیالات اور افکار سے اختلاف بلکہ شدید ترین اختلافات رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں لیکن ان کے بدترین مخالفین کو بھی ان کے مدھر گیتوں پر سر دھنتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ مزدور،کسان، طلبا، خواتین سمیت پشتون سماج کے محروم طبقات ان کی شاعری کے دلدادہ ہیں ۔جہاں جہاں پشتون بستے ہیں وہاں غنی خان کے نغمے گونجتے ہیں۔
غنی خان کا تعلق پختونخوا کے ایک معروف سیاسی خاندان سے تھا ۔ان کے والد خان عبدالغفار خان ( باچا خان) جنگ ِ آزادی کے ایک آزمودہ کار سپاہی تھے جنھوں نے برطانوی استعمار کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک اورکانگریس کے پلیٹ فارم سے جدوجہدِ آزادی میں اپنا حصہ ڈالا، اس سلسلے میں قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کیا اور ”سرحدی گاندھی“ کہلائے ۔یہ اور بات کہ اس وجہ افتخار کو پاکستان میں وجہ ندامت بنانے کی کوشش کی گئی ۔ ان کے چچا ڈاکٹر خان صاحب ( عبدالجبار خان) بھی ایک فریڈم فائٹر تھے جنھوں نے اس زمانے میں برطانوی سامراج کو للکارا تھا جب اس کی قدم بوسی کو بعد میں ”حب الوطنی“ کے اسناد جاری کرنے والے اپنا اولین فریضہ گردانتے تھے۔ یہ وہی ڈاکٹر خان صاحب تھے تقسیم ِ ہند کے بعد پختوانخوا میں جن کی منتخب حکومت کا غیر جمہوری طور پر خاتمہ کیا گیا اور ایک متنازعہ ریفرنڈم کا ڈول ڈالتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کے اِس پار پشتونوں کی تقدید گویا طے کر دی گئی ۔ باچا خان کی طرح ڈاکٹر خان صاحب نے بھی انگریز حکمرانوں اور بعد ازاں ”اسلامی پاکستان“ کے حکمرانوں کے دور میں قید وبند کا سامنا کیا ۔1958میں آزادی کے اس سپاہی کو لاہور میں قتل کر دیا گیا ۔ غنی خان کے چھوٹے بھائی ولی خان ملک کے معروف سیاست دان تھے جن کی سیاست کا دائرہ ”نیشنل عوامی پارٹی“ ( نیپ) سے لے کر ”عوامی نیشنل پارٹی “(ANP) تک پر محیط تھا ۔ اس زمانے میں ملک بھر کے ترقی پسند ، سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، قوم پرست اور سماج کے دیگر مظلوم طبقات نیپ کا حصہ ہوا کرتے تھے ۔ آج غنی خان کے بھتیجے اسفند یارولی’عوامی نیشنل پارٹی‘کے قائد ہیں۔مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد ان کی جماعت پختونخوا میں برسرِ اقتدار آئی۔اور اس نے انتہائی بہادری سے طالبان نامی ظلمات پرستوں کا سامنا کیا اور اس کی پاداش میں کئی ایک قابلِ قدر قربانیاں دیں۔
جہاں تک غنی خان کا تعلق ہے تو انھیں مذکورہ بالا حوالہ جات کی نہ کبھی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی ہو گی ۔ غنی خان اس وقت بھی زندہ رہیں گے جب ان کے خاندان کا کوئی فرد صحنہء سیاست میں موجود نہیں ہو گا ۔غنی خان کے گیت تب بھی دلوں کو گرماتے اور کیف ومستی پر اکساتے رہیں گے جب آج کے عہد کی ملائیت، مذہبی جنونیت ،نسل پرستی اور سامراجیت تاریخ کے اندھیر غاروں میں اوندھے منہ پڑی ہوگی اور نوعِ انسانی نت نئی منزلوں کی جانب پیش رفت کر رہی ہو گی ۔ غنی خان نے اپنی شخصیت، اپنا کردار اور اپنا قدوقامت خود تراشا ہے ۔وہ ایک جہان ِ فن ہے مبارز، فیلسوف ، دانشور، سنگ تراش ،مجسمہ ساز، مصور ، گندھارا تہذیب کے مستند اسکالر ،مورخ، شاعر وادیب ، سقراط ، مسیح اور بدھا سے لے کرامام حسین اور منصور حلاج تک سے اپنا فکری تعلق جوڑنے والے ،عمر خیام کے ہمنوا، حسن ،محبت، سرمستی اور سرشاری کے گیت گانے والے ، ساغر ومینا کے دلدادہ ، ملا اور ملائیت کے ازلی دشمن ،روحانی تجلیوں کے میک اپ کا برسرِ عام مذاق اڑانے والے۔ پتا نہیں غنی خان کیا کیا ہیں۔عبدالغنی خان سے غنی خان اور ” فلسفی لیونے“ ( فلسفی دیوانہ۔ اس قلمی نام سے غنی خان کچھ عرصے تک مختلف اخبارت و رسائل میں لکھتے رہے پھر غنی خان ” فلسفی لیونے“ کے نام سے بھی مشہور ہوئے) بننے تک کا سفر انھوں نے یوں ہی نہیں طے کر لیا بلکہ یہ ایک کڑی تپسیا کا نتیجہ ہے۔ آئیے پہلے غنی کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

غنی خان پہلی عالمگیر جنگ کے سال یعنی 1914میں ہشت نگر کے گاؤں اتمانزئی میں پیدا ہوئے۔ ابھی پانچ سال کے ہی تھے کہ ممتا کی گھنی چھاؤں سے محروم ہوگئے ۔ان کے والدباچا خان ان دنوں ڈیرہ غازی خان کی جیل میں تھے۔ اس کرب ودکھ کا اظہار بعد ازاں ان کی کئی نظموں میں نظر آیا ۔ غنی خان نے برسوں بعد اپنی ماں کا مرثیہ لکھا جس میں ایک پانچ سالہ بچے کا دکھ اور اس کے سارے احساسات کو کمال ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے ۔غنی خان نے ابتدائی تعلیم اتمانزئی میں اپنے والد اور ان کے ساتھیوں کے قائم کردہ ” آزاد قومی اسکول “ میں حاصل کی ۔یہ اسکول جدید عصری تعلیم کے لیے قائم کیا گیا تھا جس کے خلاف انگریزوں کے ایجنٹوں اور ملا حضرات نے پروپیگنڈے کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
بعدازاں غنی خان نے جامعہ ملیہ دہلی میں تعلیم حاصل کی جہاں ان کی عربی دانی اور فارسی دانی کے چرچے زباں زد عام تھے ۔ جولائی 1929میں غنی خان بمبئی سے بحری جہاز ”نلڈیرا“ میں سوار ہو کر مزید تعلیم کے لیے لندن چلے گئے ۔ اس بحری سفر کے دوران انھوں نے متعدد نظمیں لکھیں۔لندن میں انھوں نے شکر سازی کا ایک خصوصی کورس کیا ۔ یہ غنی خان کے معاشقوں کا دور تھا ۔ ایک طرف وہ حسن پرست تھے تودوسری جانب خود بلا کے حسین ۔ایک انگریز اداکارہ سے جب عشق کے چرچے ان کے والد تک پہنچے تو اس عشق کے شادی پر منتج ہونے سے قبل ہی انھیں امریکا میں کیمسٹری کی تعلیم کے لیے جانے کا حکم ہوا۔ غنی خان نے سعادت مند بیٹے کی طرح اپنا بوری بستر باندھا اور امریکا جا پہنچا ۔لندن کے معاشقوں کا ذکر انھوں نے اپنی کئی ایک نظموں میں کیا ۔ان نظموں سے اس خاتون کا نام ” ازبیل“ معلوم ہوتا ہے۔1931میں باچا خان ایک بار پھر حوالہ زندان کر دیے گئے تو غنی خان کو مالی مشکلات کے باعث اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس ہندوستان آنا پرا ۔انھوں نے بہار کی ”ہزاری باغ جیل“ میں اپنے والد سے ملاقات کی جنھوں نے انھیں موتی لال نہرو کے گھر الہ آباد بھیج دیا ۔ یہاں انھوں نے 8ماہ کا عرصہ گزارا ۔ جواہر لال نہرو کی بیوی کملا اپنے بچوں کی طرح ان کا خیال رکھا کرتی تھی ۔اس دوران جب پولیس جواہر لال نہرو کو گرفتار کرنے کے لیے سرگرداں ہوئی تو انھوں نے گاندھی جی کے مشورے پر غنی خان اور اپنی بیٹی اندرا کو رابندر ناتھ ٹیگور کے شہرہ آفاق ادارے ” شانتی نکیتن “ بھیج دیا ۔ان دنوں باچا خان نے غنی خان کو ایک خط میں لکھا کہ ” غنی جان !یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ تم گاندھی جی کے مشورے پر بنگال جا رہے ہو ۔اگر تم گاندھی جی کے مشوروں اور نصیحتوں پر عمل کرو گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی ،کیونکہ وہ تم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔“ شانتی نکیتن میں غنی خان نے رابندر ناتھ ٹیگور جیسے فلسفی ، شاعر وادیب اور طباع کی نگرانی میں فلسفے، موسیقی ، مجسمہ سازی ،مصوری اور فنونِ لطیفہ کی تعلیم حاصل کی ۔مصوری کے فن میں ان کے استاد رابندر ناتھ ٹیگور اور نانا لال بوس تھے تو مجسمہ سازی کا فن انھوں نے رام کنکار اور کرشنا کرپلانی جیسے اساتذہ سے سیکھا تھا ۔شانتی نکیتن کی عظیم درس گاہ کی گہری چھاپ ان کی شاعری، مصوری اور سنگ تراشی کا جزولانیفک بن گئی ۔
شانتی نتکیتن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد غنی خان بمبئی آ گئے جہاں ایک دوست کے گھر میں وہ حیدر آباد دکن کے ایک نواب رستم جنگ کی صاحبزادی روشن کی زلفوں کے اسیر ہو گئے ۔ یہ معاشقہ سات سال بعد 1939میں روشن سے ان کی شادی پر منتج ہوا ۔غنی خان نے اس خاتون سے ٹوٹ کر محبت کی اور شادی سے قبل اور بعد میں اپنی محبوبہ کے نام متعدد نظمیں کہیں جو ان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔ایک نظم میں وہ اپنی محبوبہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ
اک خواب ہے شاعر کا
یاں صورتِ انسانی
ہے دور سریلا جو
اک ساز آسمانی
اک پھول ارم کا ہے
خصلت میں ہے رحمانی
ایک جسم ہے وہ ناری
اک قلب ہے نورانی
محبوبہ غنی خاں کو
مل ہی گئی آخر جو
پختون ہے غیرت میں
اور حسن میں ایرانی
غنی خان نے کچھ عرصہ یوپی اور پھر تخت بائی ( پختونخوا ) کے ایک شوگر مل میں بھی ملازمت کی لیکن قسام ِ ازل نے شکر سازی اور کیمسٹری سے لے کر فلسفہ اور فنونِ لطیفہ تک کی تعلیم حاصل کرنے والے خان غنی کو محض گنے اور چقندر کے شیرے کو چینی کی مٹھاس میں تبدیل کرنے کے لیے نہیں تھا ڈھالا ۔وہ تو ان سماعتوں میں شعر و نغمہ کے ساتھ ساتھ عقل وشعور کا رس گھولنے کے لیے پیدا ہوئے تھے جن میں صدیوں جہالت انڈیلی گئی، جن پر سامراجی آقاؤں اور ان کے وظیفہ خور ملاؤں نے نادیدہ پہرے بٹھا رکھے تھے ۔ انھیں اعلیٰ انسانی آدرشوں کی صورت گری کرنی تھی اور ان اذہان کو جھنجوڑنا تھا جوبستہء اوہام تھے ۔ غنی خان کو شعر وادب کی آبیاری کرنی تھی ،رجعت پرستی جس کے سوتے خشک کردینے کے درپے تھی ۔
سو کچھ عرصے بعد غنی خان نے ملازمت چھوڑ دی ۔ ان کے والد جیل میں تھے جس کے باعث وہ اپنی آبائی زمینوں کی دیکھ بھال کے ساتھ شعر وادب کی کاکلیں سنوارتے رہے ۔ اس
زمانے میں ان کی شاعری میں عصری سیاسی شعور بلندیوں پر نظر آتا ہے جس میں انھوں نے قوم پرستی کے زیر اثر برطانوی سامراج کے خلاف نظمیں کہیں۔
غنی خان کی سیاسی عمر اگرچہ مختصر تھی مگر یہ تھی انتہائی بھرپور ۔ انھوں نے ایک سیاسی ماحول میں پرورش پائی تھی اور ان کی تربیت اپنے والد باچا خان کے علاوہ گاندھی جی ، جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے اکابرین کے درمیان ہوئی تھی ۔البتہ غنی خان نے یہاں بھی اپنا تخصص برقرار رکھا ۔ وہ گاندھی جی اور باچا خان کے برعکس فلسفہ عدم تشدد کے بالکل قائل نہیں تھے بلکہ وہ برطانوی سامراج اور اس کے گماشتوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے تھے۔وہ اس سلسلے میں اپنے والد سے بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے ۔ جب غنی خان محض دس ، بارہ سال کے تھے تب بھی وہ اپنے والد کی رہائی کے لیے پرجوش تقریریں کیا کرتے تھے۔ باچا خان اپنی سوانح عمری” میری زندگی اور جدوجہد“ میں لکھتے ہیں کہ ” غنی ایک بہت اچھا مقرر تھا اور بڑی شاندار تقریر کیا کرتا تھا ۔وہ اپنی تقریر کے آخر میں لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ ”اے لوگو! آپ ذرااس حکومت سے یہ تو پوچھیں کہ میرے والد کو اس نے کس لیے قید کر رکھا ہے۔ آخر ان کا گناہ کیا ہے اور انھوں نے کون سا جرم کیا ہے۔“ہمارے لوگوں پر ان باتوں کا بڑا اثر پڑتا تھا ،لہذا وہ بڑے متاثر ہوئے اورملک میں ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی“۔
غنی خان نے 1945کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور تین بڑی جماعتوں ’خاکسار تحریک‘ ،’ مسلم لیگ‘ اور ’ہندو مہا سبھا “ کے امیدواروں کو شکست دی اور مرکزی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوکردہلی چلے گئے ۔اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی اور وہ مرکزی پارلیمنٹ کے سب سے کم عمر رکن تھے ۔ وہ مرکزی وزراءکے 11مشیروں میں شامل تھے اور ان کا شمار تین شعلہ بیان مقرروں میں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں غنی خان نے کئی ایک بین الاقوامی دورے بھی کیے اور مختلف کانفرنسوں اور سیمینارز وغیرہ میں شرکت کی ۔
ان کا آخری سیاسی کام ” زلمے پختون“ ( نوجوان پختون)کا قیام تھا ۔ یہ تنظیم انھوں نے1947میں اس وقت قائم کی جب ”کانگریس “اور ”خدائی خدمت گا ر تحریک“ کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مسلم لیگ کے غنڈوں کی طرف سے حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ۔ تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے قائل غنی خان نے 80ہزار نوجوانوں کا مسلح لشکر قلیل عرصے میں تیار کر لیا ۔ شروع میں مسلم لیگ نے اس تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے ” غازی پختون“ کے نام سے اپنی ایک بغل بچہ تنظیم بنائی مگر پھر پسپائی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی ۔ غنی خان کی یہی قائم کردہ مسلح تنظیم تھی جس نے اگست 1947میں پختونخوا بالخصوص پشاور میں ہندو مسلم فسادات کی کوششوں کو ناکام بنایا ۔غنی خان متحدہ ہندوستان کے حامی تھے ،برصغیر کی تقسیم نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔اس کے بعد وہ کبھی سیاست کے طرف مائل نہیں ہو سکے ۔
اگر چہ غنی خان تقسیم کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے لیکن 1948میں جب مسلم لیگ کی قیوم خانی سرکار نے باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کے رہنماؤں کو گرفتار کیا تو غنی خان اور ولی خان بھی حوالہء زنداں کر دیے گئے ۔ 12اگست 1948کو جب چارسدہ کے علاقے ” بابڑا “ میں ان گرفتاریوں کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنان پرامن طور پر سراپا احتجاج تھے تو قیوم خان نے ان پر فائرنگ کا حکم دیا جس سے سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ۔ سانحہ بابڑا پر غنی خان چیخ اٹھے ۔
نن دہ ہغہ ورز چی پختون جوند پہ مرگ گٹلے ہو
خپلی محبوبہ لہ زلمی سر تلی کی وڑے ہو
تہ ماتا ملا بابا د یو اسمعیل کڑے قصہ
دلتہ پہ ہر گام باندی یو یو قربان شوے ہو
منظوم ترجمہ

آج ہی کا دن ہے وہ
پختون نے ممات کو
دی شکستِ فاش یاں
اور حیات جیت لی
آج ہی کا دن ہے وہ
عاشق ِ جواں تھا جب
پیش گل عذار کے
سر بکف کھڑا ہوا
مت سنا اے مولوی !
قصہ اسمعیل کا
یہاں تو گام گام پر
قرباں ہوئے ہیں نوجواں

جنرل ڈائر کے نقشِ قدم پر چلنے والے قیوم خان کو ایک اور انوکھا اعزاز بھی حاصل ہے ۔مشرف بہ مسلم لیگ ہونے اور وزارات کی مسند پر جلوہ افروز ہونے سے قبل اس نے اپنی کتاب”گولڈ اینڈ گنز “ میں خدائی خدمت گار تحریک اور باچا خان کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا تھا ۔البتہ پختونخوا کا وزیرِ اعلیٰ بنتے ہی موصوف نے اپنی ہی کتاب پر پابندی عائد کر کے دنیا کے پہلے ” باضمیر“ مصنف ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۔
بہر کیف غنی خان نے 1948سے لے کر 1954تک کا عرصہ پشاور ، ہری پور، حیدر آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان ، خانپوراور تھنڈیانی سمیت مختلف جیلوں میں گزارا ۔ انھیں ایامِ اسیری میں غنی خان نے اپنا پہلا شعری مجموعہ ” د پنجرے چغار“ ( پنجرے کی فریاد)مکمل کیا ۔ دورانِ قید انھوں نے اپنی بہترین نظمیں تخلیق کیں ۔ یہ مجموعہ بعد ازاں 1956میں پشاور سے شایع ہوا۔ اس کے بعد غنی خان ایک شاعر کے طور پر مشہور ہوتے چلے گئے غنی خان کی شاعری پشتون عوام میں جتنی مقبول تھی پاکستان کے فنون و ادب کے اداروں نے انھیں اتنا ہی نظر انداز کیا ۔ انھیں سرکاری سطح پر انتہائی ناپسندیدہ فنکار تصور کیا جاتا تھا۔1985میں غنی خان کی کلیات ” د غنی کلیات“ کابل سے انقلابی حکومت نے شایع کی تب کہیں جا کر انھیں پاکستان میں پذیرائی مل سکی ۔

غنی صرف ایک بڑے شاعر ومصور ہی نہیں بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے ۔ ان کے اکلوتے بیٹے فریدون رستم جنگ کو 1987میں ان کے ایک مزارع نے معمولی تکرار پر بیلچہ مار کر قتل کر دیا تھا مگر غنی خان نے پشتونوں کی خونی روایات کے برعکس اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کو معاف کر دیا ۔ ورنہ پشتون سماج، جوان بیٹے کا قاتل وہ بھی اپنا مزارع ، پتا نہیں اس مزارع اور اس کے خاندان پر کیا گزرتی مگر غنی خان ایک خون کے بدلے دوسرے خون کے قائل نہیں تھے ۔ وہ سیاسی طور پر عدم تشدد کے قائل نہیں تھے لیکن وہ اتنے بڑے انسان تھے کہ جب بات ان کی ذات تک پہنچی توانھوں نے تشدد سے کام نہیں لیا ۔
عمر کے آخری حصے میں غنی خان ریڑھ کی ہڈی کے مفلوج ہونے اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔1994میں پشاور میں ان کے ساتھ ایک یادگار شام منائی گئی جس میں ملک بھر سے شعرا، ادبا اور دانشوروں نے ان کی شخصیت اور فن پر اظہارِ خیال کیا ۔اس موقع پر غنی خان نے ویل چیئر پر بیٹھے بزبان شعر ونثر حالِ دل سنایا ۔

15مارچ1996کو اس عظیم شاعر کا انتقال ہوا ۔ ان کاجنازہ آبائی گاؤں اتمانزئی میں ہوا جس میں ساٹھ ہزار افراد شریک ہوئے ۔ ان کی وفات کے بعد پختونخوا حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 8ایکڑ رقبے پر ” حجرہ غنی“ کے نام سے ایک کتب خانہ قائم کیا جو ان کے آبائی گھر” دارالامان“ کے قریب واقع ہے۔
غنی خان کی تصانیف
پہلا مجموعہ: دپنجرے چغار“ ( پنجرے کی فریاد) ۔یہ غنی خان کا پہلا شعری مجموعہ تھا جو 1956میں پشاور سے شایع ہوا ۔ اس مجموعے میں شامل زیادہ تر نظمیں ایامِ اسیری کے دوران لکھی گئی ہیں ۔ اس مجموعے کے منصہ شہود پر آنے سے غنی خان ایک صاحبِ طرز ، مستند اور منفرد شاعر کے طور پر مشہور ہوگئے ۔ اس مجموعے میں شامل نظمیں زباں زد عام ہوئیں۔
٭۲- ”د غنی پلوشے“ ( غنی کی کرنیں) ۔غنی خان کا یہ دوسراشعری مجموعہ کابل سے شایع ہوا جس پر 1364کا سال درج ہے ۔ اس مجموعے میں ان کی پہلی نظم ” تسلی“ کے عنوان سے شامل ہے جس کے حاشیے میں غنی خان لکھتے ہیں کہ ”یہ میرا پہلا شعر ہے جو میں نے 14سال کی عمر میں ”نلڈیرا “ نامی بحری جہاز پر کہا تھا ۔“ شعر کچھ یوں ہے ۔
تہمت سے اس جہان میں کس کو ملی نجات ہوتے ہیں آسمان پہ بادل کبھی کبھی۔

تيسرا مجموعہ: ”پانوس“ ( فانوس)۔ غنی خان کا یہ تیسرا ضخیم شعری مجموعہ 1978میں پشاور سے شایع ہوا ۔ اس مجموعے میں ان کی شاعری عروج پر نظر آتی ہے ۔
٭۴- ”د غنی کلیات“ ( کلیاتِ غنی)۔ غنی خان کی یہ کلیات 1985میں کابل سے شایع ہوئی جس میں ان کے تینوں مجموعوں کو یکجا کیا گیا ہے ۔اس کلیات کے آخر میں غنی خان کے حالاتِ زندگی اور ان کے فن کے متعلق پشتو زبان کے مشہور شعرااور ادبا کی آراءشامل ہیں۔جب کہ اس کا پیش لفظ افغانستان کے مشہور انقلابی شاعر اور رہنما کامریڈ سلیمان لایق نے تحریر کیا ہے. یہ کلیات 680صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے اب تک درجنوں ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ بعد ازاں ”لٹون“( تلاش) کے نام سے پشاور سے بھی غنی خان کی کلیات شایع ہوئی۔
پانچواں مجموعہ: دی پٹھان۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی غنی خان کی یہ کتاب 1958 میں پشاور سے شایع ہوئی ۔ اس کا دوسرا ایڈیشن پشتو ادبی سوسائٹی ( اسلام آباد) کی طرف سے میں 1991میں شایع کیا گیا ۔”دی پٹھان“ کو پشتونوں کی تاریخ ، ثقافت اور ادب کے حوالے سے مستند ترین کتاب سمجھا جاتا ہے ۔اس کتاب کے دوسرے حصے میں غنی خان کی انگریزی نظمیں اور افسانے بھی شامل ہیں۔
اس کتاب میں غنی خان لکھتے ہیں کہ ” میں نے لوگوں کو اپنے لوگوں کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ہے ۔ اس کوشش میں میرا نقطہ نظر جذبات سے عاری ، غیر متعصبانہ اور غیرجانبدارنہ نہیں تھا ۔ کیوں کہ میں کوئی پتھر نہیں ہوں کیونکہ پتھر ایک واحد چیز ہے جسے آپ پوری سچائی کے ساتھ غیر جانبدار یا غیر متعصب کہہ سکتے ہیں ۔ سوچ جانبداری کا اظہار ہوتی ہے جب کہ تخلیقی تحریک جانبداری سے بالاتر ہے۔ اس لیے یہ سوچ سے بالا تر ہوتی ہے۔انسان کے لیے تعصب اور جانبداری کا مادہ ماں کے دودھ کی طرح ہے ۔ آپ جتنی جلدی یہ بات تسلیم کر لیں اتنا ہی اچھا ہے ۔جب بھی میں ہائی کورٹ کے کسی جج کو سنجیدگی اور ایک شان کے ساتھ ”غیر جانبدرانہ انصاف بانٹتے دیکھتا ہوں تو مجھے ہنسی آتی ہے ۔ میں اپنی تحریر کو غیر جانبدار نہیں کہوں گا ۔ میں پٹھان ہوں اور مجھے دیانتداری سے کام لینا ہے ۔اگر میں ایسی غیر جانبداری برتوں گا تو مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو جائے گی ۔
٭۶- ” خان صاحب“۔ اردو زبان میں لکھی گئی غنی خان کی یہ واحد کتاب ہے جو مزاح کا بھی شاندار نمونہ ہے ۔ ذرا یہ عبارت دیکھئے جس میں غنی خان نے پشتونوں کی طبقاتی تقسیم کو شگفتگی سے بیان کیا ہے ۔” ارے بھائی خان صاحب ! ذرا یہ تو سمجھائیے کہ سب پٹھان خان کیسے ہوتے ہیں ؟ ۔ نہیں نہیں پٹھانوں میں ایک یا دو خان ہوتا ہے اور تو یہ سب جولاہا ،مولاہا ، لوہار، موہار ،کدو ، کریلا اِدھر اُدھر کا لوگ ہوتا ہے۔ ایک لاکھ کا قبیلہ ہے تو دس ہزار پٹھان ، ان میں بیس تیس بڑا بڑا خاندان ۔پھر اس میں کہیں ایک دو خان نکل آتا ہے۔ یہ ایسا آسان کام نہیں ہے ۔“

غنی خان بطورِ شاعر
غنی خان پشتو ادب میں ایک ممتاز مقام پر متمکن ہیں ۔ ان کی شاعری سے آج پشتونوں کی نہ صرف تیسری اور چوتھی نسل حظ اٹھا رہی ہے بلکہ یہ انھیں مسلسل وہم اور جہالت کے جالوں کے خلاف صف آراءہونے پر بھی ابھار رہی ہے۔ابتدائی زمانے کی کچھ نظموں سے قطع نظر غنی خان ایک رومانوی شاعر ہیں ۔لیکن صرف رومانوی ہونا ان کا تخصص نہیں ہے۔ وہ محض عشق ومحبت ، وصل وخمار ،مستی وسرشاری کے ہی شاعر نہیں ہیں بلکہ وہ یورپ کے قاموسی دانشوروں دیدرو ، والٹیر اور ہولباخ کی طرح مذہب کے ٹھیکہ داروں کے خلاف بھی مسلسل جہد آزما نظر آتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود آپ غنی خان کو کسی ایک اسکول آف تھاٹ کا نمائندہ نہیں کہہ سکتے ۔وہ جب مستی اور سرشاری میں آتے ہیں تو اپنی محبوبہ کے مقابل انھیں ” جنت کی سرخ وسفید موٹی تازہ عریاں حوریں“ بھی ہیچ نظر آتی ہیں ۔ وہ جنت کی حقیقت سے واقف ہیں لیکن اس کے خیال سے دل کو نہیں بہلاتے بلکہ اسی دنیا میں ایک ” گل اندام “ کا مطالبہ کرتے ہوئے حور وقصور ملا کو بخش دیتے ہیں ۔غنی خان اس جہانِ رنگ وبو میں مسرت کا نسخہ ” جانان ،جوانی اور ساغر“ کو ہی سمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ توہم پرستی اور دقیانوسیت پر مسلسل حملہ آور ہونے کے اپنے فریضے سے بھی غافل نہیں رہتے۔غنی خان ایک طرف جمال کے شاعر ہیں تو دوسری طرف جلال کے بھی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کے مختلف رنگ ہیں ۔ وہ کبھی صوفی ، کبھی ایک رندِ مست ،کبھی رجائیت پسند تو کبھی قنوطیت کی انتہاؤں کو چھوتے نظر آتے ہیں ۔
غنی خان جب مائل بہ رجائیت ہوتے ہیں تو یوں گویا ہوتے ہیں۔
موت صد شوق سے چلی آئے
اس کے جب بس میں ہو چلی آئے
گل بدست ہی ا سے ملوں گا میں
یا فرس پر سوار ہوں گا میں

جب بھی چاہوں اک جہانِ رنگ بسا لیتا ہوں میں
راکھ سے ہی پھول اور مستی بنا لیتا ہوں میں

سرخ اشکوں سے بناتا ہوں لبانِ سرخ میں
ساز وسُر میں ڈھالتا ہوں ماتم وگریے کو میں

یا پھر
جتنا بلند پہا ڑ ہو
اس کی چوٹی پر میاں
راستہ ضرور ہے

خوف ایک بھوت ہے
اور امید ہے ضیا

رنج و ا لم ہوں جتنے
مت بھول مسکرانا

لیکن اسی غنی خان پر جب قنوطیت طاری ہوتی ہے تو پھر دیدرو ، والٹیر اور ہولباخ کہیں دور رہ جاتے ہیں ۔ اب وہ آرتھر شوپنہار کے ہمنوا ہیں۔ اب انھیں درونِ آدم افسردگی کا قبرستاں دکھائی دیتا ہے اور دور کہیں آسمان میں نظر آنے والی روشنی کی لکیر کی رہگزر میں بھی غم کے کوہ اور درے نظر آتے ہیں۔ اب وہ یوں گویا ہوتے ہیں ۔
زندگی کا من رنجن ناز و مستی جاناں کی
ساز ہیں جوانی کے اور اسی میں پوشیدہ
غم کا ایک ہنگامہ

ہے بظاہر سرخ پھولوں نے مجھے گھیرا ہوا
ورنہ تنہا ہوں غموں نے ہے مجھے گھیرا ہوا
یا پھر
اے بادِ صبا تو نہیں جانتی کچھ
تجھے کیا خبر ہے تجھے کیا پتا ہے
کیے ہم نے عالَم ہیں برباد کتنے
زبوں کر چکے ہم جہاں کیسے کیسے
قنوطیت کی آخری سرحدپر کھڑے غنی خان کا انداز کچھ یوں ہوتا ہے ۔
سرخ کلیوں کی مسکراہٹ میں
سسکیاں ہیں خزاؤں کی پنہاں
البتہ غنی خان اس قنوطیت کے عالم میں بھی شیخ جی پر چوٹ کیے بغیر نہیں رہتے ۔
یہ جنوں آمادگی ہے خود سے بیزاری مری
شیخ جی نے چھیڑ رکھے ہیں عذابی مسئلے
غنی خان کی شاعری میں رجائیت اور قنوطیت پہلو بہ پہلو چلتی نظر آئے گی ۔عمومی طور پر پشتون غنی خان کو ایک انقلابی شاعر کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ان کے مشہور ترانے
اے مرے وطن میرے لعل وگہر کے نشاں
تیرے ہر دَرے میں ہیں میری تیغ کے نشاں
کو تو گویا پشتونوں نے اپنے قومی ترانے کا درجہ دے رکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں انقلابی شاعر ہر گز نہیں ہیں ۔وہ محنت کش عوام کی طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے خاموش نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعری کے عروج کا دور بین الاقوامی طور پر بڑی تبدیلیوں کا ایک انقلابی دور تھا ۔انقلابِ روس کے بعد” گراں خواب چینی“ سنبھل چکے تھے ،کوریا سے لے کر ویت نام اور کیوبا سے لے کرالجزائر، روڈیشیا ، جنوبی افریقہ ، انگولا ، موزمبیق اور گنی بساؤاور جنوبی یمن سے لے کر ایران و افغانستان تک میں ایک معرکہ برپا تھا لیکن غنی خان ان سب سے بے نیاز رہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب 27اپریل1978کو جب افغانستان کے صبح پرستوں نے خلق پارٹی کی قیادت میں ظاہر شاہوں کی باقیات اور داؤد خانوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں اچھال پھینکا توغنی خان نے تب بھی کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔غنی خان کی دھن تب بھی کسی نے نہیں سنی جب افغانستان کا انقلابِ ثور کامریڈ نور محمد ترہ کئی کی شہادت کے بعد کامریڈ ببرک کارمل اور کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ کی قیادت میں ایمان فروش ملاؤں ، وطن فروش خائنوں اور بیرونی تجاوز کاروں کے خلاف ایک سرفروشانہ جدوجہد میں مصروف تھا ۔غنی خان نے نہ تو اس انقلاب کے نغمے لکھے نہ ہی اس کے نوحے لکھے جس سے نہ صرف پشتونوں بلکہ مظلوم بلوچوں اور مظلوم سندھیوں تک کی تقدیر وابستہ تھی ۔جس انقلاب کی کامیابی نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کی تقدیر تبدیل کر کے رکھ دیتی ۔ لیکن غنی خان جو محض ایک شاعر تھے ان سے کیا
شکوہ کہ یہاں تو بڑے بڑے جغادری قوم پرستوں کومرکز ومحور سے لے کر نعرے اور جھنڈے بدلتے دیکھا گیا ہے جو برسوں کابل میں انقلابی حکومت کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ جنھیں معمولی نزلہ زکام بھی ہوتا تو ماسکو سے لے کر پراگ اور وارسا تک اسپتالوں کے در وا ہو جاتے ۔ وہ جو پختونستا ن کے شاعر ملنگ جان کے کابل میں بیٹھ کر پختونستان کا دن مناتے رہے ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے لے کر چوک اور چوراہوں تک پر کھڑے ہو کر شعلہ بار تقرریں کرتے رہے اور کامریڈ نجیب اللہ کو اپنا بھتیجا قرار دیتے رہے لیکن پھر انھیں ہی دشمنوں کے نرغے میں چھوڑ کر واپس آ گئے ۔ اب ان کے ہاتھوں میں پختونستان کی بجائے پاکستان کا پرچم تھا اور لب پر” انقلاب زندہ باد“ کی بجائے ” پاکستان زندہ باد“ کے نعرے تھے ۔
مظلوم قوموں کا ایک ”نمائندہ “ جب کراچی ائیر پورٹ پر اترا تو اس کے الفاظ تھے ” کابل اب رہنے کی جگہ نہیں ہے۔“ لیکن کوئی اس سے یہ تو پوچھتا کہ کابل اب بھلے رہنے کی جگہ نہ ہو ،آپ سلامت آ گئے ناں۔ پیچھے کامریڈ نجیب اللہ اور دیگر کامریڈوں کے کیا حال ہیں جو کابل سے فرار کو انقلاب اور انقلابی آدرشو ں کی توہین سمجھتے ہیں ؟ اور یہ بھی بتائیں کہ انقلابِ ثور کو تو امریکی سامراج ، اس کے پالتو ”صالحین“ سے لے کر پاکستان،چین وعرب و اشرار پڑوسیوں تک نے سولی چڑھایا لیکن پختونستان اور بلوچستان کے خوابوں کو کس نے شہید کیا ؟؟؟۔
ؓبہر کیف بات کہیں اور چلی گئی ہم غنی خان کی شاعری کی طرف آتے ہیں کہ انھوں نے انقلابِ ثور کی آمد ورخصتی پر تو کچھ نہیں کہا البتہ بامیان کے عالمی تاریخی ورثے پر ان کی ایک خوبصورت نظم ”بامیان“ کے عنوان سے ضرور موجود ہے ۔ بدھا کہ یہ دو بلند قامت مجسمے پہاڑوں کو تراش کر بنائے گئے تھے اور یہ گندھارا آرٹ کے شاندار نمونے تھے ۔ ان مجسمو ں کو مارچ2001میں ظلمات پرست طالبان نے دنیا بھر کے احتجاج کے باوجود بارود سے اڑا دیا تھا ۔البتہ غنی خان اس تباہی کو دیکھنے سے پانچ سال قبل ہی راہی ملک عدم ہو چکے تھے۔
بات خان غنی خان کی شاعری کی ہو رہی ہے تو یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ انھوں نے آزاد نظمیں بھی کہیں اور نثری بھی لیکن اپنی پابند نظموں میں وہ بسا اوقات شعری قواعد وضوابط اور علم عروض سے روگردانی کرتے نظر آتے ہیں ۔غنی خان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری میں ان کا کوئی استاد نہیں تھا انھوں نے اپنے ذوق کو ہی خضر جانا اور اس کی رہنمائی میں اپنا ادبی سفر طے کیا.

غنی خان اور مُلّا
غنی خان کی ملا اور ملائیت سے دشمنی گویا ازلی ہے ۔ انھیں جب بھی موقع ” ملا جان“ اور ” ملا بابا“ پر زبردست چوٹ کی ۔مزے کی بات یہ ہے کہ غنی خان کہ وہ نظمیں انتہائی مقبول ہوئیں جن میں ملا اور ملائیت کو ہدف بنایا گیا اور ”حقائقِ ثابتہ“کا مذاق اڑیا اور ان پرعقلی سوالات اٹھائے۔غنی خان کو ” ملا جان“ اور اس کے کرتوتوں سے اللہ واسطے کا بیر یوں ہی نہیں ہو گیا بلکہ اس دشمنی کی تاریخی جڑیں ہیں ۔دراصل غنی خان نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی اس میں ایک طرف انگریزوں کا جبر تھا تو دوسری طرف ملا حضرات تھے جو انگریزوں کے کفش بردار بنے ہوئے تھے ۔ ہر نئی چیز بالخصوص تعلیم کے دشمن ۔باچا خان کے الفاظ میں ” ہمارے وطن میں نام نہاد مولانے ” حضرت “ اور ”بزرگ “ انگریزوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے تھے اور لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے سے بدستور منع کرتے رہتے تھے۔ انگریزوں نے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ پٹھان تعلیم حاصل کر لے گا اور اس میں سوجھ بوجھ پیدا ہو جائے گی تو تمھاری چلی چلائی دوکان ٹھنڈی پڑ جائے گی اور پھر تمھیں خیرات اور شکرانے ونذرانے دینا بند کر دیں گے ۔ میں ان ملاؤں کو بہت
سمجھاتا تھا مگر یہ کب سمجھتے تھے۔۔۔۔انھیں جب خدا نہیں سمجھا سکا تو میں کیا سمجھاتا ۔“ انگریزوں کی ایما پر پشتونوں کو جدید تعلیم سے روکنے کے لیے ملاؤں نے پروپیگنڈے کا ایک طوفان گرم کر رکھا تھا ۔ اس حوالے سے ایک شعر کی خوب تشہیر کی گئی تھی ۔
سبق چی د مدرسے وائی ، پارہ د پیسے وائی
جنت کی بہ ہی زے نہ وی دوزخ کی بہ گھسے وائی
ترجمہ ۔ ” جو مدرسے یعنی اسکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ یہ پیسوں کے لیے کرتے ہیں ۔ جنت میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہوگی بلکہ یہ دوزخ میں دھکے کھائیں گے ۔“
یہ شعر بچپن میں غنی خان نے بھی بارہا سنا ہو گا لیکن سامراج کے مرغِ دست آموز رجعتی ملاؤں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک شعر انھیں کتنا مہنگا پڑے گا ۔ ” ملا بابا“ سے نفرت کی محض ایک یہی وجہ نہیں ہے بلکہ دوسرا اہم واقعہ غنی خان کے لڑکپن کے زمانے کا ہے ۔ جب وہ جامعہ ملیہ دہلی کے طالب علم تھے تو اسی زمانے میں افغانستان کے عظیم سامراج مخالف اور ترقی پسند حکمران امان اللہ خان کے خلاف انگریزوں نے نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے ذریعے شورش برپا کر دی ۔ تب باچا خان نے امان اللہ خان کی مدد کے لیے غنی خان کو ایک طبی وفد کے ہمراہ افغانستان روانہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انگریزوں کی مخالفت اور مداخلت کے باعث اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔انگریزوں کی مدد سے بچہ سقہ نامی ایک ڈاکو افغانستان پر قابض ہو گیا جس میں اسے ملاؤں کی دامے، درمے ، سخنے مدد حاصل تھی ۔امان اللہ خان جنھیں” صالحین“ نے کافر قرار دیا تھا یورپ چلے گئے ۔ امان اللہ خان کا جرم یہ تھا کہ وہ سامرج مخالف تھے اور سوویت یونین ، کامریڈ لینن اور پھر کامریڈ اسٹالین سے ان کے پرجوش تعلقات تھے ۔انھوں نے سوویت یونین سے دوستی اور باہمی تعاون کا معاہدہ بھی کیا تھا ۔ انھوں نے افغانستان کو ایک جدید ملک بنانے کے لیے ترقی کے راستے پر گامزن کیا تھااور ملا اور ملائیت کو تعمیر وترقی کا دشمن سمجھتے تھے ۔وہ نہ صرف عورت کی آزادی کے علم بردار تھے بلکہ انھوں نے اس کے لیے عملی اقدامات بھی کیے تھے ۔ سو ملا اور ملائیت سے نفرت ہمیشہ کے لیے غنی خان کے شعور کا حصہ بن گئی ۔
انہی وطن فروش اخونزادوں اور نام نہاد ” حضرات“ کی آل اولاد تھی جو بعد میں ظاہر شاہ اور داؤد خان کے مظالم کے جواز میں مذہب کی سند پیش کرتی تھی ۔جنھوں نے افغانستان کے ثور انقلاب کو خون میں نہلایا اور اس کے ایک بہادر سپوت کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ کو تختہء دار پر لٹکایا ، ہزاروں معصوم انسانوں کے گلے کاٹے اور اب بھی کہیں اپنے سابقہ آقاؤں کے خلاف تو کہیں ان کی تائید وایماءپر یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس لیے ” ملا جان“ اور غنی خان کی کبھی نہیں بن سکی اور یہی غنی خان کا سب سے طاقتور پہلو ہے جس کے باعث آج تک ان کی شاعری ريليونٹ ہے اور جہل کی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہونے والوں کا موثر ہتھیار ہے۔
پشتون سماج پر مذہبی انتہا پسندی کی جو یلغارچار دہائی قبل عالمی سامراج اور اس کے مقامی شامل باجوں کی طرف سے شروع کی گئی تھی اس نے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس یلغارکے ذریعے ایک طرف تو افغانستان کے سوشلسٹ انقلاب کو خاک وخون میں ملا کر فتح کے شادیانے گئے تو دوسری جانب حریت پسند، ترقی پسند اور ایک انسان دوست سماج کو ایسی پستی میں دھکیل دیا گیا جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔جو کام یہاں برسوں قابض برطانوی سامراج اپنے تمام تر وسائل اور جبرکے باوجود نہیں کرسکا اسے سات سمندر پار بیٹھے ہوئے امریکی استعمار نے اپنے مقامی ہمنواؤں اور ہمکاروں کی مدد سے ممکن کر دکھایا کہ وقت کے پنڈولم کا جھکاؤ واضح طور پر ان کی طرف تھا ۔
آج غنی خان کے پشتونوں کو عمومی طور پر بنیاد پرست اور رجعتی سمجھا جاتاہے۔طالبان، مسلح جنونی لشکر، خودکش بمباراور اس طرح کی ان گنت اصطلاحات ان سے مخصوص کر دی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ غنی خان کے لوگ ہی تھے جنھوں نے برصغیر کی آزادی کی جنگ وطن پرست اور سیکولر قوتوں کے شانہ بشانہ لڑی ۔انھوں نے مذہب کی بنیاد پر ہمیشہ سیاست کو رد کیا اور عدم تشدد پر یقین رکھنے کے باوجود بندوقیں اٹھا کر پختونخوا میں بسنے والے اپنے ہندو اور سکھ بھائیوں کی حفاظت کی ۔ جنھوں نے راوی کے کنارے ہونے والے قتل عام اور امرتسر میں انسانیت کی ہونے والی تذلیل کو اپنے وطن میں نہیں دہرانے دیا ۔اور پھر یہ غنی خان کے لوگ ہی تو تھے جنھوں نے 27اپریل 1978کو اپنے بے نظیر طریقے اور حکمتِ عملی سے کابل کے قصرِ صدارت پر سرخ پھریرا لہراتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا تھا ۔ یہ کام تو ہندوستان اور ایران کے انقلابی بھی بے پناہ قربانیوں کے باوجودنہیں کر سکے تھے ۔
سو غنی خان کے پشتونوں کا یہ مقصوم نہیں ہے ۔وہ حریت پسندی، وطن پرستی ،بشر دوستی اور اعلیٰ انقلابی روایات کے امین رہے ہیں ۔یہ ان کا تاریخی ورثہ ہے جسے ان سے کوئی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں چھین سکتا ۔پشتونوں نے چار دہائیوں میں ایک دنیا اجڑتے دیکھی ہے ،انھوں نے لاکھوں ٹن بارود کی آگ دیکھی ہے ، اپنے بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں دیکھی ہیں اور بکھرے ہوئے اعضا سمیٹے ہیں۔ عیار دشمنوں نے اپنی جنگ ان کے شانوں پر مذہب کے نام پر پھینکی ہے اور اس کے سارے ثمرات خود سمیٹے ہیں ۔ملا اور ملائیت نے امریکی ڈالر، تیل کی دولت اور خیرات میں ملے ہوئے اسلحے کے ذریعے جنگ پرستی کے اس جنون کو پشتون سماج میں خوب پھیلایا ہے۔لیکن اب وقت کے پنڈولم کا جھکاؤ ان کے دشمنوں کی طرف نہیں ہے۔ وہ جو افیم لائے تھے اب اس کا جادو سر چڑھ کر نہیں بولتا ،اس افیم کا سحر ٹوٹ رہا ہے ،غنی خان کے لوگ بیدار ہو رہے ہیں اور اس بیداری میں غنی خان آج بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔یہی غنی خان کی عظمت ہے۔

غنی خان کا فلسفہ
کچھ عرصہ قبل کراچی میں پختونخواکے ایک بائیں باز و کے معروف رہنما سے ملاقات ہوئی ۔باتوں باتوں میں غنی خان کی شاعری اور اس کے اردو ترجمے کا ذکر ہوا تو انھوں نے غنی خان کی شاعری کو ”مارکسزم “ قرار دیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غنی خان کے فکرو فلسفے کے حوالے سے کتنے فکری مغالطے موجود ہیں ۔ غنی خان پشتو زبان کے غالباََپہلے شاعر ہیں جنھوں نے فلسفیانہ موضوعات کا اپنی شاعری میں اظہار کیا ہے۔ ان کی اکثر نظمیں فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہیں اور ان میں ایک طرح کا فلسفیانہ ابہام بھی پایا جاتا ہے ۔لیکن ان کا یہ فلسفیانہ رنگ نہ تو مارکسزم ہے اور نہ ہی اس سے قریب کی کوئی شے۔جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ غنی خان کہیں بھی طبقاتی جبر اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے ۔ عمیق فلسفیانہ تفکر کے باوجود غنی خان ایک مادیت پسند فلسفی نہیں ہیں ۔انھوں نے مشرق ومغرب کے فلسفہ قدیم وجدید کا بخوبی مطالعہ کر رکھا تھا لیکن ان کا واضح رحجان ہمیں فلسفے کی مابعد الطبعیاتی روایات کی جانب نظر آتا ہے جو تصوفانہ رنگ لیے ہوئے ہے ۔ ان کی نظمیں ” کیمیاگر“ ،” جب کچھ نہیں تھا کیا تھا ؟“ ،” منصور“، ”زندگی“اور ”توبہ“ وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
اگرچہ بعض جگہوں پر غنی خان کے کلام میں جدلیاتی رنگ بھی نظر آتا ہے ۔ وہ اپنی ایک نظم ”میں کشاں کشاں رواں ہوں “ میں کہتے ہیں کہ

کل تخم، آج گل ہوں ، کل مشت ِ خاک پھر سے
میں موج ہوں صبا کی، جھونکا ہوں اک ہوا کا
کبھی باغ سے گزرتا ، صحرا سے ہوں گزرتا
کبھی برق باد وباراں ، کبھی آگ میں فروزاں
لیکن رواں دواں ہوں میں پیش رفت کرتا
ٹھہرا اگر کہیں تو معدوم ہو نہ جاؤں ، تحلیل ہو نہ جاؤں.

غنی خان کا تخصص یہ ہے کہ وہ مابعدالطبیعات کی انسان دوست روایات کے نمائندے ہیں اور مابعد الطبیعات کے انسان کش نظریات پر پوری قوت سے حملہ آور ہوتے ہیں ۔ مابعد الطبیعات جو بالادست طبقات کا ایک آزمودہ ہتھیار رہا ہے اور اسے ہمیشہ قبولیت ِ عام کی سند بھی ملی کیوں کہ اس کی پشت پر طبقاتی ریاستوں کی قوت تھی اورآج بھی سامراجی واستحصالی قوتیں لوگوں کے شعور کی سطح کو کند کرنے اوراپنے مفادات کے حصول کے لیے اسے استعمال کرتی ہیں۔مابعد الطبعیات کا مقابلہ ہمیشہ مادیت پسندی نے کیا ہے ۔ البتہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اس رجعتی اور انسان دشمن مابعد الطبیعات کو اسی کے ترقی پسند اور انسان دوست رحجان نے بھی جواب دیا ہے اور مقدور بھر اس کا مقابلہ بھی کیا ہے ۔ ہند میں بدھا کی شکل میں ، ایران میں مزدک ، بابک خرمی اورمانی شکل میں ، سندھ میں صوفی شاہ عنایت شہید کی شکل میں، افریقہ میں مہدی سوڈانی کی شکل میں تو جنوبی امریکا میں ” لبریشن تھیالوجی“ کی شکل میں ۔غنی خان جنت اور دوزخ کے افسانوں پر ، جزو سزا کے فلسفوں پر اور تقدیر وقسمت سے لے کر گناہ وثواب کے مہمل فلسفوں تک پر سوالات اٹھاتے ہیں اور یوں عوام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
غنی خان ابھی زندہ رہیں گے
غنی خان کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جن کی عظمت ان کی زندگی میں ہی تسلیم کر لی گئی اور عوام کی اکثریت نے انھیں اس مقام پر متمکن کیا جن کے وہ بجا طور پر حقدار تھے ۔غنی خان نے اپنے پہلے شعری مجموعے ” د پنجرے چغار“ کے آخر میں لکھا تھا کہ ”کتاب کا پہلا شعر میں نے سمندری جہاز ”نلڈیرا “ میں بیٹھ کر بحرِ ہند عبور کرتے وقت کہا تھا اور آخری شعر ہری پور جیل کی ایک چکی میں ۔ اس دوران مجھ پر مستی ، خوشی، غم ، ارمان و حسرت ، امید ، خوف ہنسی اور رونے کی مختلف کیفیتیں گزریں جو اس کتاب کے صفحات پر میں نے منتقل کیں ۔ مگر افسوس کہ میری زبان میں میرے دل جتنی طاقت اور ہمت نہیں ۔یہ بیان احساس کی نسبت کمزور ہے مگر جو کچھ بھی ہے حاضر ہے ۔میں نے کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کہ بلکہ ہر کیفیت کو طشت ازبام لانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ یہ میری ذاتی تصویر ہے جو کسی حد تک نامکمل اور ٹوٹی پھوٹی ہے مگر اس کے باجود میں اپنے کھلے ضمیر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہے وہ میرا ہے ۔ بلا کسی غرض اور لالچ کے میرا پنا تحفہ ہے جو میں اپنی قوم کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔کاش کہ میں اس میں زبان ، دلفریبی اور فہم وکمال کے دریا بہا سکتا ،مگر کیا کروں مجھ سے اتنا ہی ہوسکا ۔ انسان اپنی اوقات سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ اس میں جس قدر بھی حسن پایا جاتا ہے یہ اگر میری موت کے بعد بھی زندہ رہا تو میں سمجھوں گا کہ میں نے واقعی آبِ حیات پالیا ہے اور اب یہ مجھے زندہ رکھے گا ۔
غنی خان کی شاعری مخصوص مادی حالات کی پیداور ہے جو ابھی باقی ہیں بلکہ یہ مزید ابتر ہوئے ہیں اس لیے غنی خان ابھی زندہ رہیں گے ان کی شاعری ابھی دیر تک ريليونٹ رہے گی ۔ جب نئے مادی حالات میں نئے غنی خان جنم لیں گے تب بھی ان کا نام اور کام یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ کے لیے غنی کو فراموش کر دینا کوئی اتنا آسان نہیں ہوگا ،کیوں کہ غنی خان کے لوگ زندہ رہیں گے ۔ وہ لوگ جن کے لیے غنی خان نے کہا تھا کہ ”میں اپنے لوگوں کو پڑھا لکھا اور روشن خیال دیکھنا چاہتا ہوں ۔ایسے لوگ جو انصاف کرنا جانتے ہوں اور اپنے لیے قدرت کے اصولوں کے عین مطابق روشن مستقبل تلاش کر سکیں۔“






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *