Main Menu

ٹوڑھی پھاٹک؛ تحرير: رمضان شورو

Spread the love

اس رات ہم سینٹرل جیل حیدرآباد کے کورٹ وارڈ کی گیٹ والے سیل میں قید تھے. ہم پے ملک کی غداری کا الزام تھا جو کہ اسپیشل ملٹری ٹرائل تھا۔ میں میرپور بٹھورو سے گرفتار ہوا تھا۔ یہ 10 مئی 1984کا دن تھا جب میں میرے اس وقت کے تنظیمی ساتھیوں ابراھیم سوھو. خادم پھلپوٹو سجاول کالج میں ایک طلبہ تنظیم کی جانب سے ہمارے تنظیمی ساتھی ڈاکٹر غفور شورو کے ساتھ لڑنے پر ان سے بدلہ لینے کے لیئے صلاح مشورے میں مصروف تھے اور 12مئی سے فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کے امتحانات شروع ہونے والے تھے ۔
مجھے بھی فرسٹ ایئر کا امتحان دینا تھا تو ہم پلاننگ کر رہے تھے کہ امتحانات کے آخری پرچے پر ہم ان طلبہ تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں کو کیسے نشانہ بنائینگے جس کے لئے خیرپور سپیریر سائنس کالج میں اس وقت کے شاگرد تنظیم کے اس وقت کے بڑے لیڈر شبیر جمالی سے لڑ کر شھرت حاصل کرنے والے خیرپور کے علائقے گمبٹ کے رہائشی خادم پھلپوٹو کو اس وقت کی ہماری پارٹی نے سجاول کالج کے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی اور ان سے مل کر دوسری طلبہ تنظیم کے طلباء سے مقابلا کرنے کے لیئے بھیجا تھا۔
ہم نے میٹنگ کے بعد ابراھیم سوھو کی اوطاق پر کھانا کھاکر ھاتھ دوبے کی تیاری کر رہے تھے تو اچانک ضیائی مار شلا کے دؤر مین سیاسی ھلچل کو کچلنے کے لیئے بنائی گئی ملٹری ایجنسی آیف آئی یو ( فیڈرل انویسٹیگیشن یونٹ) کے میجر غفور کی سربراھی میں آرمی. ایف آئی یو کے اہلکاروں جو بھی آرمی سے تھے اور پولس نے چڑھائی کر کے مجھ سمیت 16 ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور اسمائیل سوھو کو ان کی آرا مشین سے بلوا کر ہمارے ساتھ گرفتار کر کے میرپور بٹھورو تھانے پر لے آئے. اس وقت ٹھٹہ کے ایس پی فخرالدین بلوچ تھے اور ڈپٹی کمشنر قلی بخش رند تھا. جن کو ہماری گرفتاری کا پتا پڑا تو انہوں نے ایس ایچ او بٹھورو سے ھاٹ لائین پر رابطہ کر کے احکامات دیئے کہ گرفتار لڑکوں اور اسماعیل سوھو پر فورن ایف آئی آر کاٹ کر لاک اپ کرو کسی بھی صورت میں لڑکوں کو آرمی کے حوالے مت کرنا ان لوگوں نے شہید نذیر عباسی کو بھی تشدد کرکے مار ڈالا تھا اور ان کو تو سر عام دن کے ڈھائی بجے اٹھایا ہے اس تائیم ہی 11 لڑکوں کو چھوڑ دیا گیا باقی 5لڑکوں کے خلاف غداری اور ملک دشمنی کے مقدمات درج کرکے لاک اپ کردیا گیا. مقدمہ درج ہونے کے بعد جب میجر غفور نے ہم کو ان کے حوالے کرنے کی بات کی تو ایس ایچ او نے میجر غفور کو ہم کو ان کے حوالے کر. نے سے صاف انکار کردیا کہ ایس ایس پی اور ڈی سی صاحب نے منع کیا ہے کہ جو بھی تفتیش کرنی ہے یہاں کرو باقی لڑکے آپ کے حوالے نہیں کرین گے جس پر وہ ناراض ہوکر چلے گئے اور دوسرے دن اتوار کی چھٹی ہونے کے باوجود دونوں آفسران کاتبادلہ کردیا گیا گیا اور شاھد نذیر ڈپٹی کمشنر بن کر آ گئے ایس پی کا نام یاد نہیں. جس کے بعد پیر کو ہم ٹھٹہ پولس اسٹیشن لایا گیا وہان بھی غالب شیر خان نامی ایس ایچ او تھا جو بھی آرمی کی آشیرباد سے وہاں تعینات تھا. پھر یہ ہوا کہ ایف آئی یو والے شام کو سات بجے ہمیں ملٹری کئمپ مکلی لے جاتے تھے اور صبح 7بجے واپس لاک اپ میں چھوڑ جاتے تھے. یہ کھیل 3/4ماہ تک جاری رہا اس دوراں منشی ابراھیم کی پہنچ اس وقت کے وزیر دفاع میر علی احمد تالپور تک ہو گئی جو کہ اسمائیل سوھو کی رہائی کے لیئے باگ دوڑ کر رہا تھا جس سے ہمارا بھی بھلا ہوگیا اور 3/4ماہ کے جاکر ملٹری تشدد سے جان چھوٹی اور ایف آئی یو والوں نے ہاتھ نکالا جس کے بعد ہمیں سینٹرل جیل حیدرآباد بھیج دیا گیا تو ہمیں سینٹرل جیل آئے ھوئے 9/10ماہ ہوئے تھے کہ اس رات جیسے میں ذکر کر کے آیا ہوں کہ ہم دو بجے سوئے ہی تھے کہ بشیر جمعدار اپنے روایتی انداز میں گوڑ اور شورکرتے ہوۓ آ دھمکا۔۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *