Main Menu

ریاست کی بندر بانٹ سے جڑے تلخ حقائق اور ہماری قومی تحریک؛ تحریر : اسحاق شريف

Spread the love

ریاست جموں کشمیر کی تشکیل کے وقت بھی گلگت کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ 1935 میں روس کو مانیٹر کرنے کے لئے ہی گلگت ایجنسی بنائی گئی تھی۔ 1947 میں دہلی اور ماسکو کا راستہ کاٹنے کے لِئے ہی ریاست جموں کشمیر کے تین ٹکڑے کرکے گلگت کو پاکستان کے زیر اہتمام لایا گیا تھا۔ 2019 میں بھی گلگت ہی کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو دیکھ کے اور سی پیک کو مدنظر رکھ کے نئے گریٹ گیم کا آغاز پانچ اگست کو کیا گیا ہے۔ کسی کو میری بات اچھی یا بُری لگے بلتستان ، لداخ ، جموں اسر کشمیر کا مستقبل گلگت ہی سے منسلک ہے۔ گلگت کے فیصلے سے ہی بندربانٹ کا آغاز ہوگا۔ آمریکہ ، چائنہ ، انڈیا اور پاکستان سب ہی کے مفادات گلگت ہی سے جُڑے ہوئے ہیں۔ گلگت دنیا کے لئے اُس ہڈی کی مانند ہے جس کو نگلنا بھی مشکل ہے نکالنا بھی ناممکن ہے۔ چار ايٹمی طاقتوں کا برائے راست ٹکراو گلگت ہی میں ہوگا۔ یاد رکھیں دنیا کی دلچسپی دو کروڈ انسانوں میں نہیں بلکہ خنجراب سے سازین تک کی راہداری میں ہے۔
دُنیا کی دلچسپی لوگوں میں نہیں راہدریوں میں ہے۔ دو ملک اسی راہداری کو اپنے کنٹرول میں لاکے معاشی ترقی کرنا چاہتے ہیں اور دو ملک اس راہداری کو روک کے دوسری دو قوتوں کو شکست دے کے اپنی داداگری برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیں آج بھی سی پیک بنانے کے خواہشمندوں سے روکنے کہ خواہشمند زیادہ بااثر اور مضبوط ہیں۔ اس پورے کھیل کو سمجھے بغیر چلائی جانے والی کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہا کا جھنڈا

آزادی کی چابی گلگت میں موجود ہے ادھر اُدھر وقت برباد کرینگے تو قفل زنگ الود ہوگا اور دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔ ضد چھوڑ کے اس پر غور کریں شائد منزل مل جائے. یاد رکھیں افراد اور اقوام سے جغرافیہ اہم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے پسند کریں یا گالی دیں آپ کی مرضی لیکن ٹھنڈے دل و دماغ اس پر غور ضرور کریں۔۔۔۔۔۔۔
شائد قوم کی بھلائی ہو۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *