Main Menu

پرائيوٹائزيشن حکومتی نااہلی اور ذاتی مفادات کا نتيجہ ہے، محنت کش اپنے حق کيليے لڑنے پہ مجبور ہيں، شوکت علی چوہدری

Spread the love

ايک طرف حکومت کہتی ہے کہ ہم اداروں کو پرائيوٹ اس لئے کر رہے ہيں کہ ہمارا کام حکومت کرنا ہے نہ کہ کاروبار کرنا اور دوسری طرف حکومتی اکابرين کمپنياں خريد کر کارخانے بناتے ہيں

ڈنڈوت سيمنٹ فيکٹری کوئ ايک معاملہ نہيں بلکہ ايسے سينکڑوں معاملے مُلک ميں بکھرے پڑے ہيں، ڈنڈوت فيکٹری کے محنت کشوں کے تيرہ سو خاندان بے آسرہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہيں، سیکریٹری جنرل پاکستان مزدور محاذ کی گفتگو

   روزنامہ پونچھ ٹائمز

اسلام آباد ميں جاری محنت کشوں کے دھرنے کے بارے ميں گفتگو کرتے ہوۓ سیکریٹری جنرل پاکستان مزدور محاذ شوکت علی چوھدری نے کہا ہے کہ محنت کشوں کے يہ احتجاجات پاکستانی تاريخ کے منفرد احتجاجات ہيں پہلے جو دھرنا ہوا اور جو اب يہاں جاری ہے ميں ايک بڑی تعداد خواتين کی ہے۔ يہاں موجود سارے لوگ اپنے حقوق کے لئے نکلے ہيں۔ ليڈی ہيلتھ ورکرز، پيراميڈيکل سٹاف اور ديگر محنت کشوں کے مطالبات ايک عرصے سے نہيں مانے گۓ۔
انہوں نے کہا کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ايکدم نہيں ہوتا
کے مصداق دہائيوں کے جبرو استبدال نے حالات کو يہاں لا کھڑا کيا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتوں نے پرائيويٹاہزيشن شروع کی جس کی بدولت بے روزگاری ميں بے انتہا اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پاس پھر بھی کچھ ريکارڈ ہوتا ہے مگر پاکستان ميں حکومتوں کے پاس کوئ ريکارڈ رکھنے کا رواج نہيں ہے۔ حکومت کو کوئ پتہ نہيں کہ ای او بی آئ ميں کتنے لوگ رجسٹرڈ ہيں، کتنے لوگ سوشل سيکورٹی ميں رجسٹرڈ ہيں اور کتنے لوگ کونسے ممالک ميں ہيں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے مطابق ڈھائ کروڑ لوگ بے روزگار ہوۓ۔ ہونا تو يہ چاہيے تھا کہ جن لوگوں کو کورونا کی آڑ ميں نوکريوں سے نکالا گيا انہيں پيسے ديے جاتے مگر انہيں کہا گيا کہ جب دوبارہ فيکٹرياں شروع ہونگی ہم آپکو کام پر رکھيں گے ۔
اب جب دوبارہ فيکٹرياں کُھل گئيں تو انہوں نے پرانے لوگوں کو چھوڑ کر دس دس ہزار روپے ميں نۓ لوگوں کو بھرتی کرنا شروع کر ديا۔ جبکہ گورنمنٹ کے اپنے کاغذات کے مطابق کم سے کم تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے ہے۔ اب پرانے لوگ سب بے روزگاری کا شکار ہو گۓ ہيں جن کی تعداد لاکھوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ يہ ايک بے چينی ہے جو کہ پاکستان کے لوگوں ميں بڑھتی اور پھيلتی چلی جا رہی ہے۔

اسلام آباد دھرنے سے ديے گۓ اپنے ايک انٹرويو ميں انہوں نے کہا کہ جس طرح سٹيل کا ستيا ناس کيا گيا نہ صرف محنت کشوں کا استحصال کيا گيا بلکہ ملکی ترقی ميں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے کا ستيا اس بھی کر ديا گيا۔ سٹيل مل حکومت کی نااہلی اور بيرونی تجارتی مفادات کا شکار ہوئ۔ سٹيل مل وہ واحد يونٹ تھا جس نے آگے کارخانے بنانے تھے ٹيکنالوجی کو منتقل کرنا تھا اُس کو بہت پلاننگ کے ساتھ تباہ و برباد کر ديا گيا۔ پہلے مشرف کے دور ميں پی ٹی سی ايل کو بيچا گيا جس سے باون ہزار مزدور بے روزگار ہوۓ۔ اسی طرح انہوں نے ہی آئ اے کا بيڑا غرق کيا، پاکستان ريلوے کا ستيا ناس کيا ۔ انہوں نے بيچنا ضروری سمجھا چونکہ اس ميں اُنکا ذاتی فاہدہ تھا ۔ يہ الگ بات ہے کہ چند ادارے ابھی تک ان سے نہيں بِک پاۓ مگر انکی ہوری منصوبہ بندی ہے کہ اداروں کا برباد کرو اور پھر انہيں بيچو۔
اس عمل کو موجودہ حکومت نے بھی آگے بڑھايا جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ اس ملک کی قومی آمدنی ختم ہو گئ۔ آج حکومتوں کے پاس اپنی کوئ قومی آمدنی نہيں ہے۔ تمام معاملات يا تو قرضے پہ چلتے ہيں يا لوگوں کے ٹيکسوں پہ يا باہر ممالک ميں کام کرنے والے مزدوروں کی خون پسينے کی کمائ سے چلتے ہيں اور آئ ايم ايف کے قرضے کے اوپر يہ ملک چل رہا ہے۔ آئ ايم ايف سامراجی شرائط پر قرضہ دیتا ہے اور اس ادارے نے ہميشہ عوام کا خون چوسا ہے۔ اور ہمارے حکمرانوں نے ہميشہ آئ ايم ايف کی شرائط کے اوپر قرضے لئے ہيں اور نتيجتاً مہنگائ بڑھی ہے۔ کوئ دور حکومت ايسا نہيں ہے جس ميں آئ ايم ايف سے قرضہ آيا ہو اور مہنگائ ميں کمی آئ ہو۔
انہون نے کہا کہ يہ وہ سارے عوامل ہيں جنہوں نے محنت کشوں کو اس ڈگر پہ لا کے کھڑا کر ديا ہے۔ ايک طرح سے سارے کا سارا معاشرہ پھٹ پڑا ہے۔ تمام سياسی جماعتيں محنت کش طبقے کے ان سارےمسائل سے عدم دلچسپی رکھتی ہيں اور اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہيں۔ ان سياسی جماعتوں کی چھينا جھپٹی صرف اقتدار کے لئے ہے۔ انہيں مزدور طبقے کے مساہل کا قطعی کوئ خيال نہيں ہے۔

اسلام آباد: پاکستانی محنت کش اپنے حقوق کے لئے سراپا ء احتجاج ہيں۔ تصاوير: شوکت علی چوہدری

آج محنت کش خود باہر آيا ہے اور ساٹھ کی دہائ کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مظاہرہ ہے ۔ ساٹھ کی دہائ ميں بھی ايسا ہی ہوا اور ميں چونکہ اُس تحريک کا بھی حصہ تھا۔ ايسا ہی ہوا کہ طلبہ اور مزدور سڑکوں پہ نکل آۓ اور بعد ميں سياسی پارٹياں بھی انکے ساتھ شام ہوئيں اور نتيجتاً ايوب خان کی حکومت چلتی بنی۔ آج پھر معاشرہ اُسی طرح اُبل پڑا ہے محنت کش سڑکوں پہ آ گۓ ہيں ۔
ڈنڈوت سيمنٹ فيکٹری کا معاملہ محض ايک فيکٹری کا معاملہ نہيں ہے بلکہ ايسے معاملات پورے ملک ميں بکھرے پڑے ہيں۔ حکومتی اکابرین ايک طرف تو يہ کہتے ہيں کہ ہمارا معاملہ کاروبار کرنے کا نہيں ہے بلکہ حکومت کرنا ہے اسی لئے ہم اداروں کو پرائيويٹ کر رہے ہيں جبکہ دوسری طرف حکومتی اکابرين اپنی کمپنياں بنا کر کارخانے خريدتے ہيں اور جب کارخانے خريدتے ہيں تو حالت یہی ہوتی ہے جيسے گزشتہ چھ روز سے ڈنڈوت فيکٹری کے محنت کش احتجاج کر رہے ہيں کيونکہ کارخانہ بند ہے۔ نہ اُنہيں تنخواہيں مليں نہ بقايا جات۔ بارہ تيرہ سو خاندان بے آسرا زندگی گزارنے پر مجبور ہيں ۔

انٹرويور کامريڈ ممتاز احمد آرزو تھے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *