Main Menu

اليکشن کا ماحول اور عوامی سوالات کی ضرورت؛ تحریر: عاصمہ بتول

Spread the love

جوں جوں انتخابات کا دن قریب آئے گا، ریلیاں کم اور جلسے زیادہ ہوں گے۔ وہاں امیدوار کو تقریر کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔ ایک حکمتِ عملی جو کم امیدوار اختیار کرتے ہیں وہ گھر گھر مہم کی ہے۔

آزاد کشمیر بھر میں انتخابی مہم کا کم و بیش یہی انداز ہے۔ میں سمجھتی ہوں نوجوان نسل کو اس تمام عمل کو مسترد کرنا چاہیے۔ میری دلیل سادہ ہے کہ اس عمل میں ووٹر محض تماشائی بنا رہتا ہے۔

میرے خیال میں قدرتی طور پر یوں امیدوار کو گذشتہ پانچ برس کی طرح اگلے پانچ سال بھی حلقے سے غیر حاضر رہنے کا راستہ مل سکتا ہے۔جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ عوام سوال اٹھائیں۔ وہ حکمرانوں سے پوچھ سکیں کہ آپ کا منشور کیا ہے، منصوبے کیا ہیں اور کیوں نہیں آپ پچھلے منشور پر پورا اترے۔

’اگر آپ انھیں یہ بھی موقع نہیں دیں گے تو پھر جمہوریت بہت کھوکھلی ہو جائے گی۔پتہ نہیں کیوں نمائندے عوام سے ڈرتے ہیں۔ عوام ان کے لیے بھنگڑے ڈالیں، تالیاں بجائیں، نعرے لگائیں تو ٹھیک، مگر وہی عوام اگر سوال پوچھ لیں تو نمائندوں کی توہین ہو جاتی ہے۔‘

میں سمجھتی ہوں کہ عوام کے سوال پوچھنے کی روایت کو ادارتی صورت دینا ضروری ہے۔ اس طرح نمائندوں کو آنا پڑے گا۔ وہ مجبور ہوں گے۔ اگر اس طرح ممکن ہو جائے تو امیدوار وہاں آئیں تو انھیں علاقے میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی جبکہ کھلی گندگی، نالوں کے خطرات، لوڈشیڈنگ، سڑکوں کی غیر معیاری تعمیر، بارڈر لائن کے قریب ڈسپنسری کا نہ ہونا، بارڈر لائن کے قریب گاؤں دیہاتوں کی سڑکوں کی حالت نالوں جیسی، سکولوں کی تعمیر، باڈر لائن سے جن لوگوں نے ہجرت کی ہوئی ہے ان کے رہنے کا مناسب انتظام اور عباسپور کا ہسپتال ان سب چیزوں پر لوگوں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک عام آدمی کو امیدوار سے سوال پوچھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ ایک منظم انداز سے سوال پوچھے جائیں۔ عوامی طور پر بحث ہونی چاہیے۔ امریکہ کا صدر اگر بحث میں اپنے مخالف کے سامنے آ سکتا ہے تو ہمارے امیدواروں کو کیا مسئلہ ہے کہ وہ عوام میں آئیں اور لوگوں کے سوالوں کا جواب دیں؟






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *