Main Menu

عوامی جمہوریہ چین ؛ تحرير: نديم سرفروش

Spread the love


آپ کو چین سے ڈیل کرنے کیلئے چینی کریکٹر کو سمجھنا ہو گا‘ چین کا کریکٹر چار اصولوں پر استوار ہے‘ برداشت‘ تسلسل‘ خود انحصاری اور عاجزی‘ یہ چاروں خوبیاں چین کے بانی ماؤ زے تنگ میں بھی موجود تھیں‘ آپ ماؤ زے تنگ کی برداشت ملاحظہ کیجئے‘دنیا کا بہادر سے بہادر ترین انسان بھی اکلوتی اولاد کی موت پر آنسو‘ خارش کے وقت ہاتھ اور لطیفے کے وقت قہقہہ کنٹرول نہیں کر سکتا لیکن چین کے بانی ماؤ زے تنگ کو ان تینوں پر کنٹرول تھا‘ کوریا کے ساتھ جنگ ہوئی‘ ماؤ نے اپنا اکلوتا بیٹا جنگ میں بھجوا دیا‘ بیٹے کی نعش واپس آئی‘ یہ کہہ کر رونے سے انکار کر دیا ”میں اس غم میں اکیلا نہیں ہوں‘ میرے جیسے ہزاروں والدین کے بچے اس جنگ میں مارے گئے‘ میں پہلے ان کے آنسو پونچھوں گا“ ماؤ نے اسّی سال کی عمرمیں سردیوں کی یخ رات میں اعلان کر دیا میں دریائے شنگھائی تیر کر عبور کروں گا‘ سارا شہر جنوری کی اس رات دریا کے کنارے اکٹھا ہو گیا‘ بابا جی پل پر پہنچے‘ کپڑے اتارے اور منجمد دریا میں چھلانگ لگا دی‘ تیر کر دوسرے کنارے پہنچے اور وہاں سے تیرتے ہوئے واپس لوٹے۔ لوگ حیران رہ گئے‘ ماؤ کو انگریزی زبان پر عبور تھا‘ مغرب میں چھپنے والی ہر اچھی کتاب منگوا کر پڑھتے تھے‘ رچرڈ نکسن 1972ء میں ماؤزے تنگ سے ملنے گئے تو ماؤ نے انہیں ان کی کتابیں دکھائیں‘ نکسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ ماؤ زے تنگ نے نا صرف ان کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ اوراق پر ”فٹ نوٹس“ بھی تھے اور بعض جگہوں پر سوالیہ نشان بھی لیکن اس تمام تر انگریزی دانی کے باوجود ماؤ زے تنگ نے پوری زندگی کسی دوسرے شخص کے سامنے انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا۔ اس کی وجہ چین اور چینی زبان سے محبت تھی‘ وہ کہتے تھے”میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں چین گونگا نہیں‘ اس کی ایک زبان ہے اوراگر دنیا ہمارے قریب آنا چاہتی ہے‘ یہ ہمیں سمجھنا چاہتی ہے تو اسے ہماری زبان سمجھنا اور جاننا ہوگی“۔ ماؤزے تنگ نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا‘ انہوں نے کبھی کسی دوسری زمین پر پاؤں نہیں رکھا‘ وہ کہتے تھے میں چین کا لیڈر ہوں‘ چین میں رہوں گا چنانچہ ان کی جگہ چو این لائی دوسرے ممالک کے دورے کرتے تھے اور آپ برداشت کی انتہا دیکھئے‘ وہ انگریزی زبان سمجھتے تھے لیکن جب انہیں انگریزی زبان میں کوئی لطیفہ سنایا جاتا تھا وہ خاموش بیٹھے رہتے تھے‘ قہقہہ تو دور‘ ان کی آنکھوں کا رنگ تک تبدیل نہیں ہوتا تھا لیکن جونہی اس لطیفے کا چینی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا‘وہ کھلکھلا کر ہنستے تھے اور ان کا قہقہہ وہاں موجود تمام لوگوں سے بلند ہوتا تھا‘ یہ وہ لیڈر شپ تھی جس نے جنگ‘ اسلحہ اور فوج کے بغیر چین کو دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور بنا دیا‘ جس نے اپنے ازلی دشمنوں کو ”میڈ اِن چائنا“ پر مجبور کر دیا لہٰذا آج امریکا کے قومی دن پربھی آتش بازی کا سامان چین سے منگوایا جاتا ہے اور امریکی جھنڈوں اور امریکی سوینیئرز تک کے نیچے ”میڈ اِن چائنا“ لکھا ہوتا ہے اور آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں‘ آپ مصنوعات کی کسی دکان میں قدم رکھ کر دیکھیں‘ آپ ”میڈ اِن چائنا“ سے نہیں بچ سکیں گے‘ آپ چین کا کمال دیکھئے‘ چین کی 70 فیصد آبادی لا دین ہے لیکن یہ پوری اسلامی دنیا کو تسبیح اور جائے نماز سپلائی کرتی ہے‘ چین دنیا میں سب سے زیادہ جائے نماز‘ تسبیحات اور احرام بناتا ہے‘ یہ کیا ہے؟ یہ سب چین کی اس قیادت کا کمال ہے جس کے پاس پوری زندگی تین جوڑے کپڑے‘ جوتوں کے دو جوڑے اور ایک سائیکل تھی اور جس نے زندگی کی آخری ساعتیں تین مرلے کے گھر میں گزاری تھیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان چین کی پہلی کھڑکی تھا‘ چین کے لوگوں نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا‘ پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا‘ اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا‘ پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کئے‘ ان میں سے ایک جہاز ماؤ زے تنگ استعمال کرتے تھے‘ اس جہاز پر آج بھی ”کرٹسی بائی پاکستان“ لکھا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی اور ہم ایک طویل عرصے تک چین کے ریزر اور سوئیاں استعمال کرتے رہے‘ پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی‘ چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انہیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا اور پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے‘ یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں‘چین آگے نکل گیا جبکہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے‘ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا‘ ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *