Main Menu

آئینہ دیکھایا تو بُرا مان گئے، تحرير : امتیازفہیم

Spread the love

ہم کہاں جائیں ؟؟ وزیرِ موصوف کی خرافات سن کہ یوں لگتا ھے کہ صاحب بہادر نے فیکڑیوں کارخانوں اور مختلف نوع کے پراجیکٹ کا انبار لگا رکھا ہے۔ اب ہم لوگ بھی بس ایسے ھی وہاں سے بھاگ آئے اور آکہ گلف و یورپ و امریکہ میں و کنیڈہ میں برتن دھونے کا کام کرتے رہے۔ کسی نے بھی ھمیں خبر نہیں دی کہ وزیرِ موصوف نے جب کہ اس قدر زیادہ کام کاج کے ٹھکانے بنا رکھے ھیں تو کہائے کو وطن بدری کی زندگی کی افتادیں جھیلنے کے لئے بھاگ آئے ھم سارے افتاد گان خاک۔۔۔

ارے کوئی تو بتا دیتا کوئی تو خبر کر دیتا۔۔۔ نہ ہم وہاں سے بیرونِ ملک بھاگ آتے نہ وزہرِ موصوف کو کسی قسم کا کشٹ و رنج ہوتا۔ ویسے کیا کہنے وزیرِ موصوف نے شائستہ زبانی کی خرافات کی جھڑی لگا دی۔ مطلب چند اک سرپھرے نوجوانوں نے صاحب بہادر کو آئینہ کیا دیکھایا اور صاحب بہادر تو برا ہی منا گئے ۔

صاحب بہادر کی خدمت میں نہایت ادب سے چند اک مودبانہ گزارشات جسارت کیساتھ پیشِ خدمت ہیں :
بیرونِ ملک آنے اور کام کرنے والے محنت کشوں کی کمائی سے اس عذاب نما جموں کشمیر کے چولہے جلتے ہیں یورپ کی یخ بستہ راہوں میں اور عرب کے تپتے صحراؤں میں اپنی محنت کا خون پسنہ بہانے والے محنت کشوں کے دم سے وطن میں زندگیاں مسکراتی ہیں۔
انسانی رگوں میں گردش خون چلتی ہے اور ان عظیم محنت کشوں کو برا بھلا کہنے کے بجائے حضور وہ ملیں وہ فکٹریاں وہ کارخانے وہ پراجیکٹ تو دیکھائیے جو آپ نے ایوان اقتدار سے کشید کر کہ تعمیر کئے ہیں ۔
کوئی پتہ تو دیجئیے ہم سبھی یکا یک بیرون ملک کی ساری کی ساری مشقتیں چھوڑ چھاڑ کر وہاں کام کرنے کے لئے دوڑے چلے آئیں گے
اور اگر ایسا کوئی ادارہ کوئی مل فیکٹری کارخانہ آپ نے لگایا نہیں ہے تو پھر ۔۔۔۔۔
آپ کو کیا حق ہے کہ آپ اس طرح کی گھٹیا و لغو زبان سرعام استعمال کرتے ہیں ؟ ؟
بیروزگاری غربت و افلاس و پسماندگی سے جھلستے ہوئے نوجوان آپ جیسوں کو آئینہ نہ دیکھائیں گے تو کہاں جائیں گے؟؟
گفتگو کی کوئی حد ھوتی ھے

ھر اک بات پہ کہتے ھو تم کہ تُو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

اس قدر گری ھوئی زبان اور وہ بھی ایک وزیرِ صاحب بہادر کی زبانی
یہ کہاں کی تہذیب ہے ؟ یہ کہاں کا تمدن ھے ؟ یہ کہاں کا انصاف ھے ؟
سڑکیں سکول و دیگر تعمیراتی کام عوام پہ کوئی احسان نہیں ہے حضور یہ سب کام عوام کے ٹیکسوں سے ہی تعمیر ہوتے ہیں
اس میں کسی صاحب بہادر کا عوم پر کیا احسان ہے ؟؟ غلامی کی بدتہرین شکلیں جب تک باقی رہیں گی جب تک بیروزگاری رہے گی، جب تک تعلیم مہنگی رہے گی ، جب تک وطن کی تقسیم رہے گی ، جب تک جہالت فرقہ واریت و پسماندگی رہے گی ، جب تک قومی و طبقاتی جبر و استحصال رہے گا، تو پھر نوجوانوں کے تلخ سوالات اٹھتے رہیں گے ۔ جو کہ حق اور سچ کی آواز ہے اور حق و سچ کہ صداؤں کوخرافاتوں سے گالیوں سے اور لغو زبانی سے کسی طور ٹالا نہ جائے گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *