Main Menu

توہین مذہب اور توہین قرآن (1931) تحریر : شبنم قیوم

Spread the love


جموں کی ینگ مینز ایسوسی ایشن نے جب مذہبی درسگاہ کو سیاسی پلیٹ فارم میں تبدیل کیا تو گورنر نے جموں کے بعض ڈوگروں کو استعمال میں لا کر یہاں کے مسلمانوں کو تنگ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ان کی دل آزاری شروع کی چنانچہ 19 اپریل 1931 کو جو عید کا دن تھا میونسپل کمیٹی کی ایک پارک میں نماز عید ادا کی گئی، نماز کے بعد امام صاحب نے خطبہ پڑھنا شروع کیا، امام منشی اسحاق خطبہ دے رہے تھے کہ ایک ڈوگرہ پولیس انسپکٹر بابو کھیم چند، ڈی آئی جی چوہدری رام چند کی ہدایت پر آگے بڑھا اور اس نے ترش لہجے میں امام صاحب سے تقریر بند کرنے کو کہا۔
پولیس آفیسر خطبہ کو عربی میں سیاسی تقریر سمجھ کر جو ناروا سلوک کر بیٹھا اسے دینی امور میں مداخلت قرار دیا گیا۔
مسلم حاضرین میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی، اس نامناسب اور نازیبا حرکت کے خلاف جموں شہر میں کئی اجتماعات ہوئے، مذہبی امورات پر دخل اندازی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور اس حرکت کے خلاف جموں شہر میں کئی روز تک مظاہرے ہوتے رہے۔ سری نگر میں جب اس کی اطلاع پہنچ گئی تو ریڈنگ روم کے عہدیدار اور ممبران میں ایک اضطراب پیدا ہو گیا، بعض احباب اس بارے میں غور و خوض کرنے لگے تاکہ اس کی آڑ میں ڈوگرہ راج کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکائے جائیں، چونکہ جموں میں توہین مذہب کا معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا اس لیئے اس کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ پیچیدہ لگ رہا تھا۔ البتہ جموں سے ہی ایسا کوئی دوسرا واقعہ وقوع پزیر کیئے جانے کا فیصلہ لیا گیا تاکہ اس واقعہ کو ہاتھوں ہاتھ لے کر ایجی ٹیشن شروع کی جائے، کافی سوچ بچار کے بعد توہین قرآن کا واقعہ پھیلانے کا فیصلہ کر لیا گیا تاکہ مذہبی جذبات ابھار کر لوگوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف اکسایا جا سکے۔
توہین مذہب کے بعد توہین قرآن کے بغیر اور کوئی واقعہ عوام کو بیدار کرنے کے لیے کارگر نہیں ہو سکتا تھا اس لیے توہین قرآن کا فیصلہ لیا گیا۔
چنانچہ محمد مقبول حکاک کو جموں روانہ کیا گیا جس نے جموں میں عبدالمجید قرشی کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ ینگ مینز ایسوسی ایشن کے چند ارکان نے آپس میں مشورہ کر کے اس کام کے لیے ایک مسلمان کانسٹبل کو اعتماد میں لے لیا۔
توہین قرآن کے بارے میں جموں اور سرینگر میں پوسٹر چھپوا کر تیار کر کے رکھ لیے گئے، جموں میں عبدالمجید قرشی نے اخبار “کرن” کے چیف ایڈیٹر محمد شفیع چک کے پاس پوسٹر چھپوا کر رکھدیئے اور ادھر سرینگر میں اس سلسلہ میں ہاتھ سے لکھ کر پوسٹر تیار کرائے جانے لگے۔
حسب پروگرام شیخ محمد اسماعیل کانسٹبل نے جموں کی پولیس لائن میں ہیڈ کانسٹبل لابھا رام کے ذریعے توہین قرآن کا واویلا کیا، جس روز توہین قرآن کا جموں شہر میں افشاء ہوا، اس روز صبح سویرے محمد مقبول حکاک توہین قرآن سے متعلق پوسٹر لے کر سرینگر کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ “اخبار کرن” کا ایک بنڈل بھی ان کے ساتھ تھا، جس میں توہین قرآن کی تفصیل درج تھی۔
ڈوگرہ راج کے خلاف توہین قرآن کا یہ پری پلان بنانے اور اس کی آڑ میں تحریک شروع کرنے کے راز سے جموں اور سرینگر میں کل سات مسلم رہنما واقف تھے۔
توہین قرآن کے بارے میں ان حقائق کی تفصیل پروفیسر نور الدین کی ڈائری سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ شیخ عبداللہ نے مڈلٹن کمیشن کے سامنے مسلمانان کشمیر کی طرف سے شکایات کا جو دفتر کھولا۔ اس میں انہوں نے جموں میں عید کے خطبہ پر ایک ہندو پولیس آفیسر کے اعتراض کا ذکر کیا ہے جبکہ توہین قرآن کے بارے میں مکمل خاموشی سے کام لیا گیا۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ جس وقت محمد مقبول حکاک جموں سے سرینگر کی طرف پوسٹر اور اخبارات لے کر آ رہا تھا اس وقت سرینگر میں غلام محمد گلکار نرپرستان کے گھر میں ہاتھ سے لکھ کر پوسٹر تیار کیے جا رہے تھے، اس پوسٹروں کی تیاری میں غلام نبی گلکار، پیر یحییٰ رفیقی، مولوی عبدالرحیم، بشیر احمد اور نذیر احمد خاں لگے ہوئے تھے، جموں سے آئے ہوئے پوسٹر اور اخبار “کِرن” کے پرچے ریڈنگ روم پہنچائے گئے اور سرینگر میں ہاتھ سے لکھے گئے پوسٹر لگوانے کے لیے غلام محمد گلکار اور نذیر احمد خاں مقرر ہوئے۔
اسی دوران پوسٹروں کے بارے میں منشی اسد اللہ وکیل نے راز افشا کیا جس کی وجہ سے ہاتھ سے لکھے گئے یہ پوسٹر لگاتے ہیں ہٹا دیئے۔ صرف چند پوسٹر گاؤکدل اور کُکڑ بازار میں بچ سکے۔
جموں کے پوسٹر اور اخبارات لوگوں تک پہنچانے کے لئے صلاح مشورہ کیا گیا تاکہ انہیں ضبط ہونے سے بچایا جا سکے، پوسٹروں اور اخبارات کو چند آدمیوں میں بانٹ دیا گیا۔
شیخ عبدالصمد سکنہ فتحکدل نے حبّہ کدل کے پاس ریشی صاحب کے آستانے سے گھنٹی اٹھا لی اور ایک تانگہ کرائے پر لیا، جس کو چھتّہ بل کا مگہ شاہ چل رہا تھاـ ٹانگے پر بیٹھ کر اور گھٹنے پر ضرب لگا کر شیخ عبدالصمد لوگوں میں منادی (اعلان) کرا رہا تھا کہ توہین قرآن کے سلسلے میں ایک ہنگامی جلسے میں شرکت لے لیے لوگ جامع مسجد تشریف لے آئیں، اعلان کرنے کے دوران شیخ عبدالصمد پوسٹر اور اخبارات مجمع میں پھینکتا جا رہا تھا۔
ادھر یہ اعلان ہوا اور ادھر مولوی عبداللہ وکیل کا گھریلو نوکر محمد اسماعیل دیواروں پر پوسٹر چسپاں کر رہا تھا۔ ڈوگرہ سپاہیوں نے ایک جگہ انہیں پوسٹر چسپاں کرتے دیکھا تو اس کی مار پیٹ کی گئی لیکن وہ مار کھاتا رہا اور پوسٹر لگاتا گیا۔ محمد اسماعیل کو ہتھکڑیاں پہنا کر زینہ کدل تھانے کی طرف لیا گیا راستے میں ان کے پیچھے پیچھے ایک جم غفیر جمع ہو گیا اور اس طرح وہ ایک جلوس کی صورت میں تھانہ زینہ کدل لایا گیا۔
جم غفیر کو دیکھ کر تھانیدار نے محمد اسماعیل کو سرزنش کر کے چھوڑ دیا۔ محمد اسماعیل کو لوگ جلوس کی صورت میں جامع مسجد لے آئے۔ محمد اسماعیل تحریک آزادی کا پہلا قیدی بن گیا۔ ادھر سعید منصور کے پاس اخبار “کرن” کے پرچے تانگے سے پھینک کر توہین قرآن کا واقعہ افشا کیا گیا۔ ساری شہر میں اضطراب اور سنسنی پھیل گئی۔ لوگ جوق در جوق جامع مسجد آنے لگے۔
اس وقت جبکہ لوگ جامع مسجد میں جمع ہو رہے تھے، شیخ عبداللہ کو ریڈنگ روم میں پہلی بار عوام میں متعارف کرانے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ قاری نور الدین، شیخ محمد عبداللہ کو وہ قرآنی آیت یاد کرا رہے تھے جو وہ توہین قرآن کے سلسلے میں بلائے گئے اجتماع میں پڑھنے والے تھے، قرآنی آیت یاد کرنے کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ سے تقریر کی مشق بھی کرائی گئی۔
شیخ عبداللہ نے اسٹیج پر آکر “انا انزلنا هذا القران على جبل….” کی تلاوت کی اور پھر رقت آمیز لہجے میں فرمایا:
“جب تک حکومت قرآن کریم کی توہین کرنے والوں کو سزا نہیں دے گی ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور جب تک مسلمانوں کو حقوق نہیں دیے جائیں گے تعلیم یافتہ مسلمان ایجی ٹیشن سے باز نہیں آئیں گے”
یہی وہ الفاظ تھے جن سے شیخ عبداللہ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور وہ بہت جلد کشمیر کی سیاست پر حاوی ہو گئے، ڈوگرہ شاہی کے خلاف یہ الزام سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔
شیخ عبداللہ کے اس فرمان پر لوگوں نے زور زور سے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ مولوی عبدالوکیل نے توہین قرآن کی پاداش میں ڈوگرہ شاہی سے ٹکر لینے، ہڑتال کرنے، جلسے کرنے اور جلوس نکالنے لے لیے لوگوں کو اکسایا۔
جلسہ ختم ہونے پر لوگوں کا جم غفیر نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے آگے بڑھا۔
توہین قرآن کا یہ پلان بڑا کارگر ثابت ہوا، کیونکہ جموں اور سرینگر میں بیک وقت اس کے خلاف آواز اٹھ گئی۔ جموں اور کشمیر میں لوگ ڈوگرہ راج کے خلاف میدان کارزار میں کود پڑے۔
توہین قرآن کے اس واقعہ کے بارے میں تمام دستاویزات میں کسی بھی جگہ اس حقیقت کو آشکارا نہیں کیا گیا کہ یہ ڈوگرہ حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانے کا ایک بنا بنایا پلان تھا اور اس کو بھی کسی طرف سے ضبط تحریر میں نہیں لایا گیا کہ ویکفیکڈ کمیشن کے سامنے جب شیخ محمد اسماعیل کانسٹبل کو قرآن پر ہاتھ رکھ کر صاف صاف واقعہ بتانے کو کہا گیا تو انہوں نے اصل واقعہ بتا کر اپنے لیے نوکری سے ڈسمس ہونے کا پروانہ حاصل کر لیا۔
بحوالہ کشمیر کا سیاسی انقلاب از شبنم قیوم مطبوعہ 1989






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *