Main Menu

تحریک آزادی کشمیر:جہاد یا آتنک واد -ارون دھتی رائے/ترجمہ،عامر حسینی

Spread the love

جوں جوں کشمیر کی وادی میں جنگ بڑھتی گئی،قبرستان ایسے ہوتے گئے جیسے کئی منزلہ پارکنگ لاٹ ترقی کرتے شہروں کے اندر پھیلتی جاتی ہیں۔جب جگہ ختم ہوجاتی تو بعض قبروں کو سری نگر میں چلتی ڈبل ڈیکر بسوں کی طرح ہوگئیں، بسیں جوکہ سیاحوں کو بلیووارڈ سے لال چوک تک لیکر جاتی تھیں۔

خوش قسمتی سے مس جبین کی قبر کو اس قسمت کا شکار نہ ہونا پڑا۔سالوں بعد،اس کے بعد جب بڑے عسکریت پسند گروپ ایک دوسرے پہ پل پڑے تھے،جب یاتریوں، ہنی مون منانے والوں نے مرکزی سرزمین سے واپس وادی آکر اٹھکھیلیاں (سنو بینکس پہ عسکریت پسندوں کے زیر استعمال گاڑیوں میں کود کر بیٹھنا اور جب وہ ان سے نیچے ڈھلوان کی جانب تیزی سے آئیں تو چیخنا) کرنے لگے،جب جاسوس اور مخبروں (سلیقہ مندی اور انتہائی احتیاط کی وجہ سے) کو ان کو چلانے والوں نے ہی مار ڈالا،جب غداروں کو پیس سیکٹر کام کرنے والی ہزاروں این جی اوز میں جذب کرلیا گیا،جب مقام؛ کاروباری لوگ جنھوں نے فوج کو کوئلے اور اخروٹ کی لکڑی کی سپلائی کرکے قسمت بنائی تھی نے اپنا منافع ہسپٹیلٹی سیکٹر جیسے بڑھتے ہوئے کاروبار میں لگانا شروع کردیا (دوسرے اسے پیس پروسس میں حصّہ داری کے نام سے جانتے تھے – سٹیکس ان دا پیس پروسس)

جب بینک مینجررز نے مارے گئے عسکریت پسندوں کے بینک اکاؤنٹس میں موجود بنا کلیم کی رقم خورد برد کرلی،جب ٹارچر سنٹرز سیاست دانوں کے پوش گھروں میں بدل گئے، جب قبرستان لاوارث ہوگئے اور شہیدوں کی تعداد گھٹتے گھٹتے قطروں جتنی رہ گئی( خودکشیوں کی شرح ڈرامائی طور پہ بڑھ گئی)،جب الیکشن منعقد ہوگئے، جمہوریت کا اعلان ہوگیا، جب جہلم دریا چڑھ گیا اور پھر اتر گیا، جب بغاوت پھوٹی دوبارہ اور پھر کچلی گئی پھر ابھری ،پھر کچلی گئی اور جب حکومت نے بغاوت کو انتہائی محدود کردینے کا اعلان کیا (حالانکہ اس وقت تک بھی پانچ لاکھ فوجی وہآن کشمیر میں موجود تھے) کے بعد، ان سب کے بعد بھی مس جبین کی قبر سنگل ڈیکر ہی رہی۔اس نے لکی ڈرا جیت لیا تھا۔اس کی قبر خوبصورت تھی جس کو چنگلی پھولوں نے ڈھانپ رکھا تھا اور وہ اپنی ماں کے پہلو میں محو آرام تھی۔

وہ دو ماہ میں دوسرے قتل عام کا نشانہ بنی تھی۔اس دن سترہ مارے گئے،سات راہ گیر تھے جیسے مس جبین اور اس کی ماں(تکنیکی طور پہ وہ بائی سیٹرز تھے)وہ اپنی بالکونی سے دیکھ رہے تھے،مس جبین کو ہلکا سا بخار تھا،وہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی جب ہزاروں سوگواران عثمان عبداللہ ایک معروف یونیورسٹی استاد کا جنازہ شہر کی گلیوں سے لیکر گزر رہے تھے۔

اسے جن لوگوں نے گولی ماری تھی ان کو انتظامیہ ن-م (نامعلوم) کہتی تھی۔اگرچہ اس کی اپنی شناخت تو ایک کھلا راز تھی۔اگرچہ عثمان آزادی کی جدوجہد کا نمایاں مفکر رہنماء تھا اور اسے کئی مرتبہ کنٹرول لائن کے پار سے آنے والے نئے ہتھیاروں اور نئے خیالات سے لیس نے کئی بار دھمکی دی تھی جن سے اس نے اعلانیہ اختلاف کیا تھا۔

عثمان عبداللہ کا قتل اس بات کا اعلان تھا کہ کشمیر کی جس تکثریت کا وہ علمبردار تھا اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔اس طرح کی پرانی دنیا کا سٹف جو مقامیت پہ مبنی ہو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔مقامی صوفیا سے عقیدت اور ان کے مزارات پہ حاضری ممنوع ہے۔نئے عسکریت پسندوں نے ایسی ‘فضولیات’ پہ پابندی کا اعلان کردیا۔اب صوفیاء ،سادھوؤں کی یاد میں عرس،میلوں کا انعقاد نہیں تھا اور نہ ہی مقامی صوفی تھے۔بس اللہ تھا، واحد و یکتا۔قرآن تھا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔نماز کا بس ایک طریقہ،شرعی قانون کی بس ایک ہی تعبیر اور آزادی کی بھی صرف ایک ہی تشریح تھی جوکہ یہ تھی:

آزادی کا مطلب کیا

لا الہ الا اللہ

اس پہ کوئی بحث نہ تھی۔مستقبل میں تمام استدلال (عقل و منطق کا استعمال) اور بحث و مـباحثے کو گولیوں سے حل کیا جائے گا۔شیعہ مسلمان نہیں تھے۔اور عورتوں کو مناسب اور ٹھیک (شرعی) لباس پہننا سیکھنا ہوگا۔

جی ہاں عورتوں کو۔ عورتوں کو جناب۔

ان میں سے کچھ چیزوں نے عام لوگوں کو بے چین کردیا۔وہ اپنے مزاروں سے عقیدت رکھتے تھے۔۔۔۔حضرت بل خاص طور پہ جہاں ہزاروں تبرکات ،موئے مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ تھے۔ہزاروں لاکھوں لوگ اس وقت بلک اٹھے تھے جب 1963ء میں یہ گم ہوگئے تھے

اور لاکھوں لوگوں نے خوشی منائی تھی جب یہ ایک ماہ بعد مل گئے تھے(متعلقہ لوگوں نے تصدیق کی تھی کہ یہ اصلی تھے)۔لیکن سخت گیر سفر سے واپس آگئے تو انہوں نے مقامی صوفیاء سے عقیدت اور موئے مبارک کے لئے زیارت گاہ بنانے کو شرک و کفر قرار دے ڈالا تھا۔

سخت گیروں کی لائن نے وادی کو ایک بڑے مخمصے میں ڈال دیا تھا۔لوگ جانتے تھے کہ آزادی جس کے لئے وہ بہت عرصے سے لڑرہے تھے جنگ کے بغیر نہیں آئے گی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سخت گیر بہترین جنگجو تھے۔ان کے پاس بہتر ٹریننگ تھی، بہتر ہتھیار تھے جبکہ ان کے پاس شرعی ضوابط، اونچے پاجامے اور لمبی داڑھیاں تھیں۔

ان کو سرحد پار کی اشیرباد اور زیادہ پیسے میسر تھے۔ان کے آہنی اور غیر متزلزل عقیدے نے ان میں بہت نظم و ضبط پیدا کردیا تھا،ان کو انتہائی سادہ بناڈالا تھا اور ان کو ان چیزوں سے سجاڈالا تھا جس سے دنیا کی دوسری بڑی فوج سے لڑا جاسکتا تھا۔جبکہ عسکریت پسند جو خود کو سیکولر کہتے کم سخت تھے، آسانی سے مطابقت کرنے والے، زیادہ سٹائلش اور زیادہ شوخ شنگ تھے۔

وہ شاعری لکھتے،نرسوں سے فلرٹ کرتے، رولر سیکٹر تھے جبکہ وہ اپنے کاندھوں پہ رائفلز لٹکائے شہر کی گلیوں میں مٹر گشت کرتے تھے۔لیکن ان کے پاس وہ دکھائی نہیں دیتا تھا جس سے جنگ جیتی جاسکتی۔لوگ کم سخت گیروں سے کم پیار کرتے تھے،لیکن ان کو معزز سخت گیروں سے خوف بھی تھا۔گھمسان کی لڑائی جو ان دو میں واقع ہوئی اس نے سینکڑوں جانیں لے لی تھی۔

تو جو کم سخت گیر تھے انہوں نے سیزفائر کا اعلان کردیا،انہوں نے روپوشی ختم کردی اور انہوں نے اپنی جدوجہد کو گاندھیائی طرز میں بدلنے کا اعلان کردیا۔سخت گیروں نے لڑنا جاری رکھا اور ایک ایک کرکے مارے جاتے رہے۔ایک جب مارا جاتا تو اس کی جگہ دوسرا لے لیتا تھا۔چند ماہ بعد عثمان عبداللہ کا قاتل فوج نے پکڑ لیا جو کہ بہرحال گمنام تھا اور اسے مار ڈالا گیا۔اس کی لاش اس کے خاندان کے حوالے کردی گئی، جس پہ گولیوں کے سوراخ اور سگریٹ سے جلائے جانے کے نشان واضح تھے۔قبرستان کمیٹی نے بہت صلاح مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ بھی شہید تھا اور اسے بھی مزار شہداء میں دفن کیا جانا بنتا تھا۔انہوں نے اسے قبرستان کے آخر میں اسے بالکل الگ مخالف سمت میں دفنادیا اور ممکن بنایا کہ ‏عثمان عبداللہ اور اس کے قاتل میں جتنا ہوسکے فاصلہ رکھا جائے تاکہ وہ آخروی زندگی میں آپس میں جھگڑے نہ۔

جوں جوں جنگ چلتی رہی واد میں نرم لائن بتدریج سخت ہوگئی اور سخت گیر مزید سخت ہوگئے۔ہر صف میں مزید صفیں اور ذیلی صفیں بن گئیں۔سخت گیروں کے اندر سے بھی اور طرح کے سخت گیر سامنے آگئے۔عام لوگوں نے معجزانہ طور پہ ان سب کے ساتھ رہنے، ان سب کی حمایت کرنے،ان سب کو ایک طرح بناکر رکھنے کا انتظام کرلیا اور اپنے پرانے اعمال و رسوم جن کو فضول خیال کرلیا گیا تھا کرنا جاری رکھے۔موئے مقدس کا دور بنا رکے جاری رہا۔اور اگرچہ ان کو جتنا زیادہ سخت گیر رجحانات کی طرف موڑا گیا اتنا ہی زیادہ لوگ مزارات پہ آکر روتے، مناجات کرتے اور اپنے ٹوٹے دلوں کے بوجھ یہاں ہلکے کرتے تھے۔

بالکونی کی حفاظتی دیوار سے مس جبین اور اس کی ماں نے جنازے کے جلوس کو قریب آتے دیکھا۔دوسری عورتوں اور بچوں کی طرح جو کہ اپنے پرانے گھر کی لکڑی کی بالکونی کے جھرکوں پہ کھڑی تھیں،مس جبین اور عارفہ نے بھی تازہ گلاب کی پتیوں کو عثمان عبداللہ کی میت پہ برسانے کے لئے ایک باؤل میں اکٹھا کیا ہوا تھا تاکہ جیسے ہی وہ ان کے نیچے سے گزرتا تو وہ ان کو برساتیں۔مس جبین دو اون کے سوئٹر اور دوھرے دستانے پہنے ہوئے تھی۔اپنے سر پہ اس نے ایک چھوٹا اون کا بنا حجاب پہن رکھا تھا۔ہزاروں لوگ آزادی،آزادی کے نعرے مارتے تنگ گلی میں داخل ہوگئے۔مس جبین کی ماں نے بھی نعرہ لگایا۔اگرچہ مس جبین ،ہمیشہ کی طرح شرارتی موڈ میں تھی، بعض اوقات وہ چلاتی تھی ماتا جی! آزادی کی بجائے۔۔۔کیونکہ یہ دونوں لفظ ایک جیسی آواز دیتے تھے اور اس لئے بھی وہ جانتی تھی جب وہ یہ کرے گی تو اس کی ماں اس کی جانب دیکھے گی،مسکرائے گی اور اس کو چوم لے گی۔

جلوس باڈر سیکورٹی فورس کے لارجر بنکر کے پاس سے گزری جس میں جہاں عارفہ اور مس جبین بیٹھی تھیں اس سے سو قدم دور پوزیشن لے رکھی تھی۔گارے سے بنے بوتھ جس کی چھتیں جست کی شیٹ اور لکڑی کے تختوں سے بنائی گئی تھی کی آہنی کھڑکیوں سے مشین گنوں کی نالیاں باہر بھانکنے لگیں۔بنکر کے اردگرد ریت کی بوریاں اور خاردار باڑ لگی ہوئی تھی۔

فوج کے لئے جاری کی گئی اولڈ مانک اور ٹرپل ایکس رم کی خالی بوتلیں خار دار تاروں سے لکٹائی گئیں تھیں اور وہ آپس میں ٹکراتی تو گھنٹیاں سی بجتی تھیں۔ایک بہت پرانا مگر موثر الارم سسٹم۔اس تار میں کوئی بھی ارتعاش ہوگا تو یہ ان کو ہلادیں گی۔قوم کی خدمت میں شراب کی بوتلیں قوم کی خدمت میں۔وہ یہاں اضافی فوائد یعنی بے حسی کے ساتھ پاکباز مسسلمانوں کی توہین کرنے آئے تھے۔بنکر میں فوجیوں نے آوارہ کتوں کو مقامی آبادی کی پھینکا بچا کچھا کھانا کھلانا تھا(جیسے وہ پاکباز مسلمانوں کو سمجھتے تھے)،تو کتے ڈبل ہوگئے تھے بطور سیکورٹی دائرے کے۔وہ کاروائی کو دائرے میں بیٹھ کر دیکھ رہے تھے وہ چوکنے تھے لیکن خبردار نہیں تھے۔

جلوس بنکر کے پاس پہنچا،اندر بیٹھے لوگوں کو سائے نظر آئے ، سردی ان کی پشت سے ہوتی ہوئی ان کی وردریوں اور بلٹ پروف جیکٹوں کے اندر سے ٹپ ٹپ کررہی تھی۔اچانک ایک دھماکہ ہوا۔اگرچہ بہت بلند آہنگ نہیں تھا لیکن یہ ایک اندھا دھند پریشانی کے لئے کافی تھا۔فوجی بنکر سے باہر آئے،انہوں نے پوزیشن لیں اور اپنی لائٹ مشین گنوں سے سیدھے نہتے مجمعے پہ فائرکئے۔انہوں نے شوٹ ٹو کل (گولی مار کر ہلاک کرنے) والا کام کیا۔یہاں تک کہ جب لوگ پیچھے مڑ کر بھاگ رہے تھے تو بھی ان کی پشتوں، ٹانگوں اور ہاتھوں کو نشانہ بنایا گیا۔کچھ بوکھلائے،ڈرے فوجیوں نے اپنے ہتھیاروں کا رخ کھڑکی اور بالکونیوں کی طرف دیکھنے والوں کی جانب موڑ دیا اور اپنے میگزین ریلنگ،دیواروں اور کھڑکھیوں کے شیشوں پہ خالی کردیے۔

مس جبین اور اس کی والدہ عارفہ پہ۔

عثمان عبداللہ کے تابوت اور اسے لیجانے والے بھی نشانے پہ آگئے۔اس کا تابوت ٹوٹ کر کھل گیا اور اس کا دوسری مرتبہ شہید ہوئی لاش گلی میں بے ڈھب طریقے سے مڑی تڑی ایک برف جیسی سفید چادر میں مرجانے والوں اور زخمی ہونے والوں کے درمیان دوسری بار مرنے والے کے طور پہ گری پڑی تھی۔کچھ کشمیری بھی دو مرتبہ مرتے ہیں۔

گولیاں چلنا اس وقت بند ہوئی جب گلی بالکل خالی اورجو رہ گئے وہ مردہ لاشیں،زخمی تھے۔اور جوتے تھے۔ہزاروں جوتے۔اور گونگے نعرے جن کو لگانے والا کوئی نہیں رہا تھا۔

جس کشمیر کو خون سے سینچا! وہ کشمیر ہمارا ہے!

مابعد قتلام پروٹوکول بہت تیز،کارگر اور عمل کے اعتبار سے بے داغ تھا۔ایک گھنٹے کے اندر اندر مردہ اجسام کو ہٹاکر پولیس کنٹرول روم میں بنے سردخانے میں رکھ دیا گیا اور زخمی ہسپتال پہنچادیے گئے۔گلی کو دھو دیا گیا۔اور حون کھلی نالیوں میں بہادیا گیا۔دکانیں دوبارہ کھل گئیں۔حالات کے معمول پہ آنے کا اعلان کردیا گیا(حالت کا معمول پہ آنا ہمیشہ ایک اعلامیہ ہی تو رہا ہے)

بعد میں یہ پتا چلا کہ دھماکہ اگلی میں مینگو فروٹی جوس کے خالی ڈبے پہ کار کے چڑھنے سے ہوا تھا۔کسے الزام دیا جائے؟کس نے مینگو فروٹی(تازہ اور رس دار) کو گلی میں پھینکا؟ہندوستان یا کشمیر نے؟یا پاکستان نے؟کار کون چلارہا تھا جس نے اس ڈبے پہ گاڑی چڑھائی؟ایک ٹربیونل اس قتلام کی وجوہات جاننے کے لئے بنایا گیا۔حقائق کبھی نہ پتا چل سکے۔کسی کو الزام نہ دیا گیا۔یہ کشمیر تھا۔یہ کشمیر کا ہی قصور تھا۔زندگی چلتی رہی۔موت بھی چلتی رہی۔اور جنگ بھی چلتی رہی۔

جنھوں نے موسی یسوی کو اپنی بیوی اور بیٹی کو دفن کرتے دیکھا تھا انھوں نے نوٹس کیا تھا کہ وہ کس قدر خاموش تھا اس دن۔اس نے کوئی آہ و بکا نہ کی۔وہ تو بس بالکل دستبردار اور شکست خوردہ نظرآیا حالانکہ حقیقت میں وہ تھا نہیں۔اور شاید ردعمل نہ دینا ہی اس کی گرفتاری کی وجہ بن گیا۔یا اس کی وجہ اس کی ہارٹ بیٹ ہوسکتی تھی۔شاید ایک عام شہری کے لئے یا تو یہ بہت تیز تھی یا بہت سست تھی۔بدنام چیک پوسٹوں پہ فوجی بعض اوقات اپنے کان نوجوانوں کی چھاتیوں سے لگاکر ان کی ہارٹ بیٹ سنتے تھے۔افواہیں تھیں کہ بعض فوجی تو سیٹھتوسکوپ بھی لاتے تھے۔’اس کی دل کی دھڑکن آزادی کہہ رہی ہے،’وہ کہتے تھے، اور دل کی دھڑکن کا بہت کم ہونا یا بہت تیز ہونا کارگو، پاپا ٹو یا شیراز سینما کا دورہ کرانے کے لئے کافی تسلی بخش وجہ تھے۔یہ وادی کے سب سے خوفناک انٹروگیشن سنٹر تھے۔موسی کسی چیک پوسٹ پہ پکڑا نہیں گیا تھا۔اسے تو جنازے کے بعد اس کے گھر سے اٹھالیا گیا تھا۔اپنی بیوی اور بچے کے جنازے پہ غیرمعمولی خاموشی کا ان دنوں نوٹس لیا جاتا تھا۔پہلے پہل ہر آدمی خاموش اور ڈرا ہوا ہوتا تھا۔جنازے کے جلوس بے کیف، قدرے موت کی سی ناگوار خاموشی میں اپنا راستا ناپتا تھا۔آواز بس چاندی جیسے بھیگی اس سڑک پہ ہزاروں جوتوں کے پڑنے کی ہوتی تھی جو بنا جرابوں کے پہنے ہوتے تھے اور یہ سڑک مزار شہداء کو جاتی تھی۔

نوجوان سترہ جنازوں کو اپنے کندھوں پہ لائے،17 پلس ایک،اور وہ ایک تھا دوبار قتل ہوا عثمان عبداللہ،جو کہ بہرحال دو بار کتابوں میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔تو17 مزید ایک جست کے تابوت سرمائی سورج کو واپس چمک پھینکتے ہوئے گلیوں سے گزرے۔کوئی شہر کو بلند چوٹیوں جنھوں نے اسے گھیرا ہوا تھا سے جلوس کو دیکھتا تو یہ اسے براؤن/خاکستری چونٹیوں کا ایک بڑا ستون لگتا جو کہ سترہ مزید ایک شوگر کرسٹل اپنے مسکن میں ملکہ کو پیش کرنے کے لئے لیجارہی ہوں۔شاید تاریخ اور انسانی تصادم کے ایک طالب علم کے لئے اضافی اصطلاح میں ایک چھوٹا جلوس چونٹیوں کی ایک قطار کے کچھ چورے کے ستھ جو کہ ایک بلند میز سے گر پڑا ہو لے کے جانے جیسا ہی تھا۔جیسے جنگیں ہوتی ہيں،ویسے ہی یہ بس ایک چھوٹی سی جنگ تھی۔کوئی بھی اس پہ زیادہ توجہ مرکوز نہیں کرتا۔تو بس یہ ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔تو یہ عشروں سے کھولے اور بند کئے جارہے ہیں،یعنی لوگوں کی ناگوار قبولیت کی جگہوں پہ اجتماع کی کہانی۔اس کے ظلم ویسے ہی قدرتی بن گئے ہیں جیسے موسموں کی تبدیلی جن میں سے ہر ایک اپنے خاص طرح کی رنگ و بہار و خزاں کے ساتھ آتا ہے،اس کا اپنا زوال و احیاء کا چکر ہوتا ہے،اپنی تخریب، نارملسی ، ابھار اور الیکشن ہوتے ہیں

اس دن چونٹیاں جتنے بھی چینی کے ذرے (کرسٹل ) سرمائی صبح میں لارہی تھیں اس میں سب سے چھوٹا کرسٹل مس جبین کے نام کا تھا۔چونٹیاں آپ بھی قطار باندھ کر جلوس میں شرکت کرتے ہوئے نروس تھیں،وہ پرانے براؤن برف کے پھسلنے کاروں پہ کھڑی تھیں،ان کے ہاتھ گرم کرنے کے لئے کشمیری چوغوں کے اندر تھےاور انہوں نے اپنی آستینوں کو سرد ہوا میں اڑانے کے لئے خالی چھوڑ رکھاتھا۔مسلح جدوجہد کے مرکز پہ بازو سے محروم لوگ۔اور جو اس وینچر میں شریک ہونے سے خوفزدہ تھے وہ بالکونیوں اور کھڑکیوں سے (اکرچہ وہ اس عمل سے ملنے والے موتیوں سے بھی برابر باخبر تھے) دیکھ رہے تھے۔ان میں سے ہر کسی کو پتا تھا کہ وہ فوجیوں کی بندوقوں کی نظر میں ہیں جو کہ سارے شہر میں پوزیشن سنبھالے کھڑے تھے۔چھتوں، پلوں، کشتیوں،مسجدوں، پانی کی اونچی ٹنکیوں پہ۔انہوں نے ہوٹلوں، اسکولوں، دکانوں یہاں تک کہ کچھ گھروں پہ بھی قبضہ کرلیا تھا۔

اس صبح بہت سردی تھی؛کئی سالوں میں پہلی بار جھیل جم چکی تھی اور مزید برفباری کی پیشن گوئی تھی۔درختوں نے اپنی گنجی دھبے دار شاخوں کو آسمان کی طرف ایسے بڑھایا ہوا تھا جیسے وہ عزاداروں کی طرح غم کی حالت میں ساکت کھڑے ہوں۔

قبرستان میں 17 مزید ایک قبر تیار کی جاچکی تھی۔صاف ستھری،تازہ اور گہری۔پیشگی ایک پارٹی خون کے دھبوں والے دھاتی سٹریچرز کو لیکر آگئی تھی جس پہ لاشوں کو رکھ کر ان کے ورثاء کو پوسٹ مارٹم کے بعد لوٹایا گیا تھا۔ان کو درختوں کے تنوں کے گرد ایسے اوپر اٹھاکر ترتیب سے رکھا گیا تھا کہ وہ عظیم الشان مانس خور پہاڑی شگوفے کی خونی آہنی پتیاں لگ رہے تھے۔

جیسے ہی جلوس قبرستان کے دروازوں سے گزرتا ہوا اندر داخل ہوا تو صحافیوں کے ایک ہجوم نے اپنی قطاروں کو جہاں وہ کھڑے تھے توڑا اور وہ آگے کو بھاگے۔تابوت رکھ دئے گئے۔مجمع نے احترام کے ساتھ پریس کے لئے جگہ بنادی۔یہ مجمع جانتا تھا کہ صحافیوں اور تصویروں کے بغیر قتلام کھرچا جائے گا اور مرنے والے واقعی مرجائيں گے۔تو لاشوں کو امید اور غصے میں ان کو پیش کردی گئیں۔موت کا ایک گلدستہ۔غمکسار رشتے دار جو کافی پیچھے ہٹ گئے تھے ان کو (کیمرے کے)فریم میں آنے کو کہا گیا۔ان کے دکھوں کو آرکائیو کیا جانا تھا۔آنے والے سالوں میں جب جنگ ہی زندگی کا معمول ٹھہرجائے گی تو کشیمر کے دکھ اور نقصان کے بنیادی خیال سے گرد کتابیں لکھیں، فلمیں بنائی اور تصویروں کی نمائش کی جائے گی۔

موسی ان میں سے کسی ایک تصویر میں نہیں ہوگا۔اس موقع پہ مس جبین سب سے زیادہ توجہ کا مرکز تھی۔کیمرے اس کا ہی کلوز اپ لے رہے تھے،گھرگھر اور کلک کلک ایسے کررہے تھے جیسے کوئی حواس باختہ ریچھ کرتا ہے۔تصویروں کی اس پکی فصل سے ایک مقامی کلاسیک کا ظہور ہوا۔کئی سالوں تک یہ اخبارات اور رسالوں میں انسانی حقوق کی رپورٹوں میں سرورق پہ چھاپی جاتی رہیں جنہیں کبھی نہ پڑھا گیا جبکہ اس پہ کیپشن ہوتے تھے:

Blood in the Snow

برف میں خون

Vale of Tears

وادی آہ و زاری

Will the Sorrow never End?

کیا مصائب کبھی ختم نہ ہوں گے؟

مرکزی سرزمین میں،ظاہر وجوہات کی بنا پہ مس جبین کی تصویر کم مقبول تھی۔غم و دکھ کی سپرمارکیٹ بھوپالی لڑکا،یونین کاربائیڈ گیس اخراج کا متاثرہ چارٹ میں اس سے بہت آگے ہی رہا۔ملبے کی قبر میں گردن تک دھنسے ہوئے اور زھریلی گیس سے اندھی ہوجانے والی شفاف گھورتی آنکھوں والے مردے لڑکے کی مشہور زمانہ تصویر کے کاپی رائٹس کے حقوق کا دعوی کئی بڑے فوٹوگرافر نے کیا تھا۔ان آنکھوں نے اس دردناک رات کو جو ہوا تھا اسے ایسے بتادیا تھا ویسے کوئی اور نہ بتاسکا تھا۔وہ (آنکھیں) دنیا بھر کے شوخ و شنخ رسالوں کے صفحات پہ گھور رہی تھیں۔آخری نتیجہ یہ تھا کہ اس سے کچھ نہیں ہوا۔کہانی ایک دم شعلے کی طرح بھڑکی اور پھر بجھ گئی۔جبکہ تصویر کے کاپی رائٹس کی جنگ کافی سالوں چلی،بالکل اسی وحشی پن سے جیسے گیس اخراج کے تباہ وبرباد ہوجانے والے ہزاروں افراد کے نقصان کے ازالے کی لڑائی چلی تھی۔

حواس باختہ ریچھ غائب ہوگئے(کیمرے مین) اور انکشاف ہوا کہ مس جبین ابتک جوں کی توں،ثابت و برقرار،بنا انتشار کے اور گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔اس کا عروج جو شروع ہوا تو اب بھی اپنی جگہ پہ بلند تھا۔جیسے ہی لاشوں کو قبروں میں اتارا گیا تو مجمع نے دعا بڑبڑانی شروع کردی۔

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي

اے میرے رب میرا سینہ کھول دے

اور میرا کام میرے لئے آسان بنادے

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي۔

اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ لیں

(نوٹ: سورہ طہ کی آیات 25 سے 28 ہیں یہ )

بہت چھوٹے بچے عورتوں کے الگ سے بنائے گئے حصّے میں اپنی ماؤں کے سخت اونی کپڑوں میں گھٹن محسوس کررہے تھے،ان کو زیادہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا،وہ تو سانس بھی مشکل سے لے رہے تھے تو انہوں نے جتنا ان کا ذہن تھا اسی اعتبار سے اپنی ہی بات کہنا شروع کردی:

میں تمہیں گولیوں کے چھے خول دوں گا اگر تم مجھے اپنا بےکار گرینڈ دے دو۔

ایک عورت کی تنہا آواز درد سے بھری ہوئی آسمان کی طرف اٹھی جوکہ جیسے کوئی تیز نوک والا نیزہ اڑتا ہوا آتا ہے۔

رو رہی ہے یہ زمین! رو رہا ہے آسمان

دوسری عورت اس کے ہم آواز ہوئی اور پھر ایک اور ہم آواز ہوئی:

یہ زمین رو رہی ہے!آسمان رو رہا ہے!

پرندوں نے اپنے چہکار ایک لمحے کو روک دی جبکہ اس دوران انہوں نے موتی جیسی آنکھوں والیوں کے انسانی گیت سنے۔سگ آوارہ چیک پوسٹوں کے پاس سے نگاہیں نیچے کئے بنا چیک کئے گزرتے چلے گئے اور ان کی دل کی دھڑکن تھم سی گئیں۔پتنگوں اور گدھوں نے گرم ہوائی غبار کے گرد چکر لگایا اور پھر سستی سے پیچھے ہوئے اور لائن آف کنٹرول کو پار گئے جیسے وہ نیچے انسانوں کے ایک چھوٹے سے دھبے کو برا بھلا کہہ رہے ہوں۔

جب آسمان پوری طرح سے ایسے بھڑکا ہوا تھا جیسے کوئی چیز سلگ رہی ہو تو نوجوان مردوں نے ہوا میں ایسے چھلانگ لگانی شروع کردی جیسے شعلے کسی سلگتی ہوئی لکڑیوں سے نکلتے ہیں۔وہ اوپر اور اوپر ایسے اچھل کود رہے تھے جیسے وہ سپرنگ لگی ترپال پہ اچھل رہے ہوں۔انہوں نے اپنے غصے کو ایسے زیب تن کرلیا جیسے اسلحہ پہنا کرتے ہیں، ان کا غصّہ ان کے جسم پہ ایسے لٹک رہا تھا جیسے ایمونیشن بیلٹ لٹکائی جاتی ہے۔اس لمحہ موجود میں وہ ایسا اس لئے کررہے تھے کیونکہ ان کو ایسے ہی مسلح ہونے پہ مجبور کیا گیا تھا یا اس کی وجہ یہ تھی کہ شاید وہ انہوں نے موت کی زندگی کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا یا وہ یہ جانتے تھے کہ وہ پہلے ہی مرچکے تھے اور وہ دکھائی نہ دینے والے بن چکے تھے۔

جن فوجیوں نے مزار شہداء کا گھیراؤ کیا ہوا تھا ان کو سختی سے گولی نہ چلانے کا حکم تھا چاہے جو بھی ہوجائے۔ان کے مخبر (بھائی،کزن، اباّ،انکل،بھتیجے،بھانجے) جو کہ مجمع میں ملکر جیسے دوسرے لوگ نعرے مار رہے تھے ویسے ہی جذباتی انداز میں نعرے لگارہے تھے(یہاں تک کہ ان کا مطلب بھی وہی تھا)،ان کو صاف ہدایت تھی کہ وہ ہر نوجوان جو غصّے میں بھرا ہو، ہوا میں چھلانک لگا رہا ہو اور خود کو شعلے میں بدل ڈالا ہو کی تصویر اور ممکن ہو تو ویڈیو بھی جمع کرائیں۔

تو ان میں سے ہر ایک اپنے دروازے پہ دستک سنے گا یا اسے چیک پوائنٹ پہ ایک طرف الگ لیجایا جائےگا۔

کیا تم یہ ہو وغیرہ وغیرہ؟

؟تم فلاں کے بیٹے ہو وغیرہ وغیرہ؟

اور-اچھا؟

اکثر خطرہ اس رسمی سی، بے پروائی سے کی گئی انکوائری سے آگے نہیں جاتا تھا۔کشمیر میں کسی آدمی کا بائیو-ڈیٹا اس کے سامنے پھینک دینے کا مطلب اس کی زندگی کا راستا بدل دینا ہوجاتا تھا۔اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا تھا۔

وہ موسی کے ہاں اپنے ملاقات کے حسب معمول وقت پہ آئے۔۔۔صبح کے چار بجے۔وہ جاگ رہا تھا اور ڈیسک پہ بیٹھا ایک خط لکھ رہا تھا۔اس کی ماں ساتھ والے کمرے میں تھی۔وہ اس کو سسکتے ہوئے اور اپنی بہنوں اور رشتے داروں کو اسے تسلی دیتے سن سکتا تھا۔وی شکل کی مسکراہٹ اور گلابی رنگ کے دل کے ساتھ سبز دریائی گھوڑا مس جبین کا پسندیدہ کھلونا اپنی معمول کی جگہ پہ ایک تکیہ کے سہارے اپنی ننھی ماں اور اپنے سونے کے وقت کی کہانی کا انتظار کررہا تھا۔ (آکھ دلیلاں وان۔۔۔۔کہانی سناؤنا)۔موسی نے گاڑی کے قریب پہنچنے کی آواز سنی۔اس نے فرسٹ فلور کی کھڑی سے اسے گلی میں مڑتے اور اپنے گھر کے باہر رکتے دیکھا۔اس نے کچھ بھی محسوس نہ کیا،نہ ہی غصّہ اور نہ ہی خوف و اظراب جب اس نے فوجیوں کو آرمڈ جپسی سے اترتے دیکھا۔

اس کا باپ شوکت یسوی (اس کے اور اس کے دوستوں کے لئے گاڈزیلا)بھی جاگا ہوا تھا۔وہ ملٹری انجینئیرنگ سروسز میں بلڈنگ کنٹریکٹر کے طور کافی عرصہ بلڈنگ میثریل اور ان کے لئے کئی دوسرے پروجیکٹس پہ کام کرچکا تھا۔اس نے اپنے بیٹے کو دہلی آرکٹیکچر کی تعلیم لینے اس امید پہ بھیجا تھا کہ وہ اس کے کاروباری لائن کو پھیلانے میں مددگار ثابت ہوگا۔لیکن جب 1990ء میں تحریک شروع ہوئی اور گاڈذیلا نے فوج کے ساتھ کام جاری رکھا تو موسی نے اس کو ایک دم سے چھوڑ دیا تھا۔بطور بیٹا اس کا جو فرض بنتا تھا اور تباہی و بربادی کے جس گٹھ جوڑ کو اس نے دیکھا اس کا احساس جرم ان دونوں کے درمیآن وہ بری طرح سے تقسیم ہوگیا تھا تو موسی کا اپنے باپ کے ساتھ ایک چھت میں رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔شوکت یسوی ایسے نظر آتا تھا جیسے وہ فوجیوں کے آنے کی توقع کررہا تھا۔وہ اچانک خطرے سے دوچار کیفیت میں نہیں لگ رہا تھا۔’امریک سنگھ نے بلایا ہے۔وہ تم ‎سے بات کرنا چاہتا ہے۔یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔تم پریشان نہ ہونا۔وہ دن کی روشنی ہونے سے پہلے تمہیں چھوڑ دے گا۔’مسی نے جواب میں کچھ نہ کہا۔اس نے یہاں تک کہ گاڈذیلا پہ نظر بھی نہیں ڈکلی،اس کی برہمی ایسے ظاہر ہوئی کہ اس نے اپنے کندھوں کو تھاما اور سیدھی کمرے کئے رکھی۔وہ دروازے سے باہر نکلا جبکہ اس کے ایک جانب دو مسلح فوجی تھے اور وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔نہ تو اس کے ہاتھزں کو ہتھکڑی لگائی گئی اور نہ اس کے سر پہ نقاب چڑھایا گیا۔جسپی ہموار برف سے جمی سڑکوں پہ رینگنے لگی۔برف دوبارہ پڑنے لگی تھی۔شیراز سینما بیرکوں اور افسران کے کوارٹرز کے انکلیو کا مرکز بن چکا تھا۔اسے جنونی انداز سے اسے ایسے کارڈن آف کیا گیا تھا کہ خار دار تاروں کے دو چکروں کے درمیان ایک گہری خندق تھی۔جبکہ چوتھا اور سب سے اندر والا چکر ایک بلند باؤنڈری وال پہ مشتمل تھی جس کے اوپر کانچ کے ٹکرے لگے ہوئے تھے لہريے دار دھاتی دروازوں کے ہر طرف واچ ٹاور بنے ہوئے تھے جن میں مشین گن لئے فوجی تعینات تھے۔موسی کو لیکر آنے والی جپسی تیزی کے ساتھ چیک پوسٹوں سے گزری اور یہ واضح طور پہ متوقع تھا۔یہ سیدھی کمپاؤنڈ سے گزرتی ہوئی اندر داخل ہوگئی۔سینما کی لابی حوب روشن تھی۔چھوٹے چھوٹے آئینوں کو ایک چھالر کی طرح سفید پلاسٹر آف پیرس مصنوعی چھت کے ساتھ ایسے ٹانکا گیا تھا جیسے ایک شادی کے کیک میں معکوس شکل میں برف کے ٹکڑے شاندار طریقے سے ٹانکے گئے ہوں اور سستے بہت چمکدار فانوسوں سے آنے والی روشنی ان پہ پڑ کر لابی میں پھیلی ہوئی تھی۔

سرخ قالین بھدا اور خراب ہوچکا تھا،سیمنٹ کا فرش اس میں سے بنے سراخوں سے دکھائی دے رہا تھا۔بندوق، ڈیزل اور پرانے کپڑوں کی بو وہاں پہ بسی ہوئی تھی۔کبھی جو سینما کا سنیک بار ہوا کرتا تھا وہ اب اذیت رسانوں اور اذیت کا نشانہ بننے والوں کے اندراج کا مرکز اور استقبالیہ میں بدل چگا تھا۔سنیک بار اب بھی ان چیزوں کی ایڈورٹائزنگ سے بھرا ہوا تھا جو اب یہاں نہیں تھیں۔گیڈبری فوٹ اینڈ نٹ چاکلیٹ اور کاولٹی آئیس کریم کئی فلیورز میں، چاک بار، اورنچ بار، مینگو بار۔دھندلے پڑگئے پرانی فلموں کے پوسٹر(چاندنی،میں نے پیار کیا،پرندہ اور صحراء کا شیر)

وقفے وقفے سے فلموں پہ پابندی اور سینما ہال اللہ ٹائیگرز کی جانب سے بند کروائے جاتے رہے۔اب بھی وال پہ لگے ہوئے تھے کچھ پہ پان کی سرخ پیک کے دھبے پڑے ہوئے تھے۔نوجوانوں کی ایک قطار جن کے ہاتھ ہتھکڑیوں سے جکڑے ہوئے تھے فرش پہ مرغیوں کی طرح پڑے ہوئے تھے،ان میں سے کچھ کو بری طرح سے مارا پیٹا گیا تھا اور وہ اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے مشکل سے زندہ تھے،وہ اب تک مڑے تڑے تھے کہ ان کی کلائیاں ان کے ٹخنوں سے لگی ہوئی تھیں۔فوجی قیدیوں کو لانے اور لیجانے کے لئے آجارہے تھے جن سے تفتیشش ہونا تھی اور جن سے ہوچکی تھی۔ہلادینے والی آوازیں بڑے لکڑی کے دروازوں سے ہوتی ہوئی آڈیٹوریم میں ایسے آتی تھیں جیسے ایک خوفناک فلم کا میوٹ ساؤنڈ ٹریک ہوں۔سمینٹ کینگرو خوشی سے خالی مسکراہٹ کے ساتھ اور کوڑا ڈالنے والے پاؤچ جن پہ لکھا تھا’یوز می’ کینگرو کورٹ کی نگرانی کرتے تھے۔

موسی اور اس کو لیکر آنے والے استقبالیہ یا رجسٹریشن مرکز پہ درکار ضابطوں میں الجھائے نہیں گئے تھے۔مارے پیٹے گئے پابند سلاسل آدمیوں کی نظروں کا مرکز بنتے ہوئے وہ شاہانہ انداز میں بالکونی کی نشستوں کی جانب جانے والی چکر دار سيڑھیاں چڑھتے چلے گئے۔اسے کیوئین سرکل کہا جاتا ہے۔۔۔اور اوپر جاکر مزید تنگ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے پروجیکشن روم کی طرف بڑھ گئے جسے دفتر میں بدل دیا گیا تھا۔موسی واقف تھا کہ تھیٹر کا یہ حصّہ بھی سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور یہ معصوم نہیں تھا۔میجر امریک سنگھ ایک ڈیسک کے پیچھے براجمان تھا جوکہ اس کے جمع کردہ غیر ملکی ویٹ پیپرز سے بھرا ہوا تھا۔۔۔۔نوک دار،چتیلے سیپ سے بنا ہوا،پیتل کی مورتی والا،جہاز رانی میں محو جہاز والا،شیشے کے جار میں قید بیلے رقص کرنے والی عورت والا۔۔۔۔۔وہ اٹھ کر موسی سے ملنے کے لئے کھڑا ہوگیا۔وہ کالے رنگ کا غیر معمولی لمبے قد والا تیس کے پیٹے میں تھا۔ چھے اعشاریہ دو فٹ کا نوجوان تھا۔اس کے رخساروں کی جلد عین داڑھی سے اوپر پھولی مسام دار تھی جیسے اسفنج کی ہوتی ہے۔اس کی گہری سیاہ پگڑی اس کے کانوں اور پیشانی کے گرد سختی سے بندھی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں کے کناروں اور بھنوؤں کو اوپر کی صرف گھینچے ہوئے تھے اور اس نے اس کے جہرے کو نيم خوابیدہ بنایا ہوا تھا۔اور جو اس کے یونہی روٹین میں ملنے والے واقف تھے جانتے تھے کہ اس کا یہ خوابیدہ چہرہ بڑا ہی دھوکے باز تھا۔وہ گھوم کر ڈیسک کے دوسری جانب آیا اور اس نے بہت گرم جوشی کے ساتھ موسی سے ہاتھ ملایا۔جو فوجی موسی کو لائے تھے ان کو جانے کو کہہ دیا گیا،

‘السلام علیکم حضور۔۔۔۔۔۔پلیز تشریف رکھیں۔کیا لیں گے آپ؟چائے یا کافی؟’

اس کا لہجہ استہفامیہ اور حکمیہ کے بین بین تھا۔

‘کچھ نہیں۔شکریہ۔’

موسی بیٹھ گیا۔امریک سنگھ نے سرخ انٹرکوم کا ریسور اٹھایا اور چائے ‘آفسیر بسکٹ ‘ لانے کو کہا۔اس کی جسامت اور پھیلاؤ نے اس کے ڈیسک کو چھوٹا اور غیر متناسب سا بناڈالا تھا۔یہ ان کی پہلی ملاقات نہیں تھی۔موسی امریک سنگھ تمام جگہوں پہ اس سے پہلے کئی بار مل چکا تھا۔

موسی کے اپنے گھر،جب امریک سنگھ گاڈذیلا سے ملنے آیا تھا،جہاں پہ اس نے اس کو دوستی کی پیشکش کی تھی ۔۔۔ایسی پیشکش جو گاڈذیلا ٹھکرانے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔امریک سنگھ کے گھر پہ چند یاتراؤں کے بعد موسی کو گھر کی فضاء میں تباہ کن بدلاؤ کا پتا چل چکا تھا۔گھر کی فضاء اور زیادہ خاموش ہوچکی تھی۔اس کے اور اس والد کے درمیاں تند و تیز سیاسی بحثیں بند ہوگئی تھیں۔لیکن موسی نے جان لیا تھا کہ گاڈذیلا کی اچانک مشکوک نظریں ہمیشہ اس پہ جمی رہتی تھیں جیسے وہ اسے جانچنے کی کوشش کررہا ہو، اس کی گہرائی کا پتا چلانے کی کوشش کررہا ہو اور اس کی سن گن لے رہا ہو۔ایک دوپہر اپنے کمرے سے نیچے آتے ہوئے موسی ایک ساتھ گئی سیڑھیوں کو پھلانگتا ہوا اڑنے کے انداز میں نیچے زمین پہ لینڈ کرنے کے انداز میں اتر گیا۔

گاڈذیلا جو اس کی یہ پرفارمنس دیکھ رہا تھا نے موسی کو ٹوکا،اس کی آواز تو نہ نکلی تھی لیکن وہ بہت طیش میں تھا اور موسی دیکھ سکتا تھا کہ ایک رگ اس کے دماغ کے پاس پھڑک رہی تھی۔’تم نے ایسے اترنا کیسے سیکھا؟کیا ہم نے تمہیں ایسے اترنا سکھایا تھا؟’ اس نے اپنے بیٹے کو کشمیری والدین کی طرح بہت اچھی سے اساری ہوئی جبلت کے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔

وہ اس میں غیر معمولی تبدیلیوں کی تلاش کررہا تھا۔۔۔ٹریگر پہ انگلی جمانے کی وجہ سے سخت جلد کا نشان،سخت جلد گھٹنوں اور کہنیوں سے اور دوسری نشانیاں ٹریننگ کی جو عسکریت پسند کیمپوں میں مل جاتی ہیں۔لیکن وہ کوئی ایک نشانی بھی ڈھونڈ نہیں پایا۔امریک سنگھ نے اسے جو پریشان کن معلومات فراہم کی تھیں ان کے ساتھ اس نے موسی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔دھاتی ڈبوں کی اس کے گیندربال باغات سے نقل وحرکت کی خبریں۔۔۔۔۔موسی کے پہاڑوں میں سفر اور اس کے خاص دوستوں سے ملاقات کی معلومات بارے۔

‘ تم ان سب کے بارے میں کیا کہتے ہو؟’

‘اپنے دوست میجر صاحب سے پوچھیں۔وہ آپ کو بتآئے گا کہ جس انٹیلی جنس پہ ایکشن نہ ہوسکے وہ کوڑا ہی ہوتی ہے،’ موسی نے جواب دیا۔

‘Tse chhui marnui assi sarnei ti marnavakh,

‘تم خود تو مروگے ہی،ہم سب کو بھی اپنے ساتھ مرواؤگے،’ گاڈذیلا نے کہا۔اگلی مرتبہ جب امریک سنگھ آیا تو گاڈذیلا نے اصرار کیا کہ موسی بھی وہاں موجود ہو۔

اس موقع پہ وہ فرش پہ ایک پھولدار پلاسٹک کے دسترخوان کےگرد آلتی پالتی مارے بیٹھ گئے اور موسی کی والدہ نے چائے پیش کی۔(موسی نے عارفہ سے کہا تھا کہ وا اور مس جبین نیچے سیڑھیاں اتر کر اس وقت نہ آئیں جب تک ملاقاتی چلا نہ جائے)امریک سنگھ نے گرم جوشی اور کامریڈشپ دکھائی۔وہ تکیوں سے ٹیک لگاکر ایسے پسر کر بیٹھ گیا جیسے اس کا اپنا گھر ہو۔اس نے سنتا سنگھ اور بنتا سنگھ پہ بنے چند گھٹیا قسم کے احمقانہ لطیفے بھی سنائے۔اور پھر اس نے اپنی بیلٹ کھول دی جس میں ہولسٹر کے اندر پستول اس وقت بھی تھا اور ظاہر یہ کیا جتنا وہ کھانا چاہتا ہے اتنا کھانے میں وہ بیلٹ رکاوٹ بن رہی تھی۔

اگر اس انداز کا مطلب اپنے میزبانوں پہ اعتماد اور ان کے ساتھ آرام محسوس کرنے کا اشارہ تھا تو اثر اس کے بالکل الٹ ہی ہوا تھا۔جالب قادری کے قتل کی بات ابھی کھلی تھی،لیکن ہر شخض جانتا تھا کہ دوسرے قتل اور اغواء کا کھرا کہاں جاتا تھا۔پستول خوفناک انداز میں کیک اور سنیک کی پلیٹوں اور نمکین دوپہر کی چائے کے درمیان پڑا ہوا تھا۔جب آخرکار امریک سنگھ جانے کے لئے اٹھا اور اس نے تحسین کے طور پہ ڈکار لی تو وہ اسے بھول گیا یا اس نے اسے بھول جانے کا ناٹک کیا تو گاڈذیلا نے اسے اٹھایا اور اس کے حوالے کردیا۔

امریک سنگھ نے سیدھا موسی کی جانب دیکھا اور اسے واپس اپنی کمر کے ساتھ اڑستا ہوا ہنسا۔’اچھا ہوا تمہارے والد نے یاد رکھا۔تصور کرو اگر محاصرے و تلاشی کے دوران یہ یہاں پایا جاتا تو کیا ہوتا۔مجھے معاف کردیں، اس صورت میں خدا بھی آپ کی مدد نہ کرپاتا۔تصور تو کريں۔’ ہر شخص فرمانبرداری سے ہنس دیا۔موسی نے دیکھا کہ امریک سنگھ کی آنکھوں میں ہنسی نہیں تھی۔وہ روشنی کو جذب کرتی دکھائی دیتی تھیں مگر اس کو منعکس نہیں کررہی تھیں۔وہ شفاف تھیں، گہرائی سے خالی سیاہ ڈسک جس میں روشنی کی ہلکی سی بھی رمق نہ تھی۔یہی شفاق آنکھیں اب شیراز کے پروجیکشن روم میں پیپرویٹ سے بھری میز کے پرے سے موسی کو گھور رہی تھیں۔یہ غیر معمولی نظر تھی۔امریک سنگھ ڈیسک پہ بیٹھا تھا۔واضح تھا کہ اسے بالکل بھی آئيڈیا نہیں تھا کہ اس میز کو کافی ٹیبل سے ہٹ کر بھی کسی اور استعمال میں بس لمحوں میں لایا جاسکتا تھا۔اسے اس طرح سے لگایا گیا تھا وہ ہی صرف اپنی کرسی کی پشت کی جانب جھک سکتا اور دیوار میں کھلنے والی کھڑکی سے جھانک سکتا تھا۔۔۔کبھی یہ پروجیکشن کرنے والی کا پورٹل وویو ہوا کرتا تھا اور ایک ایک جاسوس خانہ ہوگیا تھا جس کا مقصد مرکزی ہال میں ہونے والی ہر ایک سرگرمی پہ نظر رکھنا تھا۔

انٹروگیشن سیلوں کی شروعات وہاں ہوتی ہوئی باہر نکلنے کے دروازوں تک جاتی جس پہ نیون لائٹ سائن تھا جس پہ لکھا ‘ایگزٹ’ (کبھی کبھی حقیقی معنی یہی ہوتا تھا)سکرین اب بھی وہی پرانے فیشن کے مخملی ڈنڈوں سے باندھے گئے کپڑے پہ مشتمل تھی۔۔۔پرانے زمانے میں جن پہ میوزک بجایا جاتا تھا: پاپ کارن یا بے بی ایلیفنٹ واک’۔گھٹیا سستی سی نشستیں سٹال سے ہٹا لی کئیں تھیں اور اور کونے میں اسے پٹک دیا گیا تھا تاکہ ان ڈور بیڈمنٹن کورٹ کے لئے جگہ بنائی جاسکے جہاں پہ دباؤ کا شکار فوجی اپنی بھاپ نکال سکیں۔

اس وقت بھی شٹل کاک کے ریکٹ سے ٹکرا کر پیدا ہونے والی تھاک،تھاک کی آواز امریک سنگھ کے دفتر تک آرہی تھیں۔

‘میں نے تمہیں یہاں پہ اپنی طرف سے معذرت پیش کرنے اور جو ہوا اس پہ دل کی گہرائیوں سے ذاتی طور پہ تعزیت پیش کرنے کے لئے بلایا ہے۔’

کشمیر میں خستہ حالی اسقدر اندر تک رواں دواں تھی کہ امریک سنگھ واقعی اس سنگینی و گھمبیرتا سے بے خبر تھا جو ایک ایسے آدمی کو اٹھانے اور زبودستی مسلح محافظوں کے سائے میں صبح کے چار بجے انٹروگیشن سنٹر لانے صرف تعزیت کے لئے لانے سے پیدا ہوتی ہے جس کی بیوی اور بچہ گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے ہوں۔

موسی خان جانتا تھا کہ امریک سنگھ ایک ایسی چھپکلی تھا جو کہ اپنی پگڑی کے نیچے ‘مونا’ تھا۔۔۔۔اس کے سکھوں جتنے لمبے بال نہ تھے۔اس نے کئی سال پہلے سکھ مذہب کی اس مقدس رسم کی یہ بے حرمتی کئی سال پہلے کی تھی۔اس نے گاڈذیلا کو اسے بتاتا سنا تھا کہ جب وہ ردشورش آپریشن پہ ہوتا ہے تو وہ ایک ہندؤ،ایک سکھ،یا پنجابی بولنے والا مسلمان کچھ بھی ہوسکتا ہےاس کا انحصار آپریشن کی ڈیمانڈ پہ تھا۔ اس نے بے تحاشا قہقہہ لگایا جب اس نے بیان کیا کہ کیسے ‘ہمدردوں’ کی شناخت اور ان کو بل سے باہر نکالنے کے لئے اس نے اور اس کے آدمیوں نے شلوار قمیص۔۔۔’خان سوٹ’ پہنے اور گاؤں والوں کے دروازوں پہ راتوں کو دستک دی یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ پاکستان سے آئے عسکریت پسند ہیں اور طالب پناہ ہیں۔

آکر ان کو خوش آمدید کہا گیا تو اگلے دن گاؤں والوں کو او جی ڈبلیو ایس (اوور گراؤنڈ ورکرز) کے طور پہ گرفتار کرلیا گیا۔

‘گاؤں والے کیسے آدھی رات کو بندوقوں سے لیس آدمیوں کے ایک گروپ کو واپس کرتے جو ان کے دروازے پہ آن کھڑا ہوتا؟اس سے قطع نظر کہ وہ عسکریت پسند تھے یا فوجی؟موسی یہ پوچھنے کی ہمت نہ کرسکا۔

‘اوہ،ہمارے پاس خوش آمدید کہنے کی گرم جوشی ماپنے کے اپنے طریقے ہیں۔’ہم اپنے ہی بیرومیٹر رکھتے ہیں۔’ہوسکتا ہے۔لیکن تم کشمیریوں کی فریب نظر کی گہرائی کی ذرا سمجھ نہیں رکھتے، موسی نے سوچا تو مگر کہا نہیں۔تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کیسے ہم جیسے لوگوں نے اپنی تاریخ اور جغرافیہ کو بچایا ہے اور کیسے ہم نے اپنے فخر کو زیر زمین چلانا سيکھ لیا ہے۔کمال مہارت سے دوہرے پن کے ساتھ رہنے کا ہنر ہی ہمارا ہتھیار ہے۔تم نہیں جانتے کہ جب ہمارے دل ٹوٹے ہوتے ہیں تب بھی ہم پرشوق مسکراہٹ کو ظاہر کررہے ہوتے ہیں۔جن کو ہم پیار کرتے ہوں ان پہ ہم دکھاوے کے لئے سخت غصہ ہوجاتے اور جن کو ہم نے تباہ کرنا ہوتا ہے ان سے بہت جوش سے گلے مل رہے ہوتے ہیں۔تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کیسے ہم آپ کا پرجوش سواگت کرتے ہیں جبکہ ہم اصل میں آپ کو بھگانا چاہتے ہیں۔تمہارا بیرو میٹر یہاں کسی کام کا نہیں ہے۔اس پہ سوچنے دیکھنے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔اور دوسری طرف یہی انداز موسی کا بھی ہوسکتا تھا جو اس وقت بظاہر بہت ہی شریف و سادہ نظر آرہا تھا۔

کیونکہ امریک سنگھ اس مطلق العنان فضاء اور جبریت کے سب اقدامات سے مکمل طور پہ آگاہ تھا جس میں وہ کام کرتا تھا۔۔۔۔وہ جس کی رعایا کی کوئی سرحدیں نہیں تھیں، کوئی وفاداری اس میں نہیں تھی اور نہ ہی اس گہرائی کی کوئی حد تھی جہاں تک گرا جاسکتا تھا۔جہاں تک کشمیری نفسیات کا تعلق تھا تو ایسی کوئی چیز اگر موجود بھی تھی تو امریک سنگھ نہ تو اس کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا اور نہ ہی اسے اس کی کچھ بصیرت تھی۔اس کے ںزدیک تو یہ ایک کھیل تھا، ایک شکار، جس میں اس کے شکار کے ہدف خود اس کے خلاف ہی اتارے گئے تھے۔اس نے خود کو ایک فوجی سے زیادہ ایک کھلاڑی سمجھ رکھا تھا۔جس نے اسے ایک خوش مزاج روح بنادیا تھا۔میجر امریک سنگھ ایک جواری،جرآت مند شیطان افسر،سخت جان تفتیشی،رسیلا،سرد مہر قاتل تھا۔اسے اپنے کام میں بہت مزا آتا تھا اور وہ تفریح کے نئے طریقوں کی تلاش کرتا رہتا تھا۔

وہ کچھ عسکریت پسندوں سے رابطے میں رہتا جو اتفاق سے اس کی وائرلیس فریکوئنسی میں آتے یا وہ ان کی میں چلا جاتا اور وہ ایک دوسرے پہ اسکولی لڑکوں کی طرح طنزو تشنیع کے تیر برساتے’ ارے یار!میں تو ایک نمانا سا ٹریول ایجنٹ ہوں۔’وہ ان سے یہی کہنا پسند کرتا تھا۔’تم جہادیوں کے لئے کشمیر ٹرانزٹ پوائنٹ ہے،کیا ایسا نہیں ہے؟تمہاری اصل منزل تو جنت ہے جہاں تمہاری حوریں تمہارا انتظار کرتی ہیں۔میں تو یہاں بس تمہارے سفر میں تمہارا سہولت کار ہوں۔’وہ اپنے آپ کو جنت ایکسپریس کہہ کر شناخت کراتا۔اور اگر وہ انگریزی میں بول رہا ہوتا (جس کا عام طور پہ مطلب یہ ہوتا کہ وہ پیے ہوئے ہے)تو وہ اس کا ترجمہ پیراڈائز ایکسپریس کرتا تھا۔

وہ نشاط انگیزی کے معاملے میں اس قدر متشدد تھا کہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک عسکریت پسند کو بہت تگ ودود کے بعد تلاش کرکے اور بہت مشکل سے اسے پکڑنے کے بعد چھوڑ دیا تھا صرف اس لئے کہ وہ اسے دوبارہ پکڑ کر اپنی متشدد نشاط انگیزی کا دوبارہ مزا لینا چاہتا تھا۔اپنے ذاتی شکار کرنے کا جو مینوئل اس نے تیار کیا ہوا تھا اس کے بھٹکے ہوئے طریقہ نشاط انگیزی کی تسکین کے لئے ہی اس نے موسی کو شیراز بلاکر تعزیت کی تھی۔گزشتہ چند مہینوں میں شاید امریک سنگھ نے موسی کو ایک ممکنہ دشمن کے طور پہ شناخت کرلیا تھا،ایسا شخص جو اس کا متضاد قطب تھا اور وہ ایسے اعصاب رکھتا تھا اور ایسی ذہانت کا حامل تھا جو خطرات کو بڑھاتے اور شاید شکار کی نوعیت کو ایک ایسے مقام پہ بدل کر رکھ دیتے کہ یہ بتانا مشکل ہوجاتا کہ کون شکاری ہے اور کون شکار۔

اسی وجہ سے امریک سنگھ بہت بےچین اور اپ سیٹ تھا جب اسے موسی کی بیوی اور بیٹی کی موت کا علم ہوا۔وہ موسی کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ اس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔اور یہ کہ یہ قطعی غیر متوقع تھا اور جہاں تک اس کا تعلق تو بیلٹ سے نیچے جاکر وار کرنا اس کے منصوبے میں شامل نہیں تھا۔شکار کو جاری رکھنے کے لئے اسے ہدف کے سامنے یہ بات صاف کرنا بہت ضروری تھا۔

صرف شکار کھیلنا ہی اس کا واحد شوق نہ تھا۔اس کے بہت مہنگے ذوق اور لائف سٹائل تھا کہ وہ یہ اپنی تنخواہ سے پورے نہیں کرسکتا تھا۔تو اس نے دوسرے کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھایا جو کہ فوجی پیشہ ہونے کی وجہ سے جیتے جاسکتے تھے۔اغواء اور تاوان جیسے کاموں سے ہٹ کر وہ پہاڑوں میں ایک آرے مل کا مالک تھا اور وادی میں اس کا فرنیچر کا بزنس تھا۔جتنا وہ متشدد تھا وہ اتنا ہی زیادہ سخی تھا اور وہ بیش قیمت مخروطی کافی ٹیبل اور اخروٹ کی لکڑی کی کرسیاوں تحائف ان لوگوں کو تقسیم کرتا تھا جو اس کو پسند ہوتے تھے یا اس کی ضرورت ہوتے تھے۔(گاڈذیلا کے پاس بھی سائیڈ ٹیبل تھیں جو زبردستی اسے دی گئی تھیں)امریک سنگھ کی بیوی لولین کور پانچ بہنوں میں چوتھے نمبر پہ تھی۔۔۔۔تلوین، ہرپریت،گورپریت،لولین اور ڈمپل۔۔۔۔۔۔اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھیں۔۔۔۔اور ان کے دو چھوٹے بھائی تھے۔ان کا تعلق چھوٹی سی سکھ برادری سے تھا جو صدیوں پہلے وادی میں آکر بس گئی تھی۔

ان کا باپ ایک چھوٹا کسان تھا جس کے پاس اپنے خاندان کو کھلانے کے زیادہ ذرائع نہ تھے۔یہ کہا گیا تھا کہ خاندان اتنا غریب تھا کہ جب ان میں سے ایک لڑکی سکول کی جانب جارہی تھی تو اس کا ٹفن گرپڑا جس میں ان کا پیک کیا ہوا دوپہر کا کھانا تھا،بھوکی لڑکیوں نے سڑک پہ گرا کھانا ہی کھالیا تھا۔جیسے جیسے لڑکیاں جوان ہوتی گئیں تو مردوں نے بھونڈوں کی طرح ان کے گرد منڈلانا شروع کردیا۔اور ہر طرح کی پیشکش ان کو کی گئیں تھیں سوائے ان سے شادی کرنے کی پیشکش کے۔

تو ان کے والدین بہت راضی تھے جب وہ ان میں سے ایک کی شادی بنا کسی جہیز کے دیے مرکزی سرزمین کے ایک فوجی افسر سے کرنے کے قابل ہوگئے تھے۔جب ان کی شادی ہوگئی تو لولین امریک سنگھ کے ساتھ سری نگر اور اس کے گرد قائم بہت سے کیمپوں میں آفسیرز کوارٹرز میں نہیں گئی جہاں جہاں وہ تعینات رہا۔کیونکہ یہ افواہ تھی کہ وہاں پہ ایک اور عورت، ایک دوسری بیوی،سنٹرل ریزرو پولیس سے اس کی ایک ساتھی اے سی پی پنکی تھی جو فیلڈ آپریشن میں بھی اور کیمپوں میں انٹروگیشن سیشن میں اس کے ہمراہ ہوتی تھی۔ چھٹیوں پہ جب امریک سنگھ اپنی بیوی اور شیر خوار بچے سے ملنے سری نگر ميں سکھ آبادی کے علاقے جواہر نگر میں آتا تو ہمسائے ڈومیسٹک تشدد اور عورت کی جانب سے مدد کی درخواست پہ مبنی چیخیں سنائی دینے بارے سرگوشیاں کرتے تھے۔کسی نے بھی مداخلت کرنے کی ہمت نہ کی۔اگرچہ امریک سنگھ بے رحمی سے عسکریت پسندوں کا شکارکرکے ان کو ختم کردیتا تھا

لیکن پھر بھی وہ ان کا لحاظ کرتا۔۔۔اور ان میں جو بہترین ہوتے تھے ان کی جلن کے ساتھ تعریف کرتا۔وہ ان میں سے کچھ کی قبروں کا احترام کرتا جن میں سے چند وہ تھے جن کو خود اس نے مارا تھا۔(ان میں سے ایک کو اس نے گن سیلوٹ بھی پیش کیا تھا)جن لوگوں کو اس نے نہ صرف بے عزت کیا بلکہ ان کو وہ انتہائی گھٹیا خیال کرتا تھا وہ انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ تھے۔۔۔۔اکثر وکیل، صحافی اور اخبارات کے ایڈیٹر۔ اس کے لئے وہ ایسے پاجی تھے جنھوں نے اپنی مستقل شکایتوں اور رونے چلانے سے ایک عظیم کھیل میں شمولیت کے جو اصول تھے ان کو برباد اور تباہ کردیا تھا۔

امریک سنگھ کو جب کبھی ان میں سے کسی ایک کو اٹھانے یا ان کو نیوٹرلائز کرنے کی اجازت ملی ( یہ اجازت کبھی بھی مارنے جیسے احکامات کی شکل میں نہیں آئی تھی بلکہ عمومی طور اس میں سے نہ مارنے کے احکامات غائب ہوتے تھے) تو وہ اپنی اس ڈیوٹی کو بجالانے میں زیادہ پرجوش نہیں ہوا کرتا تھا۔لیکن جالب قادری کا کیس مختلف تھا۔اس کے پاس محض ڈرانے اور آدمی کو حراست میں رکھنے کے آڈر تھے۔چیزيں غلط رخ پہ چلی گئیں۔جالب قادری نے نہ ڈرنے کی غلطی کی۔پلٹ کر جواب دینے کی۔امریکہ سنگھ کو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکنے پہ افسوس اور پچھتاوا تھا اور اس سے اپنے دوست اور ساتھی ہم سفر اخوان گوجری کو اس کے نتیجے میں ختم کرنا پڑا تھا اس پہ اس پچھتاوے میں اضافہ ہوگیا تھا۔انہوں نے اچھا وقت گزارا تھا اور کئی جرات مندانہ کام اس نے اور سلیم گوجری نے اکٹھے سرانجام دیے تھے۔

وہ جانتا تھا کہ اگریہ معاملہ اس کے ساتھ ہوتا تو سلیم گوجری بھی یقینی طور پہ یہی کرتا جو اس نے کیا تھا۔اور وہ امریک سنگھ یقینی بات ہے سمجھ گیا تھا۔یا اس نے خود کو بتادیا ہوگا،جو کام اس نے کئے،سالم گوجری کو مارنا ایک ایسا کام تھا جس نے اسے ٹھٹھک جانے پہ مجبور کردیا تھا۔دنیا میں سلیم گوجری بشمول لولین کے وہ شخض تھا جن کے لئے امریک سنگھ نے وہ محسوس کیا تھا جسے مبہم طور پہ پیار کہا جاتا تھا۔جب وہ لمحہ آیا تو اس نے اس کے اعتراف میں اس نے خود ہی ٹریگر کھینچا تھا۔

وہ یاسیت پرست نہیں تھا اور جلد ہی ایسی چیزوں سے نکل آتا تھا۔موسی کے سامنے ڈیسک کے پرے بیٹھے ہوئے ویسے ہی مغرور اور حد سے زیادہ اپنے ٹھیک ہونے کے یقین کا حامل تھا۔اسے فیلڈ سے واپس بلاکر ڈیسک جاب دے دی گئی تھی،ہاں لیکن چیزیں ابھی تک اس پہ کھلنا شروع نہیں ہوئی تھیں۔وہ اب بھی کبھی کبھار باہر فیلڈ میں آپریشن کے لئے جاتا خاص طور پہ اس کیس میں جس میں کسی عسکریت پسند یا اوور گراؤنڈ ورکر کی ہسٹری سے وہ واقف ہوتا تھا۔اسے یقین تھا کہ اس نے نقصان کو کنٹرول کرلیا تھا اور وہ مشکل سے باہر آگیا تھا۔

‘آفسیر بسکٹ’ اور چائے آگئی۔موسی نے طشتری میڑ دھرے چائے کے برتنوں کی آواز پہلے سنی اور بعد میں بسکٹ لانے والا اس کے پیچھے سے ظاہر ہوا۔موسی اور بسکٹ لانے والے نے ایک دوسرے کو فوری ہی پہچان لیا تھا لیکن ان کے چہرے کسی بھی شناسائی کے تاثر سے خالی رہے۔امریکہ سنگھ نے ان کو بہت غور سے دیکھا۔کمرے میں جیسے ہوا بالکل ہی بند ہوگئی تھی۔سانس لینا دشوار ہوگیا تھا۔اسے بناوٹی تو ہونا ہی تھا۔جنید احمد شاہ حزب المجاہدین کا ایریا کمانڈر تھا جسے چند ماہ پہلے ہی پکڑا گیا جب اس نے بہت عام مگر ہلاکت خیز غلطی کی کہ اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو ملنے سوپور میں اپنے گھر چلا آیا جہاں فوجی پہلے ہی اس کی تاک میں بیٹھے تھے۔وہ لمبا، لوچ دار جسم کا مالک، خوش شکل ہونے کے سبب اور اپنی حقیقی اور کچھ افسانوی بہادری کی وجہ سے جانا پہچانا اور بہت زیادہ محبوب تھا۔

کبھی اس کے کاندھوں تک لہراتے بال اور گھنی سیاہ داڑھی تھی۔اب ہ کلین شیو تھا اور اس کے بال ہندوستانی فوجی سٹائل میں کٹے ہوئے تھے۔اس کی ماند پڑی،اندر کو دھنسی آنکھیں گہرے خاکستری گڑھے لگتے تھے۔اس نے ایک ٹریک سوٹ پہنا ہوا تھا جس کی پتلون اس کی آدھی پنڈلیوں پہ آکر ختم ہوجاتی تھی، اونی جرابیں،آرمی کی طرف سے جاری کینویس کیڈز شوز اور ایک قرمزی رنگ کی کھسی پٹی سی بیروں والی جیکٹ جس پہ پیتل کے بٹن ٹنکے ہوئے تھے جو اتنی چھوٹی تھی کہ اس نے اسے ایک مذاق بنادیا تھا۔اس کے ہاتھوں کے ارتعاش نے طشتری میں دھری کراکری کو ڈانس کرنے پہ مجبور کردیا تھا۔
‘ٹھیک ہے، اب دفع ہوجاؤ۔اب تو یہاں کس لئے کھڑے ہو؟’

امریک سنگھ نے جنید سے کہا۔
‘جی جناب!جے ہند!
جنید نے سیلوٹ مارا اور کمرے سے چلاگیا۔امریک سنگھ ترحم و ترس کی تصویر بنے موسی کی طرف متوجہ ہوا۔
‘جو آپ کے ساتھ ہوا وہ کسی بھی انسان کے ساتھ نہیں ہونا چاہئیے۔آپ صدمے میں ہوں گے۔یہ کریک جیک (بسکٹ) لیں۔یہ آپ کے لئے اچھے ہیں۔ ففٹی ففٹی۔
پچاس فیصد چینی اور پچاس فیصد نمک۔’
موسی نے جواب نہ دیا۔امریک سنگھ نے اپنی چائے ختم کی۔موسی نے اپنی والی بنا چھوئے ہی چھوڑ دی۔’آپ کے پاس ایک انجنئیرنگ کی ڈگری ہے،کیا ایسا ہی نہیں ہے؟’
‘نہیں۔آرکیٹیکچر کی۔
‘میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔آپ او تو پتا ہوگا کہ فوج کو ہمیشہ انجینئرز کی تلاش رہتی ہے۔بہت کام ہے وہاں۔بہت اچھا معاوضہ ملتا ہے۔سرحد پہ باڑ لگانا،یتم خانے کی عمارت بنانا،وہ تخلیق نو مراکز اور جم نوجوانوں کے بنانے کا سوچ رہے ہیں،یہان تک کہ اس جگہ پہ بھی کافی کچھ کرنا ہے۔۔۔میں تمہیں بعض اچھے کنٹریکٹ دلواسکتا ہوں۔ہمارا تمہارے لئے یہ کرنا کم از کم فرض بنتا ہے۔’موسی نے اس کی طرف نہ دیکھتے ہوئے شہادت کی انگلی سے ایک سیپی کے شیل کی ٹپ کو جانچا۔
‘کیا میں زیر حراست ہوں، یا مجھے یہان سے جانے کی اجازت دیں گے آپ؟’
اب بھی وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا،اس لئے وہ امریک سنگھ کی آنکھوں میں در آنے والی غصّے کی لہر کو نہ دیکھ سکا جوکہ اتنی ہی خاموشی اور تیزی سے آئی تھی جیسے ایک چھوٹی سی دیوار پہ ایک بلّی کودتی ہے۔
‘آپ جاسکتے ہیں۔’
امریک سنگھ اپنی کرسی پہ بیٹھا رہا جبکہ موسی اٹھ کھڑا ہوا اور کمرہ چھوڑ گیا۔اس نے گھنٹی بجائی اور جس نے جواب دیا تھا اسے موسی کو باہر کا راستہ دکھانے کو کہا۔
نیچے سیڑھیوں میں سینما لابی میں ٹارچر بریک ہوگئی تھی۔چائے فوجیوں کو بڑی بڑی کتیلیوں سے انڈیل کر سرو کی جارہی تھی۔ایک لوہے کی ٹوکری میں ٹھنڈے سموسے، دو فی کس بانٹے جارہے تھے۔موسی نے لابی عبور کی تو اس وقت وہ بندھے ہوئے،مارے پیٹے گئے خون رستے لڑکوں میں سے ایک کی نظر میں تھا جسے وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا۔وہ اس لڑکے کی ماں کو جانتا تھا تو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ، ایک پولیس اسٹیشن سے دوسرے تک بے صبری سے اسے تلاش کرنے کے لئے چکر لگارہی تھی۔یہ تلاش شاید ساری عمر جاری رہتی۔موسی نے سوچا کہ کم از کم ایک خوفناک اچھی چیز کا تو اس رات انکشاف ہوگیا تھا۔
وہ خارجی دروازے سے تقریبا باہر نکل ہی گیا تھا جب امریک سنگھ سب سے اوپر والی سیڑھی سٹیپ پہ نمودار ہوا،روشن چہرے اور خوش مزاجی کے ساتھ اور وہ اس شخص سے بالکل مختلف نظر آرہا تھا جسے موسی پروجیکشن روم میں چھوڑ کر آیا تھا۔اس کی آواز لابی میں گونج گئی۔
‘ارے حضور! ایک چیز میں بالکل بھول گیا تھا!’
ہر شخص ۔۔۔۔اذیت دینے اور اذیت برداشت کرنے والے سب۔کی نظریں اس پہ مرکوز ہوگئیں۔اس بات سے باخبر کہ اس پہ سب ناظرین کی توجہ ہے امریک سنگھ نے اتھلیٹ کی طرح سیڑھیوں سے نیچے چھلانک ماری ،جیسے ایک مسرور میزبان اپنے اس مہمان کو رخصت کرنے آیا ہو جس کی ملاقات نے اسے بہت مزا دیا ہو۔اس نے موسی کو گرم جوشی سے گلے لگایا اور ایک پیکچز اسے تھمادیا جو وہ لایا تھا۔
‘یہ آپ کے والد کے لئے ہے۔ان کو بتانا کہ یہ خاص طور پہ ان کے لئے ہے۔’
یہ ریڈ سٹیگ وہسکی تھی۔لابی میں سناٹا چھاگیا۔ہر کوئی ناظرین اور اس کھیل میں اصل کردار (کھیل جو ابھی اپنا آپ کھول رہا تھا)سب سکرپٹ کو سمجھ چکے تھے۔اگر موسی اس تحفہ کو ٹھکرا دیتا ہے تو یہ امریک سنگھ کے ساتھ جنگ کا اعلان ہوگا ۔۔۔جو کہ موسی جلد از جلد مار دے گا۔اگر اسے قبول کرلیا، تو امریک سنگھ موت کی سزا کا سودا عسکریت پسندوں سے کرلے گا۔کیونکہ اس کو پتا تھا کہ خبر باہر جائے گی،اور ہر عسکریت پسند گروپ چاہے ان کے درمیان کیسے ہی اختلاف کیوں نہ ہوں ان کے نزدیک قبضہ گیروں سے تعاون، ان کے دوستوں کی سزا موت تھی اور وہسکی پینے کو چاہے کوئی غیر مددگار ہی کیوں نہ ہو ایک غیر اسلامی فعل قرار دے دیا گیا تھا۔

موسی سنیک بار کے پاس سے جب گزرا تو اس نے وہسکی کی بوتل اس پہ رکھ دی۔

‘میرے والد نہیں پیتے۔’

‘ارے ،اس میں چھپانے والی کیا بات ہے؟ اس میں کوئی شرم نہیں۔بہرحال آپ کے ابا پیتے ہیں!آپ اچھے سے جانتے ہیں۔میں نے یہ بوتل خاص طور پہ ان کے لئے خریدی۔کوئی بات نہیں یہ میں ان کو خود دے دوں گا۔’
امریک سنگھ اب بھی مسکرا رہا تھا۔اس نے اپنے بندوں کو موسی کے پیچھے جانے کو کہا تاکہ وہ اس کی حفاظت سے گھر واپسی کو دیکھ سکیں۔چیزين جس ڈھب پہ جارہی تھیں وہ اس پہ شاداں تھا۔
دن طلوع ہورہا تھا۔کبوتری خاکستری رنگ کے آسمان میں سرخ گلاب کی ایک جھلک تھی۔موسی مردہ گلیوں سے ہوتا ہوا گھر پہنچ گیا۔چپسی محفوظ فاصلہ رکھ کر اس کا پیچھا کررہی تھی اور ڈرائیور واکی ٹاکی پہ ہر آنے والی چیک پوسٹ کو موسی کو گزر جانے دینے کا کہہ رہا تھا۔
وہ اپنے گھر میں داخل ہوہ تو اس کے کندھوں پہ بھی برف تھی۔اس سردی کا اس سردی سے کوئی مقابلہ نہیں تھا جو اس کے اندر جمع ہوچکی تھی۔جب انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا تو اس کے والدین اور بہنیں اس کے پاس پہنچ کر اس سے کیا ہوا پوچھے بغیر ہی جان گئے تھے۔وہ اپنی میز پہ واپس گیا اور اس لیٹر کو دوبارہ لکھنا شروع کیا جسے اسے لینے کے لئے آنے والے فوجی کے سبب بیچ میں چھوڑنا پڑا تھا۔اس نے اردو میں لکھا۔اس نے انتہائی تیزی سے لکھا جیسے یہ اس کا آخری ٹاسک ہو، گویا جیسے وہ سردی کے خلاف دوڑ رہا ہو اور جسم میں گرمی نکلنے سے پہلے شاید ہمیشہ کے لئے اسے اس کو ختم کرنا ہو۔
یہ مس جبین کے نام خط تھا۔
بابا جانانہ،
کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میں تمہیں مس کررہا ہوں؟تم غلط ہو۔میں تمہیں کبھی مس نہیں کروں گا،کیونکہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہنے والی ہو۔
تمہاری خواہش تھی نا کہ میں تمہیں حقیقی کہانیاں سناؤں، لیکن میں نہیں جانتا کہ حقیقی کیا ہوتا ہے۔جو حقیقی سا لگتا تھا وہ بھی اب پریوں کی کہانی لگتی ہے۔اس قسم کی جیسی میں تمہیں سناتا تھا،وہ قسم جسے تم نے کبھی برداشت نہیں کیا۔جو بات میں یقین سے جانتا ہوں وہ صرف یہ ہے:ہمارے کشمیر میں مرجانے والے ہمیشہ زندہ رہیں گے؛زندہ مردہ لوگ ہیں وہ زندہ ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔
اگلے ہفتے ہم کوشش کررہے تھے کہ تمہارا اپنا آئی ڈی کارڈ بن جائے۔جیسا کہ تم جانتی ہو نا، ہمارے کارڈ خود ہم سے زیادہ اہم ہیں اب۔نہایت خوبصورت بنے ہوئے قالین،یا انتہائی نرم گرم شال یا سب سے بڑے باغ ،یا ہماری وادی کے تمام باغات کے چیری اور اخروٹ سے بھی زیادہ قیمتی ہوچکے ہیں۔میرا آئی کارڈ نمبر ہے:
M 108672J
تم نے مجھے بتایا تھا کہ یہ لکی نمبر ہے کیونکہ اس میں ایم ‘مس’ کے لئے اور جے ‘جبین ؛ کے لئے ہے،اگر ایسا ہے تو یہ مجھے بہت جلد تم اور تمہاری امّی تک لیجائے گا۔
تو جلدی سے جنت میں ہوم ورک کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ،تم کن معنوں میں لوگی اگر میں یہ بتاؤں کہ تمہارے جنازے میں سینکڑوں ہزاروں لوگ تھے؟تم تو وہ جسے صرف 59 تک گنتی آتی ہے؟ گنو۔۔۔میں کہا نہیں کرتا تھا کہ ‘گنو؟ میرا مطلب ہے چلاتا تھا ۔۔۔۔اور تم وہ تھیں جو 59 تک چلاسکتی تھی۔
مجھے امد ہے کہ تم جہاں بھی ہوں گی مگر چلانہیں رہی ہونگی۔تمہیں نرمی سے بولنا سیکھنا ہوگا، ایک عورت کی طرح،کم از کم کچھ اوقات میں۔میں تمہارے سامنے کیسے سینکڑوں ہزاروں کی تشریح کرسکوں گا۔اتنے زیادہ اعداد۔کیا ہم اسے گننے کی کوشش کریں اور موسموں کے اعتبار سے سوچتے ہیں۔بہار میں سوچو،درختوں پہ کتنے پتے ہیں اور کتنے کنکر تم جھیلوں میں دیکھ سکتی ہو جب ان پہ سے جمی برف پگھل جاتی ہے۔
سوچو کہ سبزہ زاروں میں کتنے پوست کے سرخ پھول کھلے ہوئے ہیں۔اس سے تمہیں سینکڑوں ہزاروں کا بہار میں ہونے کا اندازہ ہوجائے گا۔
خزاں میں بڑی تعداد میں چنار کے پتے یونیورسٹی کیمپس میں ہمارے قدموں میں آکر چرمراتے ہیں اس دن جب میں تمہیں سیر کے لئے لیکر جاتا ہوں(اور تم اس بلی پہ غصّے ہوتی ہو جو تم پہ اعتماد نہیں کرتی اور تمہارا پیش کردہ روٹی کا ٹکڑا اسے دیا۔ہم سب بھی ایک طرح سے اس بلّی جیسے ہونے جارہے ہیں،جانانہ۔ہم اب کسی پہ اعتماد نہیں کرسکتے۔وہ جو روٹی ہمیں پیش کرتے ہیں ہمارے لئے خطرناک ہے کیونکہ یہ ہمیں غلاموں اور کاسہ لیس نوکروں میں بدل دیتی ہے۔
تم شاید ہم سب سے ناراض ہو۔کچھ بھی ہے۔بہرحال ہم اعداد بارے بات کررہے تھے،ایک سو ہزار۔سردیوں میں ہم آسمان سے برف کے گرتے گالوں بارے سوچیں گے۔یاد کرو کہ کیسے ہم ان کو شمار کرتے تھے؟کیسے تم ان گننے کی کوشش کرتی تھیں اور پکڑنے کی کوشش کرتی تھیں؟بہت سارے لوگ ایک سو ہزار ہوتے ہیں۔تمہارے جنازے پہ مجمع نے زمین کو برف کی طرح سے ڈھک دیا تھا۔کیا تم اب اسے تصویر کرسکتی ہو؟ گڈ۔اور یہی ہیں صرف لوگ۔
میں تمہیں پہاڑوں سے نیچے اتر کر آنے والے ریچھ، ہنگول جس نے جنگلات سے دیکھا،برفانی چیتے جس نے برف پہ اپنے قدرموں کے نشان چھوڑے تھے، آسمان پہ ارۃی پتنگ اور ہر چیز کی نگرانی کرنے والوں کے بارے میں بتانے نہیں جارہا۔مجموعی طور پہ یہ بالکل ایک تماشہ تھا۔تم نے خوش ہونا تھا، تم بھیڑ بھاڑ کو پسند کرنے والی ہو،میں جانتا ہوں۔تم ہمیشہ سے ایک شہری لڑکی بننا چاہتی تھیں۔یہ شروع سے ہی واضح تھا۔اب تمہاری باری ہے۔مجھے بتاؤ۔۔۔۔۔
اس فقرے کے درمیان ہی وہ سردی کے خلاف دوڑ میں ہار گیا۔اس نے لکھنا بند کردیا، خط کم لپیٹا اور اپنی جیب میں ڈال لیا۔اس نے اسے کبھی مکمل نہیں کیا مگر یہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہا۔
وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔اسے امریک سنگھ پہ تیزی سے اس کے اگلے اقدام اٹھانے سے قبل ہی حملہ کرنا ہوگا۔زندگی جس سے وہ کبھی واقف تھا ختم ہوچکی تھی۔وہ جانتا تھا کہ کشمیر اسے نگل چکا ہے اور وہ شکم کشمیر کی اتھاہ گہرائی کا حصّہ ہوگیا تھا۔
اس نے سارا دن معاملات سے نبٹنے میں گزار دیا۔۔۔اس کے ہاں جمع ہوئے سگریٹ کے واجبات چکاتے،کاغذات کو تباہ کرتے اور چند ایک جس کی اسے ضرورت تھی یا اسے عزیز تھے بچاکر رکھتے ہوئے (اس نے دن گزارا)۔اگلی صبح یسوی گھرے والے اپنے غم کے ساتھ جاگے تو موسی جاچکا تھا۔اس نے شیراز میں جس مار کھائے لڑکے کو دیکھا تھا اس بارے ،اس کی ماں کا نام اور پتا ایک نوٹ کے ساتھ اپنی بہنوں کے لئے چھوڑا تھا۔اس طرح سے اس کی زیرزمین زندگی کا آغاز ہوا۔ایسی زندگی جو ٹھیک ٹھیک نو ماہ جاری رہی۔۔۔ایک حمل کی مدت جتنی۔
سوائے اس کے کہ اس کے نتائج و عواقب زچگی کے برعکس تھے۔اس کا نتیجہ ایک قسم کی موت کی صورت نکلا نہ کہ زندگی کی صورت۔روپوشی کے دنوں میں موسی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا اور اس نے کبھی بھی بنا وقفے کے راتیں ایک جگہ پہ نا گزاریں۔اس کے اردگرد ہمیشہ لوگ ہوتے تھے۔۔۔جنگل میں خفیہ کمین گاہوں میں، کاروباری لوگوں کے پاپوش گھروں میں، دکانوں میں، زمین دوز ٹھکانوں میں، سٹور رومز میں ۔۔۔جہاں بھی تحریک کا سواگت پیار اور یک جہتی سے کیا جاتا تھا۔وہ ہتھیاروں بارے سب جان گیا تھا، کہاں سے ان کو خریدنا ہے،اور ان کو کیسے لیکر جانا ہے، کیسے چھپانا ہے،کیسے استعمال کرنا ہے۔اس کی کھال وہاں وہاں سے سخت ہوگئی تھی جہاں کبھی اس کے والد نے سخت ہونے کا تصور بھوت کی طرح اپنے اوپر سوار کرلیا تھا۔۔۔۔

(جاری ہے






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *