Main Menu

برصغير کی جہالت اور خدائ نمائندگی، تحرير انوار الحق

Spread the love


اس بدقسمت، توہم پرست ، بت پرست اور جہالت میں گھرے برصغیر میں دھرم پہ قائم رہنے والے برہمنوں اور دھرم تبدیل کر کے ہاشمی، بغدادی، حجازی، سید، شاہ، ، کاظمی، بخاری، زیدی، پیر طریقت، رہبر شریعت، گدی نشین، مبلغ اسلام اور الحاج بننے والے چھوٹے دلتوں میں کئی قدریں مشترک چلی آ رہیں ہیں۔ دونوں ہی معاشرے پہ اپنی استحصالی گرفت ڈھیلی نہیں ہونے دیتے، دونوں ہی کمزور طبقات کو سر اٹھانے کی فرصت نہیں دیتے۔ دونوں ہی رائج الوقت روایات سے بغاوت کو بھگوان کی ناراضگی اور قہر خدا سے تعبیر کرتے ہیں۔اس خطے کی صدیوں پر محیط تاریخ چیخ چیخ کر عام پسے ہوۓ انسان کو ان زنجیروں سے آزادی کا درس دے رہی ہے لیکن المیہ ۔۔۔ یہ جھکڑے ہوۓ عقیدت سے لبریز غلام، اپنی آزادی کیلئے اپنے اندر سے قیادت تلاش کرنے کی بجاۓ پھر سے بھگوان اور خدا کے سندیافتہ نمائیندوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے منفی اثرات نے سامراجی طاقتوں کو اقتصادی طور پر کمزور کیا نوآبادیاتی کلچر میں ڈرامائی تبدیلی پیدا کی۔ ایک صدی تک مسلسل برقرار رہنے والے سامراجی قبضے کے مددگار عناصر کو روپ بدلنے پر مجبور کیا۔بھگوان کے نمائیندہ براھمن اور خدائی قربت کے دعویدار پیروں، گدی نشینوں، مبلغین اسلام، ھاشمیوں، کاظمیوں، زیدیوں اور حجازیوں کی گرفت کام آئی اور سامراج کے مددگار عناصر نے توھم پرست سماج پر پڑی اس گرفت کو اپنے مقاصد کیلئے خوب استعمال کیا۔ جہالت اپنا کرتب دکھلانے لگی اور ھندو مسلم اور سکھ فسادات پھوٹ پڑے۔ چھوٹے دلت، غریب سکھ اور معصوم مسلمان کے بہتے خون، جلتے محلوں اور اجڑتے قصبوں نے معاشی طور پر کمزور ہونے والے سامراج اور مقامی مددگاروں کو نو آبادیاتی علاقوں گرفت کی نوعیت بدلنے کا رحجان دیا۔
دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کی طرف بڑھ چکی تھی اور جاپان اور جرمن نازیوں سے چھٹکارا پانے کے بعد سامراجی قوتیں ناگ کی شکل میں ابھرنے والے اپنے ہی اتحادی روس کے سامنے بے بس ہو گئیں۔ ایسا روس جس نے جنگ پر دھیلا بھی خرچ نہیں کیا اور چھ سال تک جنگ میں الجھ کر لاکھوں جانوں اور معیشت سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے یورپ کے اھم حصوں پر قابض ہوگیا۔
ایسے حالات میں سامراج کے پاس اپنی بقا اور احیاء کے دو راستے باقی بچے تھے۔ یورپ میں نازیوں کے ہاتھوں تباہ حال یہودی کمیونٹی کیلئے ایک ریاست جو یوروپ سے باہر ہو اور معدنی وسائل سے بھرپور علاقے میں قائم ہو۔ جس کے ذریعے روس کی مزید پیش قدمی روکی جا سکے۔ دوسرا راستہ برصغیر میں ھندو مسلم کشت خون کے نتیجے میں قائم ہونے والی نئی مسلم ریاست ۔ جہاں سے اپنی فوج استعمال کیے بغیر روس پر کاری ضرب لگائی جا سکے ۔ ان دو ریاستوں کے قیام سے سامراجی معشیت کو دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دونوں خطوں میں ہتھیاروں کی دوڑ سے اک لامتناہی مارکیٹ پیدا ہوئی جو کئی دہائیوں تک سامراجی ممالک کی اسلحہ فیکٹریوں کی جنت رہے گی۔ اسرائیل کو دس ایف سولہ سپلائی کرنے سے باقی کے بائیس عرب ممالک مغربی اسلحہ گوداموں میں پڑا زائد المعیاد بارود مہنگے داموں خرید لیتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو پانچ ایف سولہ بیچنے سے فرانسیسی اور برطانوی گوداموں میں پڑے زائدالمعیاد پرانے ورژن جہاز بھارت خرید لیتا ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ غریب سامراج کی پرانی کالونیاں انہی سامراجی ممالک کے بینکوں سے جاری ہونے والی قرضہ کی رقم سے یہ اسلحہ جہاز خریدتی ہیں۔
آپ کافی دیر سے سوچ رہے ہونگے کہ اس سارے تاریخی پس منظر کا منسلک کی جانے والی تصویروں سے کیا تعلق۔۔۔؟
یہ تصویریں اس غلیظ خونی کھیل کے تواتر کی عکاسی کرتی ہیں جو سامراجی کالونیوں میں اسلحہ کی رسد اور مانگ کا توازن قائم رکھے ہوۓ ہے۔ اگرچہ سرد جنگ کا ایک فیز سوویت یونین کے بکھرنے سے ختم ہو چکا ہے تاھم وہ پیوٹن کی قیادت میں دوبارہ بھرپور قوت سے سر اٹھا کر مشرق وسطی میں مغربی سامراجی مفادات کو زک پہنچا رہا ہے۔ ایسے میں سامراج کو اپنی کالونیوں میں ایک منظم تربیت یافتہ قوت چاہئے جو اسلحہ ڈیمانڈ اور سپلائی کو برقرار رکھے۔ یہ فورس اپنا وجود تب ہی قائم رکھ سکتی ہے جب مقامی طور پر تنازعات کی پیداوار موجود رہے۔ برصغیر میں اس قوت کی ناگزیریت ٹیکس دینے والے عقیدت مندوں کے ساتھ مسلسل ٹکراؤ سے مشروط ہے۔اس قوت کی حمایت دھرم تبدیل کرنے والے وہی خدائی قربت کے دعویداروں کی صورت میں دستیاب ہے جو سامراج کی اس کالونی کو تنازعات میں گھرا رکھنے، مغربی اسلحہ اور عالمی قرضہ جات کی منڈی کے طور پر جاری رکھنے میں معاون چلے آ رہے ہیں۔ یہ عناصر سامراج کی منظم کی ہوئی اس قوت کو ٹیکس دینے والے عقیدت مندوں کی نظر میں ناگزیر اور معتبر بناۓ ہوۓ ہیں اور اگر کوئی رحم دل ان عقیدت مندوں کے جمہوری اور معاشرتی حق میں بات کرے تو الٹا اس کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔
(جاری ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *