Main Menu

جہاد يا خدا کا کاروبار تحرير: آر اے خاکسار

Spread the love


رياستيں اپنے مفادات کے لئے لوگوں کو تقسيم کرتيں ہيں پاکستانی رياست نے بھی اکثريتی مُسلم آبادی کو فرقہ واريت کی بھٹی ميں جھونک کے رکھا ہوا ہے۔ پھر بھی جو قرآن کے مُحکمات ہيں اُن ميں کسی شک و شُبے کی چنداں ضرورت نہيں ہوتی۔ ايسا ہی ايک حُکم جہاد فی سبيل اللہ کا ہے، جسکا قُرآن باقاعدہ نصاب طے کرتا ہے اور رسالت مآب صلم کی حياتِ طيبہ عملی نمونہ ہے۔ پھر بھی ايک عرصے سے رياستِ پاکستان فلسفہِ جہاد کو تروڑ مروڑ کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ کبھی امريکی حُکم پہ اُس کے حريف رُوس کے خلاف مُسلمانوں کے جذبہِ جہاد کو ابھارنے کے لئے سورۃ آلِ عمران کو نصاب کا حصہ بنايا جاتا ہے اور امريکی مقصد پورا ہونے پہ اسے نصاب سے خارج کر ديا جاتا ہے۔ امريکی مقاصد کے حصول کے لئے جہاد فی سبيل اللہ کے نام پر مختلف تنظيميں کھڑی کيں جاتيں ہيں اُنہيں مقدس گردانا جاتا ہے سہوليات اور حفاظت فراہم کی جاتی ہے۔ پھر مقصد پُورا ہونے پہ اُن ساری تنظيموں کو کالعدم اور دہشتگرد قرار دے ديا جاتا ہے۔ الغرض يہ ايک پُورا کاروبار ہے جو عام مُسلمان کے جذبہ جہاد پہ کيا جاتا ہے۔ عام مُسلمان کے سچے جذبے، دين سے محبت، شوقِ شہادت اور خون سے اس گھناؤنے کاروبار کو تقويت دی جاتی ہے۔
قُرآن جہاد کا نصاب مقرر کرتا ہے اور اُسکی فرضيت بارے ضابطہ طے کرتا ہے۔ نبی صلم کی حياتِ طيبہ اسکا عملی نمونہ پيش کرتی ہے۔ جہاد کی فرضيت اللہ کے نظام کی سربلندی کے لئے اور امير المومنين کے اعلان سے مشروط ہے۔ امير المومنين اسلامی طرزِ حکومت کے اُس ذمہ دار کا نام ہے جو رياست کا نظم و نسق اسلام کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق چلاتا ہے۔ مگر يہاں معاملہ بالکل اُلٹا ہے۔ قرآن کے وضع کردہ نصابِ جہاد کو نہيں ديکھا جاتا، اسلامی طرزِ حکومت کو خاطر ميں نہيں لايا جاتا۔ سامراج جو کہ اس سُودی نظام يعنی سرمايہ داری کی آخری شکل ہے۔ وہ سُودی نظام جسے قرآن واضح اللہ اور اسکے رسول کے خلاف کُھلی جنگ قرار ديتا ہے۔ مگر اس سُودی نظام کے خلاف جہاد کرنے کی بجاۓ سامراج کی ايماء پر اُسکے اور اپنے مقاصد کی تکميل کے لئے سارے شريعی قوانين کو بالا طاق رکھتے ہوۓ کرپٹ ترين لوگ جہاد کے نصاب مقرر کرتے ہيں اور مجھ جيسا سيدھا سادا مُسلمان اپنے سچے جذبے لے کر اُنکے اس مکروہ کاروبار کی بھينٹ چڑھ جاتا ہے۔
بدقسمتی سے رياست جموں کشمير کا مسہلہ بھی پاکستان نے اپنی ضرورتوں کے تحت “مذہبی “ بنا کر رياستی عوام کو اپنے مقاصد کی دہکتی بھٹی ميں سات دہاہيوں سے جلانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ ہندوستان جو کہ پاکستان سے معاشی، و جغرافيائ اعتبار سے چار گُنا بڑا مُلک ہے کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے جہادی گروپوں کی پاکستان کو ہميشہ ضرورت رہی ہے۔ اسی لئے ايسے افراد و جماعتوں کو کالعدم و دہشتگرد قرار دينے کے باوجود اکثر و بيشتر پاکستانی رہنما انہيں “سٹرٹيجک ايسٹ” کہا کرتے ہيں۔
رياست جموں کشمير جو کہ ايک کثير المذہبی رياست ہے جس کے ايک حصے گلگت بلتستان ميں اسماعيلی، آغا خانی، نور بخشی و ديگر مذاہب کے لوگ اکثريت ميں ہيں، دوسرے حصے جموں ميں ہندو جبکہ لداخ ميں بودھ مذہب کے پيروکار اور صوبہ کشمير اور نام نہاد آزادکشمير کی پٹی ميں مسلمان اکثريت ميں ہيں۔ اب ان مذکورہ مذاہب سےکسی بھی مذہب کا نعرہ لگانے کا مطلب کُليتاً رياست کی تقسيم ہے اور يہ کھيل پچھلے لمبے عرصے سے ہندوستان اور پاکستان رياستی عوام کے ساتھ کھيل رہے ہيں۔ يہ جہاد قطعی نہيں بلکہ پاکستان اور ہندوستان کی پراکسی جنگ ہے جس کا ہميں محض ايندھن بنايا جاتا ہے۔
اس پراکسی جنگ ميں ہم لاکھوں جانيں و عزتيں قربان کرنے کے بعد بھی اپنے مسہلہ کے فريق تک نہيں۔ ہماری عزتيں لُوٹنے و لُٹوانے والے، ہميں شہيد کرنے اور کرانے والے ہمارے قابض ہمارے وکيل و منصفی کے دعويدار ہيں مگر ہم اپنے ہی وطن ميں بے نام۔
ايک غير اسلامی مُلک جو سامراجی گماشتہ ہے اُس کے کرپٹ ترين شرابی حکمران اپنے مقاصد کو ہمارے لئے جہاد فی سبيل اللہ بتاتے ہيں اور حيرت يہ کہ ہمارے بہت سارے سادہ لوح لوگ آج تک انکے اس کاروبار کو سمجھنے سے قاصر ہيں۔
رياست جموں کشمير ميں جہاد کے نام پر فسادی کاروبار کو کسی قيمت برداشت کرنے کی بجاۓ اسے قومی، عقلی و شريعی بنيادوں پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ يہ ديکھنے کی ضرورت ئے کہ پاکستان ميں شريعت کا نظام نافذ ہے؟ سُودی نظام کے خلاف اوّل جہاد نہيں بنتا؟ اپنے معاشرے ميں موجود ظلم کے خلاف نہيں بنتا؟ راشی و بدکار معاشرے سے، کرپٹ اداروں سے، بلکہ قحبہ خانوں کے پاس سے اُٹھ کر سينکڑوں ميل دُور کشمير ميں آ کر جہاد بنتا ہے؟ يہ وہ بنيادی سوالات ہيں جنکے ہم نے جوابات ڈھونڈنے ہيں۔ اس فساد کو جہاد فی سبيل اللہ کہنے والوں ، خدا کو بيچنے والوں کے لمبے لمبے پيٹ، موٹے موٹے ٹاہروں والی گاڑياں اور انکی اپنی اولادوں کے کاروباوں کو بھی ديکھتے ہوۓ يہ فيصلہ کرنا ہے کہ اس قسم کا جہاد محض غريب مسلمان کے لئے ہی فرض کيوں ہے اور اسکا فاہدہ کون اٹھا رہا ہے۔ يہ لہو اور عزتيں خدا کا نام لے کر کون بيچ رہا ہے۔






Related News

.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے

Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More

پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت

Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *