Main Menu

ریاست جموں و کشمیر اقصاۓ تبت ہا میں ڈوگرہ اصلاحات، تحقیق و تحریر: افتخار راجپوت ڈوگرہ

Spread the love

عہد گلاب سنگھ: 1822ء تا 1856ء

بلاشبہ ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت ہا کی تشکیل کا سہرا جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو جاتا ہے جس کا تعلق جموں کے صدیوں سے حکمران جموال خاندان سے تھا۔ 1808ء میں پنجاب کی سکھ سلطنت نے اسی کے خاندان کے راجہ جیت سنگھ کو شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر قبضہ ہندوستان میں جلاوطن کر دیا جموں کے اقتدار سے اس کے خاندان کی بیدخلی کے بعد راجہ گلاب سنگھ کا سفر 1809ء میں سکھ فوج میں ملازمت سے شروع ہوا اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث نہ صرف مختصر وقت میں ترقی کی بلکہ نام پیدا کیا۔ گلاب سنگھ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے میاں دیدو کی بغاوت و سکھوں کی نااہلی کے باعث جموں میں امن و امان کی صورتحال رفتہ رفتہ دگرگوں ہوتی گئی اور بالآخر 1820ء میں سرزمین جموں جس پر قبضہ کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کو یہ جاگیر عطا کر دی تھی واپس بطور جاگیر جموال خاندان کے راجہ کشور سنگھ کے حوالے کر دیا گیا جو گلاب سنگھ کا باپ تھا۔
راجہ کشور سنگھ نے جموں کو ڈوگر راج کا نام دیا جو اس خطے کا قدیم نام تھا 1822ء میں اس کی موت کے بعد گلاب سنگھ جموں کا راجہ بنا اور ساتھ ہی وہ سکھ فوج کے سپہ سالار کے عہدے پر بھی براجمان رہا 1839ء مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پنجاب خالصہ سرکار میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی جو نہ صرف رنجیت سنگھ کے خاندان کی تباہی کا باعث بنی بلکہ اس میں گلاب سنگھ کے دو بھائی دھیان سنگھ، سوچیت سنگھ، بھتیجا ہیرا سنگھ اور دو بیٹے سکھوں کے مختلف گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے مارے گئے۔ گلاب سنگھ اس سارے عرصے میں جموں پر اپنے اقتدار کو استحکام دینے اور سرحدیں بڑھانے میں مصروف رہا اسی دور میں لداخ، بلتستان پر اس کا جنرل زورآور سنگھ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا جو کہ تبت کا حصہ تھا۔ آئے روز اقتدار کی چپقلش سے سکھ فوج میں بے چینی پھیلی تو ساڑھے سات سالہ مہاراجہ دولیپ سنگھ کی ماں رانی جندان نے فوج کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے 1809ء کے امرتسر امن معاہدے کے باوجود لڑا دیا سکھوں کو شکست ہوئی اور انگریز بڑے علاقے پر قابض ہو کر لاہور داخل ہو گئے ۔
چنانچہ 9 مارچ 1846ء کو معاہدہ لاہور ہوا جس میں بہت ساری شرائط کے علاوہ سکھوں کو ڈیڑھ کروڑ روپے تاوان جنگ عائد ہوا۔ پنجاب دربار نے پچاس لاکھ نقد اور ایک کروڑ کے عوض کشمیر وادی اور ہزارہ مستقل بنیادوں پر انگریز کے حوالے کر دئیے اسی معاہدے میں گلاب سنگھ نے سکھوں اور انگریزوں سے اپنی ریاست جموں، لداخ و علاقہ جات تسلیم کروا لی۔
معاہدہ امرتسر اور موجودہ ریاستی جغرافیے کی تشکیل۔
راجہ گلاب سنگھ نے معاہدہ لاہور کے چھ دن بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے امرتسر کے مقام پر 16 مارچ 1846ء کو نیا معاہدہ دستخط کیا جس کی رو پچھتر لاکھ نانک شاہی کے عوض کشمیر وادی اور ہزارہ کو گلاب سنگھ نے پہلی اینگلو سکھ جنگ کا تاوان جنگ ادا کر کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں جانے سے بچا کر اپنی ریاست جموں و علاقہ جات میں شامل کر کے نئے ریاستی جغرافیے کی بنیاد رکھی اور اس خطے کے باشندوں کو منفرد شناخت دی ورنہ کشمیر وادی ہندوستان یا پاکستان کا حصہ ہوتی اور یہاں کے باشندوں کی الگ قومی شناخت نہ ہوتی.
معاہدہ امرتسر کے بعد سکھوں نے دھوکہ کرتے ہوئے کشمیر وادی میں اپنے گورنر شیخ امام الدین کو قبضہ نہ دینے پر اکسایا جس کا فیصلہ جنگ کی صورت ہوا اور گلاب سنگھ کو کامیابی حاصل ہوئی 9 نومبر 1846ء کو اس نے کشمیر وادی کا اقتدار بھی حاصل کر لیا البتہ اسے وادی اپر جہلم میں کھکھہ جنجوعہ راجپوتوں اور بمبہ قبیلے کی شدید مزاحمت کا سامنا رہا لیکن اس نے قوت اور حکمت عملی کے زور پر امرتسر معاہدے کی تکمیل کر دی بعدازاں ریاست میں گلگت کے کچھ علاقہ جات بھی بزور قوت شامل کر دئیے۔
مہاراجہ گلاب سنگھ کا زیادہ تر وقت اپنی جغرافیائی حدود کو وسعت دینے میں گزرا 1848ء میں جب مہاراجہ نے پوری طرح ریاست پر گرفت قائم کی تو اسے بہت سارے مسائل کا سامنا تھا جس میں انتظامی معاملات تھے جنھیں درست کرنے کے لیے حب الوطنی، انتظامی صلاحیت، دوراندیشی اور غیر متعصب ذہن کی ضرورت تھی۔ اس نے نظام میں کچھ تبدیلیاں تو کیں لیکن مجموعی طور پر سکھ سلطنت کے قوانین ہی نافذ رہے۔ بدقسمتی سے مہاراجہ گلاب سنگھ تاریخ میں نمایاں مقام رکھنے کے باوجود عوام میں اپنی سخت گیر پالیسیوں کے باعث مقبول حکمران نہ بن سکا وہ بہترین جرنیل، بہترین منتظم ہونے کے باوجود اپنے مختصر اقتدار، غیر تعلیم یافتہ ہونے اور عملے کی بدعنوانی کے باعث اپنی اولاد کی نسبت اوسط درجے کا اصلاحات کار ثابت ہوا اسے بہت سارے فیصلے عوامی شکایات پر واپس بھی لینا پڑے۔ اصلاحات کے اعتبار سے ریاست کا سنہری دور مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور سے شروع ہوا جسے یورپ کے تعلیم یافتہ مہاراجہ ہری سنگھ نے عروج پر پہنچایا برصغیر میں سب سے زیادہ اصلاحات ڈوگرہ حکمرانوں نے کیں۔
عہد گلاب سنگھ 1846ء تا 1856ء کی اصلاحات!
سرحدی حد بندی و تبادلہ۔
معاہدہ امرتسر کے تحت ریاست میں شامل ہونے والے ہزارہ میں آئے روز کی بغاوتوں کے باعث لاہور دربار کے ساتھ تبادلہ کر کے گلاب سنگھ نے سوچیت گڑھ، کٹھوعہ، میناور کے علاقے لیے جو آج بھی ریاست کا حصہ ہیں۔ 1847ء میں الیگزینڈر کونیگم، ہنری سٹراکی اور ڈاکٹر تھامسن کی مدد سے لداخ اور تبت کے درمیان حد بندی قائم کر کے ریاست کی موجودہ سرحدوں کو حتمی شکل دی گئی۔
نظام حکومت۔
سکھ سلطنت کے گورنروں کی طرف سے نظام کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے انتظامی معاملات کو چلانے کے لیے وزراء کی کونسل قائم کی۔ 1852ء میں ڈوگرہ سلطنت کو جموں، کشمیر، لداخ اور سرحدی علاقوں سمیت کئی صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جموں اور کشمیر کے دو صوبوں کو وزیروں کے کنٹرول میں رکھا گیا تھا جن کی حیثیت صوبائی گورنروں کی تھی صوبائی گورنر مہاراجہ کی عدالت میں شرکت کرتے تھے جموں اور کشمیر کے دو صوبوں کو کئی اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ تمام انتظامی، مالی، داخلہ اور خارجہ امور اس کی نظر ثانی کے لیے پیش کیے جاتے تھے۔ وہ مالی امور پر گرفت سخت اور انتظامی امور پر نگاہ گہری رکھتا تھا۔
انتظامیہ۔
ہر ضلع کا ذمہ دار ضلع دار ہوتا تھا جبکہ تھانیدار چیف افسر جس کے نیچے چالیس سے پچاس سپاہی ہوتے تھے امن امان قائم کرنے کہ علاوہ فصل کی صورتحال سے تحصیلدار کو آگاہ کرتا تھا تحصیلدار کے پاس دو سے پانچ تحصیلیں ہوتی تھیں دو سے چار سو سپاہی اس کے ماتحت ہوتے تھے اسے جرائم میں سزا دینے کا اختیار حاصل تھا۔ قانون گو یا مال افسر امن و امان کو یقینی بنانے کے علاوہ ٹیکس جمع کرتا تھا۔ ہر گاؤں میں نمبردار تعینات کیے گئے۔
عدالت۔
عہد گلاب سنگھ میں نظام انصاف کو سب سے زیادہ اولیت حاصل رہی عدالت کی صدارت مہاراجہ خود کرتا تھا تمام فیصلے دربار لگا کر کیے جاتے تھے تمام مذاہب کے روحانی پیشواؤں اور سادات کے کیس مہاراجہ خود سنتا تھا تاکہ ان کی داد رسی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو انصاف فوری سستا اور تیز تھا مہاراجہ فورا معاملات کی تہہ میں پہنچتا اور فیصلے کر دیتا تھا۔
حسابات۔
مہاراجہ نے ریاست کے تمام محکمہ جات کے آمدن و اخراجات کا حساب رکھنے کے لیے دفتر دیوانی قائم کیا۔
نظامت۔
دفتر نظامت کے ذمہ ساری ریاست کی تمام زمینوں کا ریکارڈ رکھنا مہاراجہ کو زمینداروں اور فصل کی صورتحال سے باخبر رکھنا تھا۔ پٹواری مختلف گاوں میں جا کر روزمرہ کی بنیاد پر رپورٹ تیار کرتے تھے۔قانون و امن۔محکمہ ریاست میں اندرونی استحکام اور جرائم کا مکمل صفایا کرنے کے لیے قائم کیا گیا اس کی سخت سزاؤں کے باعث جرائم مکمل ختم ہو گئے۔ کسی کی زمین و جائیداد پر قبضہ قابل قید جرم قرار دیا گیا۔ تھانیداروں کو جان و جائیداد کے تحفظ کے لیے تمام ضروریات سے لیس کیا گیا۔ عہد گلاب سنگھ میں قانون کی حکمرانی سے تاریخ کا کوئی مورخ نظر نہیں چرا سکتا معاشرے میں سو فیصد امن و امان قائم کرنا عام آدمی کی جان و مال کو محفوظ بنانا گلاب سنگھ کا بڑا کارنامہ تھا۔
خزانہ۔
محکمہ خزانہ کی نگرانی ایک دیوان کرتا تھا۔ دوسرا دیوان مہاراجہ کے گھریلو نظام اور توش خانہ کو سنبھالتا تھا۔ جب کے ایک اور دیوان اطلاعات کا محکمہ سنبھالتا تھا۔
ترقیات۔
زمینوں کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ترقیات کا محکمہ بنایا۔ اس کا مقصد غیر آباد زمینوں کو استعمال میں لانا تھا بہت سارے ضرورت مند پنڈتوں کو مستفید کرنے کے لیے زمینیں عطا کی گئیں بہت سارے پنڈتوں کے پاس بہترین زمینیں تھیں مگر وہ کم ادائیگی کرتے تھے یہ آمدنی میں خواہ خاطر اضافے کا باعث نہ بن سکا اور بعد میں اسے ختم کر کے تمام اختیارات تحصیلداروں کو منتقل کر دئیے گئے۔
اناج و پیداور۔
تمام نمایاں پیداوار پر مہاراجہ کو مکمل اختیار حاصل تھا جس میں لوہے کی مصنوعات زعفران گندم شال سازی شامل تھی۔ زعفران سرکاری سرپرستی میں کاشت کیا جاتا تھا اور تھانیدار اس کی دیکھ بھال کرتا تھا جبکہ سپاہیوں کے ذریعے فصل کٹوائی جاتی تھی۔ مہاراجہ خود اضلاع کے دورے کرتا تھا اور اس نے کاٹن، سلک، زعفران، تمباکو، افیم کی پیداوار میں دلچسپی لی اور پیداوار میں اضافے کے لیے اقدامات کیے۔ تمام پیداوار کو ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ گندم کو آمدنی کی ادائیگی کے طور استعمال کیا جاتا تھا اور جب تک حکومتی ذخیرہ مکمل ختم نہ ہو باہر سے گندم کی خریداری پر پابندی تھی۔ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے اناج ڈیلرز کو تھوڑی تعداد میں فروخت کیا جاتا تھا کشمیر میں ایک روپیہ مالیت سے زائد گندم حاصل کرنا قطعی ناممکن تھا۔
ایک بار چھ سیر سے زائد اناج حاصل نہیں کیا سکتا تھا جس کی وجہ سے ایک ماہ کے لئے گندم خریدنے کے عادی متوسط طبقے کو مشکلات کا سامنا تھا۔ چاول کی فصل پر بھی لوگوں کو گھر میں افراد کے تناسب سے صرف پندرہ دن کا اناج لینے کی اجازت تھی۔ گلاب سنگھ کا نظام انیسویں صدی تک تبدیلیوں کے ساتھ رائج رہا ہر کشمیری کو مقررہ راشن لینے کی اجازت تھی ضرورت سے زیادہ خریدنے کے لیے سرکاری گودام کے ذمہ دار سے اجازت حاصل کی جاتی تھی۔ اشیاء کی قیمتیں مقرر کی گئیں۔ مہاراجہ نے تمام آڑھت کے بیوپار کو اپنے قبضے میں لیا اور اناج سرکاری اہلکاروں کے ذریعے فروخت کیا جاتا تھا۔ اشیاء کی طلب میں اضافہ ہوا اور کپاس اور دیگر اشیاء کی قیمت بھی بڑھی لوگوں کو اناج کے بدلے اشیاء کی خرید و فروخت کی اجازت تھی جس کی قیمت ایک روپے سے زیادہ نہ ہو۔

جاگیروں میں اصلاحات۔
زراعت ریاستی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی اسی سے لوگوں کا نظام زندگی چلتا تھا۔ ریاست کی زمین کا بڑا حصہ جاگیرداروں کے پاس تھا چونکہ سکھوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کشمیر کے اندر زمین بڑے پیمانے پر جاگیرداروں کو الاٹ کی۔ جو زمین جاگیرداروں کے پاس نہ تھی وہ لوگوں کے پاس کرائے پر تھی جس کا وہ آمدنی کے حساب سے کرایہ جمع کرواتے تھے۔ ایک اعداد و شمار ریاست میں تین ہزار ایک سو پندرہ جاگیردار تھے جن کو رجسٹرڈ کیا گیا۔ تمام غیر رجسٹرڈ جاگیروں کو ضبط کیا گیا ریاست کی زمین راجہ کی ملکیت قرار دے دی گئی اور تمام باشندے کرائےدار۔ کشمیر کے لوگوں کو پہلی بار ان زمینوں سے محروم ہونا پڑا جن سے وہ افغان و سکھ دور اقتدار سے مستفید ہو رہے تھے۔ بغاوت اور گھاس نہ کاٹنے کی سزا جاگیر کا خاتمہ رکھی گئی۔ کرائے پر حاصل شدہ زمین یا الاٹ شدہ جاگیر سے زائد زمین پر تجاوز منع تھا۔ مہاراجہ نے تمام فارسی، عربی اور سنسکرت پر عبور رکھنے والے علماء کو مفت زمینیں تقسیم کیں تاکہ ان کی زندگی عزت سے گزرے اس کے نزدیک ایسے لوگوں کا ریاست میں ہونا باعث عزت تھا۔
صنعتی اصلاحات۔
کشمیر میں شال سازی کی صنعت بہت اہم تھی ایک سرکاری محکمہ اس کو کنٹرول کرتا تھا گلاب سنگھ نے اسے دوبارہ منظم کیا۔ جس میں ایک کنٹرولر کے نیچے کارخانے دار ہوتے تھے اور وہ شال بنانے والوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ گلاب سنگھ نے شال سازی پر بھاری ٹیکس عائد کیے اس کے دور میں ستائس ہزار شال ساز تھے جو گیارہ ہزار لومز میں کام کرتے تھے جب انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو بہت سارے لاہور چلے گئے۔ تمام جانے والوں کو واپسی کی دعوت دی گئی1847ء میں مہاراجہ نے کھلے دربار میں ان کا کیس سنا اور شال سازی پر نیا قانون و محکمہ بنایا گیا۔ ٹیکس کا نیا نظام وضع کیا گیا۔
بیگار میں اصلاحات۔
سرکاری امور کی انجام دہی میں اسے احساس ہوا کہ سکھ دور سلطنت سے رائج بیگار کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سکھ سلطنت کے دور میں بیگار کی تقسیم کا کوئی قاعدہ نہ تھا نہ ہی بیگار کاٹنے والوں کو ادائیگی کی جاتی تھی۔ گلاب سنگھ نے اس میں اصلاحات کیں ایک افسر تعینات کیا۔ سرکار کی طرف سے یہ حکم دیا گیاکہ جس دن کوئی کام کرے اسے دو وقت کا کھانا سرکار کی طرف سے دیا جائے اور اناج سرکاری خزانے سے۔ بیگار گلگت و بلتستان میں راشن و سامان لے جانے اور غیر ملکی سیاحوں کی وادی میں نقل و حرکت کے دوران ان کا سامان لے جانے کے لیے کٹوائی جاتی تھی۔
فوجی اصلاحات۔
فوج براہ راست مہاراجہ کے ماتحت تھی اس کی تربیت، معاملات کی دیکھ بھال ہمیشہ مہاراجہ کی ترجیع رہی۔ فوجیوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب تھی۔ وہ مستقل بنیادوں پر فوج اس کے ہتھیاروں اور ان کی رہائش کا معائنہ کرتا تھا کسی بھی فوجی کی بیماری کی صورت میں اسے خبر دی جاتی اور اس کا فوری مفت علاج ہوتا۔ غیر ملکی حملوں کے خلاف پائیدار عمارتیں بنائی گئیں اور ان میں فوج تعینات کی گئی۔ ڈوگرہ فوج کے لیے رولز وضح کیے گئے۔تاریخی کامیابیوں بہت سارے بہترین اور کچھ غیر مقبول فیصلوں کے بعد گلاب سنگھ کا اقتداراس کی موت کے ساتھ ڈوب گیا۔
مہاراجہ گلاب سنگھ کا دور حکومت آج کے دور سے بے شک مختلف سہی لیکن اس میں ہر انسان کو مہاراجہ تک رسائی حاصل تھی انصاف سستا فوری تھا ایک روپیہ فیس کے عوض ہر معاملہ اس کی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا گو کے انگریزوں نے اس کے طریقہ انصاف پر نکتہ چینی کی لیکن آج کے عدالتی نظام کی فیسوں کی نسبت وہ آسان ترین نظام انصاف تھا جس میں ہر مالیت کا دعوی دائر ہوتا تھا فیصلہ فوری اور قطعی ہوتا تھا جبکہ اس کی تشکیل کردہ موجودہ منقسم ریاست کے ہر حصے میں آج نہ صرف قانون رلتا ہے بلکہ انصاف بکتا ہے حصول انصاف کے لیے عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں شاید ہی کوئی شعبہ زندگی ہو جس میں اہلیت و معیار قائم ہو، شاید ہی کوئی شعبہ زندگی ہو جس میں آج رشوت و سفارش کا عمل دخل نہ ہو لیکن اس کے باوجود ہماری کتابوں میں صرف گلاب سنگھ کا نظام خراب تھا اور وہ ظالم تھا جبکہ اس کے اقتدار کے پونے دو سو سال بعد بھی ہمارے ہاں کا نظام سرکار اس کے نظام حکومت سے قطعی بہتر نہیں معیاری نہیں حالانکہ وسائل و ایجادات کے اعتبار سے وہ آج کی نسبت مشکل دور تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کے مہارجہ گلاب سنگھ مزاج کے اعتبار سے سخت لیکن کردار کے اعتبار سے برصغیر کا ایک بہترین حکمران تھا جس کا کوئی حرم نہ تھا کوئی لونڈی نہ تھی کسی عورت کی عزت نہ لٹی کسی مذہب کے مذہبی عقائد کی ادائیگی پر پابندی نہ لگی یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کے سرینگر شہر میں داخلے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے بند جامعہ مسجد کھلوائی اور اس کی صفائی میں خود حصہ لیا۔ اسی طرح خانقاہوں و زیارتوں کے لیے زمینیں دی گئی سادات کو ذیلدار کی عدالت میں پیشی سے استثناء دیا۔ ریاست میں مسلمانوں کے علماء کو وظائف ملے۔ 1856ء میں اس کی بیماری کی وجہ سے اس کی زندگی میں ہی اس کا بیٹا مہاراجہ رنبیر سنگھ گدی پر بیٹھا اور 1857ء میں مہاراجہ گلاب سنگھ کا انتقال ہوا۔
عہد رنبیر سنگھ: 1856ء تا 1885ء

مہاراجہ رنبیر سنگھ ایک پڑھا لکھا بے نظیر حکمران تھا لیکن اپنے باپ مہاراجہ گلاب سنگھ کی نسبت اس میں عزم و قوت ارادی کی کمی اور مذہبی طور پر متعصب تھا اس کے دور میں تمام مسلم آبادی کو ہندومت میں واپس لانے کا منصوبہ پیش ہوا لیکن کشمیری پنڈتوں کے احتجاج پر یہ منصوبہ مر گیا۔ 20 فروری 1856ء کو بادشاہ بننے والے مہاراجہ رنبیر سنگھ کو ورثے میں بہت زیادہ منظم نظام حکومت، معاشی طور خوشحال ریاست نہیں ملی تھی چونکہ مہاراجہ گلاب سنگھ کو نئی تشکیل کردہ ریاست کی عنان سنبھالنے کے بعد اتنا زیادہ وقت نہیں مل سکا تھا کے وہ سکھوں و افغانوں کے سخت طرز حکومت، غلط کاریوں، غلط انتظامی فیصلوں کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی برباد کرنے والے نظام کو مکمل طور پر بدلتا چونکہ ماضی کے تمام ادوار میں نظام سرکار بنیادی ڈھانچے سے محروم تھا اور شخصی راج نافذ تھا سرکاری افسر بدعنوانی میں ملوث تھے مہاراجہ گلاب سنگھ کی سخت گیر پالیسیوں، قانون کے سختی سے نفاذ، بر وقت سستے انصاف کے باوجود بہت سارے انتظامی افسران بدعنوانی میں ملوث تھے۔ مہاراجہ زنبیر سنگھ نے ریاست کی بھاگ دوڑ سنھبالنے کے بعد سکھوں اور افغانوں کے دور سے چلے آنے والے فرسودہ انتظامی و معاشی نظام کو بدلنے، ریاست کے باشندوں کی حالت زار بہتر کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ تمام درآمدات و برآمدات پر محصولات، فصلوں کی خراب صورتحال انتظامی امور میں بدعنوانی کی وجہ سے انصاف ایک تجارتی سامان بن چکا تھا۔
رنبیر سنگھ نے ریاست کی انتظامی مشنری میں تبدیلی کر کے اسے مختلف شعبہ جات میں بانٹا تاکہ ریاستی باشندوں کو بہتر نظام حکومت میسر ہو وہ ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ دن میں دو بار دربار لگاتا تھا ہر شخص کو اس تک رسائی حاصل تھی منشی تمام شکایات پڑھ کر دربار اور مہاراجہ کو سناتا تھا اس نے لوگوں کے لیے انصاف سستا، فوری اور معیاری بنایا ہر اپیل پر باریک بینی سے غور ہوتا، گواہوں پر جرح ہوتی کسی بھی شک کی صورت میں دوبارہ سرکاری اہلکاروں سے تفتیش، تحقیق کروائی جاتی۔ اس نے عدالتی نظام اعلی افسران کے حوالے کر کے خود کو ہر پل لوگوں کے لیے دستیاب بنایا۔ اس نے اٹھائیس سال حکومت کی گو کے ریاستی حکام پر اس کی گرفت بہت زیادہ مضبوط نہ تھی لیکن اس کے باوجود اس نے ریاست میں تاریخ ساز اصلاحات کیں جن کی تفصیل درجہ ذیل ہے۔
فتوحات۔
اس کے دور میں ہمالیائی علاقے گلگت، استور، ہنزہ اور نگر دوبارہ فتح ہوئے اور جموں و کشمیر کا حصہ بنے جنھیں پہلے گلاب سنگھ کے دور میں ریاست میں شامل کیا گیا لیکن بعدازاں یہ دوبارہ ریاست سے بغاوت کے ذریعے نکل گئے تھے۔
محکمہ جات کا قیام و بہتری۔
بیرون ریاست سے پڑھے لکھے قابل لوگوں کو ریاست میں بلا کر انتظامیہ، مال، حساب فہمی، آمدنی و خرچ، تجارت و تصفیہ کے شعبہ جات میں بہتری لائی۔ پولیس، ڈاک کے محکمے قائم کئے۔ ہسپتال، سٹرکیں، مسافر خانے بنائے، رسد رسانی، بار برداری کا نظام درست کیا۔ سرکاری افسران کو ہر شعبے کے لیے دستور العمل جاری کیے۔ اس کے علاوہ معتدد نوآبادیاں قائم کیں، باغات لگائے، مدارس بنائے، صنعت و حرفت میں ترقی کی، کارخانے بنائے۔ کشمیر اور کوہالہ کے درمیان گاڑیوں کے پختہ سڑک کی تعمیر شروع کی جو اس کی موت کے بعد اگلے دور حکومت میں مکمل ہوئی۔
عدالتوں کا قیام۔
اس نے باقاعدہ عدالتیں قائم کیں ان کی رہنمائی کے لیے فوجداری اور دیوانی قوانین مرتب کیے، فوجداری زنبیر ڈنڈ بدھی ( رنبیر پینل کوڈ ) جزوی ترمیم کہ ساتھ آج بھی رائج ہے جبکہ مجموعہ ضابطہ دیوانی جو مختصر تھا متروک ہو چکا جبکہ قوانین کورٹ فیس، اسٹامپ، رجسٹری بزوری ترمیم کے ساتھ ابھی تک رائج ہیں۔
جیل خانوں کا قیام۔
اس کے عہد میں فوجداری و دیوانی قیدیوں کے لئے جا بجا جیل خانے تعمیر کیے گئے، قیدیوں کے لیے باقاعدہ خوارک و پوشاک کا بندوبست ہوا، سیاسی قیدیوں اور فتنہ پروروں کے لئے الگ قید کا بندوبست ہوا جبکہ عمر قید والوں کے لیے سرحدی علاقوں میں تعزیری آبادیاں قائم کی گئیں۔
تعلیم و صحت۔
چرچ مشنری سوسائٹی عہد رنبیر سنگھ میں قائم ہوئی جس نے عوامی صحت اور تعلیم کو فروغ دینے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ انہی بنیادوں سے آگے ایک سلسلہ چلا اور پھر اس کے بیٹے مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد میں باقاعدہ مغربی طرز کے سکول سسٹم کی بنیاد رکھی گئی۔
برقی تار کا نظام و ترقی۔
پہلی بار کشمیر سے جموں سے سیالکوٹ، کشمیر سے گلگت، استور، اسکردو تک برقی تار کا نظام قائم کیا۔ انگریزی حروف ابجد کے بجائے فارسی ابجد کی علامات اختراع کر کے اردو، فارسی نظام کا برقی تار رائج کیا۔ افواج کی تنظیم نو۔ ریاستی افواج کو یورپین افواج کی طرز پر منظم کیا۔ فوج کو چار بیڑوں میں تقسیم کر کے ایک جنرل کے ماتحت کر دیا جن میں ایک بیڑا کشمیر، ایک گلگت و لداخ جبکہ دو بیڑے جموں میں تعینات کیے ہر دو سال بعد ان کو تبدیل کیا جاتا تھا۔
زبان و ادب۔
زنبیر سنگھ کلاسیکل فارسی کا بڑا عالم تھا اسے سویڈش اور انگریزی پر بھی عبور تھا۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور میں دارلترجمہ کے نام سے دفتر قائم کیا جس میں عربی، لاطینی کا فارسی اور ڈوگری میں کیا۔ سنسکرت زبان و ادب کی ترویج کے لیے کوششیں کی گئیں۔
انگریزوں نے ریاستی امور میں مداخلت کی بے تحاشا کوشش کی اور 1873ء میں گورنر جنرل ہندوستان نے ریاست میں ایک ریزیڈنٹ افسر تعینات کرنے کی تجویز دی لیکن مہاراجہ نے انہیں ریاست میں اپنا ریزیڈنٹ آفسر تعینات نہیں کرنے دیا اور انہیں باور کروایا کے معاہدہ امرتسر میں ایسی کوئی بھی شق موجود نہیں کے انگریز ریاست میں اپنا ریزیڈنٹ افسر تعینات کریں ناکامی کے بعد انگریزوں نے مہاراجہ اور ریاستی مشینری کو بدنام کرنا شروع کر دیا۔مہاراجہ کے دربار میں خصوصی خدمت کے لیے تعینات انگریز افسر میجر ہینڈرسن نے برطانوی جھنڈا یونین جیک اپنی رہائش گاہ پر لگا رکھا تھا جس پر مہاراجہ نے بااعتماد وزیر بابو نیلمبر مکھرجی کے ذریعے اسے پیغام بھیجا کہ اس ریاست میں برطانوی جھنڈا لہرانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے دور میں تعمیر و ترقی کا باقاعدہ آغاز ہوا جسے اس کی اولاد نے عروج پر پہنچایا۔ 12 ستمبر 1885ء کو اٹھائیس سال حکومت کرنے کرنے کے بعد اس کی موت واقع ہوئی اور اس کا بیٹا مہاراجہ پرتاب سنگھ ریاست کا حکمران بنا جس نے ریاست میں نہ صرف بے شمار اصلاحات کیں بلکہ ریاست کو ترقی کی طرف گامزن کر دیا۔
عہد پرتاب سنگھ:1885 ء تا 1925ء

جموں و کشمیر کی ریاست میں اپنے باپ و دادا کی نسبت مہاراجہ پرتاب سنگھ کا دور اصلاحات کے اعتبار سے انتہائی شاندار رہا لیکن اسی عہد میں انگریزوں سے کشمکش شروع ہوئی انگریزوں نے الزام لگایا کے وہ روس سے رشتے بنا رہا ہے اور بالاخر اپنا ریزیڈنٹ تعینات کروانے میں کامیاب ہو گئے ان کو ریاست میں اختیار مل گیا مہاراجہ کے تمام اختیارات پانچ رکنی ریاستی کونسل کو منتقل کر دئیے گئے جو انگریز ریزیڈنٹ کے زیر اثر کام کرتی تھی جس کے بعد ریاست کی حیثیت حیدرآباد و گوالیار کے برابر آ گئی۔
وسطی ایشیا میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر کے باعث انگریزوں نے پامیر، چترال، ہنزہ و دیگر سرحدی ریاستوں میں دلچسپی لینا شروع کی پھر مزید کنٹرول کے لیے 1889ء سے 1895ء تک انگریز افسروں کی کمان میں فوجی مہم جوئی کر کے چترال کو براہ راست اپنی تحویل میں لے لیا لیکن علامتی طور پر یہ ریاست کا ہی حصہ رہا اسی ساری مہم کے دوران انگریزوں کو گلگت و بلتستان کی جغرافیائی اہمیت کا احساس ہوا اس مہم نے گلگت و بلتستان کو دنیا کے نقشے پر اجاگر کیا۔ انگریز نے اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں اپنا ایجنٹ تعینات کیا لیکن انتظامی امور ریاستی حکومت کے پاس ہی رہے۔ 1905ء میں برطانوی دارالعلوم میں حزب اختلاف کے کچھ ارکان کی طرف سے یہ معاملہ اٹھائے جانے پر مہاراجہ کو اختیارات واپس کیے گئے۔ مہاراجہ پرتاب پرتاب سنگھ کے عہد حکومت کی اہم اصلاحات پر ایک نظر۔
نظام تعلیم۔
مسلم آبادی کی تعلیم کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے نیز لڑکے و لڑکیوں کے نئے سکول کھولے گئے اور پرائمری تک تعلیم مفت کی گئی۔ بجٹ میں گرانٹ دے کر اساتذہ کو لاہور میں تربیت دی گئی۔ 1905ء میں ایس پی کالج سرینگر، 1907ء میں پرنس آف ویلز کالج جموں، 1913ء میں امر سنگھ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ سرینگر اور 1924ء میں شری پرتاب ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ جموں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ریاست میں تعلیم کے پھیلاو کے لیے کام کیا گیا اس سلسلے میں 1916ء میں ایک رپورٹ بھی مرتب کی گئی۔ 1938ء میں ایس پی کالج سرینگر میں 1187 طالب علم تھے اور دوسرے بڑے کالج کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ اس کی ایفیلیشن ہوئی۔ جموں میں ہائی سکول اور آرٹس کالج کے ساتھ عالیشان بورڈنگ ہاوس بھی بنایا گیا جس میں ہندوستانی طلباء مستفید ہوئے۔
متعدد مقامات پر ہائی سکول کھولے گئے ہر بڑے گاوں میں پرائمری سکول قائم ہوئے 1911ء سے 1921ء تک لڑکیوں کے تین ہائی سکول کھولے گئے اس سے پہلے لڑکیوں کے الگ سکول نہ تھے۔جموں اور کشمیر میں شری پرتاب سنگھ کے نام سے کتب خانے کھلے، ریڈنگ روم اور کلب جاری ہوئے۔ اسی طرح ریاست کے سرحدی علاقوں گلگت و بلتستان اور لداخ میں سکول کھولے گئے۔ 1925ء میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کی موت تک ریاست میں 706 سکولز تھے جن میں 44,601 طالبعلم زیر تعلیم تھے جبکہ تعلیمی بجٹ 10 لاکھ 75 ہزار تھا۔ اسی طرح 1898ء میں شری پرتاب سنگھ میوزیم سرینگر کا کا قیام عمل میں لایا گیا۔
نظام صحت۔
سرینگر اور جموں میں جدید ہسپتال تعمیر کیے گئے ماہر ڈاکٹروں کی زیر نگرانی مختلف قصبوں اور اہم گاوں میں ڈسپنسریاں کھولی گئیں لوگوں کو صحت کی معیاری سہولیات حاصل ہوئیں۔ سفری شفاخانوں کا بھی وقتی ضروریات کے لیے انتظام کیا گیا۔ 1894ء میں سمال پاکس سے بچاو کے لیے ویکسین متعارف کروائی گئی جس سے کشمیر وادی میں ہزاروں انسانی جانوں کو بچایا گیا۔
نظام انصاف۔
عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کر کے انہیں مالی، فوجداری اور دیوانی عدالتوں میں تقسیم کیا گیا۔ سرکاری افسران کے اختیارات کا تعین ہوا۔ قریب قریب ہر ایک تحصیل میں جس کا صدر مقام کسی بڑے قصبے میں واقع تھا ایک منصف اور ہر ضلع میں سب جج تعینات کیا گیا انہیں ہندوستان کہ برخلاف فوجداری اختیارات تفویض کیے گئے، عاملانہ و عدالتی کام کی علیحدگی کے متنازعہ سوال کو عملی صورت دینے کا آغاز کر دیا گیا عدالتوں میں فرقہ وکلا کا رواج ہوا صرف سرحدی عدالتوں کو مستثنٰی کیا گیا۔
محکمہ مال۔
مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور میں سب سے بڑی اصلاح ریاست میں بندوبست اراضی ہوئی پھر لوگوں کو ملکیت ملنا شروع ہوئی۔ محکمہ مال کو جدت دے کر پنجاب کے برابر کیا گیا۔ حسابات کے دفتر دیوانی کی جگہ اکاؤننٹ جنرل کا دفتر قائم ہوا جس سے تمام پیچیدگیاں دور ہوئیں اور حساب کا کام صاف ہوا۔ افسران مال کے لیے بندوبست کا کام سیکھنا اور بعد میں قانونی امتحان پاس کرنا لازمی کر دیا گیا جس سے پرانی وضع کے افسر رفتہ رفتہ خارج ہو گئے، تعلیم یافتہ و واقف کار افسران کے اختیارات اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہو گیا۔ تمام محکموں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا اور انہیں ممبران کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ ہر ایک شعبے کے لئے قوانین و قاعد مرتب کیے گئے اور کونسل کے ممبران نے ہر ایک اہم امر کے لیے دستور العمل جاری کیے گئے اور ہر ایک کام کو قوانین، قواعد اور دستور العمل کا پابند کیا۔ ملازمین کی بددیانتی اور خیانت میں خاصی اصلاح ہوئی۔
بلدیاتی نظام۔
جموں، سرینگر، سوپور اور بارہمولہ میں میونسپلٹیوں کو قائم کر کے مقامی خود مختاری کا آغاز کیا گیا. جس سے مقامی حالات کو بہتر بنانے کی بہتری کی۔ دیہی علاقوں میں سرکل کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
کسٹم کا نظام۔
بذریعہ ٹھیکیداران چونگی کی وصولی کا نظام ختم کر کے کسٹم کا محکمہ قائم کیا گیا جس سے سرکاری آمدنی میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ نظام بہتر ہوا اور آسانیاں پیدا ہوئیں۔
مواصلات کا نظام۔
سنہ 1889ء میں پہاڑی علاقے میں دنیا کی سب لمبی سڑک کوہالہ تا بارہمولہ تعمیر کی گئی پھر 1897ء تک اسے سرینگر تک توسیع دی گئی اور 1922ء میں سرینگر کو جموں سے ملانے کے لیے بنہال روڈ بنائی گئی جس سے ریاست کے دو دارالحکومتوں کے درمیان آمدورفت کے لیے بیرون ریاست تانگہ و ریل کے دور دراز سفر کی محتاجی ختم ہوئی۔ سرینگر سے گلگت، گلگت سے ہنزہ، بونجی سے چیلاس اور لیہ تک فوجی آمدورفت کے لیے سڑکیں تعمیر ہوئیں دریاوں نالوں پر پلوں کی تعمیر ہوئی پھر مال تجارت انسانوں اور جانوروں کے بجائے چھکڑوں پر لد کر آنے جانے لگا۔ مظفرآباد سے ایبٹ آباد کے ساتھ پختہ سڑک کا سلسلہ ملایا گیا۔ دریائے توی پر پل تعمیر کیا گیا۔
ریلوے کا نظام۔
کشمیر وادی کو ریل سے منسلک کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں جس میں کامیابی نہ ہوئی لیکن 1890ء میں جموں کو پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے ملا دیا گیا۔
محکمہ جنگلات کا قیام۔
1891ء میں ریاست کے جنگلات کی حفاظت کے لیے محکمہ قائم کیا گیا پھر اس کو انگریز کنزر ویٹروں کے عملی اصولوں پر کھڑا کر کے اس میں دیرہ دون فارسٹ کالج کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ملازمت دی گئی جس کے نتیجے میں آج بھی جنگلات سر سبز ہیں۔ اس کے قیام سے پہلے ہی سال تقریبا اڑھائی لاکھ روپے منافع ہوا جو1921ء تا 1922ء بیس لاکھ اور 1929 تا 1930ء تک پچاس لاکھ روپے تک جا پہنچا۔ 1919ء میں سرینگر کی ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محکمہ جنگلات نے فکسڈ ریٹ پر لکڑی مہیا کرنا شروع کی۔
صنعتوں کا قیام۔
اس کے علاوہ، زراعت، سری کلچر، ہارٹیکلچر اور باغبانی کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی اس سے ریاستی صنعتوں نے زیادہ ترقی کی. سرینگر میں دنیا کی سب سے بڑی سلک فیکٹری لگائی گئی۔ معیار کو بہتر بنانے کے لیے فرانس، اٹلی سے کوکون بیچ منگوائے جاتے تھے۔
زرعی اصلاحات۔
1897ء میں زرعی اصلاحات کی گئیں اور کاشتکاروں کے حقوق کا تعین کیا گیا، دس سال کے لیے ریاست کی طلب وضح کی گئی اور جبری مزدوری یا بیگار کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 1912ء تک عملی طور پر ہر تحصیل و ضلع کی حد بندی ہوئی۔ ریاست کا حصہ مجموعی پیداوار کا 30 فی صد پر مقرر کیا گیا، آمدنی کو نقد رقم میں جمع کیا گیا۔ زمینوں کے حل نے کسانوں کی بہت ساری ضرورت پوری کی اور وہ خوشحال ہو گئے۔ ریاستی آمدنی میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا کاشت کاری کے سائنسی طریقوں کے بارے میں علم کے پھیلانے کے لئے سرینگر میں ایک ماڈل زرعی فارم قائم کیا گیا محکمہ زراعت کی تشکیل ہوئی کوآپریٹیو سوسائٹیوں کو متعارف کروایا گیا اور کسانوں کی بہتری کے لیے دوسرے اقدامات کئے گئے تھے۔ 1929ء تک صرف ریاست میں کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹیوں کی تعداد گیارہ سو جبکہ رکنیت 27,500 تک پہنچی۔
فوجی اصلاحات۔
فوج کے سائز میں تبدیلی کر کے بڑی فوج کی جگہ جدید فوج فوج کی بنیاد رکھی جس کو جدید ہتھیاروں سے آراستہ کر کے انہیں قواعد پریڈ سکھانے، جنگی قوانین کا عادی بنانے کے لیے انگریز افسر تعینات کیے۔ ریاست بھر میں فوج کی باربرداری اور رسدرسانی کا انتظام مزید بہتر کیا۔
کرنسی کی تبدیلی۔
ہندوستان کے تجارت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ریاست کا ہری سنگھی سکہ ترک کر کے سرکار انگلشیہ ہند کا سکہ اپنایا گیا۔
ٹیکسوں کا خاتمہ۔
مسلمانوں کی شادیوں پر اور دیگر بہت سارے ٹیکس ہٹا دئیے گئے اسی طرح شال کی صنعت پر سرکاری اجارہ داری ختم کی گئی۔ بیگار میں کمی کی گئی۔
سرکاری زبان کا اجراء۔
1889ء میں فارسی زبان کو بدل کر اردو کو ریاست میں سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا۔

پینے کے پانی کا انتظام۔
جموں شہر میں دریائے توی سے پانی کو پمپ کے ذریعے اوپر پہنچا کر پینے کے پانی کا بندوبست کیا گیا جبکہ سرینگر میں واٹر ورکس کے ذریعے پینے کے پانی کا بندوبست کیا گیا، دونوں شہروں میں پینے کے پانی پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
سیاحت کا فروغ۔
پرتاب سنگھ نے سیاحت کے فروغ کے گلمرگ اور پہلگام کے ہالیڈے ری سورٹ بنائے ہندوستان سے آنے والے سیاحوں کے آرام کے لیے تمام سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔
جنگلی حیات کا تحفظ۔
حفاظت شکار کا محکمہ قائم کر کے جنگلی جانوروں کی نسل کے تحفظ دیا گیا، شکار کرنے کو ایک معینہ معیاد پر بذریعہ لائسنس محدود کر دیا گیا۔ یورپ سے ٹراؤٹ مچھلی لا کر کشمیر کے سرد نالوں میں ڈالی گئی اور اس کے شکار کے ضوابط بنائے گئے۔
برقی تار میں وسعت۔
ریاست کے مختلف حصوں کو ریاستی برقی تار کے ذریعے مربوط کیا گیا اکنور، جموں، سرینگر، گلگت، کرگل، سکردو، لداخ کو ایک دوسرے سے ملایا گیا۔
پن بجلی اور نہری نظام۔
محکمہ پبلک ورکس کو کارآمد بنا کر محکمہ آبپاشی کو پبلک ورکس کی شاخ بنایا گیا۔ کشمیر میں سلطان بڈ شاہ کی تعمیر کردہ نہر لولاب کی مرمت کر کے رقبہ آبپاشی میں اضافہ کیا گیا علاقہ زنیہ کے خشک رقبے کو بانڈی پورہ سے بڑی نہر کاٹ کر سیراب کیا گیا پھر اسلام آباد کی طرف سے دریائے پہلگام سے ایک اور نہر تعمیر کر کے علاقے کو سیراب کیا گیا۔ جموں میں چناب اکنور کے پاس سے دریائے چناب سے نہر کاٹ کر جموں اور رنبیر پورہ کی تحصیلیوں میں پہنچائی گئی پھر اس کو وسعت دے کر سیالکوٹ تک پانی پہنچایا گیا۔ 1904ء میں سیلاب کا رخ موڑنے کے ایک بڑی نہر دریائے جہلم پر تعمیر کی گئی۔ اس کے بعد جموں اور کشمیر کے دونوں صوبوں میں چھوٹی نہروں اور کئی آبپاشی کے منصوبوں کی تعمیر کی گئی تھی۔ ان میں سب سے اہم 1911ء میں پنتیس لاکھ چھتیس ہزار سات سو چودہ روپے کی لاگت سے جموں میں مکمل ہونے والی دو سو اکیاون میل لمبی رنبیر نہر تھی۔ اس بجلی کی پیداوار کے لیے ٹربائین نصب کی گئی اور پھر جموں شہر کو روشن کیا گیا۔ اس کے علاوہ جموں کے نچلے علاقوں کے رہائشیوں کی تکلیف دور کرنے کے لیے دو سو پچاس ٹینک تعمیر کیے گئے تاکہ اس خشک علاقے کے لوگوں کی مشکلات کم کی جائے سکیں۔1907ء میں انگریز اور امریکن کی مدد سے بہت بڑا بجلی گھر مہورہ میں تعمیر کیا گیا جس کے لیے دریائے جہلم سے نہر کاٹ کر لائی گئی اور سرینگر و گلمرگ تک اس کے ذریعے برقی قوت پہنچائی گئی بہت سارے کارخانے چلائے گئے یہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا بجلی گھر تھا۔
پانی کا معاہدہ۔
تین نہری منصوبے کے تحت منگلا ہیڈورکس اور نہر اپر جہلم کی تعمیر 1905ء سے 1912ء کے دوران ہوئی اور تین نہروں کی تعمیر کا منصوبہ 1917ء میں مکمل ہوا تھا۔ 1905ء میں شروع ہوئے اس منصوبے پر تاج برطانیہ کے ساتھ ریاستی حکومت کے اس معاہدے کی شرائط ملاحظہ فرمائیں جو مختلف جگہوں پر درج ہے اور پھر آر پار منقسم ریاست کی 1947ء سے آج تک قائم کاسہ لیس ریاستی حکومتوں کے ساتھ تقابلی جائزہ بھی لیں۔
1۔ نہر اپر جہلم سے متاثرہ زمین کیلئے سالانہ اتنا ہی معاوضہ حکومت پنجاب ادا کرے گی جتنا اس زمین کے استعمال سے ہونے والی سالانہ آمدنی ہو گی جو تقریبا سترہ لاکھ تھی۔
2۔ نہر کے لئے ریاست جموں و کشمیر زمین بلا معاوضہ دے گی تاہم وہ زمین ریاستی ملکیت ہی رہے گی نہر کی تعمیر سے متاثر ہونے والی املاک و عمارات یا کنوؤں کا معاوضہ حکومت پنجاب ادا کرے گی۔
3۔ ریاست کی آبادی کو نہر کا پانی روزمرہ ضروریات، آبپاشی و پن چکیوں کے لئے بلا معاوضہ استعمال کرنے کی مکمل اجازت ہو گی۔ نہر میں بصورت سیلاب نقصان، متاثر ہونے والی فصلوں یا املاک کا معاوضہ حکومت پنجاب ادا کرے گی۔
4۔ نہر کے آرپار ریاستی آبادی اور ان کے مال مویشیوں کی آمد و رفت کے لئے پلوں کی تعمیر حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہو گی۔ ریاستی حدود میں نہر کی دوران تعمیر ایسی اشیا ضرورت جو بیرون ریاست سے درآمد ہوں گی ان پر مقررہ ادائیگی (ڈیوٹی) ہو گی۔
5۔ نہر کے نقشے میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ اس کے راستے میں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ متاثر نہ ہو۔ نہر کی تعمیر کے دوران حکومت پنجاب ضرورت کے مطابق رہائشی یا تجارتی عمارات تعمیر کر سکتی ہے تاہم اس زمین کا معاوضہ ادا کرنا ہو گا۔
6۔ ریاستی حدود میں نہر کے دوران تعمیر کام کرنے والے غیر ریاستی افراد پر بھی ریاستی قانون ہی لاگو ہو گا اور ان کو بھی ممنوعہ اشیا درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور درآمدہ اشیا پر کسٹم ڈیوٹی عائد ہو گی۔
مہاراجہ پرتاب سنگھ کا عہد حکومت بلحاظ فتوحات سرحدی بھی بہت کامیاب و ممتاز رہا اس کے عہد میں سرحدوں کو وسعت و استحکام ملا انتظام میں بہتری ہوئی۔ ریاست بالحاظ انتظام صوبہ پنجاب کے ہم پلہ ہوئی۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنے شفیق رویے اور متاثر کن یادداشت کی وجہ سے ریاست بھر میں بہت مشہور تھا اس کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی اور اس کی موت کے بعد اس کے بھائی امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ ریاست کا راجہ بنا پڑھے لکھے مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کی ترقی کو چار لگائے اور تاریخ ساز اصلاحات کیں۔
عہد ہری سنگھ: 1925ء تا 1949ء

1925ء میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کی موت کے بعد اس کے یورپی تعلیم یافتہ بھتیجے راجہ ہری سنگھ نے ریاست کا تخت سنھبالا۔ پیچیدہ سیاسی واقعات، سازشوں اور وسیع تبدیلیوں سے بھرا یہ دور ریاستی تاریخ کا بہترین اصلاحاتی دور کہا جا سکتا ہے۔ پہلے بادشاہوں کی نسبت اس نے بے شمار مشکل فیصلے، تاریخ ساز اقدامات کیے اسے ریاست کا سب سے روشن خیال حکمران کہا جا سکتا ہے جس نے اقتدار سنبھالتے وقت پہلا بیان جاری کیا کہ میرا مذہب انصاف ہے۔ اس دور میں بے شمار اہل مسلمان عدالت، انتظامیہ اور فوج میں تعینات ہوئے اور فوج سکھوں، گورگھوں، پٹھانوں، میرپور اور پونچھ سے ہندو و مسلم راجپوتوں کا مرکب تھی۔ بہت سارے مسلمانوں سے اس کی ذاتی دوستی تھی افغان نژاد عبدالرحمن آفندی کا نام اس کے قریبی دوستوں میں لیا جاتا تھا۔اس کا سیکرٹری عبدالقیوم، اے ڈی سی نور محمد بلوچ، خانساماں، ویٹر مسلمان تھے اور شاہی کچن میں حلال گوشت پکتا تھا تاکہ مسلمان بھی کھانا کھا سکیں اسی طرح وہ پہلا حکمران تھا جس نے مسجد کا دورہ کیا اور پوری نماز کے دوران احترام میں کھڑا رہا بعدازاں امام مسجد کو پانچ سو نقدی اور پشمینہ انعام دے کر آیا۔ مسلم آبادی کے ساتھ احسن سلوک کے باعث اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہوا کہ وہ اسلام قبول کرنے والا ہے اس نے ریاست کو ترقی دینے کے کئی منصوبے پایا تکمیل پہنچائے گئے۔ کشمیر وادی نے اس دور میں بہت زیادہ ترقی کی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاستی اصلاحات پر ایک نظر۔
قانون باشندہ ریاست۔
شہریت کا منفرد قانون وہ کارنامہ ہے جس نے مہاراجہ ہری سنگھ کو تاریخ میں امر کر دیا اسی وجہ سے تقسیم و غلامی کے بعد بھی ریاست کی انفرادیت قائم رہی۔ 26 اپریل 1927ء کو نافذ ہونے والے اس قانون نے نہ صرف ریاستی باشندوں کے حقوق محفوظ کیے بلکہ انہیں الگ پہچان دی۔ 27 جون 1932ء کو اس میں مزید ترمیم کی گئی سٹیٹ سبجیکٹ قوانین کے تحت کوئی بھی باشندہ جو مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور سے ریاست میں مقیم تھا وہ ریاست کا شہری شمار ہوا اور ریاستی باشندوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے غیر ریاستی باشندوں کی ریاست میں جائیداد خریدنے، شہریت لینے، سرکاری وظیفے لینے اور سرکاری ملازمت پر روک لگی۔ ریاست کے لوگوں کو ریاستی شہریت دی گئی، ریاست سے باہر بھی جانے کی صورت بھی دو نسلوں تک ان کی ریاستی شہریت کو برقرار رکھا گیا۔ اس قانون نے باشندگان جموں و کشمیر کو خصوصی حقوق دیئے ان کی اپنی زمین پر ملکیت مستحکم ہوئی اور تعلیم، ملازمتوں کے حقوق محفوظ ہوئے۔ یہ ایک مکمل امیگریشن قانون بھی تھا۔ اس قانون نے تہتر سال تک ریاست کو پاکستان و ہندوستان کا مال غنیمت نہیں بننے دیا اسی ریاست کے باشندگان کی ریاست دشمنی کے باعث پہلے 1974ء میں گلگت و بلتستان میں پاکستان نے اسے معطل کیا اور بالاخر 5 اگست 2019 ء کو ہندوستان اس پر سرعام ہاتھ صاف کر گیا۔
انتظامی اصلاحات۔
ہری سنگھ نے انتظامیہ کو زیادہ غیر مذہبی اور فرقہ واریت سے پاک بنایا۔ سنہ 1924ء میں سلک فیکڑی ورکرز کی ہڑتال ریاست میں سیاسی و معاشی عدم اطمینان کو بدلنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ لوگوں میں سیاسی شعور جاگا مہاراجہ نے سب سے پہلی توجہ انتظامی اصلاحات کی طرف دی۔ پیشہ ور افراد اور تربیت یافتہ افسران اور منتظمین کی کمی کے باعث ریاستی میں پہلے ہی بہت ساری اصلاحات زنبیر سنگھ کے وقت سے ہی رکی ہوئیں تھیں۔ پرتاب سنگھ کے وقت یہ مسئلہ مزید گمبھیرتا اختیار کر گیا جب اردو، انگریزی کو سرکاری و عدالتی زبان بنایا گیا۔ انگریزی کو سول انتظامیہ کے لیے لازمی قرار دیا گیا چونکہ ریاستی ملازمین کی بڑی تعداد باہر سے تھی۔ بیرون ریاست سے یہاں ملازمت پر احتجاج کے باعث ہی باشندہ ریاست کا قانون لاگو ہوا۔مسلمان تعلیم فارسی کے باعث مغربی تعلیم سے آشنا نہ تھے اور رفتہ رفتہ باقی ریاستی طبقات سے پیچھے رہ گئے تھے۔
1929ء میں مسلم طبقے نے ریاست میں ان کا کوٹہ رکھنے کا مطالبہ کیا جس پر نوٹس لے کر مسلمانوں کے تحفظات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن نے تمام طبقات کے لیے یکساں خدمات، اظہار رائے کی ازادی و پلیٹ فارم، ضبط شدہ مذہبی مقامات کی واپسی، نمائندہ اسمبلی کے قیام، منصفانہ و مناسب نمائندگی کے لیے سفارشات کیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے رضاکارانہ طور پر ان سفارشات کو قبول کر کے 9 جولائی1931ء کو اعلان کیا کہ تمام امور میں عوامی مفاد کو مدنظر رکھا جائے گا اور انتظامیہ کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ پولیس میں بجائے کسی ایک طبقے کہ تمام طبقات کو یکساں نمائندگی دی جائے گی۔ ریاستی ملازمتوں کے نئے قوانین کے مطابق تیار کیا گیا۔ 1931ء میں احتجاج کے ایک سرکردہ لیڈر مولوی عبدالرحیم کو 1934ء میں جج بنا دیا۔سول سروس میں میں کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کو بڑھایا گیا اور اپریل 1932ء میں کل آٹھ ہزار چھ سو تراسی میں سے تین ہزار باون مسلمان تھے جن میں سے پچپن گزیٹیڈ افسر تھے۔ اپریل 1945ء میں سول سروس کی کل تعداد 13790 کا چالیس فیصد یعنی 5070 مسلمان تھے جس میں ایک 150 گزیٹیڈ افسر تھے۔
سیاسی اصلاحات۔
اگرچہ مسلمان مہاراجہ کی انتظامی اصلاحات سے کافی حد تک مطمئن ہو چکے تھے پر سیاسی نظام سے لا تعلق تھے۔ 1846ء تا 1889ء کے ابتدائی دنوں تک ریاستی حکومت مہاراجہ کے ذاتی معاونین اور وزیر اعظم کی سربراہی میں مشیر چلاتے تھے۔ 1889ء میں مہاراجہ پرتاب سنگھ نے اپنے اختیارات انگریز سے رسہ کشی کے باعث ریاست کی کونسل کو منتقل کیے۔ کونسل کے ہر رکن کو محکمہ جات کا چارج ملا۔ یہ سلسلہ 1905ء تا 1922ء کے مختصر وقفے کے سوا 1934ء تک چلتا رہا۔
مسلمانوں نے اکتوبر 1932ء میں شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی۔1934ء میں مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلی قانون ساز اسمبلی پرجا سبھا قائم کی۔ یہ 75 اراکین پر مشتمل تھی جس میں 16 سرکاری اہلکار، 16 سٹیٹ کونسلر، 14 نامزد اور 33 منتخب نمائندے تھے۔ 33 منتخب نمائندوں میں 21 مسلم، 10 ہندو اور 2 سکھ تھے۔ مسلم کانفرنس نے پرجا سبھا کے پہلے انتخابات میں 21 میں سے 14 سیٹیں جیتیں جبکہ 1936 میں یہ تعداد 19 تک جا پہنچی اور ریاست کی بڑی سیاسی جماعت کہلائی۔ 1939ء میں شیخ محمد عبداللہ نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی جسے بہت زیادہ پذیرائی ملی۔اس نے مطالبہ کیا کہ پراجھا سبھا کو زیادہ اختیار دیئے جائیں اور ایک مشترکہ انتخابی بالغ رائے دہی کے ذریعے تمام اراکین کا انتخاب کیا جائے جس میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں موجود ہوں۔ 1939ء میں عوامی مطالبے کے احترام میں پر جا سبھا کی نشستوں کی تعداد 33 سے 40 کر دی گئی اختیار میں اضافہ ہوا غیر سرکاری اراکین حکومت کے ساتھ کام کرنے کے کیے زیادہ منسلک ہوئے۔ پرجا سبھا کو ریاستی باشندوں کی بہبود، ٹیکسوں، جرمانے، فیس کے بارے میں قانون سازی اور حکومتی بجٹ پر ووٹ کرنے کا اختیار دیا گیا اکتوبر 1944ء میں اس کو مزید با اختیار بنایا گیا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے اعلان کیا کہ پرجا سبھا جموں، کشمیر اور سرحدی علاقہ جات سے 6 رکنی پینل بنائے جس میں سے تین مسلمان ہوں اور وہ اس پینل میں سے اپنے دو اراکین کو وزیروں بنائے گا جس میں سے ایک مسلمان ہو گا۔ اسی بنیاد پر افضل بیگ اور گنگا رام کو بعد میں وزارتیں ملیں۔
تعلیمی اصلاحات۔
مہاراجہ ہری سنگھ جنوبی ایشیا کا بہترین تعلیمی اصلاحات کار تھا۔ اس نے ابتدائی و ثانوی تعلیم کو پوری ریاست میں مفت کیا۔ 1930ء میں تمام قصبوں میں لڑکوں کے لیے ابتدائی تعلیم لازمی قرار دی جسے اس دور میں جبری سکول کہا گیا۔ وظائف بورڈ قائم کیا جس سے مستحق طلباء کو اعلی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے ہندوستان و بیرون دنیا حصول تعلیم کے لیے وظائف دئیے گئے، تعلیمی قرضے کی اسکیمیں متعارف کروائیں گئیں۔ (یاد رہے تقسیم کے اہم کردار سردار ابراہیم خان نے بھی ریاستی حکومت کے وظیفے و تعلیمی قرضے سے مستفید ہو کر بار ایٹ لاء کی برطانیہ سے تعلیم حاصل کی)۔ ریاست میں طلباء کی بڑھتی تعداد کو مدنظر رکھ کر نئے سکول، کالج، ادارے بنائے گئے۔ اس کے عہد میں پرائمری سکولوں کی تعداد 706 سے 20728 تک جا پہنچی۔ بکر وال طبقے کے لئے گشتی تعلیم کو رواج دیا۔ 1943ء تک جہالت کے خلاف مہم کے تحت تعلیم بالغاں کے چار ہزار مراکز میں 55000 لوگوں کو پڑھایا گیا جن میں 28000 کو سرٹیفکیٹ دئیے گئے ان میں 1457 خواتین بھی شامل تھیں۔ خواتین کے الگ سکولوں کی تعداد 335 تک جا پہنچی جن میں 21067 طالبات نے تعلیم حاصل کی۔ کالجز کی تعداد 2 سے بڑھا کر 11 کر دی گئی۔ پرائمری تعلیم لازمی کر دی جنہیں جبری سکول کہا گیا۔
صحت عامہ اصلاحات۔
صحت عامہ کی طرف خصوصی توجہ دی گئی جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال سرینگر میں قائم ہوا ریاست کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ برصغیر کا پہلا ٹی بی سینٹر یہاں قائم کیا گیا۔ اس کے شہروں میں مزید ہسپتال و ڈسپنسریاں قائم ہوئیں اور لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات حاصل ہوئیں۔
جوڈیشل اصلاحات۔
عدالت عالیہ کا قیام 26 مارچ 1928ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نمبر 1 پر عمل میں آیا اور لالہ کنور سین کو چیف جسٹس جبکہ لالہ بودھا راج اور خانصاحب آغا سید حسین کو جج تعینات کیا گیا، ریاست کی مسلم آبادی کے لئے شریعی قوانین اور قاضی مقرر کئے۔
سماجی اصلاحات۔
مہاراجہ کا شمار اہنے دور کے عظیم انسانوں میں ہوتا تھا جس نے سماجی مسائل جیسا کہ تشدد، خواتین کے اغوا، بچوں کی شادی، اچھوتوں کی طرف توجہ دی۔ عورتوں کے بھاگنے کو روکنے کے لئے مہاراجہ نے 1926ء اور 1929ء میں دو کمیٹیاں قائم کی جنھوں نے لوگوں کو تعلیم دینے اور جرم کے مجرم کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی، کمیٹی کی دونوں سفارشات کو قبول کیا۔ اس نے لڑکیوں کی شادی کے لیے فنڈ قائم کیا۔ اس نے بچوں کے تمباکو نوشی پر پابندی لگائی۔ اس نے 14 اور 18 سال سے کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی پر پابندی لگائی خلاف ورزی کی صورت میں ایک سال قید اور ہزار روپے جرمانہ رکھا۔ وہ جنوبی ایشیا کا پہلا حکمران تھا جس نے سماجی اصلاحات پر قانون سازی کی۔ عورتوں، بچوں کے اغوا قابل سزا جرم قرار دیا۔ کم عمر لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور جسم فروشی کروانا ممنوع قرار دے کر سزا مقرر کی گئی۔ مہاراجہ نے 1931ء میں اچھوتوں کے لیے قانون سازی کی ان کے لیے تمام سکول، کالج اور کنویں کھول دیئے اور ایک سال بعد سارے مندر کھولے گئے اور 1940ء میں اچھوت سمجھنا جرم قرار دیا گیا۔ اس نے ہندو بیواؤں کی شادیوں پر پابندی ختم کر کے برصغیر میں روایت قائم کی۔ پانی کے ذخائر سرکاری ملکیت قرار دئیے گئے تاکہ کوئی کسی کا پانی نہ روکے اسی طرح انسان اور جانور کے گزرنے کا راستہ سرکار کی ملکیت قرار دیا گیا تاکہ کوئی کسی کا راستہ نہ بند کر سکے۔ عوامی مقامات پر تمباکو نوشی پر پابندی لگائی گئی۔ مسلم تہواروں میں شرکت کی اور ان کے مذہبی ایام پر ریاست میں عام تعطیل کی۔
مواصلاتی اصلاحات۔
مہاراجہ نے ریاست کے سارے اہم شہروں، قصبوں کو ٹیلی گراف، ٹیلیفون اور وائرلیس کے جدید نظام سے منسلک کیا۔ ریاست کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے پل، سڑکیں، سرنگیں، ہائیڈرو پاور سٹیشن تعمیر کروائے اور سیلاب کنٹرول کا محکمہ بنایا۔
دیہی ترقی اصلاحات۔
مہاراجہ نے گاؤں کی پنچایت کو مضبوط کیا جو وہاں دیہی زندگی کے جھگڑوں کو نمٹاتے تھے اور 1937ء میں محکمہ دیہی ترقی قائم کیا گیا۔ پنچایتوں کو دیہی ترقی کے منصوبوں کے ساتھ منسلک کیا گیا۔
معاشی اصلاحات۔
صنعت و تجارت کی ترقی پر توجہ دی گئی بہت سارے ٹیکس ختم کیے گیے۔ ریاستی حکومت نے مقامی مصنوعات خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ مہاراجہ ریاست کو صنعتی ریاست بنانے کے لیے پر عزم تھا۔ ماچس، ٹینٹس، قالین، لکڑی کے کام، کرافٹ، سلک، گھریلو مصنوعات، خوراک کے چھوٹے یونٹ اس کے دور میں قائم کیے گئے۔ مہاراجہ نے 1938ء میں جموں و کشمیر بنک قائم کیا اس کی شاخیں، سرینگر، جموں اور دوسرے شہروں میں کھولی گئیں۔ ان اقدامات نے کاروبار و صنعت کو فروغ دیا اور زندگی بہتر ہوئی۔ ریاستی حکومت نے جموں میں ایک چھوٹی ریشم فیکٹری قائم کی جس کا پیداواری یونٹ سرینگر میں لگایا، اس کو اس کے اصل حجم سے چار گنا تک بڑھایا گیا بڑی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم ملا۔ 1941ء میں کشمیر اور پھر جموں میں صنعتی مراکز نے ریاستی مصنوعات کو پروموٹ کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے اناج، گندم، چاول کی قیمتوں کے کنٹرول پر خصوصی توجہ دی۔ تیل اور چینی جیسی بنیادی ضروریات بھی مہیا کی گئیں۔ ایک خصوصی محکمہ بنایا گیا جس کے ذمہ قیمتوں کا تعین اور مساوی تقسیم تھی۔ مہاراجہ نے غربت کے خاتمے کے لئے بھی ایک فنڈ قائم کیا۔
سیاحتی اصلاحات۔
سیاحت کی طرف خصوصی توجہ دی گئی چونکہ جموں و کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے جانا جاتا تھا۔ 1931 -32ء میں 8604 سیاحوں نے ریاست میں تفریح کی اور 1936 -37ء میں یہ تعداد 24659 تک جا پہنچی۔ جس سے مقامی باشندوں اور محکمہ سیاحت دونوں کو فائدہ ہوا حکومت نے اسے مزید ترقی دینے کی منصوبہ بندی کی۔ سرینگر، پہلگام، گلمرگ جیسے مقامات کو خوبصورت بنانے کے لیے متعدد سکیمیں شروع کی گئیں۔
زرعی اصلاحات۔
مہاراجہ نے زراعت کے شعبے کو جدید بنانے کے لئے غیر معمولی توجہ دی ہے اس نے زرعی ریلیف ایکٹ بنایا جس سے قرض دینے والے کو حق ملا کہ وہ نادہندہ کو عدالت لے جائے۔ اس قانون نے کاشتکاروں اور دیہی مزدوروں کے لیے آسانی پیدا کی کہ وہ زمینداروں اور آجروں سے پیسہ لے سکیں۔ ایک قانون لایا گیا جس کے تحت زرعی زمین کی غیر زمیندار کو منتقلی پر پابندی لگا دی گئی زمینداروں کو زمینوں کے ملکیتی حقوق دئیے گئے ٹیکسوں، نذرانے اور مالکانہ سے استثنا دیا گیا زرعی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے چیچری ایکٹ نافذ کیا گیا۔ ریاستی حکومت نے قسطوں پر دیہی معیشت، مال مویشی، زرعی اراضی کی بہتری کے لیے قرضہ جات آسان شرائط پر فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ بنا زمین کے دیہی آبادی اور کاشت کاروں کو خالصہ زمین مالکانہ حقوق پر لینے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جانوروں کی بہتری کے لئے سندھی اور دانی نسل کے بیلوں کی بڑی تعداد کاشتکاروں میں تقسیم کی گئی۔ زمین کی تصفیہ کی مدت چالیس سال تک بڑھا دی گئی تھی بیگار کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ زراعی شعبے کی سرگرمیاں جو ابتدائی طور پر کشمیر کے صوبے میں محدود تھیں کو جموں اور دیگر شمالی صوبوں تک بڑھایا گیا ۔مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں سیاسی و علاقائی سرگرمیوں، بدلتے جغرافیائی حالات کے باعث اندرونی خلفشار بھی رہا لیکن وہ مضبوطی سے کھڑا رہا۔ اسی دور میں برصغیر کی تقسیم ہوئی اور دو ممالک ہندوستان و پاکستان کا وجود عمل میں آیا جس کے نتیجے میں انگریز کو رخصت ہونا پڑا۔
اسی دور میں قانون آزادی ہند کی روشنی میں ریاست کو مکمل آزادی نصیب ہوئی جس کو پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے فوری طور پر معاہدہ جاریہ پر دستخط کر کے تسلیم کر لیا لیکن بدقسمتی سے ریاست کے چند اکابرین اور پاکستان کے چند فیصلہ سازوں کی وجہ سے 22 اکتوبر 1947ء کو ریاست پر قبائلی حملہ ہوا جس نے اس ریاست کی تاریخ، تہذیب کو ڈھیر کر دیا۔ ریاستی وجود کو بچانے کی غرض سے ہندوستان سے مدد مانگی گئی اور جوابا الحاق کی شرط پر مدد دینے کے باعث 26 اکتوبر 1947ء مہاراجہ ہری سنگھ نے دفاع، خارجہ، مواصلات کے امور پر مشتمل دستاویز الحاق اور معاہدہ جاریہ دستخط کیا۔ جس پر 27 اکتوبر 1947ء کو ہندوستان ریاست میں داخل ہوا۔ ریاست ہندوستان و پاکستان میں تقسیم ہو گئی۔
تقسیم کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ عملا اقتدار سے الگ رہا اور اس کا بیٹا ڈاکٹر کرن سنگھ بطور پرنس ریجنٹ ریاستی امور کو دیکھتا رہا۔ مہاراجہ ہری معزولی کے بعد بمبئی میں مقیم رہا اور اس کی موت کے بعد اس کی چیتا کی راکھ کو اس کی خواہش کے مطابق جموں و کشمیر کے پہاڑوں پر بہا دیا گیا کاش اگر ریاست کے پہاڑی مسلمان اغیار کے جال میں نہ پھنستے، مذہبی عناد کا شکار نہ ہوتے، ذاتی مفاد کے لئے غدر کا حصہ نہ بنتے تو شاید جموں و کشمیر کی ریاست کبھی تقسیم نہ ہوتی نہ ہی ہندوستان کو ریاست میں داخلے کا موقع یا جواز ملتا۔
عہد: پرنس ریجنٹ کرن سنگھ: 1949ء تا 1952ء

مہاراجہ کرن سنگھ کانگڑھ موجودہ ہماچل پردیش کے جاگیردار راجپوت گھرانے سے تعلق رکھنے والی تارا دیوی اور مہاراجہ ہری سنگھ کی واحد نرنیہ اولاد 9 مارچ 1931ء کو کنیز فرانس میں پیدا ہوا۔ یہ ڈوگرہ راج کا آخری اور نالائق ترین حکمران تھا جس نے اجداد کی تاریخ کو بنا کسی مزاحمت کے اغیار کے حوالے کر کے اپنی نسل کے درخشاں ماضی کو شرما دیا۔ ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت ہا پر 1947ء میں قبائلی حملے کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ تین امور پر مشتمل دستاویز الحاق اور معاہدہ جاریہ پر دستخط کے بعد ہندوستان نے پہلا کام اپنے مہرے شیخ محمد عبداللہ کو اقتدار میں لانے کے لیے سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ کو کچھ عرصہ کے لیے ریاست سے باہر جا کر رہنے پر آمادہ کر کے کیا اور 1949 میں اٹھارہ سال کی عمر میں ولی عہد کرن سنگھ کو ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت ہا کا پرنس ریجنٹ مقرر کیا گیا جس پر وہ 1952ء تک براجمان رہا۔
ہندوستان کی ایما پر شیخ محمد عبداللہ کی کوششوں سے 1952ء میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد وہ ریاست کے صدر اور گورنر کے عہدے پر بھی براجمان رہا۔بالآخر 1967ء میں گورنر کے عہدے سے اس کی مکمل طور پر چھٹی ہوئی البتہ اس کے بعد یہ متعدد بار ہندوستان کا مرکزی وزیر، سفیر اور ایوان بالا کا رکن رہا جو سلسلہ آج تک قائم و دائم ہے۔ بطور حکمران کرن سنگھ ریاست کا سب سے نالائق و بزدل ڈوگرہ حکمران ثابت ہوا جس نے نہرو کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر اپنے اجداد کے خون سے سینچی ہوئی ریاست ہاتھ سے بنا کسی جدوجہد کے جانے دی بالفاظ دیگر وہ بطور حکمران ہری سنگھ کا ناخلف بیٹا ثابت ہوا جس نے اپنے باپ کے بجائے نہرو اور پٹیل کا راستہ چنا جس کا وہ بارہا مختلف اوقات میں اپنے انٹرویوز میں تذکرہ بھی کرتا رہا۔
اگر یہ کہا جائے کے ریاست کے عظیم حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کو جہاں ایک طرف ریاست کے ایک مخصوص طبقے نے مذہبی و لسانی عناد کی بنیاد پر دھوکا دیا تو دوسری طرف ان کی پیٹھ میں خنجر مارنے والوں میں ہندوستان نواز مہارانی تارا دیوی اور ان کا بیٹا ڈاکٹر کرن سنگھ تھے جس نے اپنے باپ کے بجائے اس کے بدترین مخالف پنڈت نہرو کا راستہ چنا۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کے ہندوستان نواز مہارانی تارا دیوی کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے تعلقات منقطع ہو چکے تھے اور مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی زندگی کے آخری سال تنہا ہندوستان کے شہر بمبئی میں گزارے۔
ان تعلقات کے منقطع ہونے کی بڑی وجہ 1947ء میں پیش آنے والے واقعات تھے جن میں جموں کا قتل عام بھی شامل ہے جس میں مہارانی تارا دیوی کا کردار بطور رانی انتہائی مشکوک اور متعصب تھا۔ریاست پر قبائلیوں کے حملے پونچھ مظفرآباد میں ان کے ہاتھوں غیر مسلموں کی قتل و غارت، لوٹ مار، آبروریزی پھر ان کی سرینگر کی جانب پیش قدمی کے بعد جب مہاراجہ ہری سنگھ کو جموں منتقل ہونا پڑا تو مہارانی تارا دیوی جموں شہر میں ننگے سر داخل ہوئی جو اس وقت کی روایات کے مطابق عزت پر حملے کے مترادف تھا، میرپور تا مظفرآباد میں غیر مسلموں کے ناحق قتل عام، ان کی جائیدادوں پر قبضے، ان کے گھر جلانے ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹنے و اغوا کرنے کے واقعات، پھر پنجاب کے علاقوں سیالکوٹ اور گرد و نواح سے مسلمانوں کے ہاتھوں لٹ کر جانے والوں کی یہاں زمینوں پر قابض ہونے کی نیت سے لٹ گئے اور مر گئے کی ہائے فریاد (تاکہ انہیں ہندوستان تک سفر اختیار نہ کرنا پڑے یاد رہے ان علاقوں سے جموں میں اس وقت جا کر بسننے والے لوگ 5 اگست 2019ء تک تمام حقوق سے محروم تھے چونکہ ان کو باشندہ ریاست کا سرٹیفکیٹ نہیں مل سکتا تھا) اور پھر مہارانی کے ننگے سر جموں داخل ہو کر اپنی عزت پر حملے اور اجڑ جانے کے تاثر نے جموں کے ڈوگرہ راجپوت کو کٹنے و مرنے پر ابھارا اور انہوں نے مسلم آبادی کو گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا۔
ریاست میں مذہب کی بنیاد پر بغاوت، پھر اس کی تقسیم اور ہندوستان سے تین امور پر الحاق، اپنی ماں مہارانی تارا دیوی سے زیادہ قربت کی وجہ سے کرن سنگھ کا جھکاو ہندوستان کی طرف ہوا۔
اصلاحات:
ہری سنگھ کے بجائے نہرو کے نقش قدم پر گامزن نہرو کے بھگت ڈاکٹر کرن سنگھ کے دور اقتدار میں ریاست میں کوئی اصلاحات نہ ہوئیں سوائے ان سیاسی واقعات و حالات کے جن سے ریاست دن بدن ہندوستان کی مضبوط گرفت میں جھکڑتی گئی ان کی تفصیل ایک نظر۔
1949ء میں منقسم ریاست کی وزارت اعظمی پر شیخ محمد عبداللہ کے براجمان ہوتے ہی بربادی کی تاریخ رقم ہونا شروع ہوئی مہاراجہ سے بدلہ لینے کے لیے شیخ عبداللہ کی نظر بادشاہت کے خاتمے پر تھی، اسی طرح ریاست میں ڈوگرہ حکمرانی پنڈت نہرو کی آنکھ میں کانٹے کے طور پر چھبتی تھی چونکہ مہاراجہ ہری سنگھ نہ صرف پنڈت نہرو کو ناپسند کرتا تھا بلکہ 1946ء میں اس نے نہرو کو شیخ عبداللہ کی ضمانت کے لیے کشمیر آنے پر ریاست بدر بھی کیا نیز بادشاہ کی موجودگی میں ہندوستان کو ریاست پر گرفت ملنا ناممکن تھا لہذا بادشاہت کا خاتمہ ہندوستان کا خواب تھا۔27 اکتوبر 1950ء کو شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے ریاست کی تقسیم کے بعد نئے آئین کے لیے آئین ساز اسمبلی کے قیام کی تجویز دی۔ کرن سنگھ نے 30 اپریل 1951ء کو تجویز منظور کرتے ہوئے عام انتخابات کا اعلان کیا ریاست میں نئی حلقہ بندیاں کر کے 100 نشستیں رکھی گئی جن میں سے 25 عذاب جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے لیے خالی رہیں جب کے کشمیر وادی کی 43، جموں کی 30 اور لداخ کی 2 نشستیں پر انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں خواتین کو رائے دہی کا حق نہ دے کر باہر رکھا گیا، جموں سے پراجا پاریشد کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی تک مسترد کر دئیے گئے اور آزاد امیدواروں کو دبا دیا گیا اور دھندلی کے ذریعے نیشنل کانفرنس ساری نشستیں جیت گئی۔31 اکتوبر1951ء کو آئین ساز اسمبلی قائم ہوئی شیخ عبداللہ پہلے منتخب وزیراعظم بن گئے نیز ریاستی حکومت کے پاس مرکز کو اختیار دینے کی طاقت بھی ختم ہو گئی۔
12 جون 1952ء کو آئین ساز اسمبلی کی بنیادی پرنسپل کمیٹی نے بادشاہت کے خاتمے کی سفارش کر کے بربادی و غلامی کی طرف قدم بڑھایا۔ جموں میں اس پر ردعمل آیا اور پوری ریاست کو ہندوستان کا حصہ بنانے کی مہم شروع کر دی اس پر ہندوستان نے ریاست سے مرکز اور ریاست کے درمیان تعلقات پر مذاکرات کے لیے ایک وفد بلایا۔24 جولائی 1952ء کو شیخ محمد عبداللہ نے دہلی معاہدہ پر دستخط کر کے بھارت کو ریاست پر مضبوط گرفت دے دی ریاست پر ہندوستان کی شہریت لاگو ہو گئی سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار آ گیا۔ ہند سرکار کو ایمرجنسی لگانے کا اختیار مل گیا۔ آئین ہند کے بنیادی حقوق یہاں نافذ ہو گئے۔ ہندوستانی پرچم اور صدر کے عہدے کو اولیت مل گئی البتہ اس معاہدے میں مہاراجہ کے سٹیٹ سبجیکٹ، ریاستی جھنڈے، صدر ریاست کے عہدے کو تسلیم کیا گیا اس معاہدے کو 35 اے کا نام دے کر آئین ہند کے آرٹیکل 370 کا حصہ بنایا گیا جو ائین ہند کا حصہ تھا اور تین امور دفاع، خارجہ، مواصلات پر دستاویز الحاق کی روشی میں ہندوستان کی مقننہ کو قانون سازی کا اختیار دیتا تھا۔اگست 1952ء میں آئین ساز اسمبلی نے بادشاہت کے خاتمے کی قرارداد پاس کر کے صدر ریاست کا عہدہ لایا۔ ریاستی حکومت کی درخواست پر 15 نومبر 1952ء کو صدر ہند نے بادشاہت ختم کرنے کا حکم جاری کیا گیا آئین ساز اسمبلی نے کرن سنگھ کو صدر ریاست منتخب کر لیا۔
بالآخر 17 نومبر 1952ء کو مذہبی عناد کشمیری قیادت کی نااہلی سے ہندوستان کی خواہش پر ریاست سے اس خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا جس نے نہ صرف ریاست کی بنیاد رکھی بلکہ اس دھرتی پر ایک انصاف، معیار والا نظام قائم کیا۔ یہ بات تو طے ہے کے اگر پرنس ریجنٹ ڈاکٹر کرن سنگھ بادشاہت کے خاتمے کی قرارداد کے بعد اس کو نامنظور کرتا تو ہندوستان اور کاشمیریوں کے لیے اتنا آسان نہ ہوتا بادشاہت ختم کرنا لیکن بقول شاعر۔
دل کے پھپولے جل اٹھے سینے کے داغ سے۔ اس گھر کو آگ لگائی گھر کے چراغ سے۔
یہ جموال بادشاہوں کی سیاسی بصیرت ان کی تشکیل کردہ ریاست میں منفرد قوانین کا ہی کرشمہ تھا کے سات دہائیوں تک اس منقسم و محکوم ریاست نے شناخت برقرار رکھی اور بالآخر اس کے باسیوں کی خواہش ان کی انوکھی آزادی برائے غلامی کے لیے جاری انتھک کوشش سے ہندوستان نے 5 اگست 2019ء کو ریاست کی ہیت ہی بدل دی اس سے پہلے گلگت و بلتستان میں یہی مہربانی ریاستی تقسیم کے ذمہ دار، مسلم کاشمیریوں کے وکیل پاکستان نے فرما کر اس کا جواز مہیا کیا۔ عذاب کشمیر کے پہاڑیوں کی انوکھی عالمگیر تاریک آزادی کی مہم کہ باوجود بدقسمتی سے رفتہ رفتہ ماضی کی یہ عظیم الشان ریاست اپنا نشان مٹنے کی جانب گامزن ہے جس میں بے شک ہری سنگھ کے ناخلف بیٹے نے بھی پہاڑیوں، کشمیریوں، گلگتیوں کی طرح اپنا حصہ ڈالا۔






Related News

.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے

Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More

پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت

Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *