Main Menu

سيد علی گيلانی کا حُريت کانفرنس سے علحيدگی کا اعلان، سوشل ميڈيا پر نئ بحث کُھل گئ

Spread the love


مظفرآباد (ويب مانيٹرنگ) ہندوستانی زير قبضہ رياست جموں کشمير کے صوبہ کشمير ميں قاہم کُل جماعتی حريت کانفرنس کے تاحيات چيئرمين سيد علی شاہ گيلانی نے گزشتہ روز اپنے عہدے سے استعفی دے ديا۔ استعفیٰ کی تفصيلات سوشل ميڈيا پر آنے کے بعد سوشل ميڈيا صارفين کے درميان ايک نئ بحث کا آغاز ہو گيا۔ اکثريت کا کہنا تھا کہ حريت کانفرنس سرے سے “حريت” کے لئے کوئ کام کر ہی نہيں رہی بلکہ يہ تو کشمير ميں پاکستان کی تنخواہ دار جماعتوں کا اتحاد ہے اور پاکستان کی پراکسی وار کے لئے نوجوانوں کو قربانی پہ تيار کرنے اور خواتين کی عصمتيں لُٹوانے کا سٹيج تيار کرنا اس اتحاد کی بنيادی ذمہ داری ہے۔ جبکہ دوسروں نے خيال ظاہر کيا کہ اب چونکہ ہندوستان اپنے زير قبضہ علاقے کو پاکستان کی مفاہمت سے ضم کر چُکا ہے اسليے اب پاکستان سے ايسے سہولتکار عناصر کو زيادہ پيسے اور مدد ملنے کے امکانات تقريباً ختم ہو چُکے ہيں تو تمام سہولتکاروں نے اب پينترے بدلنا شروع کر ديے ہيں۔ کچھ صارفين کا کہنا تھا کہ علی گیلانی ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور ديگر پاکستانی و ہندوستانی سہولتکاروں کے انجام سے تمام ہندوستانی و پاکستانی سہولتکاروں کو عبرت پکڑ کر رياست جموں کشمير کی قومی آزادی کے لئے کھڑا ہونا چاہيے۔
کشمير ميں 1988 سے تاحال ہونيوالی نوجوانوں کی اموات اور خواتين کی عصمت دری بھی موضوعِ بنی دکھائ دی۔ صارفين پاک و ہند کے سہولتکاروں کو اس کشت و خون بربريت، رياستی تقسيم و غلامی کے ذمہ دار قرار ديتے ہوۓ نظر آۓ۔ اس ساری بحث ميں اکثريت اس بات سے متفق نظر آئ کہ رياست کی تقسيم در تقسيمی ہندوستان اور پاکستان کی باہمی مفاہمت ہے اور اس کے لئے دونوں قابض ممالک سہولتکاروں کو استعمال کرتے رہے اور تاحال اُنکا استعمال جاری ہے۔ يہ تواتر سے پڑھنے کو ملتا رہا کہ حريت کانفرنس نے کوئ آزادی کی تحريک اوّل روز سے شروع ہی نہيں کہ بلکہ يہ تکميل پاکستان کی تحريک اور پاکستانی پراکسی وار کے لئے نوجوانوں کو قربان اور خواتين کی عزتيں نيلام کرتے رہے۔ صارفين کا يہ تجزيہ بھی ديکھنے کو ملا کہ سہولتکاری اور منافع ہی وہ واحد وجہ تھی جسکی بنا پر رياست کا کوئ دوسرا حصہ اس کاروباری تحريک ميں شامل نہ ہو سکا۔ اگر يہ تکميلِ پاکستان کی بجاۓ قومی آزادی کی تحريک ہوتی تو آج يہ نہ صرف رياست کے باقی حصوں ميں بھی موجود ہوتی بلکہ آج تک دی جانے والی قربانيوں کا کم از کم يہ نتيجہ تو ضرور نکلتا کہ رياستی عوام اپنے مسئلے کے لازماً فريق تو ہوتے۔ صارفين باضد نظر آۓ کہ حريت کانفرنس اور اس ميں شامل جملہ جماعتوں اور افراد کا تعلق کسی آزادی کی تحريک سے نہيں بلکہ يہ تمام لوگ پاکستان کے تنخواہ دار اور کچھ افراد پاکستان اور ہندوستان دونوں کے تنخواہ دار ہيں جنکا کام محض عوام کو ورغلانا اور کشميريوں کو قابضين کے مفادات کے لئے قربان کرنا رہا۔ صارفين اپنی دليل ميں يہ کہتے ہوۓ نظر آۓ کہ آج تک کی ہونيوالی قربانيوں کا نتیجہ کيا نکلتا جب سہولتکاروں نے ايک قابض کی بندوق سے دوسرے قابض کے خلاف تحريک بندوق دينے والے کے مفادات کے لئے شروع کی اور مال بناتے رہے۔ يہی وجہ ہے کہ رياستی عوام بے پناہ قربانيوں کے باوجود بھی اپنے ہی مسئلے کے فريق تک نہيں۔ صارفين پاکستان ميں حريت کانفرنس کے دفاتر اور رہنماؤں کی لمبے عرصے سے جاری سرگرمیوں پر بھی بحث کرتے نظر آۓ۔






Related News

.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے

Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More

پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت

Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *