Main Menu

مذہبی منافرت کا کاروبار۔۔اسلام اور رياست جموں کشمير تحرير: رضوان اشرف

Spread the love


تاريخ يہ بات ثابت کرتی ہے کہ ہندوستان کی تقسيم صديوں سے اکٹھے رہنے والے لوگوں کے درميان مذہبی منافرت پھيلا کر تقسيم در تقسيمی کی انگريزوں کی سازش تھی۔ ہندوستان اور پاکستان دو قومی نظريے يعنی مذہب کے نام پہ ہی بنے اور اسی مذہب کے نام پہ اُس وقت کے سرمايہ داروں، نوابوں اور وڈيروں نے انگريزوں کی ايماء پر عوام الناس ميں نہ صرف مذہبی منافرت پيدا کی بلکہ اسکا باقاعدہ کاروبار بھی کيا۔اپنے اپنے عہدکے علما ء حق جيسے مولانا محمد علی جوہر مولانا ابوالکلام آزاد و ديگر کے مؤقف اور محنتوں کو پسِ دیوار کرنا کسی کی عنادی چاہت يا جہالت ہی ہو سکتی ہے مگر حقيقت نہيں۔ اسلامی ہند کی باتيں کرنے والے خلجيوں اور غزنويوں کی حکمرانيوں کو اور مغل بادشاہوں کی شہنشاہت کو خلافت کہنے اور سمجھنے والے نبی آخرالزماں صلم کے دين سے ہی دُور نہيں بلکہ تاريخ سے بھی نابلد اور صريحاً بے راہ روی کا شکار ہيں۔ انہيں محمدِ عربی صلم پہ مکمل کيا جانے والا اسلام دوبارہ ديکھنا چاہيے اور اُسے اپنے فرقے يا تعصبی گروہ کی تعليمات سے باہر نکل کر ديکھنا چاہيے شايد خلافت کے معاملات اور نصاب کہيں نظر آ ہی جاہيں۔ مذہب کے نام پر تاريخی تناظر اور حقائق کو تروڑ مروڑ کر شہنشاہوں اور لُٹيروں کو خليفہ بتايا جانا آج کی اصطلاح ميں “پاکستانی فوجی اسلام” کی دين ہے۔اسلامی تاريخ سے نابلد اور بنا سمجھے محض ہِل ہِل کے قرآن پڑھنے والے حضرات يا کسی مخصوص فرقے گروہ کے افراد دينِ ابراہيمی کے مبلغ کس طرح ہو سکتے ہيں اور عوام مذکورہ کرداروں کو اسلامی کيونکر جانے گی اور نہ ہی ايسے کردار دينِ محمدی سے روشناس ہو کر اس پہ کسی طور عمل يا کسی کو تبليغ کر سکتے ہيں۔ ايسے لوگ تو محض گماشتہ سرمايہ دار رياستوں کے حکم کو اسلام سمجھ کر کبھی امريکی جنگ کو جہاد اور کشمير ميں ہونے والے کاروبار کو غزوہ کہتے نہيں تھکتے۔ يہ کردار اس بات سے جہالت کی وجہ سے غافل رہتے ہيں کہ محمدِ صلم کے اسلام پہ کاربند رہنے اور رياست کے حکم کو مذہب نہ ماننے کی وجہ سے کبھی حسين رض جيسی قربانياں اور کبھی ابو حنيفہ جيسی قیديں کاٹنا پڑتی ہيں۔ رياست جموں کشمير کی اگر بات کی جاۓ تو ڈوگروں نے کشمير کو اپنی جاگير نہيں بنايا بلکہ ايسٹ انڈيا کمپنی اور لاہور دربار کے درميان تاوانِ جنگ کی عدم اداہيگی کی صلاحيت کے باعث انگریزوں کو پٹے پہ ديا جانا والا علاقہ اداہيگی کے زريعے ڈوگروں نے اپنی رياست ميں شامل کيا۔ مغل حکمرانوں اور باقی شہنشاہوں کی طرح کا مہاراجہ گلاب يا ہری سنگھ خليفہ مان ليا جاۓ؟ اسلامی ہند کا وجود کب تھا؟ ہندوستان ميں خلافت راہج کب رہی؟؟ مسلمانوں يا ہندوؤں کے اکثريتی علاقوں کو مذہب کے نام پہ پاک و ہند سے جوڑنا ماؤنٹ بيٹن کا ذاتی معاملہ نہيں بلکہ مسلم ليگ کی تجويز و بحث پہ ہوا کہ رياستوں کے راجاؤں کو فيصلے کا اختيار ديا جاۓ۔ کيا دوست قانونِ تقسيم ہند کا مطالعہ کر چکے ہيں؟ يہ قانون ہندوستان کی اُس وقت کی دونوں بڑی جماعتوں کانگريس اور مسلم ليگ کی مشاورت سے بنايا گیا۔ ڈوگرہ حکمران بھی بادشاہ تھے اُن کو جمہوری چہرہ ميں ديکھنے والے لوگ اگر بادشاہوں کی تاريخ نہيں دیکھ سکتے تو آج اپنے وزاراء اور جنريلوں کو ہی ديکھ ليں شايد کچھ سمجھ آ سکے۔ عوام ميں مذہبی منافرت پھيلانے کے لئے جناح صاحب اور نہرو نے بارہ سال کا عرصہ لگايا اور بآخر بارہ سال بعد دو قومی نظريے پہ دو ممالک کی بنیاد رکھی گئ۔ سوال يہ ہے کہ ہندوستان ميں خلافت کا دور تھا کب؟ ہندوستان ميں تو اسلام بھی چلتے پھرتے صوفيوں کی وجہ سے آيا۔ اور مسلمان حملہ آوروں نے آ کر بادشاہتيں قاہم کيں جسکا ايک لمبا سلسلہ ہے۔ ہندوستان ميں خلافت کا ذکر کرنے والے تاريخ سے نابلد دوستوں کو صرف يہ تحقيق کرنا ہی کافی ہو گا کہ اُن کے آباء و اجداد نے اسلام کون سے سن ميں کون سی پيڑی ميں آ کرقبول کيا اور اُس سے پہلے انکا مذہب کونسا تھا پھر شايد مطالعہ پاکستان کی بھول بھليوں اور پاکستانی فوجی اسلام کی کچھ وضاحت ہو سکے۔
رياست جموں کشمير کے مسہلے کو قومی مسہلے کہ بجاۓ ہميشہ سے پاکستان، ہندوستان اور انکے سہولتکار مذہبی مسہلہ بنا کر پيش کرنے کی کوشش کيا کرتے ہيں جو کہ محض گمراہی اور بدنيتی پہ مشتمل ہے۔ آج قوموں او وطنوں کی دُنيا ميں رہتے ہوۓ پورے اس سيارے پر کسی قوم کے قومی سوال کی مخالفت کيسے کی جاسکتی ہے جبکہ مخالفت کرنے والا شخص خود اپنی قوميت اور وطن سے اس انتہا کی محبت رکھتا ہے کہ اس پہ جان قربان کرنا ايمانی تقاضا گردانتا ہے۔ رياست جموں کشمير بھی ہند ميں برطانوی راج سے آج تک مذہبی منافرت کے کاروبار سے بُری طرح متاثر ہے۔ مذہبی منافرت کو ہوا دے کر رياستی عوام کو تقسيم در تقسيم اور محروم رکھا گيا ہے۔ آج معلومات کی کسی حد تک آزاد منتقلی کی وجہ سے رياستی عوام کسی طور اپنے حق کو جان چکے اور مذہبی منافرت سے نفرت کی بنياد مضبوط ہو چکی جو کہ حقيقی، قدآور اور خوبصورت سماج کی تشکيل کا پيشِ خيمہ ثابت ہو گی۔يہ کُھلا سچ ہے کہ رياست کا کوئ مذہب نہيں ہوتا بلکہ رياست کے اندر بسنے والے انسان مذہب رکھتے ہيں۔ کسی بھی رياست کے ہر شخص کو مذہبی آزادی لازماً حاصل ہونی چاہيے، ہم کُھل کر ہر طرح سے اسکی حمائت کرتے ہيں۔ مگر مذہب کے نام پر لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اور رياست جموں کشمير ميں مذہب کے نام پر کشت و خون و آبرو ريزی کے تاحال جاری کاروبار کے باوجود بھی اگر اسلام آباد ميں مندر کی تعمير کا اعلان ہوتا ہے تو شعور کی جيت کے ساتھ ساتھ ہمارے اُس مؤقف کی بھی جيت ہے جسے ہم 1980 کی دہائ سے چيخ چيخ کر آشکار کر رہے ہيں کہ رياستوں کا کوئ مذہب نہيں ہوتا اور نہ ہی عقاہد کی بنياد پر قوموں کی تشکيل ہوتی ہے۔ جہاد کے نام پر کاروبار اور پھر مذاہب کا معاملہ ہمارے دوسرے مؤقف کی سچائ کا ثبوت ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ يہ عام آدمی کے لئے سوچنے کا مقام بھی ہے کہ مذاہب کے لبادے اوڑھ کر رياست جموں کشمير ميں جو غلامی محرومی و لُوٹ گھسوٹ کا بازار گرم ہے مگر کوئ کان پڑی آواز کسی کو سُنائ نہيں ديتی، آخر کيوں؟ اس سارے کاروبار ميں ہم کہاں کھڑے ہيں؟
انتہائ ضروری ہے کہ حقيقتوں کا ادراک رکھتے ہوۓ اپنی قومی آزادی اور انسانی سماج کے قيام کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کی جاۓ۔ اس سُودی نظام کے جبر کو للکارا جاۓ اور اس خونی نظام کے آلہ کاروں کو سبق سيکھايا جاۓ۔ يہی دينِ ابراہيمی ہے يہی انصاف اور حق کا راستہ ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *