Main Menu

جو قومیں ماضی میں زندہ رہتی ہیں: انیس کاشر

Spread the love

جو قومیں ماضی میں زندہ رہتی ہیں اور خود کو وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر پاتی وقت کی بے رحم موجیں ایسی اقوام کو بے رحمی سے روند ڈالتی ہیں تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کچھ ایسا ہی حال ریاست جموں کشمیر میں بسنے والے لوگوں کا ہے
ہم اگر اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمارے ابا و اجداد نے اغیار کو اپنا مسیحا بنایا ہے ہم زیادہ ماضی میں نہ بھی جھانکیں تو پچھلے بہتر سالوں سے ہم جس غلامی اور سماجی پسماندگی کا شکار ہیں اسے بھی ہم شدت سے محسوس نہیں کر پاے ہیں مان لیتے ہیں قابض قوتوں کا بڑا کڑا جبر ہوتا ہے وہ ہمیں پسماندہ رکھنے کیلیے ہر نوع کے حربے عمل میں لاتے ہیں بیرونی جبر جتنا سخت ہوتا ہے اسکا ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے مگر ہمارے خطے میں غلامی سے نجات کی تڑپ ضرورت سے زیادہ ہی کم رہی ہے
دنیا کے دیگر خطوں اور قوموں کی طرح وقت پر گہری نظر رکھنے والے اور مسقبل کی پیش بینی کرنے والے لوگ اس دھرتی پر بھی پیدا ہوے ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے ہماری قوم پرست اور انقلابی سیاست اس خطے میں کوہی بڑا کردار ادا نہیں کرپاہی ہم اگر پچھلے چالیس سال کا جاہزہ لیں تو ہمارے خطے میں موجود تنظیمیں عوام کی درست رہنماہی کرنے میں ناکام رہی ہیں اکثریتی سیاسی جماعتیں پاکستانی ریاست کے مسلم بیانیے پر مبنی پراکسی وار کی بنیاد پر ہی جدوجہد کرتی رہی ہیں ہم درست نظریاتی بنیادوں پر انقلابی تنظیم تعمیر نہیں کر پاہے
اس کی بنیادی وجہ نظریاتی تربیت کا فقدان ہے ہماری قوم پرست اور انقلابی پارٹیاں ہمارے سماج کا پرتو ہیں ہماری باہیں بازو کی سیاسی جماعتیں سماج کے حاوی رحجان سے ابھی تک چھٹکارا حاصل نہیں کر پاہی ہیں پارٹیوں میں چھوٹی چھوٹی مراعات کیلیے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوشش کرنا گروپنگ لابنگ کرنا ذاتی نمود و نماش کو فروغ دینا اپنی زات کی پروجیکشن انقلابی نظریات سے پہلو تہی کرنا یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نےاس خطے میں انقلابی تنظیم کو پروان نہیں چڑھنے دیا
گلگت بلتستان والوں کو ہمیشہ یہی لگا کہ ہم نے انکے ساتھ بہت ظلم کیا ہے بھارتی مقبوضہ خطے والے پاکستان کی پراکسی لڑتے رہے ہم چار ہزار مربع میل پر بیٹھ کر پوری ریاست جموں کشمیر کو زبانی کلامی فتح کرتے رہے مگر اپنے خطے میں تنظیم تعمیر کرنے میں مکمل ناکام رہے
اب سامراجی قوتیں اس خطے میں اپنے مفادات کیلیے فیصلہ کن لڑاہی لڑنے کیلیے میدان لگانے والی ہیں ایسے میں بھی ہم اپنی روایتی بڑک بازی جاری رکھے ہوہے ہیں ہمارے پاس جو پچھلے تیس چالیس سال تھے وہ ہم اپنی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ضاہع کرچکے ہیں اب ہمارے ساتھ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے ہمیں اس کیلیے تیار رہنے کی ضرورت ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *